مضامین

’’گیر ‘‘ فرقہ

آج بھی پرتاب گیر جی کی کوٹھی عوام کے لیے کھلی ہے یہاں ENTدواخانہ ہے ، اس کوٹھی نے ہندوستان کے مشہور اردوشعراء کو سناہے ، دیکھا ہے ۔ اس علاقے کو آج بھی کوٹھی کہا جاتا ہے ۔ پتھر کی اس خوبصورت عمارت میں باغ کے علاوہ کبھی مشہور مصوروں کے شاہکار بھی ہوا کرتے تھے۔ اس کی چھت کو دو بوڑھوں نے سنبھالا تھا ، لوگ اسے دیکھنے بھی جایا کرتے تھے۔

اودیش رانی

اب تک ہم نے حیدرآباد میں بسنے والے کئی فرقوں کے بارے میں جانا ہے مگر ایک اہم فرقہ گیر کے بارے میں ہم جان نہیں پائے تھے ۔ پرتاب گیر جی کی کوٹھی کے بارے میں سبھی جانتے ہیں … اندرا دھن راج گیر کے حسن کے چرچے بھی سبھی نے سنے ہیں ۔ پان منڈی کے دھن راج گیر جی کے خوبصورت مکان کو فلموں میں لوگوں نے کئی بار دیکھا ہے ۔ باغ بیر بھان گیر جی اور لال گیر جی کے باغ ( جو اب باغ نہیں ) کے نام کے محلے کے بارے میں سبھی جانتے ہیں …

ان کی تاریخ کا سلسلہ 1845ء کے نقشے سے ملتا ہے ، جس میں گوسائیں محلہ کانام ملتاہے ۔ یہاں کے امراء و گیر مشہور تھے ۔ ان کے بارے میں 1855ء میں ایک انگریزی اخبار نے کوئی اچھی رائے نہیں لکھی ۔ وہ رئیس تھے اور سراج الملک سالار جنگ کے زمانے میں انہوں نے نظام کو قرض دیا تھا ، ان کا اپنا الگ خزانہ تھا ۔ ان کی اور خزانے کی نگرانی کے لیے ایک عرب فوج تھی ، اس فوج کے رکن نے ان کا سالار جنگ کی ڈیوڑھی میں قتل کردیا ۔ بیگم بازار کے قریب ہی ان کے مٹھ تھے ، انہوں نے 1857ء کے غدر میں حصہ لیا تھا۔

گیر’’ گوسائیں ‘‘بھی کہلاتے تھے ، پہلے یہ مجرد ہوا کرتے تھے اور اپنے قبیلے کو زندہ رکھنے کے لیے لڑکوں کو لاکر گوسائیں بناتے تھے اور چوں کہ قرض دیتے تھے تو ان کے بچوں کو لالیا کرتے تھے ۔ ان کو کشتی کے علاوہ تلوار چلانا سکھایا جاتا تھا ۔ ان کے مٹھوں کی بیرونی دیواریں ایک میٹر چوڑی ہوتی تھیں جن کے سوراخوں کو استعمال کرکے بندوق اور توپ چلائی جاسکتی تھی ،یہ اکھاڑہ بھی کہلاتا تھا۔

گوسائیں کاسلسلہ جوالا مکھی ( ہما چل ) مرزا پور ، بنارس سے جا ملتا ہے ۔ پونے اور شولا پور کے علاوہ کلیانی میں بھی گوسائیں تھے ۔ قرض دینے کے لیے لوگوں کے زیورات اور قیمتی اشیاء کے علاوہ چھوٹے بڑے مکانات بھی گروی رکھے گئے یا خریدے گئے ۔ بعد میں ان کو مٹھ یعنی خانقاہ میں تبدیل کرلیا گیا۔ ان مٹھوں کی نگرانی عرب، راجپوت اور جاٹ فرقہ کے لوگ کیا کرتے تھے ۔ ابتدائی مٹھ جو 1830ء میں تعمیر کیا گیا تھا وہ لکشمن گیر بنسی گیر کا تھا جس میں ایک بڑی بندوق تھی ، جسے رضا کار دور میں حکومت کے حوالے کردیا گیا ، اس بندوق کی پوجا ہوتی تھی ۔

اس مٹھ میں خوبصورت تصاویر بھی تھیں ۔ اس مٹھ کی پہلی منزل پر بینک تھا جہاں گروی کا کام ہوتا تھا اور اسی سے متصل گودام تھا جس میں اناج اور سوکھے میوے رکھے جاتے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ لکشمن گیر نے حکومت کو 90لاکھ روپئے قرض دیا تھا جو واپس نہیں ہوا ۔ سالار جنگ دوم نے کوشش کی تھی کہ مٹھ دھاری سے بات چیت کے ذریعے مسئلے کو طے کیا جاسکے مگر صرف 500روپئے مہینہ بطور معاوضہ قرض دینے کی بات ہوئی اور پولیس ایکشن تک یہ قرض ادا کیا گیا۔مذہبی عقیدے کے مطابق ان کے طور طریق شیوائٹ ہیں جو شنکر اچاریہ کے طریقوں سے مشابہ ہیں مگر حیدرآباد میں مٹھوں میں وشنو کی بھی پوجاہوتی تھی ۔ سلام کا طریقہ ’’ نمو نارائن‘‘ ہوتا تھا ۔ شادی عام طور پر گاندھروا وواہ ہوتی تھی جس میں کوئی گواہ یا دستاویز نہیں ہوتی تھی اور عورت کو کوئی حق بھی قانونی طورپر نہیں ہوتا تھا۔

مٹھ میں رہنے والے عام طور پر مجرد ہوتے تھے ۔ یہ گرو چیلہ ہوا کرتے تھے مگر بیسویں صدی کے آغاز میں یہ دونوں ’’ دھاڈا‘‘ میں تقسیم ہوگئے ۔ ایک سلسلہ نرسنگ گیر ، دھن راج گیر جو امراو گیر کے سلسلے سے تھے ۔ دوسرا لال گیر ببر بھان گیر کا تھا ۔ دونوں مٹھوں کا راج بیگم بازار پر خوب رہا ۔ چھ مٹھ موسیٰ ندی کے کنارے تھے جو ندی کے مٹھ کہلاتے تھے اور نرسنگ گیر جی /دھن راج گیر ، ان کے نام تھے ۔

گوسائیں یا گو سوامی یا گیر مردے کو بٹھا کر سمادھی بناتے تھے اور مرنے پر مٹھوں کو شکر بھیجی جاتی تھی ۔ یہ شکر مٹھ کے رتبے کے حساب سے ہوتی تھی ۔20تھیلے سے لے کر100تھیلے تک شکر ہوتی تھی ۔ اس کے بعد مٹھ دھاری کا انتخاب ہوتا تھا اور نظام بھی ان کے لیے شال بھیجا کرتے تھے۔

بیسویں صدی میں بہت سی ترقی پسندانہ تبدیلیاں آئیں ، نوجوان طبقے میں آپسی رقابت کو مٹانے کی زبردست کوشش کی گئی اور ساتھ ہی شادی اور وراثت کے مسئلے کو بھی سامنے رکھا گیا ۔ اس میں دھن راج گیر کا مٹھ دھاڈا خاص طور پر قابل ذکر ہے کیونکہ بنسی گیر تعلیم پر زور دیا کرتے تھے اور 1930ء میں تین چار نوجوان علم کے زیور سے آراستہ ہوئے اور 1931ء میں دس نامی گو سوامی کلب کی بنیادی ڈالی۔اس کلب میں اردو کا اخبار’’ مشیر دکن‘‘ پڑھا جاتا تھا ۔ یہ ابتدائی جلسے ہنومان مندر کے پیڑ تلے ہوا کرتے تھے ۔ بعد میں دھن راج گیر نے ایک عمارت دیدی اور اس کو دس نامی گوسوامی منڈل کا نام دیدیا گیا تھا ، اب تو شادی کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے ۔ اندرا بائی بنسی گیر کی لڑکی کی شادی دل رام گیر سے ہوئی۔ ان مٹھوں کو گاندھی جی او ر ویویکا نند جی نے آکر دیکھا تھا۔

غرض آج بھی پرتاب گیر جی کی کوٹھی عوام کے لیے کھلی ہے یہاں ENTدواخانہ ہے ، اس کوٹھی نے ہندوستان کے مشہور اردوشعراء کو سناہے ، دیکھا ہے ۔ اس علاقے کو آج بھی کوٹھی کہا جاتا ہے ۔ پتھر کی اس خوبصورت عمارت میں باغ کے علاوہ کبھی مشہور مصوروں کے شاہکار بھی ہوا کرتے تھے۔ اس کی چھت کو دو بوڑھوں نے سنبھالا تھا ، لوگ اسے دیکھنے بھی جایا کرتے تھے۔

( اس مضمون کے لیے کارین لیو نارڈ امریکی نژاد محقق ماہر حیدرآباد کے مضمون سے مدد لی گئی )
٭٭٭