مضامین

گوانتانا موبے جیل: حقوقِ انسانی کے علمبرداروں کیلئے کلنک کا ٹیکا

رﺅف ظفر

کیا دنیا کی بدنام ترین امریکی جیل، گوانتا نامو بے صدر جوبائیڈن کے دورِ حکومت کے اختتام سے قبل بند کردی جائے گی؟یہ سوال 2022ء میں اْس وقت بڑے پیمانے پر سامنے آیا، جب اس جیل کے قیام کو20 برس پورے ہوئے۔ اْن دنوں بنیادی انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کے مطالبے میں بھی تیزی آگئی تھی، جن کا کہنا تھا کہ”انسانیت کے نام پر اِس بدنْما داغ کو اب ختم ہو جانا چاہیے۔“تاہم، یہ جیل آج بھی قائم ہے، لیکن بین الاقوامی توقّعات یہی ہیں کہ یہ بدنامِ زمانہ جیل مستقبل قریب میں بالآخر ماضی کا ایک حصّہ بن ہی جائے گی۔ کیوبا کے شمال مشرقی ساحلی علاقے، گوانتا نامو بے کے ساحل پر واقع امریکی بحری اڈّا،اگرچہ 1903ء سے قائم تھا اور یہاں امریکی بحری جہازوں، جنگی طیاروں کی آمد و رفت جاری تھی، لیکن دنیا میں بہت کم لوگ،حتیٰ کہ بیش تر امریکی شہری بھی اس کے نام سے نا آشنا تھے۔ 2001ء میں نائن الیون واقعے کے بعد طالبان نے اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے حوالے کرنے سے انکار کیا، تو امریکہ نے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت ختم کردی۔ اس دوران ہزاروں مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر گرفتار کیا گیا۔ افغانستان اور عراق کے علاوہ دوسرے ممالک سے بھی نائن الیون واقعے کے بعد بہت سے افراد گرفتار کیے گئے۔ان سیکڑوں قیدیوں کو مختلف وجوہ کی بنا پر امریکہ لے جانا ممکن نہ تھا، تو اس بات پر غور و خوض شروع ہوا کہ ان قیدیوں کو کہاں رکھا جائے، اِس مقصد کے لیے امریکی حکّام نے کیوبا میں اپنے بحری اڈّے، گوانتانامو بے کا انتخاب کیا، جو دنیا سے الگ تھلگ ایک جزیرے میں قائم تھا۔ اْن کی نظر میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں اور خود امریکی قوانین سے دْور، دنیا سے الگ تھلگ، اِس سے بہتر کوئی اور مقام نہیں تھا۔ یہاں وہ دنیا سے اوجھل رہ کر اپنی مرضی کا ہر کام کر سکتے تھے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد جب قیدیوں کی منتقلی کا کام شروع ہوا، تو دنیا بَھر کی نظریں گوانتا ناموبے پر مرکوز ہوگئیں اور ایک صدی سے گم نامی میں ڈوبا یہ ساحلی امریکی اڈّا، راتوں رات بین الاقوامی خبروں کا موضوع بن گیا اور پھر 2002ء کے بعد شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو، جب یہ بدنامِ زمانہ جیل عالمی خبروں کا موضوع نہ بنی ہو۔ قیدیوں کو کسی ثبوت اور اْن پر کوئی مقدمہ چلائے بغیر برسوں قید میں رکھنا، پوچھ گچھ کے لیے انتہائی ظالمانہ طریقے اختیار کرنا، اْنہیں اْن کی مرضی کے خلاف نام نہاد رہائی دے کر دوسرے ممالک منتقل کرنا، قیدیوں پر بیرونی دنیا کے تمام تر دروازے بند رکھنا اور جنیوا کنونشن کی دھجیاں اْڑانا جیسے امور اس جیل کا تعارف بنے اور انہی امور کی وجہ سے اسے دنیا کی بدنام ترین جیل کے نام سے جانا جاتا ہے۔حقوقِ انسانی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے، جہاں مہذب دنیا کے کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا اور اگر مستقبل قریب میں یہ بند ہو بھی جائے، تب بھی تاریخِ انسانی پر اس کے ثبت نقوش کو ماند پڑنے میں شاید صدیاں بھی کم پڑ جائیں۔
امریکی بحری اڈّے،گوانتا ناموبے پر جیل کی تعمیر کا آغاز 2002ء میں ہوا، جسے مرحلہ وار مکمل کیا گیا اور تعمیر و توسیع کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ابتدا میں جب قیدیوں کو یہاں لایا گیا، تو اْنہیں ایک وسیع و عریض کمپاؤنڈ میں رکھا گیا، جو خار دار تاروں اور حفاظتی ٹاورز سے گِھرا ہوا تھا۔ وہاں کْھلے میدان میں سات، آٹھ کیمپ قائم کیے گئے، جہاں قیدیوں کو گروپس میں تقسیم کر کے رکھا گیا۔ رفتہ رفتہ بیرکس اور چھوٹے چھوٹے سیل تعمیر کیے گئے، جو8 فِٹ لمبے اور6 فِٹ چوڑے تھے۔ قیدی وہاں پہنچتے ہی باقی دنیا سے کٹ جاتے، یہاں تک کہ اہلِ خانہ یا رشتے داروں تک سے رابطے کا کوئی امکان نہ رہتا۔
اس جیل کی 20 سالہ تاریخ کے دَوران صرف ایک مرتبہ آسٹریلیا کے ایک قیدی کو اْس کی فیملی سے ملنے کی اجازت دی گئی، جنہیں کڑے پہرے میں وہاں لایا گیا۔امریکہ کے اس بحری اڈّے کی تاریخ بہت پرانی ہے، اگرچہ یہ بیش تر وقت گم نامی ہی میں رہا۔ امریکہ نے 1903ء میں بحری اڈّا قائم کرنے کے لیے یہ ساحلی علاقہ کیوبا سے مستقل لیز پر لیا تھا، اْس وقت اس کا سالانہ معاوضہ سونے کے سکّوں کی صْورت دیا جاتا تھا، جو دو ہزار امریکی ڈالرز کے برابر تھا۔ 1974ء میں رقم بڑھا کر4085 ڈالرز سالانہ مقرّر کر دی گئی۔ آج یہ بحری اڈّا دورِ جدید کی تمام تر سہولتوں سے لیس”مِنی امریکہ“ کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس نیول بیس کی آبادی 7 ہزار نفوس پر مشتمل ہے، جس میں اکثریت امریکی فوجیوں اور اْن کی فیملیز کی ہے، جب کہ مختصر سی تعداد عام ملازمین کی بھی ہے۔ گوانتا ناموبے جیل نے اپنے قیام کے ساتھ ہی دنیا سے الگ تھلگ ہونے کے باوجود پوری دنیا کی توجّہ اپنی طرف مرکوز کروا لی تھی، کیوں کہ پوری دنیا میں ایسی کوئی جیل نہیں تھی، جہاں اِتنی بڑی تعدد میں امریکہ کے بقول”دہشت گردوں“ کو رکھا گیا ہو۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کو یہ معلوم ہو چْکا تھا کہ وہاں قیدیوں پر دنیا اور خود امریکہ کے کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا،یہاں تک کہ قیدیوں سے جو بھی سلوک کیا جائے، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ وہاں سب کچھ ماورائے عدالت ہوتا ہے۔ اگرچہ عالمی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو اس جیل تک رسائی حاصل نہ تھی، لیکن بعض مہم جْو صحافیوں کی رپورٹس اور جیل سے رفتہ رفتہ نام نہاد رہائی کے نام پر دوسرے ممالک منتقل کیے جانے والے قیدیوں کے انٹرویوز نے جیل میں قیدیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کو طشت ازبام کردیا۔ قیدیوں کو بغیر مقدمہ پابندِ سلاسل رکھنا، اْنہیں بے گْناہی ثابت کرنے کے لیے وکیل کا حق نہ دینا، پوچھ گچھ کے لیے وحشیانہ طریقے اختیار کرنا، کسی قسم کا الزام عاید کیے بغیر برسوں قیدِ تنہائی میں رکھنا، اہلِ خانہ سے نہ ملنے دینا، مذہبی عبادت کی اجازت نہ دینا، کئی کئی روز تک مسلسل جگائے رکھنا اور بات بات پر زد و کوب کرنا جیل میں معمول کی باتیں تھیں۔
جب جیل میں ہونے والے مظالم کی گونج پوری دنیا میں سْنائی دینے لگی، تو امریکی حکّام نے محدود پیمانے پر میڈیا اور ہیومن رائٹس واچ کے نمائندوں کو جیل کے دورے کی اجازت دی۔ یہ سلسلہ 2006ء سے 2008ء تک جاری رہا، جس کے دَوران بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹر اور ریڈ کراس کے نمائندوں نے جیل کا دورہ کرکے قیدیوں سے ملاقات کی۔ اْنھوں نے تصاویر کے ساتھ بتایا کہ قیدیوں کو تفریحی سہولتیں میّسر ہیں، محدود پیمانے پر قرآن پاک کی تلاوت کی اجازت بھی ہے اور قیدیوں کو واک بھی کروائی جاتی ہے، لیکن اْنہوں نے جیل میں ایک ہنگامے اور بھوک ہڑتال کا بھی ذکر کیا، جس کے بعد تین قیدیوں نے خود کْشی کرلی تھی۔ان نمائندوں نے8 فِٹ لمبے اور6 فِٹ چوڑے سیل کا بھی ذکر کیا، جہاں قیدیوں کو قیدِ تنہائی میں رکھا جاتا۔ان نمائندوں نے جو کچھ لکھا، وہ سب امریکی حکّام کی سنسر شپ سے مشروط تھا۔ اِسی دَوران 14 سال کے بعد رہائی پانے والے جرمنی میں مقیم، موریطانیہ کے محمّد الفلاحی سے جرمنی کے نشریاتی ادارے، ڈی ڈبلیو نیوز نے انٹرویو کیا، جس میں اْنھوں نے انکشاف کیا کہ”جیل میں قیدیوں کو مسلسل کئی کئی رات جگایا جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ پاگل پن کی حد تک پہنچ جاتے ہیں، اْنہیں ہروقت بیڑیاں پہنا کر مسلسل کئی کئی مہینے ایک تنگ سیل میں قیدِ تنہائی میں رکھا جاتا، برف پر سلایا جاتا اور پانی میں غوطے دیئے جاتے ہیں۔

تمام قیدیوں پر دہشت گردی کے الزامات ہوتے ہیں، لیکن امریکی حکّام اْن کے خلاف کسی قسم کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرتے۔اکثر قیدی ایسے تھے، جن پر مقدمے کا آغاز تک نہیں کیا گیا۔بعض قیدی ایسے بھی تھے، جنہیں امریکی حکّام نے کلیئر قرار دے دیا، لیکن جیل انتظامیہ بدستور اْنہیں قید رکھے ہوئے تھی۔اکثر قیدیوں کو رفتہ رفتہ دوسرے ممالک منتقل کیا گیا، لیکن وہاں بھی اْنہیں محدود پیمانے پر نقل وحرکت کی اجازت تھی۔ اکثر قیدیوں کو اْن کے آبائی ممالک کی بجائے اْن کی مرضی کے خلاف دوسرے ممالک میں بھیجا گیا۔“ 2002ء سے 2022ء تک گوانتا ناموبے جیل میں لائے گئے قیدیوں کی تعداد تقریباً 800ہے، 20 سال کے دَوران 737قیدیوں کو رہائی کے بعد مرحلہ وار دوسرے ممالک منتقل کیا گیا۔فروری 2023ء میں وہاں قیدیوں کی تعداد 34رہ گئی۔ دورانِ قید 9افراد کا انتقال ہوا۔ 2021ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، وہاں 7بچّے بھی قید تھے۔ 20سال کے دَوران جن قیدیوں کو دوسرے ممالک منتقل کیا گیا، اْن میں سعودی عرب، سربیا، سلواکیا، جرمنی، البانیا، قطر اور پاکستان وغیرہ شامل ہیں۔بیش تر قیدیوں کو اْن کی مرضی کے خلاف، اْن کے آبائی وطن کی بجائے دوسرے ممالک بھیجا گیا۔امریکی حکّام کا کہنا تھا کہ ان قیدیوں کا جن ممالک سے تعلق تھا، وہ اْنہیں بعض سیکیوریٹی وجوہ کی بنا پر واپس لینے سے انکاری تھے۔ان قیدیوں کی منتقلی یا محدود رہائی کا ایک سبب یہ تھا کہ ان کے خلاف امریکیوں کے پاس الزامات کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھا اور اْنہیں مقدمہ چلائے بغیر برسوں جیل میں رکھا گیا، لیکن ایک اور بڑا سبب یہ تھا کہ ایک تو بین الاقوامی سطح پر امریکہ کی بدنامی ہو رہی تھی، جب کہ دوسری طرف امریکی شہری بھی نہ صرف اس جیل میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف تھے بلکہ وہ یہ بھی محسوس کر رہے تھے کہ اْن کے ٹیکس کی رقم قیدیوں کو حراست میں رکھنے پر ضائع کی جا رہی ہے۔واضح رہے، گوانتا ناموبے جیل میں قیدیوں پر جو رقم خرچ ہوتی رہی، وہ امریکہ میں قیدیوں پر خرچ ہونے والی رقم سے کہیں زیادہ ہے۔ امریکی عوام اپنے ٹیکس کی رقم کے اس بے دریغ استعمال کے خلاف تھے۔یوں تو 2002ء ہی میں گوانتا ناموبے جیل بنیادی انسانی حقوق کی تنظیموں کی نظروں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی علامت بن چْکی تھی، لیکن اْس وقت نائن الیون حملے کے تناظر میں اس پر محتاط انداز میں تنقید کی گئی، لیکن جب اْس حملے کی گرد بیٹھنے لگی اور جیل میں ہونے والے مظالم منظرِ عام پر آنے لگے، تو اس کے خلاف اْٹھنے والی آوازوں میں بھی شدّت آنے لگی۔ 2006ء میں امریکی سپریم کورٹ نے اعلان کیا کہ جیل میں جس طرح قیدیوں پر مقدمہ چلانے کے لیے ملٹری کمیشن کے طریقہٓ کار پر عمل کیا جاتا ہے، وہ جنیوا کنونشن اور ملٹری جسٹس کے خلاف ہے، لیکن پھر اْسی سال امریکہ میں ملٹری کمیشن ایکٹ منظور کیا گیا، جس کی رْو سے ایسے قیدیوں کے مقدمات کو امریکی فیڈرل کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر قرار دے دیا گیا۔2008ء میں ایک مرتبہ پھر امریکی عدالت نے قرار دیا کہ غیر مْلکی زیرِ حراست افراد کو بھی اپنی نظربندی کے خلاف اپیل کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن اس رْولنگ پر کوئی عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آیا۔ اسی دوران بین الاقوامی سطح پر گوانتا ناموبے جیل پر تنقید میں بتدریج تیزی آتی گئی۔ امریکی عوام کی اکثریت کا کہنا تھا کہ ہم20 سال تک لوگوں کو مقدمہ چلائے بغیر کیسے رکھ سکتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ امریکی عوام کی اکثریت نہیں چاہتی تھی کہ افغانستان، عراق، صومالیہ، سعودی عرب اور دوسرے ممالک کے باشندوں کو امریکہ میں لاکر ان پر مقدمہ چلایا جائے، جب جیل کے مظالم منظرِ عام پر آنے لگے، تو خود کو بنیادی انسانی حقوق کا چمپئن قرار دینے والے امریکہ پر تنقید میں بھی شدّت آتی گئی۔آرگنائزیشن آف امریکن اسٹیٹس نے اس سلسلے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی ریڈ کراس، ایمنیسٹی انٹرنیشنل اور دوسری تنظیموں نے بھی ان قیدیوں کی رہائی اور ان پر کْھلے بندوں مقدمات قائم کرنے کے حق میں آواز بلند کی تاکہ سب کو انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔امریکی صدر بارک اوباما نے 2009ء میں اعلان کیا کہ گوانتا ناموبے جیل کو ایک سال کے اندر اندر بند کر دیا جائے گا اور زیرِ حراست افراد پر مقدمہ چلانے کے لیے اْنہیں امریکہ منتقل کرنے کے طریقہ کار پر نظرِثانی کی جائے گی۔اْنہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ قیدیوں سے تفتیش کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا جائے، جو امریکی فوج میں مروّج ہے، لیکن بارک اوباما کے اس اعلان کی حزبِ اختلاف اور خود اْن کی پارٹی کے نمائندوں نے مخالفت کی، جو یہ نہیں چاہتے تھے کہ مبیّنہ جنگجوؤں کو امریکی سرزمین پر لایا جائے، چناں چہ یہ تجویز آگے نہ بڑھ پائی۔ اس کے بعد صدر بائیڈن برسرِ اقتدار آئے، تو اْنہوں نے اعلان کیا کہ گوانتا ناموبے جیل بند کر دی جائے گی، لیکن اْن کا اعلان محض اعلان ہی رہا، بلکہ اس کے برعکس یہ ہوا کہ اْنہوں نے رواں برس جیل میں ایک کمپاؤنڈ کی توسیع کے لیے 40لاکھ ڈالرز فنڈز کی منظوری دے دی، لہٰذا فی الوقت کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کرہ ارض کے دامن پر گوانتا ناموبے جیل کی صْورت لگا ہوا بدنْما داغ کب مِٹے گا۔ گزشتہ سال، جب اس جیل کے قیام کو 20برس مکمل ہوئے، تو بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر بڑی تیزی سے اْبھرا کہ اب تو یہ جیل بند کر دی جائے گی، جب کہ امریکی صدور بارک اوباما، ڈونلڈ ٹرمپ اور صدر بائیڈن پہلے ہی یہ عندیہ دے چْکے تھے، لیکن یہ بات قیاس آرائیوں ہی تک محدود رہی۔ 2022ء میں ACLOنامی امریکی تنظیم نے، جو عدالتوں میں انسانی حقوق کے تحفّظ کے لیے کام کرتی ہے، جیل کو امریکہ کے لیے ایک بدنْما داغ قرار دیا اور کہا کہ یہ پوری دنیا میں ناانصافی اور قانون کی تذلیل کی ایک علامت بن چْکی ہے۔ 2006ء میں اقوامِ متحدہ نے بھی جیل کو انسانی حقوق کی بنیادی خلاف ورزی قرار دے کر اسے بند کرنے کی سفارش کی۔ صدر بائیڈن کہہ چْکے ہیں کہ وہ اپنی صدارتی مدّت ختم ہونے سے پہلے پہلے اسے بند کر دیں گے۔ دیکھنا ہوگا کہ کیوبا کے ساحل پر انسانی حقوق کی امیدوں کا سورج کب طلوع ہوتا ہے۔