سیاستمضامین

17ستمبر کو تلنگانہ میں آر ۔ایس۔ایس کا یوم آزادی : ایک ڈرامہ ’’ جان دیں گے‘ وطن بچائیں گے‘‘ تحریک کی یاد منانا ضروری

’’ یہ بات بہت ہی مضحکہ خیز ہے کہ آر۔ایس۔ایس نے ناگپور میں اپنے ہیڈکوارٹر میں آزادی کے موقع پر کبھی ترنگا لہرانے کی اجازت نہیں دی۔ لیکن 17ستمبر 1948ء کو وہ یوم آزادی کا حیدرآباد میں دن مناتے ہوئے ترنگا لہرانے کی بہت خواہش مند رہی۔ آزادی کے وقت آر۔ایس۔ایس کے ترجمان رسالے ’’ آرگنائزر‘‘ نے لکھا کہ جو لوگ تقدیر کی ٹھوکر سے اقتدار میں آگئے وہ ہمارے ہاتھوں میں ترنگا سماسکتے ہیں لیکن اس کا احترام اور اسے ہندوؤں کے ہاتھ میں اپنا کبھی نہیں بنایا جاسکے گا۔ لفظ ’’ تین‘‘ خود ایک خراب لفظ ہے اور ایک تین رنگوں کا جھنڈا یقینا برے نفسیاتی اثرات پیدا کرے گا اور کسی بھی ملک کے لئے یہ (نشان) زخم پیدا کرنے والا ہے‘‘۔

سلیم مقصود

آر۔ایس۔ایس نے آزادی کی لڑائی میں کبھی کوئی نمایاں حصہ نہیں لیا لیکن آزادی کے بعد یہ ملک کی ہر ریاست میں اسے ایک فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لئے ایک عرصے سے مصروف رہی ہے۔ حیدرآباد اسٹیٹ اور ہندوستان کی آزادی میں اس کا کوئی اہم کردار نہیں تھا لیکن ہر سال بی جے پی کی ریاستی شاخ اس میں یوم آزادی منانے کا ریاستی حکومت سے سخت مطالبہ کیا کرتی ہے۔ پولیس ایکشن (آپریشن پولو) کے وقت یا اس سے قبل ہندو مہاسبھا ‘ آریہ سماج‘ وندے ماترم اور کانگریس نے ریاست حیدرآباد کی ہندوستان میں شمولیت ‘ نظام کے ساتھ بغاوت اور ریسیڈنسی کے خلاف مسلمانوں کی جدوجہد میں ان کا ساتھ تو نہیں دیا البتہ قتل و غارت گری ‘ فساد و تعصب کا بازار گرم رکھا۔ ریاست تلنگانہ میں یوم آزادی کا مطالبہ جب بی جے پی نے کیا تو 13ستمبر کو مشہور صحافی موہن گرو سوامی نے انگریزی اخبار ’’ دکن کرانیکل‘‘ میں آر۔ایس۔ایس کی گھٹیا ذہنیت کے بارے میں ایک مضمون لکھا کہ :
’’ یہ بات بہت ہی مضحکہ خیز ہے کہ آر۔ایس۔ایس نے ناگپور میں اپنے ہیڈکوارٹر میں آزادی کے موقع پر کبھی ترنگا لہرانے کی اجازت نہیں دی۔ لیکن 17ستمبر 1948ء کو وہ یوم آزادی کا حیدرآباد میں دن مناتے ہوئے ترنگا لہرانے کی بہت خواہش مند رہی۔ آزادی کے وقت آر۔ایس۔ایس کے ترجمان رسالے ’’ آرگنائزر‘‘ نے لکھا کہ جو لوگ تقدیر کی ٹھوکر سے اقتدار میں آگئے وہ ہمارے ہاتھوں میں ترنگا سماسکتے ہیں لیکن اس کا احترام اور اسے ہندوؤں کے ہاتھ میں اپنا کبھی نہیں بنایا جاسکے گا۔ لفظ ’’ تین‘‘ خود ایک خراب لفظ ہے اور ایک تین رنگوں کا جھنڈا یقینا برے نفسیاتی اثرات پیدا کرے گا اور کسی بھی ملک کے لئے یہ (نشان) زخم پیدا کرنے والا ہے‘‘۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہیڈگیوار بھون میں ترنگا صرف26جنوری 2001ء میں لہرایا گیا۔ یہ جھنڈا آر ایس ایس نے نہیں بلکہ ’’ راشٹریا پریمی یووا دل‘‘ نے ناگپور کے دفتر پر زبردستی لہرایا تھا۔ موہن گرو سوامی نے مزید لکھا کہ ’’ یہ ایک حقیقت ہے کہ آر ایس ایس نے حتی کہ 1942ء میں ’’ ہندوستان چھوڑ دو تحریک‘‘ (Quit India Movement) میں کبھی حصہ نہیں لیا تھا۔ 1990ء کی دہائی میں اس نے ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں اپنی شرکت کی شیخی بگھارتے ہوئے اٹل بہاری واجپائی کے جیل جانے کا دعویٰ کیا تھا جسے انگریزی رسالے فرنٹ لائن نے ایک گندے انڈے کی طرح واجپائی کے اقرارِ جرم کے بیان کو جس میں انہوں نے برطانوی حکومت سے اس وقت اس تحریک میں شامل نہ ہونے بلکہ ایک تماشہ بین ہونے کا بہانہ بتادیا تھا۔ اسے ایک گندے انڈے ہی کی طرح ان کے منہ پر پھینک دیا۔ جونا گڑھ اور کشمیر کا یوم آزادی آر ایس ایس نے کبھی نہیں منایا۔ وہ صرف حیدرآباد ہی کا یوم آزادی منانا چاہتی ہے لیکن کیوں؟
حیدرآباد میں نظام کی ریاست میں غیر مسلم علماء و نواب اور وزرائے اعظم کی کافی تعداد پائی جاتی تھی۔ شہر حیدرآباد کے اطراف و اکناف بہت زیادہ بھائی چارگی کے ساتھ ہندوؤں کا وقاراور رعب بھی پایا جاتا تھا۔ یہ بات کافی حیرت ناک ہے کہ حیدرآباد کی ریاست میں 48.2 فیصد باشندے تلگو زبان بولتے تھے اور مرہٹی بولنے والوں کی تعداد26.4فیصد تھی اور کنٹر بولنے والوں کی تعداد12.3 فیصد پائی جاتی تھی جبکہ صرف10.3فیصد رعایا اردو بولا کرتی تھی۔ سرکاری زبان کے اردو ہونے کے باوجود اس کے بولنے والوں کی تعداد دوسری زبانوں کے بولنے والوں کے مقابلے میں بہت کم ہونا لسانی تعصب کے اس ریاست میں نہ ہونے کا ثبوت ہے۔
نظام کی حکومت کے خاتمے کے بعد جو حکومت یہاں قائم ہوئی تھی ‘ اس میں بعض مسلم قائدین اور بااثر شخصیات نے سیاسی ماحول کے پیدا ہونے کے باعث اپنا مقام بنالیا تھا مگر اس دوران یہاں آر ایس ایس کا کوئی اثر تھا اور نہ ہی اس نے یہاں اپنا کوئی مقام بنالیاتھا۔
10ستمبر2020ء کو تلنگانہ بی جے پی نے یہاں کے وزیر اعلیٰ کے چندرشیکھر راؤ کی جانب سے نظام دکن کی اسمبلی اجلاس میں ستائش کرنے پر اس کا بہت برا مانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ کے سی آر کا یہ بیان عوام کی توہین ہے جو نظام کی حکومت کے ظلم سہتی رہی اور جس نے نظام کے خلاف ایک مسلح بغاوت کی تھی‘‘ ۔ تلنگانہ بی جے پی کے صدر بنڈی سنجے کمار نے کہا کہ بی جے پی مہاراشٹرا اور کرناٹک کی طرح تلنگانہ میں آزادی کی تقریب منائے گی اور سردار پٹیل کے مقررکردہ پولیس ایکشن کی یاد منائے گی‘‘۔ اس وقت بی جے پی اور آر ایس ایس کے برعکس سیکولر اور غیر متعصب سابق فوجی کیپٹن پانڈو رنگا ریڈی نے چیف منسٹر سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سکریٹریٹ کی نئی عمارت کا نام علاء الدین اور نئے مرکزی پولیس دفتر کا نام عابد حسین سفرانی رکھیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ مولوی علاء الدین نے 17جولائی1857ء کو سلطان بازار میں برٹش ریسیڈنسی پر حملہ کیا تھا ۔ وہ پہلے مجاہد آزادی تھے جنہیں انڈومان میں کالے پانی کی سزا کے لئے بھیج دیا گیا تھا۔ 35سال بعد رہائی کے باوجود انڈومان میں ہی وہ انتقال کرگئے۔ ایک اور مجاہد آزادی عابد حسن سفرانی بھی مسلمان تھے جو سبھاش چندر بوس کے مددگار تھے۔ اس لئے بنجارہ ہلز کے پولیس ہیڈکوارٹرز کے نام کو بھی ان کے ہی نام سے موسوم کیا جانا چاہیے۔‘‘ کیا ہندوستان کی جمہوری اور سیکولر ریاستیں جنہیں اپنی قوم پرستی پر بہت ناز ہے وہ ایسے شہید مسلم مجاہدین کے نام پر کوئی یادگار قائم کریں گی؟ ہرگز نہیں!
ریاست نظام کی حکومت کے خلاف جن لوگوں نے اس لئے بغاوت کی تھی کہ یہ حکومت برطانیہ کی وفادار تھی ۔ ایسے باغیوں میں مسلمانوں کے نام سرفہرست تھے اور ان مسلم مجاہدین میں رائچور ضلع کے کرلا پالی کے رہنے والے حسین صاحب بھی شامل تھے۔ 1857ء میں انہوں نے برطانوی حکومت کے خلاف سخت بغاوت کردی تھی اور بھیم راؤ اور کنچا گوڑا کے ساتھ مل کر 1858ء میں برطانوی حکومت کے مقابلے میں جنگ چھیڑ دی تھی۔ برطانوی حکومت نے انہیں گرفتار کرلیا تھا اور ایک توپ کے دھماکے کے ساتھ انہیں سزائے موت دے دی گئی۔
شعیب اللہ خاں : شعیب اللہ خاں 17اکتوبر1920ء کو کھمم ضلع کے وی ۔سبراوید میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام حبیب اللہ خاں تھا۔ انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا تھا۔ وہ اردو رسالے ’’ تاج‘‘ کے مدیر تھے۔ بعد میں وہ روزنامہ ’’ رعیّت‘‘ کے نائب مدیر بھی بن گئے تھے ان کی قومی پالیسیوں کے سبب سرکار نے ان کے رسالے اور اخبار کو بند کردی۔ انہوں نے اس کے بعد ایک اخبار ’’ اِمروز‘‘ نکالنا شروع کیا۔ انہیں ریاست حیدرآباد کی انڈین ینوین میں شامل ہونے والی عوامی تحریک کی تائید حاصل ہوگئی۔ شہر حیدرآباد میں انہیں ان کے گھر کے قریب 22اگست 1948ء کو گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ بعض لوگو ںنے ان کے ہاتھ بھی کاٹ دیئے۔
سردار طرہ باز خاں : روہیلا قبیلے کے قائد اور سردار ‘ طرّہ باز خاں کو حیدرآباد کا سب سے عظیم انقلابی رہنما تصور کیا جاتا تھا۔ طرہ باز خاں 500 روہیلا سپاہیوں کے سردار تھے۔ انہوں نے17جولائی1857ء کو ریسیڈنسی پر حملہ کیا تھا۔ بروقت کمک نہ آنے کے سبب ریسیڈنسی میں32 روہیلا سپاہی مارے گئے۔ برطانوی حکومت کو سبق سکھانے میں ناکامی پر طرہ باز خاں کو بہت افسوس ہوا۔ نظام کی فوج نے ان کے منصوبے پر پانی پھیر دیا۔ طرہ باز خاں نے اپنے دوست غلام یٰسین خاں سے 40 روپیوں کی امداد حاصل کی اور محفوط مقام پر روانہ ہوگئے۔ شاد نگر سے طرہ باز خاں ’’ ست کلوا‘‘ میں 14روہیلا سپاہیوں کے ساتھ رہنے لگے ۔ مقامی جمعدار کو اس کی اطلاع ملتے ہیں اس نے طرہ باز خاں کے خفیہ مقام پر حملہ کردیا۔ ان کا گھوڑا مارا گیا اور انہیں بھی دو گولیاں لگ گئیں۔ وہ سرکاری سپاہیوں کی قید میں اکیلے جیل جانا چاہتے تھے مگر15روہیلا بھی ان کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ طرہ باز خاں اور ان کے سیدھے بازو مولوی علاء الدین کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ 28جون1858ء کو انہیں انڈومان جزیرے میں کالے پانی کی سزاء کے لئے بھیج دیا گیا ۔ یہاں1884ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ گرفتاری کے وقت طرہ باز خاں نے عدالت میں جو بیان دیا تھا اس سے ان کی حیرت انگیز دلیری اور بہادری کا اظہار ہوتا ہے۔
ملا عبدالقیوم : – شمالی ہند میں سرسید احمد خاں کہا جاتا ہے کہ کانگریس کے خلاف ایک بیان دے دیا تھا۔ اس کے جواب میں پنڈت نہرو ایودھیا کنزورو کے الہ آباد میں لکھے گئے پمفلٹ کو ملا عبدالقیوم نے حیدرآباد دکن میں بالکل عام کردیا۔ حالانکہ وہ ایک سرکاری ملازم تھے۔اس زمانے میں سرکاری ملازم کے لئے یہ ایک بہت جرأت مندانہ حرکت تھی۔ اس کام میں ایک اور سرکاری ملازم شرف الحق نے ان کی مدد کی تھی۔ 29ستمبر1888ء کو ان دونوں سرکاری ملازمین کے خلاف نظام حکومت نے ایک نوٹس جاری کردی ۔ ملا عبدالقیوم نے اس نوٹس پر کوئی توجہ نہیں دی اور اپنے کام کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہاں تک کہ 27اکتوبر 1906ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت سروجنی نائیڈو نے ان کی یاد میں1941ء میں اپنا ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’’ میں انہیں خلوص اور عقیدت کا نذرانہ پیش کرتی ہوں۔ ملا عبدالقیوم صاحب بہت ہی عظیم مسلمان‘ عظیم ہندوستانی اور عظیم انسان تھے‘‘۔ ہندو مسلم یکجہتی کے قائل تھے۔ انہوں نے خصوصاً خواتین کی تعلیم ‘ ان کی اصلاحات اور دیگر مسائل میں طویل خدمات انجام دی تھیں۔
شہزادہ مبارزالدولہ : برطانوی حکومت کو روبہ زوال کرنے کے لئے طرہ باز خاں کی طرح نظام کے نوجوان بھائی شہزادہ مبارز الدولہ نے 1838ء میں اہل حدیث تحریک کے ساتھ حیدرآباد میں ایک مسلح بغاوت تیار کی تھی۔ کرنول کے نواب رسول خاں کو بھی مبارز الدولہ کی طرح انگریزوں سے سخت نفرت تھی اس سے پہلے کہ مبارز الدولہ انگریزوں کے خلاف کوئی مسلح کاروائی کرتے انگریزوں کو ان کی انٹلی جنس ایجنسی اور دیگر ذرائع سے اس سازش کا پتہ چل گیا۔ مبارز الدولہ کو سزائے عمر قید ہوگئی اور رسول خاں کو جلا وطن کرکے ان کی تمام جائیدادوں کو ضبط کرلیا گیا۔ مبارز الدولہ کی جدوجہد آزادی کو وہابیوں کی تحریک کہا جاتا تھا۔ اس تحریک نے ہندوستان کے ہر حصہ میں مسلمانوں میں وطن کی آزادی کا جوش و جذبہ پیدا کردیا۔ اس تحریک کا نعرہ تھا ’’ جان دیں گے ؛ وطن بچائیں گے‘‘ وہابی تحریک حیدرآباد اور ہندوستان کی آزادی کا ایک اہم ذریعہ بن گئی۔
کیا آر ایس ایس اور اس کی تنظیموں نے وطن عزیز کے لئے کوئی ایسا قابل فخر کارنامہ انجام دیا ہے؟