مضامین

گجرات میں کیا پھر ایک بار بی جے پی کا میاب ہوجائے گی؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ہندوستان کی اہم اور حساس ریاست گجرات میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا عمل کل سے شروع ہو چکا ہے۔ یکم ڈسمبر کو پہلے مرحلہ کی رائے دہی میں 89اسمبلی نشستوں کے لئے رائے دہندوں نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے۔ 5 ڈسمبر کو دوسرے مرحلہ کی رائے دہی ہو گی ۔ 8 ڈسمبر کو ووٹوں کی گنتی ہوگی اور اسی دن نتائج کا اعلان کر دیا جا ئے گا۔ سارے ملک کی نظریں اس وقت گجرات اسمبلی کے الیکشن پر لگی ہوئی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا بی جے پی اپنے طویل اقتدار کو باقی رکھنے میں کا میاب ہو جائے گی یا پھر اسے اقتدار سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب سے الیکشن کمیشن نے گجرات اسمبلی انتخابات کا شیڈول جا ری کیا، بی جے پی قائدین نے حکومت کے خلاف عوامی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے متنازعہ موضوعات کو چھیڑنا شروع کر دیا۔ ریاست میں مذہبی منافرت کو بڑھاوا دے کر بی جے پی پھر سے انتخابی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ عوامی مسائل کو حل کرنے کا وعدہ کرنے کے بجائے یکساں سول کوڈ جیسا موضوع اپنے انتخابی منشور میں شامل کر تے ہوئے کہا گیا کہ ریاست میں اقتدار ملنے کی صورت میں یکساں سول کوڈ نافذ کر دیا جا ئے گا۔ جب کہ یکساں سول کوڈ کو نا فذ کرنے کا اختیار ریاستی حکومتوں کو نہیں ہے۔ یہ محض ماحول کو بگاڑنے کی ایک سوچی سمجھی سیاسی سازش ہے تا کہ اکثریتی ووٹ جوبی جے پی سے کھسک رہا ہے، اسے پھر سے اپنا ہمنوا بنایا جا سکے۔ گجرات میں اس وقت عوام وہاں کی حکومت سے نالاں ہیں۔ خاص طور پر کووڈ۔ ۱۹ کے دوران حکومت نے جس انداز سے عوام کی پریشانیوں کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ، اس سے عوام میں حکومت کے خلاف کافی غصہ پایا جاتا ہے۔ جہاں تک گجرات کی ترقی کی بات ہے ، یہ بھی محض ڈھکوسلہ ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی اپنی تقریروں میں بار بار گجرات کا حوالہ دیتے ہیں اور گجرات کی ترقی و خوشحالی کے بلند بانگ دعوے کر تے ہیں۔ جب کہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ دیگر ریاستوں کے بالمقابل گجرات زندگی کے مختلف شعبوں میں کافی پیچھے ہے۔ چاہے صحت عامہ کا معاملہ ہو یا تعلیم کا ، یا پھر صنعتوں یا سرکاری ملازمتوں کا، گجرات کو ایک مثالی ریاست کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ وزیر اعظم دعویٰ کر تے ہیں انہوں نے گجرات کی تعمیر کی اور وہ ”گجرات ماڈل“ کو پورے ملک میں نافذ کرنے کی باتیں کر تے ہیں۔ گجرات ماڈل کیا ہے؟ اس کی صحیح تشریح خود بی جے پی کے قائدین نہیں کر سکتے۔ گجرات ماڈل کیا یہی ہے کہ جہاں قاتلوں اور زانیوں کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ جب اسی سال یوم آزادی کے موقع پر ملک کے وزیر اعظم لال قلعہ سے تقریر کر تے ہوئے عورتوں کی آزادی اور ان کے تحفظ کے دعوے کر رہے تھے ، عین اسی وقت گجرات میں ایسے 11قاتلوں اور زانیوں کی جیل سے رہائی ہو رہی تھی جنہوں نے منصوبہ بند انداز میں بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت ریزی کی تھی اور ان کے 9افراد خاندان کا انتہائی بے درددی سے قتل کردیا تھا، جس میں بلقیس بانو کی تین سالہ شیرخوار لڑکی بھی تھی جسے پتھر پر پٹخ پٹخ کر مار ڈالا گیا تھا۔ اس قسم کی درندگی شاید جنگل کے جانوروں میں نہیں دیکھی جاتی۔ اس نوعیت کی شیطانی حرکت کرنے والے قاتلوں اور زانیوں کو عدالت نے پورے ثبوت اور شہادتوں کی بنیاد پر عمر قید کی سزادی تھی، لیکن وائے افسوس کہ بی جے پی کی ریاستی اور مرکزی حکومت نے ایسے ظالموں کو نہ صرف رہا کردیا بلکہ ان کی جیل سے رہائی کے بعد گلپوشی کی جا تی ہے اور لوگوں کو مٹھائیاں بھی کھلائی جا تی ہیں۔ یہ گجرات ماڈل ہے۔
ملک کا گودی میڈیا بھی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر تے ہوئے یہ باور کرارہا ہے کہ پھر ایک بار بی جے پی کامیاب ہوجائے گی۔ جب کہ کئی علاقوں میں کانگریس کو بھی عوامی تائید مل رہی ہے۔ خاص طور پر راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کا اثر گجرات اسمبلی الیکشن پر بھی پڑسکتا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے امیدوار بھی میدان میں ہیں۔ اروند کجریوال کس کے لیے فائدہ مند ہوں گے اور کس کو نقصان پہنچائیں گے اس کا پتہ تو نتائج کے نکلنے کے بعد ہی ہوگا۔ لیکن ان کی پیشرفت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دہلی میں اپنی طاقت کو بڑھانے کے بعد پنجاب میں ان کی پارٹی کی کامیابی سے ان کے حوصلے کافی بلند ہیں۔ گجرات میں بی جے پی کافی لمبے عرصہ سے اقتدار میں ہے۔ گجرات میں پہلی مرتبہ بی جے پی نے جنتا پارٹی کے ساتھ مل کر 1985 میں مخلوط حکومت بنائی تھی ۔ گجرات میں بی جے پی کے عروج کا آغاز 1995کے الیکشن کے بعد سے ہوگیا ، جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اس الیکشن میں بی جے پی نے اسمبلی کی 182نشستوں میں سے 121نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے اپنی ایک نئی تاریخ بنائی تھی۔ 1998 کے اسمبلی الیکشن میں دوبارہ اسے حکومت بنانے کا موقع ملا، اگرچیکہ نشستوں کی تعداد کم ہوگئی۔ گجرات کا 2002کاالیکشن اس لحاظ سے یادگار بن گیا کہ اس الیکشن میں پارٹی کی کا میابی کے بعد نریندرمودی گجرات کے چیف منسٹر بن گئے۔ اسی الیکشن کے دوران مودی نے حسّاس موضوعات کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا۔ انہوں نے گجراتی عزت نفس کا نعرہ لگا کر سماج کو تقسیم کرنے کی پوری کو شش کی ۔ ان کا یہ دور ایک خونین دور رہا۔گودھرا کے ٹرین واقعہ کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ ظلم و ستم کی ایسی تاریخ لکھی گئی کہ اسے دنیا فراموش نہیں کر سکتی، زندہ انسانوں کو آگ میں ڈال کر جلا دیا گیا، مسلمانوں کے مکانات اور ان کی بستیاں خاکستر کر دی گئیں۔ شہروں سے لے کر دیہاتوں تک یہ ننگا ناچ ہوتا رہا ، لیکن حکومت خاموش تماشائی بن کر یہ سب دیکھتی رہی۔ ریاست کے چیف منسٹر ، جو اس وقت ملک کے وزیر اعظم ہیں، نے یہ کہا تھا کہ گجرات کے واقعات گودھرا سانحہ کا فطری رد عمل ہے۔ پوری ریاست میں مارچ 2002کے دوران حیوانیت رقص کرتی رہی اور حکومت کے سربراہ بانسر ی بجاتے رہے۔ شقاوت اور بے رحمی کے ایسے گھناو¿نے منظر سامنے آ تے رہے کہ انسانیت کانپ اٹھی۔ انتہا یہ کہ سماج کی بااثر شخصیتوں کو بھی موت کے گھاٹ اتاردیا گیا ۔ کانگریس کے سابق ایم پی مدد کے لیے پکارتے رہے لیکن کوئی مدد کے لیے نہیں آیا ، انہیں اور ان کی کالونی کے افراد کو زندہ جلادیا گیا۔ ان کی بیوی ذکیہ جعفری آج بھی انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں، لیکن 20سال گزر جانے کے باوجود انصاف کے کوئی آثار نہیں ہیں ۔ اس لیے کہ وہی قاتل، وہی شاہد، وہی منصف ٹہرے۔ اقرباءمیرے کریں خون کا دعویٰ کس پر والی بات ہے۔ حکومت کی مجرمانہ غفلت بلکہ اس کی پشت پناہی کی وجہ سے دوہزار سے زائد مسلمانوں کی گجرات میں نسل کشی ہوئی اور آج بھی گجرات کا مسلمان خوف اور دہشت کے ماحول میں جی رہا ہے۔ وہاں اسمبلی الیکشن کا ایک مر حلہ پورا ہوچکا ہے۔ لیکن اس بات کے کوئی امکانات نہیں ہیں کہ گجرات کے مسلمان بے خوف ہو کر اپنے ووٹ کا استعمال کر سکیں گے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ گجرات میں مسلمانوں کاجینا کیوں تنگ کر دیا گیا ۔یہ دراصل مسلمانوں کی معیشت کو تباہ کرنے کا ایک حربہ ہے۔ دیگر ریاستوں کے مقابلے میں گجرات کے مسلمان تجارت میں آگے ہیں۔ ان کو معا شی میدان میں کمزور کرنے کی نیت سے ان کی زندگیوں سے کھیلا گیا۔ اس وقت مسلمان اپنی شناخت کو ظاہر کرنے سے بھی خوف کھا رہے ہیں ۔ ان کو دوسرے درجہ کا شہری بناکر رکھ دینے کی پوری کوشش بی جے پی گز شتہ کئی برسوں سے گجرات میں کر رہی ہے۔
حالات کی یہ سنگینی اس بات کا واضح ثبوت دیتی ہے کہ گجرات کا جاریہ الیکشن غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ۔ بی جے پی وہ سارے داو¿ چل رہی ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے اقتدار کو باقی رکھنے میں کا میاب ہو سکے۔ گجرات الیکشن میں بی جے پی کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی کی سیاسی طاقت میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ جس ترقی کا نعرہ لگا کر بی جے پی عوام کو گمراہ کر رہی ہے، اس کے اس غلط پروپگنڈا سے رائے دہندوں کو واقف کرانا دیگر سیاسی پارٹیوں کی ذ مہ داری ہے۔ نفرت اور عناد کا جو ماحول بی جے پی نے پورے ملک میں پیدا کردیا ہے اسے بے نقاب کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس سے بی جے پی سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ قتل و غارت گری کا جو خوفناک کھیل اس وقت فسطائی طاقتوں کی جانب سے کھیلا جا رہا ہے، اس کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ملک کی سیکولر پارٹیاں متحد ہوکر بی جے پی کو گجرات میں شکست دینے کا عزم کرلیں۔ سیکولر پارٹیوں کے درمیان ہی اگر سر پھٹول شروع ہوجائے تو یہ ممکن نہیں کہ وہ بی جے پی کو ناکامی سے دوچار کر سکیں۔ عام آدمی پارٹی ، اپنے آپ کو سیکولر ظاہر کرتی ہے۔ اس کی کیا مجبوری ہے کہ وہ کانگریس سے گجرات میں انتخابی مفاہمت کر کے الیکشن میں حصہ لینا نہیں چاہتی ۔2002کے گجرات فسادات کے بعد سے مسلسل دیکھا جا رہا ہے کہ بی جے پی فرقہ پرستی کے ایجنڈے کو ہاتھ میں لے کر آ گے بڑھ رہی ہے ۔ اسے جس ریاست میں بھی حکومت بنانے کا موقع ملا، وہاں اس نے کوئی ترقیاتی کام نہیں کئے۔ ہر جگہ فتنہ و فساد کا ماحول پیدا کر دیا۔ کرناٹک اس کی مثال ہے۔ ہر روز وہاں کی بی جے پی حکومت کوئی نہ کوئی متنازعہ قانون لاکر ماحول کو بگاڑنا چاہتی ہے۔ دو دن پہلے وہاں بھی اعلان کر دیا گیا کہ کرناٹک میں یکساں سول کوڈ لانے کی کوشش کی جائے گی۔ سماج کو اتنا پراگندہ کر دیا گیا کہ ایک نامی گرامی یونیورسٹی کا پروفیسر ایک مسلم طالب علم کو ایک مبینہ دہشت گرد سے جوڑ دیتا ہے ۔ اس سے بڑھ کر اخلاقی پستی کی انتہا کیا ہوسکتی ہے۔ افسوس کہ ریاستی وزیر اس کی تائید میں بیان دیتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فسطائی ذہنیت رکھنے والے ملک کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں ۔ملک کی بیس تا پچیس کروڑ آبادی کے ساتھ یہ بغض عدوات کا رویہ ملک کو کہاں لے جائے گا اس کی کوئی فکر بی جے پی قائدین کو نہیں ہے۔ ایک طرف "وشو گرو”بننے کا خواب دیکھا جا رہا ہے اور دوسری طرف ملک کی ایک بڑی آبادی کو حاشیہ پر لادینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ بیس سال پہلے فرقہ وارانہ جارحیت کا جو لاوا گجرات میں پھٹا تھا، اسی کے زہریلے پھل آج پورے ملک میں دیکھے جا رہے ہیں۔ ماب لینچنگ کے واقعات ہوں یا پھر لو جہاد کا ہوّا کھڑا کرنا ہو یا پھر حجاب کا مسئلہ ہو یاسی اے اے ، این آر سی کی بات ہو یہ سب 2002کی گجرات میں ہوئی مسلم نسل کشی کے سلسلے کی کڑی ہیں۔ اب یکساں سول اور گیان واپی مسجد جیسے موضوعات کو چھیڑ کر آئندہ دس، بیس سال تک راج سنگھاسن پر قبضہ کرنے کی تیاری ہے۔ اس لیے گجرات الیکشن کو محض ایک ریاستی اسمبلی کا الیکشن نہ تصور کیا جائے۔ یہ الیکشن طے کردے گا کہ کون دوسال بعد مرکز میں حکومت بنائے گا۔ آثار تو بتا رہے ہیں اس مرتبہ گجرات میں بی جے پی کو عوامی تائید نہیں ملے گی۔ سماج کا کوئی طبقہ بھی حکومت کی کارکردگی سے خوش نہیں ہے۔ پارٹی عوامی مقبولیت کھوتی جا رہی ہے۔ کرپشن کے بڑھتے ہوئے ماحول سے بھی عوام پریشان ہیں ۔1995سے لگاتار کامیاب ہوتی پارٹی کو حکومت کرنے کا ایک لمبا عرصہ ملا ، لیکن گجرات کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہر کوئی کہہ رہا ہے اتنے لمبے عرصہ تک اقتدار پر رہنے کے باوجود بی جے پی عوام کی توقعات پر پوری نہیں اُتر سکی۔ دیکھنا یہ ہے رائے دہندے اپنے سیاسی شعور کا ثبوت دیتے ہیں یا پھر فرقہ وارانہ سیاست کا شکار ہوجاتے ہیں۔٭٭٭