طنز و مزاحمضامین

گدھے پر عتاب

محمد نعیم الدین خطیب

گدھا صرف گدھا نہیں ہے بلکہ ایک خاموش مزاج، شریف النفس، قلندرانہ صفت رکھنے والا ذہین اور وفادار جانور ہے۔ شریف اس معنی میں کہ کسی کے پھٹے میں ٹانگ نہیں اڑاتا اور ایک ہم حضرت انسان ہے کہ اپنی دس خامیوں کو نظر انداز کرکے دوسروں کے عیوب بیان کرتے پھرتے ہیں یعنی یہی اپنے گدھے پن کی وجہ سے خود ہی دوزخ کی آگ میں گرنے کا سامان جمع کررہے ہیں۔ گدھا بہت زیادہ امن پسند اور لڑائی جھگڑوں سے دور رہنے والا ہے، لیکن اس کے امن کی ایک حد ہے۔ ایک حد تک یہ دوسروں کی چھیڑخوانی نظر انداز کردیتا ہے۔ جب دشمن کی چھیڑخوانی حد سے گزر جاتی ہے وہ اینٹ(چھیڑخوانی) کا جواب پتھر جیسی دولتی سے دیتا ہے جس سے حضرت انسان تو کیا مہابلی جنگل کے راجہ شیر کی بھی بتیسی باہر آکر خاک چاٹنے لگتی ہے۔ اس لیے گدھے کو بیجا تنگ مت کیجئے۔ ورنہ دولتی کھانے کے بعد آپ اپنا پوپلا منہ لے کر زندگی بھر پچھتاتے پھریں گے۔ عقل مند انسان وہ ہے جو اپنے باس(آفیسر) کے آگے سے اور گدھے کے پیچھے سے نہ گزرے کیوں کہ دونوں ہی سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ گدھا اپنے دانتوں سے کاٹ سکتا ہے۔ سامنے کے کھروں سے مار سکتا ہے، دولتی جھاڑ سکتا ہے۔ گدھے کی خاموش مزاجی اور شرافت کو اس کی کمزوری مت سمجھئے۔ گدھا قلندر صفت اس لحاظ سے ہے کہ کھانا مسیر نہ ہو بھوکا پیاسا رہ کر جی لیتا ہے، اپنی غذا کو 95% ہضم کرسکتا ہے صرف 5% لید خارج کرتا ہے۔ سامنے رکھے چارے کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔ ہم دعوتوں میں کئی کئی کلو کھانا ضائع کردیتے ہیں ،آدھی آدھی پلیٹ کھانا جھوٹا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس نبی کی امت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جنھوں نے حکم دیا ہے کہ روٹی کی عزت کرو۔ پلیٹ کو مکمل صاف کرو۔ ہم اتنے گدھا نواز یا گدھا شناس نہیں ہے کہ گدھے کی خامی اور خوبیوں کا ڈھنڈورا پیٹتے پھریں۔ نہ ہی آپ اتنے فارغ بیٹھے ہیں کہ گدھے کے لیے وقت فارغ کریں۔ اخبار کی ایک سرخی نے ہمیں اس گدھا دانی پر محبورکیا۔ خبر یوں ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان گدھوں کی تجارت کو لے کر عنقریب ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ ہونے والی ہے اور چینیوں کی حرام خوری (گدھا خوری) کا عتاب پاکستانی گدھوں پر گرنے والا ہے۔چینی اپنی حرام خوری کی تسکین کے لیے گدھے کا گوشت، گدھی کا دودھ اور گدھے کی کھال خریدنا چاہتے ہیں۔ پاکستان گدھوں کی اس مانگ کو افغانی گدھوں کی مدد سے پوری کرنا چاہتا ہے یعنی پاکستان گدھ کی طرح افغانی گدھوں پر نظر جمائے ہوئے ہے۔ امریکہ کی ہٹ دھرمی، حیوانیت، ظلم کے چلتے افغانی عوام دال روٹی کو محتاج ہیں کیوں کہ امریکہ افغانستان کے دس بلین ڈالر اثاثے پر زہریلے ناگ کی طرح پھن پھلائے بیٹھا ہے۔ اسلام نے بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا ہے انہیں تعلیم سے روکنا غیر اسلامی فعل ہے۔ لیکن کسی ملک کی دولت پر ناگ کی طرح لپٹ جانا غیر انسانی فعل ہے۔ کسی بھی قسم کی فحاشی، عریانیت اور بے راہ روی کو پیسے کی طاقت سے نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ افغانستان گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کے لیے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ثابت ہورہا ہے۔ جب روس نے حملہ کیا تو امریکہ نے روس کے دانت کٹھے کرنے کے لیے پاکستان کو لیمو کی طرح استعمال کیا۔ پاکستان کو مفت میں امریکی ہتھیار اور امداد ملتی رہی۔ افغانستان میں روس کی مٹی پلید ہوگئی اور یو ایس ایس آر ختم ہوکر 19 ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوگئی۔ افغان جیالوں نے افغانی گدھوں، پرانے ہتھیاروں کی بدولت ایک سوپر پاور کو شکست فاش دے کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔ اس سے پہلے بھی کابلی پٹھان برطانیہ جیسے سوپر پاور کو شکست دے کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کے فوجیوں کو گورا قبرستان میں دفن کرچکے تھے۔
چمن لال کی تھیوری‘ چبوتروں پر بیٹھنے والے بیروزگاروں کے فلسفے‘ ریٹائرڈ اور کل وقتی فارغ بوڑھوں کے بڑبولوں اور واٹس ایپ یونیورسٹی کی مانیں تو یہودیوں نے امریکہ کے ٹوئن ٹاورس Twin Towers کو ایک سازش کے تحت دھماکے سے اڑا دیا اور اپنے مضبوط میڈیا کے ذریعے بے وقوف امریکی صدور اور ساری دنیا کے احمق حکمرانوں کو یہ باور کرایا کہ ٹوئن ٹاورس دھماکے کے پیچھے اسامہ بن لادن کا ہاتھ ہے۔ پوری دنیا کی فوج امریکہ کی صدارت میں جنگلی کتوں کی طرح طالبان اور اسامہ بن لادن کے پیچھے پڑ گئی۔ لاکھوں ٹن گولہ بارود بے گناہ، بچوں، بوڑھوں، عورتوں، ہسپتالوں، مدرسوں اور کھڑی فصلوں پر برسایا گیا۔ شیر دل طالبان اس گولہ بارود کو خاطر میں کیا لاتے؟ لیکن معصو م بچوں اور شہریوں کی بڑھتی اموات نے طالبان کو اپنی حکمت عملی بدلنے پر مجبور کردیا۔ اس طرح 28 ممالک کی جدید ہتھیار والی فوج اپنی پیٹھ تھپکتی ہوئی کابل میں داخل ہوگئی۔ طالبان گوریلا جنگ کی حکمت عملی کے تحت کابل سے یوں غائب ہوگئے جیسے گدھے کے سرسے سینگ۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی جنگی حکمت عملی یہ تھی کہ وہ دشمن کو اپنے پسند کے میدان تک گھسیٹ لاتے۔ جہاں دشمن ا ن کی چالوں کا شکار ہوجاتا۔ طالبان بھی ایوبی کے نام لیوا تھے۔ احمق امریکہ کو اپنی پسند کے جنگی میدان تورا بورا میں گھیسٹ لائے یہاں کی پرپیچ وادیاں، گھاٹیاں، دراڑیں طالبان پر مہربان اور امریکہ کے حواریوں کے لئے عتاب تھیں۔
جب امریکی لاشوں کی صفیں بچھنے لگیں تو سب سے پہلے امریکہ کے حواری اپنے فوجیوں کی لاشیں لے کر بھاگے۔ امریکہ اپنے ہتھیاروں، جدید ٹرکوں اور جاسوسی آلات کے زعم میں اپنے فوجیوں کو تورا بورا میں مرنے کے لیے جھونکتا رہا۔ ہزاروں امریکی اور دیگر غیر ملکی فوجیوں کی لاشوں کی گنتی کے بعد امریکہ کو اپنی حماقت، جہالت، گرتی معیشت کا اندازہ ہوگیا۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ جنگلی کتے کبھی بھی شیروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ دنیا کی سب سے بڑی سوپر پاور امریکی فوج اپنے کپڑے، ہتھیار، گولہ بارود، ہوائی جہاز، جنگی ٹرک چھوڑ کر ننگے پاﺅں کتوں کی طرح راتوں رات چوری چپکے بھاگ کھڑی ہوئی۔ اپنی قوم سے غداری کرنے والے، دنیا پرست، عریانی اور فحاشی کے دعوے دار، مکار بزدل امریکی نواز حکمراں بھی امریکہ کے فرار سے لاعلم رہے۔ دنیا نے دیکھا کہ اپنے ملک اور قوم سے غداری کرکے بیرونی طاقتوں کی حمایت کا کتنا بھیانک انجام ہوتا ہے۔ یہ غداران قوم نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ امریکہ کی تیار کردہ کرائے کے ٹٹوﺅں کی فوج ریت کا ڈھیر ثابت ہوئی۔ جنہیں طالبانی آندھی نے افغانستان سے نیست و نابود کردیا۔ یہ کرائے کی فوج امریکی ہتھیار طالبان کو سونپ کر جہاں سینگ سمائے بھاگ کھڑی ہوئی۔ طالبان کی اس شاندارفتح میں ان کے جذبہ شہادت کے بعد افغانی گدھوں کا اہم رول رہا ہے۔ طالبان کی گوریلا حکمت عملی میں گدھوں نے طالبان کا جی جان سے ساتھ دیا۔ گدھے امریکی ٹینک اور جدید جنگی ٹرکوں کے مقابلے طالبان کو لے کر دوڑتے رہے۔ دشوار گزار گھاٹیوں اور پہاڑوں میں رسد اور ہتھیار پہنچاتے رہے۔ سنا ہے کہ گدھوں نے امریکہ کے خلاف خودکش حملے بھی کیے۔ ان گدھوں پر گولہ بارود باندھ دیا جاتا۔ گدھے امریکی کیمپوں میں پہنچ کر پھٹ جاتے۔ اسی طرح کئی فوجی جہنم رسید ہوتے رہے۔ امریکیوں نے شک کی بنیاد پر کئی بے گناہ گدھوں کو گولیوں سے بھون دیا۔ ان بہادر گدھوں کے مقابلے میں امریکی ٹینک اور جنگی ٹرک ناکام ثابت ہوئے۔ برطانیہ، روس، امریکہ سے پہلے بھی بہادر افغانی گدھوں کی قربانیاں تاریخ میں ہمیں ملتی ہیں۔ جب مسلمانوں اور سکھوں کے بیچ حق و باطل کا معرکہ درپیش تھا۔ اس وقت گدھوں نے رسد پہنچانے‘ زخمیوں کو لے جانے‘ پانی اور جنگی گھوڑوں کو چارہ پہنچانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگادی تھی۔ اس وقت بھی حق کی خاطر گدھوں نے جان قربان کردی تھی۔گدھے کی اس قربانی کو اسلاف نے نظر انداز نہیں کیا۔ ایک گاﺅں کے گدھے کی یادگار سماجی خدمت کے لیے قبر بنادی۔ ایبٹ آباد پاکستان میں کھوت کی قبر کے نام سے آج بھی مشہور ہے۔
بات افغان اور پاک گدھوں کی چل رہی تھی کہ امریکہ نے اپنی ٹانگ اڑادی۔ ایران، عراق جنگ کے بعد اب امریکہ ایران اور سعودی عرب کے پھڈے میں ٹانگ اڑا کر سعودی-ایران جنگ کی تیاری میں ہے۔ خبر کے مطابق چین اور پاکستان میں گدھے کو لے کر ایک بڑی ڈیل ہونے والی تھی کہ جانوروں کی جلدی بیماری نے اس ڈیل کو لاک لگادیا۔ اب دونوں ہی ملک بڑی بے تابی سے اس بیماری کے ختم ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔ اس بیماری کے چلتے ہمارے حلال گوشت کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔
چین کو ہمارے ملک سے ازلی بیر ہے۔ ورنہ گوشت بیچنے کے معاملے میں ہم دنیا میں کسی سے کم نہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ گوشت کاٹنے اور بیجنے کے معاملے میں ہمارا ملک ہیرو نمبر ون ہے۔ پوری دنیا کو گوشت بیچنے والے اس ملک کی سرکار سبزی خور ہے۔ جو گوشت خوروں کے خلاف آئی ٹی سیل چلاتی ہے۔ اس ملک میں سات سو سال گوشت خور مسلمانوں کی حکومت رہی مگرکبھی گوشت کی اتنی بڑی دکان نہیں بن پائی۔ یہ سبزی خوروں کا کارنامہ ہے کہ گوشت بیچ کر ہم کروڑوں ڈالر کمارہے ہیں۔ سارے ملک میں سبزی خوری کا ڈھنڈورہ پیٹنے والے جھوٹے کلب کی سرکار ساری دنیا میں گوشت بیچتی پھررہی ہے۔ گوشت کے نفع سے سبزی خور سرکار چلارہے ہیں۔ سارے دیش کے جانور بیچ کر کھا رہے ہیں اور گائے کو ماتا بتا رہے ہیں۔ چین کو بھی اس سبزی خور سرکار سے گوشت خرید نا چاہئے۔ چوکیدار کو فخر کرنے کا حق ہے کہ جو کام سات سو سالوں میں مسلمانوں سے نہیں ہوا، ستر سالوں کی حکومت میں نہیں ہوا، سات سالوں میں دیش گوشت نمبرون بن گیا۔ جئے ہو۔ ہمارے ملک عزیز میں بھی گدھوں کی اہمیت کم نہیں ہے۔ خانہ بدوش قبائلوں میں گدھے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ آزادی کے امرت مہوتسو میں بھی یہ قبائل اپنا گھر اپنے کندھوں پر لیے چلتے ہیں اور خانہ بدوش کہلاتے ہیں۔ ترقی کے اس دور میں بھی صاف پینے کے پانی، بجلی، گھر، تعلیم اور بینک اکاﺅنٹ سے محروم ہیں۔ ڈیجیٹل انڈیا میں خانہ بدوشوں کی یہ تصویر ہمارے گزرے حکمرانوں کی غلطی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کا ان خانہ بدوشوں سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ یہ قبائل بار برداری کے علاوہ گدھی کا دودھ بھی بیچتے ہیں۔ جو مہذب دنیا میں سب سے قیمتی سمجھا جاتا ہے۔ آج کل تو گدھے کی چوری کی خبریں عام ہوتی جارہی ہیں۔ پہاڑی اور ریگستانی علاقوں کے تھانوں میں ہر روز گدھے کی گمشدگی کی رپورٹ درج ہے۔ پولیس تو پولیس ہے وہ تو سالوں سے گمشدہ نجیب کو ڈھنڈنے سے کتراتی ہے۔ گدھے کو کب ڈھونڈے گی؟ پولیس والے گمشدہ تالابوں، کنوﺅں، لیڈروں کی بھنسیوں، بھگوانوں کے استھانوں‘ بریلی کے بازار کے جھمکوں کو ڈھونڈنے میں پریشان ہیں اور اب گدھے کی چوری شروع ہوگئی۔و ہ تو اچھا ہوا کسی لیڈر کو گدھے پالنے کی نہیں سوجھی ورنہ پولیس کو ہزار کام چھوڑ لیڈروںکے گدھے کو ڈھونڈنے میں گدھے سے زیادہ محنت کرنی پڑتی۔ ایک ساتھ دو گدھوں کو دیکھ کر آپ جیسے معصوم ووٹر بھی بدک جاتے۔
بڑا اچھا ہوا کہ کسی لیڈر کا گدھا فارم نہیں ہے ورنہ اسی گدھا فارم سے حکومت چلائی جاتی۔ اپنے لیڈر کو خوش کرنے کے لیے چمچے لیڈر کے ساتھ ساتھ گدھے کے پیر بھی پڑتے۔ سارے علاقے میں گدھے کی عزت بڑھ جاتی، کیوں کہ ” وقت پڑا باز کا گدھے کوبولے کا کا“ کہاوت اردو والے تو پہلے ہی گدھے کے سرسے سینگ غائب کرچکے ہیں اب تو خاموش مزاج گدھے ہی خاموشی سے غائب ہوتے جارہے ہیں۔ آج لاکھوں دیہاتوں سے گدھے غائب ہوچکے ہیں شہر تو کب کے گدھا مکت ہوچکے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو گدھے پر مضمون لکھنے کے لیے بھی گدھے نہیں رہیں گے۔ آج غنیمت ہے ہے عرس، جاترا، میلوں میں پنا لال گدھے مل جاتے ہیں جو چار لوگوں میں آپ کی اچھی اور بری عادت بتلا کر چار پیسے کماتے ہیں۔ اگر چینی سارے گدھے کھا گئے تو ہمیں چڑیا گھر میں رکھنے بھی گدھے نہیں ملیں گے۔
برطانیہ کی کوکھ سے جنمے ناجائز اسرائیل کو ارض مقدس فلسطین میں بٹھا کر اس پاک سرزمین میں سرطان کا پودا لگا دیا گیا۔ اس ناپاک سرطان کے پودے کو اکھاڑ پھینکنے کی بجائے اس کی دہشت سے لرزاں، شہزادے اور ولی عہد اسرائیل سے تعلقات بنارہے ہیںاور اسرائیل سے آنکھیں لڑارہے ہیں۔ شاہ فیصل ،کرنل قذافی،صدام حسین، یاسر عرفات، احمد یسین کے بعد اسرائیل کی دہشت گردی بڑھ گئی ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کے گرد گھیرا تنگ کرتا جارہا ہے۔ فلسطینی بچوںکی غلیل‘ بڑوں کے پتھر اور حماس کے راکٹ کا ڈرنہ ہوتا تو اسرائیل فلسطین کو کب کا ہضم کرچکا ہوتا ہے۔ رہی دیگر عرب ملکوں کی بات تو وہاں کے شہزادے اور ولی عہد خلیل خا ن کے فاختہ اڑانے، باز اور عقاب کے پروں کو گننے اور Haloween Festival منانے میں مگن ہیں۔ اب اسرائیل نے فلسطینیوں پر نئی پابندیاں عائد کردی۔ فلسطینی بچوں کو قتل عام کرنے والے اسرائیل کو فلسطینی گدھوں سے بڑی ہمدردی ہوگئی ہے۔ اس کا الزام ہے کہ غزہ پٹی میں گدھوں اور گدھا گاڑی پر زیادہ بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ گدھوں کی لید اور پیشاب سے تعفن پھیل رہا ہے ،اسی طرح فلسطینی گدھوں کو قتل کرکے چمڑہ بیچ رہے ہیں۔ پیٹرول کی دولت سے مالا مال عرب علاقے میں مظلوم فلسطینی پیٹرول کے قطرے قطرے کو محتاج ہے۔ یہ پیٹرول خریدنے کی سکت نہیں رکھتے ،اس لیے بغیر پیٹرول سے چلنے والی کم خرچ گدھا گاڑی سے کام چلانے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل گدھوں کی آمد پر پابندی لگا کر انہیں مزید معاشی بحران میں ڈالنا چاہتا ہے تاکہ غریب کسان اپنی فصل اور ترکاری بیچ نہ سکے۔ ہر قتل عام کے بعد عرب لیگ‘ او آئی سی‘ اقوام متحدہ سخت مذمتی قرار داد پاس کرنے کا ناٹک کرتے ہیں۔ فلسطینیوں کو ہتھیار کی بجائے چند روٹی کے ٹکڑے اور سکے دے کر احسان جتلاتے ہیں۔ ان قراردادوں کی اہمیت اسرائیل کے نزدیک گدھے کی ڈھینچوں ڈھینچوںسے زیادہ نہیں ہے۔ہر سخت مذمتی قرارداد کے بعد اسرائیل نئی بستی بساتا ہے، عرب حکمراں فوٹو اتارتے ہیں۔ فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی گدھے بھی خود کی لڑائی خود لڑنے پر مجبور ہیں۔
چینی بڑے خاموش مزاج اور کچھوے کی طرح چال چلتے ہوئے خرگوش کی مانند لمبی چھلانگ لگادیتے ہیں۔ جنگ کے بعد انہوں نے بڑی خاموشی سے جدید ٹکنالوجی میں مہارت حاصل کی۔انہوں نے سستی بہترین اشیاءتیار کیں۔ اور مارکیٹ میں چھا گئے۔ یوں سمجھ لو کہ آرام دہ چیزیں ہم چینیوں کی وجہ سے استعمال کرپا رہے ہیں۔ آج امریکہ ہو یا جاپان، جرمنی ہو یا پربھنی‘ چینی بیٹری کے بغیر کمپیوٹر یا موبائیل چلا نہیں سکتا۔ اس طرح قبضے کے بعد چینی اب گدھے کی چال چل رہے ہیں۔ جنسی طاقت بڑھانے، خوبصورت نظر آنے کا پروپگنڈا کرکے انھوں نے گدھے کے گوشت، گدھے کی بیوٹی کریم اور گدھے کی مصنوعات کو فروغ دینا شروع کیا ہے۔ اچھی قیمت کی لالچ میں ساری دنیا کے گدھوں کو چین پہنچایا جارہا ہے۔ گدھا کا ڈبہ بند گوشت، گدھی کا دودھ، گدھے کی کھالیں اور گدھے کے کُھر محفوظ کرکے چین پہنچانے کی انڈسٹری پروان چڑھ رہی ہے۔ پولٹری فارم ، گوٹ فارم، فش فارم، کاﺅ فارم کے طرز پر گدھا فارم Donkey Farm بنائے جارہے ہیں جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ انسان گدھوں کے لیے گدھے کی طرح دن رات محنت کررہے ہیں۔ ہر ملک کے تاجر بڑے پیمانے پر گدھے پال رہے ہیں۔ گدھوں پر نئی نئی تحقیقات کی جارہی ہے۔ قدیم زمانے سے ہی گھوڑے اور گدھے کی جنسی آوارگی سے ٹٹو اور خچر پیدا ہوتے آئے ہیں ۔اب گدھوں اور زیبرا خاندان کی شادی کی کوشش کی جارہی ہے۔ گدھے اور زیبرا کے ملن سے Zonkey نامی مخلوط النسل جانور پیدا کیا جارہا ہے تاکہ زیبرا کو گدھا بناکر چین میں بیچا جاسکے۔ گدھا تجارت عالمی سطح پر پھل پھول رہی ہے‘ زیادہ سے زیادہ گدھے بیچنے کے لیے ہر ملک کے دفتر خارجہ وزیر خارجہ اور سفارت خانے تاجروں کے وفد چین سے تعلقات سدھارنے میں لگے ہیں۔ Miss Worldکی طرز پر Miss Donkey اور Miss Zonkey کے عالمی مقابلے کے انعقاد کی تیاریاں فیشن ورلڈ میں چل رہی ہے۔ گدھے کی آڑ میں عالمی طاقت کا توازن نئے انداز میں تشکیل دینے کی کوشش جاری ہے۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کے اتحاد ناٹو کے طرز پر چین Donko اتحاد بنانے میں لگا ہوا ہے۔ اس اتحاد میں امریکہ نواز گدھوں کو شامل کیا جائے گا۔ چین کے دشمنوں سے آنکھیں لڑانے والے، چین کو آنکھیں دکھانے والے ممالک سے گدھا تجارت روک کر انہیں گدھا بحران میںمبتلا کیا جائے گا۔ ایسے ملک میں گدھوں کے ساتھ ساتھ شہریوں کے کھانے کے لالے پڑجائیں گے۔
ایسے ملک میں بغاوت کراکر چین نواز گدھا حکومت قائم کی جائے گی۔ سبھی ممالک جس سے ڈرے سہمے رہیں گے (جیسے آج امریکہ سے رہتے ہیں) چین Super Donkey Power بن جائے گا۔ گدھا عالمی تجارت، سیاست، معیشت کا محور بن جائے گا۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں Donkey Dollar راج کرے گا۔تمام عالمی طاقتیں گدھے کے گرد گھومیں گی۔ عالمی کسادبازاری، مندی، بے روزگاری اور بھکمری کے بیچ ڈوبتی نیا کو گدھا ہی پار لگائے گا۔ عالمی نعرہ ہوگا اللہ مہربان تو گدھا پہلوان۔
گدھوں پر انسانی ظلم کا ایک انداز ہم نے بھی دیکھا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ اتفاق ہو یا سازش اس بات کی گدھا نواز تنظیموں کو باریکی سے تحقیقات کرنی چاہیے۔ مسئلہ یوں ہے کہ بعض دیہات یا خانہ بدوش قبیلے میں ایک ہی جنس (نرمادہ) پالے جاتے ہیں۔ اب یہ گدھے جنس مخالف کے فراق میں وصل کے آنسو بہاتے ہیں۔ وصال صنم کے تانے بانے بنتے گھنٹوں خاموشی سے‘گہرائی و گیرائی سے منصوبہ بندی کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں ا ن گدھوں کو دیکھ کر وہ کنوارے یاد آئے جن کی بیجا اور بجا وجوہات کے چلتے شادی نہیں ہوپارہی ہے۔ یہ کنوارے بھی دن رات فتو بھائی کی ہوٹل میں بیٹھ کر سیگریٹ کے دھویں کے مرغولے اڑاتے، ان میں محبوب دلہن کی تصویر بناتے، اخبارات میں ضرورت رشتہ کے اشتہارات کو چاٹتے نظر آتے ہیں۔ ایسے ہی کسٹمرکے لیے دھڑا دھڑ شادی ڈاٹ کام، رشتہ اپ ڈیٹ، شادی کارنر، دل والے دلہنیا لے جائیں گے نامی رشتہ کے آفس کھل رہے ہیں۔ چاندسی دلہن اور کماﺅ پوت دلہے کے انتظار میں جوانی چپکے سے رخصت ہورہی ہے۔ اس لیے اپنے معیارات کی بجائے اسلامی معیار کو اپنائےے وقت پر شادی کیجئے تاکہ صحیح وقت پر دادا اور نانا بن سکیں۔
گدھے بڑے ذہین ہوتے ہیں، لیکن ان کی یہی ذہانت ان کی موت کا سبب بن رہی ہے۔ گدھے راستہ کبھی نہیں بھولتے ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں اسمگلر گدھوں کو مخصوص راستہ یاد کرادیتے ہیں۔ اب گدھوں کو قیمتی نشیلی ادویات کی پڑیاں، ہیروئن کے پاکٹ، ہیرے جواہرات اور سونے کے گولے نگلائے جاتے ہیں۔ اپنے پیٹ میں کروڑوں کا مال لیے گدھے سرحد پار پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں پارٹی ان گدھوں کا پیٹ چاک کرکے اپنا مطلوبہ مال حاصل کرلیتی ہے۔ حالات سازگار ہوں یا لمبا سفر ہو تو گدھے کی پیٹھ پر مطلوبہ سامان باندھ کر اسے ہانک دیا جاتا ہے۔ تمام خطروں سے بے پرواہ گدھا اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر بلا جھجھک چلاجاتا ہے۔ اگر گدھا پکڑا گیا تو گدھا تو گدھا ہے مالک کا نام نہیں بتاسکتا۔ اگر گدھا مال لے کر صحیح سلامت پہنچ جائے تو راز کھل جانے کے ڈر سے گدھے کو قتل کردیا جاتا ہے۔ اس طرح دونوں پارٹیاں مالا مال ہوتی ہیں اور گدھا مفت میں مارا جاتا ہے۔ ویسے دو نمبر کی کمائی(حرام مال) میں پیسہ بہت ہے۔ جو لوگ حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتے، وہ آخرت کے نقصان کا حساب نہیں لگاتے۔ ورنہ و د نمبر کے دھندے میں صرف نقصان ہی نقصان ہے۔
ہر سال 8 مئی کو عالمی سطح پر یوم گدھا منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں پالتو جانوروں کے لیے ہمدردی کا جذبہ پروان چڑھایا جاسکے۔ اس دن گدھے کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ قرار داد یں پاس کی جاتی ہیں۔ کانفرنس، سمینار، جلسوں اور گدھے کا فیشن شو آراستہ کیا جاتا ہے۔ ان سب کے باوجود گدھا جہاں تھا وہیں رہتا ہے۔ اگر آپ کا یوم پیدائش 8مئی کو ہے تو گدھوں سے بالکل مت گھبرائےے۔ دنیا چاہے گدھا دن منائے آپ اپنا دن منائےے۔ لوگ اتنے گدھے بھی نہیں ہوتے کہ آپ کے یوم سالگرہ اور یوم گدھا میں فرق نہ کرسکے۔ اس بات کا ضرور خیال رکھیے کہ آپ کی سالگرہ کے پوسٹر کے قریب، یوم گدھا کا پوسٹر نہ لگے۔
گدھے پر انسانوں نے صرف عتاب ہی نازل نہیں کیا بلکہ اُردو والوں نے گدھے پر کتاب بھی لکھی ہے۔ منشی پریم چند نے گدھے اور انسان نما گدھے پر تین تین کتابیں لکھ ڈالیں۔ گدھے کی خوبیوں پر سینکڑوں مضامین بھی لکھے گئے ہیں، مگر ان مضامین کو جمع کرکے کئی جلدوں پر مشتمل داستان گدھا گوئی یا انسائیکلوپیڈیا آف گدھا لکھی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی قدر دان اس کے لیے تیار ہو تو ہم بھی اپنی گدھا دوستی کے دو مضامین دینے تیار ہیں۔
گدھا کو اس بات کا فخر بھی حاصل ہے کہ کئی جلیل القدر پیغمبروں نے گدھوں پر سواری کی ہے۔ محبت سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا ہے۔ اپنے مقدس اور پاک ہاتھوں سے چارہ کھلایاہے۔ گدھے کو ان برگزیدہ بندوں کی خدمت کا شرف حاصل ہے۔ یہ گدھے ان انسانوں (کافروں) سے زیادہ خوش نصیب ہے جنہیں نے پیغمبروں کو جھٹلایا اور اپنی آخرت برباد کی۔ مغرب میں تو گدھوں کے لیے وقف کردہ Donkey House‘ سرکاری اسپتال اور گدھا کیئر سنٹر ہیں۔ ان جگہوں پر گدھوں کو وہ سہولیات دستیاب ہیں جو ہم جیسے تیسری دنیا کے انسانوں کو بھی حاصل نہیں۔
اس مضمون کے لکھتے وقت ہم کو یہ انکشاف ہوا کہ انسان کو اتنا گدھا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ مفاد پرست لوگ ہمارا غلط فائدہ اٹھا سکیں۔
٭٭٭