سیاستمضامین

کرپشن کے خلاف جنگ کے حالیہ اعلان کے بعد حکومت کا پہلا نشانہ بے نامی جائیدادیں ہوں گیLAND TITLING ACT پر عمل درآمد شروع ہوگا۔مسلمانوں کی بے نامی جائیدادوں پر خطرات منڈلارہے ہیں۔اولین فرصت میں حفاظتی اقدام وقت کی ضرورت ہے۔

٭ کرپشن کے خلاف حکومت کا نشانہ مسلمان ہوں گے۔ ٭ ہبہ میمورنڈم دستاویز تحفظات فراہم کرے گا۔ ٭ خوابِ خرگوش سے جاگنے کی رائے۔ ٭ اگر بے نامی قانون کی زد میں آجائیں تو جائیدادیں ضبط ہوجائیں گی۔

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

دوستی بھی کیا چیز ہوتی ہے۔ دوستی کے نبھانے کے لئے اور دوست کی عزت پر پردہ ڈالنے کیلئے ایک وفا شعار دوست کسی حد تک بھی جاسکتا ہے۔ وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ کسی بھی بلندی پر پرواز کے لئے تیار رہتا ہے اور کسی بھی گہرائی میں گرنے کے لئے راضی رہتا ہے۔ وہ اس مقصد کے حصول کے لئے کسی بھی اخلاقی حد کو پھلانگ سکتا ہے۔ تو پھر ایسا دوست جو صاحب اقتدار ہو ‘ کیا کچھ نہیں کرسکتا۔ دوست کی عزت اور اپنے اقتدار کو بچائے رکھنے کا صرف ایک ہی طریقہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مخالفین کو جیل میں ڈال دو اور ملک کی آمدنی کو اس حد تک بڑھادو کہ سارے نقصانات کی پابجائی ہوجائے۔ بڑے بڑے سرکاری ادارہ جات اور بینکس کے قرض واپس کردیئے جائیں اور 85کروڑ عوام کو مزید پانچ سالہ مدت کے لئے راشن ۔ شکر ۔ دالیں اور اشیائے تغذیہ مفت فراہم کی جائیں اور ان کے ووٹ کی ضمانت لے لی جائے۔ 85کروڑ بھوکے‘ ننگے‘ بے روزگار‘ بے گھر افراد کو اگر ایسی مراعات حاصل ہوجائیں تو وہ اپنا ووٹ تو کیا اپنا ایمان‘ دھرم ‘ ظرف اور ضمیر تک کا سودا کرلیں۔ نمک حرامی ان 85کروڑ افراد کی سرشت میں نہیں ہے۔ یہ جس کا کھاتے ہیں اسی کا گاتے ہیں۔
تو پھر اپنے اقتدار اور دوست کی دولت کو بچانے کا صرف ایک طریقہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ ہے سرکاری آمدنی میں اضافہ ۔ اب سرکاری آمدنی بڑھانے کے کیا طریقۂ کار ہیں؟
پہلا نشانہ بے نامی جائیدادیں ہوں گی۔ یعنی ایسی جائیدادیں جو کسی نے اپنے پیسوں سے اپنی بیوی‘ ماں ۔ باپ‘ بیٹے‘ بیٹیوں کے نام پر خریدا۔ ایسی جائیدادیں بے نامی جائیدادیں قراردی جائیں گے کیوں کہ بے نامی جائیداد پر قابض یا وہ شخص جس کے نام پر جائیداد ہو‘ اس نے اس کی قیمت ادا نہیں کی بلکہ کسی اور نے ادا کی ہے لہٰذا بے نامی امتناعی قانون2016ء کی روشنی میں ایسی جائیدادیں قابلِ ضبطی ہیں اور جائیداد کے مالکین کو سزائے قید بھی ہوسکتی ہے۔
اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو بے نامی جائیدادیں سونے کی کانوں سے زیادہ قیمتی ہیں کیوں کہ لوگوں نے اپنی ساری دولت صرف رئیل اسٹیٹ میں مصروف کررکھی ہے۔ حکومت نے ایجنٹس کو مقرر کررکھا ہے کہ ایسی جائیدادوں کی نشاندہی کریں اور اس غرض کے لئے انہیں ہر کیس کے حصاب سے معاوضۂ خدمت دیا جائے گا جو لاکھو ںمیں ہوگا۔ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کو لامتناہی ا ختیارات دیئے جاچکے ہیں اور آئے دن رولز میں ترمیم ہورہی ہے۔ آدھار کارڈ ۔ پان کارڈ کو بینک اکاؤنٹ سے منسلک کرنے کا حکم کچھ کم خطرناک نہیں۔ آپ کی ایک ایک حرکت پر نظر ہوگی۔ آپ کوئی بھی معاملت ایسی نہیں کرسکتے جس میں نقد ادائیگی ہو اور اگر آپ نے چیکس یا RTGS کے ذریعہ رقم ادا کی تو انکم ٹیکس نوٹس جاری کرے گا اور دریافت کرے گا کہ اس بھاری رقم کی وصولی کے ذرائع کیا ہیں اور کیا آپ نے اس پر ٹیکس ادا کیا ہے۔ اگر ا ٓپ لاکھوں روپیہ بلکہ کروڑوں روپیوں کی نقد لین دین کررہے ہیں اور اگر فریقین میں اختلافات رونما ہوں تو آپ نہ تو عدالت سے رجوع ہوسکتے ہیں اور نہ ہی پولیس سے ۔ کیوں کہ دوسرے لمحے انکم ٹیکس کو اطلاع مل جائے گی اور ساری رقم ضبط کرلی جائے گی اور بھاری جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔ موجودہ انتظامیہ میں جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ GST نے تجارت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ حکومت کسی بھی قیمت پر دوست کی دولت کو بچانا چاہتی ہے اور اس بات کی یقین دہانی چاہتی ہے کہ 85کروڑ فاقہ کشوں کو اشیائے خوردنی کی فراہمی ہوتی رہے تاکہ ووٹس کا سلسلہ جاری رہے اور اس طرح اقتدار کو نئی زندگی ملتی رہے۔
مسلمانوں کو بے نامی قانون اور Land Titling Act. کی زد سے محفوظ رکھنے کا آسان طریقہ جائیدادوں کی بذریعۂ ہبہ منتقلی ہے۔اگر رجسٹری ہو تو حکومت کو اطلاع مل جائے گی
اس وقت دو خطرناک قوانین مسلمانوں کے سروں پر منڈلارہے ہیں۔ یہ دونوں قوانین مسلمانوں کو بے گھر ۔ بے در اور بے نوا کردیں گے کیوں کہ یہی ہندتوا نظریہ کا پہلا سنہری اصول ہے۔ اگر آپ دیکھیں گے کہ اس قانون کا شکار صرف مسلمان ہوں گے کیوں کہ اترپردیش میں مسلمانوں کے مکانات اور عبادت گاہیں صرف اس لئے توڑی جارہی ہیں اور منہدم کی جارہی ہیں کہ ان مکانوں‘ عمارتوں کی تعمیر میں قانون کی خلاف ورزی کی گئی ۔ یہ مظالم صرف مسلمانوں پر ہی کئے جارہے ہیں۔ تو پھر ایسا کیوں باور نہ کیا جائے بے نامی جائیداد کا قانون اور لینڈ ٹائٹلنگ قانون مسلمانوں کے خلاف استعمال نہیں ہوگا۔ یقینی طور پر مسلمان ہی ان قوانین کا شکار ہوں گے۔
مسلمانوں کی اس نازک اور قاتل مسئلہ سے غفلت و تساہلی کا یہ عالم ہے کہ بارہا سمجھانے کے بعد بھی ان مسائل پر ٹیلی فون پر بات بھی کرنے سے کتراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب کا جب دیکھا جائے گا۔ ریاستِ حیدرآباد کے مسلمان بھی ہندوستانی حملے سے پہلے کہتے تھے کہ ہم بھی دیکھ لیں گے۔ انہوں نے کوئی مناسب اقدامات نہیں کئے تھے۔ لہٰذا تباہی مقدر ہوچکی تھی اور تباہی ہوگئی۔
اگر بے نامی قانون اور لینڈ ٹائٹلنگ ایکٹ مسلمانوں کے خلاف لاگو ہوگیا تو یقین کیجئے سب کچھ برباد ہوجائے گا اور ساری زندگی کی کمائی اور رہنے کا یا سر چھپانے کا سہارا جاتا رہے گا‘ لہٰذا مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے مبادا بربادی مقدر ہوجائے۔
وقت کا تقاضہ۔ جائیداد کی ورثاء میں بذریعہ ہبہ منصفانہ تقسیم ۔ بے نامی قانون کا کوئی اثر نہیں ہوگا
کوئی بھی جائیداد ہو۔ چاہے زرخرید یا آبائی۔ چاہے بے نامی جائیداد جو بیوی ‘ بچوں کے نام پر خریدی گئی ہیں ‘ ان کی دستاویزی ہیئت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو وقت کا تقاضہ بن گیا ہے۔ ایسے قاتل قوانین اور قوانین کی عمل آوری پر کمربستہ زعفرانی ذہنیت کے عہدیدار ہوں تو آپ کا فرض بن جاتا ہے کہ آپ ان کے زہر کو بے اثر کریں اور آپ یقینی طور پر اس زہر کو بے اثر کرسکتے ہیں کیوں کہ آپ کے پاس بھی قانون کا تریاق موجود ہے جس کو مرکزی قانون اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی حمایت حاصل ہے جسے کوئی بھی قانون بے اثر نہیں کرسکتا۔
آج کے دور میں کچھ ہی دن پہلے خریدی ہوئی جائیدادوں کے رجسٹر شدہ دستاویز وبال جان بن رہے ہیں اس سے پہلے کہ رجسٹرار آپ کا دستاویز آپ کے حوالے کرے‘ انکم ٹیکس کو آن لائن ترسیل کردیا جاتا ہے اور پھر نوٹس کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔
ہم اس وقت دو قوانین کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ایک حالیہ قانون جس کا ذکر کیا گیا تھا ‘ آپ کو اس وقت تک آپ کی جائیداد کا حقیقی مالک نہیں تسلیم کرتا جب تک کہ وہ مطمئن نہ ہوجائے اور آپ سے آپ کی جائیداد کی از سر نو رجسٹری کی اسٹامپ ڈیوٹی حاصل کرے۔ اس قانون کی تدوین کا مطلب صرف یہی ہے کہ خانگی جائیدادیں یا تو ہڑپ کرلی جائیں یا ان کی اسٹامپ ڈیوٹی وصول کی جائے جو ہر گھر کے لئے لاکھوں روپیہ ہوگی اور یہ ریوینیو کافی ہوگی اس مقصد کے حصول کیلئے جس میں آئندہ چھ سال 85کروڑ فاقہ کشوں کو اشیائے تغذیہ مفت فراہم کی جائے گی اور اس طرح اس احسان کے بدلے ووٹس حاصل کئے جائیں گے۔
اپنی جائیدادوں کو ان کا موقف چاہے کچھ بھی ہو ‘ فوری طور پر ورثاء میں بذریعہ ہبہ تقسیم کردینا وقت کا تقاضہ بھی ہے اور مستقبل میں رونما ہونے والے خطرات کے خلاف ایک ڈھال بھی ہے ۔ علاوہ ازیں اس بات کی طمانیت بھی مل جائے گی کہ بیٹیوں کے حقوق کا تحفظ بھی ہورہا ہے اور محروم ا لورث متوفی بیٹوں کے یتیم بچے بھی اپنا حق پائیں گے۔
اس مقصد کے حصول کے لئے رجسٹری کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی مشکل کا سامنا کرنا ہوگا۔
مالکِ جائیداد کی وفات کے بعد ورثاء آپس میں جائیداد بانٹ سکتے ہیں۔ اگر آپس میں کوئی اختلاف نہ ہو
اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہو کہ مالکِ جائیداد کا انتقال ہوگیا ہو اور انہوں نے اپنی جائیداد/ جائیدادوں کی تقسیم اپنے ورثاء میں نہیں کی تو اس مشکل صورتحال کو حل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ متروکہ جائیداد کو آپس میں تقسیم کرلیا جائے۔ دستاویز کچھ اس طرز کا بنایا جاسکتا ہے جس میں ہر وارث کے دوسرے ورثاء کا حق ان کے مختص حصہ کی حد تک تسلیم کرے۔ اور ہر دستاویز پر تمام ورثاء کے دستخط ہوں اور ہر ایک کے پاس ایک Original دستاویز رہے۔
دوسرا طریقہ عدالت سے وراثتی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا ہے۔ اس عمل میں کورٹ فیس ادا کرنی ہوگی۔ عدالت کی جانب سے نوٹس کو اخبار میں شائع کیا جائے گا اور اگر کوئی اعتراض پیش نہ ہو تو سرٹیفکیٹ جاری کردیا جائے گا۔ اس عمل میں بھاری اخراجات ہوں گے اورکم از کم 9 ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔
ان ساری پریشانیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ازروئے شریعت اپنی جائیداد کو ورثاء میں تقسیم کردیا جائے تو نہ ہی بے نامی قانون کا ڈر لاحق ہوگا او رنہ ہی انکم ٹیکس یا لینڈ ٹائٹلنگ ایکٹ کا خوف باقی رہے گا ‘ علاوہ ازیں وہ اطمینان و سکون جو حاصل ہوگا اس کی کوئی قیمت مقرر نہیں ہوسکتی۔
اس دستاویز کی بنیاد پر میونسپل کارپوریشن‘ ضلعی بلدیات اور گرام پنچایت میں نام کی تبدیلی ہوجائے گی اور اگر کوئی راشی یا شریر عہدیدار کوئی اعتراض کرے تو ہائیکورٹ کے حکم کے ذریعہ اس کو پابند کیا جاسکتا ہے کہ وہ ہبہ میمورنڈم کی اساس پر نام کو تبدیل کرے۔
لہٰذا مزید وقت برباد کئے بغیر اس عمل کو مکمل کردینا چاہیے کیوں کہ یہ عمل حکومت کے مذموم ارادوں کو شکست دے دیگا۔