مضامین

ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی: ایک ماہر تعلیم سائنسداں

یہ معمولی کام نہیں تھا۔ طب و کیمیا پر کام کرنے والوں نے نباتات کا اس رخ سے مطالعہ نہیں کیا۔ پہلی بار ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی نے اس کی طرف توجہ دلائی۔

شارب ردولوی

متعلقہ خبریں
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی جدید عہد کے دانشور اور ماہر نباتیات ہیں۔ وہ ملک کے ایک بڑے علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا آبائی وطن گوپامؤ ضلع ہردوئی ہے۔ لیکن ان کی ولادت 1936 میں بارہ بنکی میں ہوئی۔

آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے نباتاتی کیمسٹری پر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی نے پی ایچ ڈی کے بعد اب تک 16 کتابیں نباتات، طب، سائنس اور تعلیم پر لکھی ہیں جنھیں نباتات قرآنی، معاشی پودے، طب نبویؐ اور نباتات، دنیائے اسلام کا عروج و زوال، سائنس نامہ، مشہور کتابیں ہیں۔

ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ساری کتابیں اردو اور انگریزی زبان میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر اقتدا حسین فاروقی نے اپنے میدان عمل میں جو بھی کام کئے ہیں اور جن ابعاد پر نباتات اور کیمیائی تحقیق کو فروغ دیا وہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن نباتات قرآنی پر جو کام انھوں نے کیا وہ ایسا اہم کام ہے جس نے انھیں بڑے سائنسدانوں کی صف میں شامل کر دیا۔

یہ معمولی کام نہیں تھا۔ طب و کیمیا پر کام کرنے والوں نے نباتات کا اس رخ سے مطالعہ نہیں کیا۔ پہلی بار ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی نے اس کی طرف توجہ دلائی۔

ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی ایک سائنٹسٹ ہیں اور چیزوں کو سائنسی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے ملک کا بڑا المیہ علمی پسماندگی اور سائنسی شعور کی کمی ہے۔ ہم 2023 میں سانس لے رہے ہیں۔ ہمارے چاروں طرف نئی نئی جاں فزا اور جان لیوا سائنسی ایجادات پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ زمانہ بہت دور کا نہیں ہے جب قصبے میں یا شہر میں چند لوگوں کے پاس فون یا ریڈیو تھا۔

آج بھی مجھے یاد ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کی تیز رفتار فتوحات کے بارے میں خبریں سننے کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اس جگہ جمع ہوجاتے تھے جہاں ریڈیو ہوتا تھا۔ یہی صورت ٹیلی ویژن کے ابتدا کی ہے۔ آج تو سائنس کے میدان میں دنیا نے جو جست لگائی ہے اس کی فہرست سازی بھی مشکل ہے۔

اس کے باوجود کیا ہمارے اندرسائنسی فکر یا سائنسی شعور پیدا ہوگیا ہے؟؟ میں دوچار دن پہلے ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی کا مضمون ”سماج کو سائنسی مزاج کی ضرورت“ پڑھ رہا تھا۔ اس مضمون کا عنوان ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ علم اور رازہائے فطرت کے دھماکہ خیز انکشافات کے باوجود سائنسی شعور بیدار نہیں ہوا ہے۔

میں اس سلسلے میں اپنا ایک واقعہ نقل کرنا چاہتاہوں۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے کہیں جانے کے لئے اپنی گاڑی نکالی۔ صبح کا وقت تھا، سڑک تقریباً سنسان تھی کہ اچانک میرے آگے چلنے والی گاڑی بغیر کسی اشارے کے رک گئی۔ میں نے جلدی سے گاڑی کاٹ کر آگے بڑھائی۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ سڑک پر سامنے سے بلی گذر گئی تھی۔

بلی کے راستہ کاٹنے کو عام طور پر منحوس سمجھاجاتا ہے۔ یہ حوالہ میں نے اس لئے دیا کہ اس واقعہ سے کسی عام آدمی مزدور، رکشے والے یا کسی خاتون کا تعلق نہیں تھا بلکہ کار میں بیٹھے شخص سے تھا جسے پڑھا لکھا اور مالی طور پر اچھی حیثیت کا ہونا چاہئے لیکن اس کے باوجود ”توہم“ سائنسی مزاج کا راستہ روکے ہوئے تھا۔

اس طرح تو ہمات کی ہماری زندگی میں کمی نہیں ہے۔ قدیم زمانے میں اگر دیکھا جائے تو حاکموں کی کوتاہ نظری، مذہبی علما کی تنگ نظری اور فکری حدود بندی نے سائنس اور سائنسی نظریات کو فروغ نہیں ہونے دیا۔ آج یہ بات بڑی آسانی سے کہہ دی جاتی ہے کہ مسلمانوں میں علم کی کمی ان کی ترقی میں رکاوٹ کا سبب ہے۔

بظاہر یہ بات صحیح ہے لیکن ہمیشہ ایسا نہیں تھا، مسلم  سائنسدانوں، مفکروں اور فلسفیوں کے کارناموں پر دنیا کو فخر ہے۔ آج سائنس کی ترقی انہی مسلم سائنسدانوں کی مرہون منت ہے جنھوں نے سینکڑوں سال پہلے، ریاضی، علم الہندسہ، فلسفہ، میٹا فزکس، کیمیا، علم ہیئت وغیرہ میں ایسے کارنامے انجام دئیے جن بنیادوں پر آج جدید سائنس کا نظام فروغ پا رہا ہے۔

ہم نہ جانے آج کس منزل پر ہوتے اگر ہم نے ان سائنسدانوں کی قدر کی ہوتی، ارباب حل و عقد نے ان کی کتابوں کو جلا دیا۔ کسی کو اس کے سائنسی انکشافات پر موت کی سزا دے دی، کسی کو سر بازار کوڑے مارے گئے، کسی کو خود اس کی تحقیقی کتاب کی جلد سے اس کے سر پر اتنا مارا گیا کہ وہ کتاب پارہ پارہ ہوگئی اور اس کی آنکھوں کی بینائی ختم ہوگئی۔

آج سے آٹھ سو-نو سو سال پہلے جب سائنسی تحقیقات کے وسائل نہیں تھے، ان لوگوں نے ایسے تحقیقی کارنامے انجام دئیے جن کے راستوں پر چل کر سائنس نے آگے بڑھنا سیکھا۔ لیکن کم علم و کوتاہ اندیش حکمرانوں اور محدود و تنگ نظر سائنسی مزاج سے محروم مفتیوں نے سائنسی فکر کے سفر میں رکاوٹیں ڈال کر علم اور تہذیب کے فروغ کو روکنے کی کوشش کی لیکن ان مظالم کے بعد بھی سائنسی فکراور تحقیق نے اپنا یہ سفر جاری رکھا۔

ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی ہمارے ان جدید سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم میں سے ہیں جو ہمیشہ نئی باتوں کی تلاش و جستجو میں رہے۔ علم اور خاص طور پر مسلمانوں میں علم اور سائنسی فکر کے فروغ کے لئے کوشاں رہے۔ وہ ”سائنس نامہ“ اور اپنے دوسرے مضامین کے ذریعہ مسلمانوں میں سائنسی مزاج پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ سائنسی فکر یا سائنسی مزاج وہ ذہنی رویہ ہے جو آزادانہ طور پر سوچتا، دیکھتا اور فہم و ادراک کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے۔ یہ کوئی بنیادی سائنس نہیں ہے بلکہ کسی چیز کے علمی جواز کی بات ہے۔

اگر کسی بات کا علمی جواز نہیں ہے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہمارے فیصلوں کو”توہم پرستی“ اور روایت پرستی نے گھیر رکھا ہے اور روایت پرستی اور توہم پرستی کے خلاف اقتدار حسین فاروقی، مسلمانوں کو ذہنی طور پر بیدار کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ابھی اس موضوع پر انھوں نے ایک بہت اہم مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ”سماج کو سائنس اور سائنسی مزاج کی ضرورت“ ہے۔ یہ مضمون ان کے علمی پروگرام کی ایک ضروری کڑی ہے۔ اپنے موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ:

’’سائنس اور سائنسی شعور کا مقصد اور مدعا اصل میں سماج سے غریبی کو دور کرنا، مذہب کے نام پر نفرت پھیلاکر اقتصادی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے سے روکنا ہے، اوہام پرستی کے نقصانات سے بھولے بھالے عوام کو باخبر کرنا ہے۔‘‘

آج بھی ہم سائنسی شعور سے کتنا دور ہیں، اس کا اندازہ ہمارے روز سامنے آنے والے رویوں سے کیا جاسکتا ہے۔ آج بھی ہمارے بہت سے فیصلے سائنسی فکر کے بجائے قدیم روایتوں اور قصوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ آج بھی غریب بستیوں میں بیماریوں کا ابتدائی علاج جھاڑ پھونک سے ہوتا ہے۔ چلئے ان کی جھونپڑیوں تک دھوپ تو پوری طرح نہیں پہنچتی علم اور تعلیم کی روشنی کا کیا سوال؟

یہ ہمارے معاشرے کا ایک افسوس ناک پہلو ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس طرح کے علاقوں میں معمولی معمولی باتوں پر فسادات پھیل جاتے ہیں لیکن توہم پرستی کی حکمرانی صرف غریب بستیوں تک محدود نہیں ہے۔ ان کی جڑیں ذہنوں میں دور تک پھیلی ہوئی ہیں اور انسان کے عمل میں ان کا شعوری اور لا شعوری دونوں طرح کا حصہ ہے۔

ابھی پولیو ڈراپ یا کووڈ 19 کے ویکسی نیشن میں کتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی نے لکھا ہے کہ سائنس کی مدد کے بغیر قوم ترقی کر ہی نہیں سکتی۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد پر علما کے فتوؤں نے مسلمان قوم کو سینکڑوں سال پیچھے ڈال دیا۔

ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ایک زمانے میں نہروں کا پانی لینے سے کسانوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ اس پانی کی طاقت (بجلی) تو نکال لی گئی ہے، اس سے سینچائی سے کیا فائدہ۔ اقتدار حسین فاروقی ہمیشہ سائنس کی تعلیم سائنسی شعور کی بیداری پر اپنی تحریروں اور تقریروں پر زور دیتے رہے ہیں وہ ہر موقع پر بڑے کرب کے ساتھ اس کا احساس دلاتے رہے ہیں کہ:

’’کسی بھی ملک و ملت کی ترقی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ وہاں سائنسی ترقی کے مدارج کیا ہیں۔ جو قومیں سائنسی ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرتی جاتی ہیں وہ دنیا میں عزت کا مقام رکھتی ہیں اور جو قومیں سائنسی مشاغل سے بے توجہی برتتی ہیں وہ معاشی اعتبار سے کمزور ہو کر ذلیل و خوار ہوتی ہیں اور دنیا کے نقشہ پر دھندلی نظر آتی ہیں۔ قوموں کی مفلسی، لاچاری، پست ہمتی، بیماری اور غلامی کا براہ راست تعلق سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیش رفت سے جڑا ہوا ہے۔ اس کا دین و مذہب سے دور کا واسطہ بھی نہیں، اس دنیا میں انفرادی یا اجتماعی عزت پانے کے لئے عصری علوم پر قدرت لازمی ہے۔‘‘

اقتدار حسین فاروقی ان دانشوروں اور ماہرین تعلیم میں ہیں جنھوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی اور دوسرے علوم کے حصول کو زندگی کے لئے ضروری قرار دیا۔ انھوں نے بار بار اس کا احساس دلایا کہ دینی علوم اور عصری علوم میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ عصری علوم کے حصول میں نہ دین حارج ہوتا ہے اور نہ دینی علوم میں عصری علوم رکاوٹ بنتے ہیں بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ دین بھی عصری علوم کی معلومات کے ساتھ ترقی کرتا ہے اور شکوک و شبہات کو دور کرنے میں مدد کرتا ہے۔

ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی ایک نام آور اور ملت کا غم رکھنے والے سائنسداں ہیں۔ انھوں نے ”دنیائے اسلام کا عروج و زوال“ لکھ کر ایک طرف اپنے کرب کا بوجھ ہلکا کیا تو دوسری طرف مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ ہم وہ ہے ہی نہیں جو آج نظر آتے ہیں اور اگر ہماری آج کی صورت حال کا کوئی ذمہ دار ہے تو وہ خود علم اور سائنسی فکر سے ہماری دوری ہے۔

انھوں نے الرازی، جابر بن حیان، الخوارزمی، الکندی اور دوسرے سائنسدانوں کے عظیم کاموں کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ ”پدرم سلطان بود“ بلکہ اس لئے کہ ان کی تحقیقات، فلسفے، فلکیات اور سائنس (کیمیا) میں ان کے انکشافات شاید قومی سطح پر ہمیں بیدار کر سکیں اور ایک بار پھر ہم ان چھوڑے ہوئے میدانوں کو سر کر سکیں۔

ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی اس سلسلہ میں علامہ اقبال کے ہم نوا ہیں کہ ”ذرانم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی“۔ اسی لئے انھوں نے اکیسویں صدی کے سائنس دانوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور توجہ دلائی ہے کہ ہمیں ان کی مثال بننے کی ضرورت ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے راستوں پر چل کر ہی ہم اس زوال کے سفر کو روک کر اپنا راستہ بدل سکیں گے۔

مسلمانوں میں علم کی کمی اور شدت پسندی نے دنیا بھر میں ان کی زبوں حالی میں اضافہ کیا ہے۔ شدید افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان ہر میدان میں پیچھے ہیں۔ جدید سائنسی اور ٹیکنالوجی کے اس عہد میں اس کی جھولی میں کیا ہے؟ نئی ایجادات اور سائنسی پیش رفت میں اس کا  Contribution کتنا ہے؟

اس بات کی گنتی میں سربلندی کی کوئی بات نہیں ہے، کتنے مسلم ممالک ہیں؟ ان کی معاشی صورت حال، تعلیم کا معیار، سائنسی تجربات کی سہولتیں کیا ہیں؟ افسوس تو اس بات کا ہے کہ سب آپس کے فتنہ وفساد کا شکار ہیں۔ دنیا کی اتنی بڑی آبادی دوسروں کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر خانہ جنگی کا شکار ہے اور اسے احساس بھی نہیں ہے کہ یہ حقیقی مسائل نہیں بلکہ ہمیں اپنا آلہ کار بنانے کے لئے یہ صورت پیدا کی جارہی ہے۔

اگر آج ہندوستانی مسلمانوں کے تعلیمی رجحان پر نظر ڈالیں تو سائنس کے طلبہ کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے جب کہ ”کامرس“ اور ”تجارتی انتظامیہ“ کی طرف رخ زیادہ ہے۔ اس لئے کہ اس میں فوری ملازمت کی امید رہتی ہے۔ لیکن اس طرح زندگی تو گزر جاتی ہے، مگر بات صرف زندگی گذارنے کی نہیں ہے بلکہ سماجی وقار اور علم و سائنس کے میدان میں اپنے مرتبے اور وجود کے احساس کی ہے۔

علم وعمل کی اس کمزوری اور سائنسی تعلیم کی طرف بے توجہی پر اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی نے لکھا ہے کہ:

’’مسلم ممالک مغربی ممالک سے بہت پیچھے ہیں، سائنسی اعتبار سے تو یہ فرق افسوس ناک حد تک شدید ہے۔ مثال کے طور پر مسلم دنیا کی یونیورسٹیوں سے ہر سال سائنس کے طالب علم 500 پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں جب کہ انگلینڈ جیسے چھوٹے ملک میں تین ہزار نوجوان ہر سال پی ایچ ڈی کی ڈگری پاتے ہیں۔

ایک اور عبرت ناک مثال ملاحظہ ہو، 1901 سے 2008 تک یہودیوں نے جن کی آبادی دنیا کی آبادی کا فقط 0.2 فیصد ہے، سائنس میں نوبل انعام جیتنے کا ایسا ریکارڈ قائم کیا جو حیرت انگیز ہے۔ یعنی کل 500 نوبل انعامات میں 150 انعامات یہودی سائنسدانوں نے حاصل کئے۔ اس کے بر خلاف مسلمان ملکوں کی جانب سے صرف ایک مسلمان نے علم کیمیا میں یہ انعام حاصل کیا۔“ (دنیائے اسلام کا عروج و زوال صفحہ 93)

اگر موقع ہو اور اس کا سروے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے طالب علموں کو فخریہ ذکر کرنے کے لئے ابن سینا اور جابر بن حیان کے نام تو یاد ہیں لیکن اس سے زیادہ نہ واقفیت ہے اور نہ جاننے کی تمنا۔

یہاں پر میرا دکھ کچھ اور ہے۔ اب تک کی زندگی میں تعلیم  و تعلم سے وابستگی کی وجہ سے مجھے اس کا ذاتی تجربہ ہے کہ بہت لڑکے اور لڑکیاں کسی بڑی سند اور بڑے ادارے کے بارے میں اپنی تنگ دستی کی وجہ سے سوچ بھی نہیں پاتے۔ ہمارے بہت سے ارباب بست و کشاد نے بڑے بڑے ادارے قائم کئے ہیں لیکن وہ غریب طلبہ کی تعلیم میں کتنی مدد کرتے ہیں اس کا مجھے علم نہیں۔

عیسائی مشنری کالجوں میں کسی عیسائی طالب عالم کے داخلے کواس لئے رد نہیں کیا جاتا کہ وہ فیس کی بڑی رقم ادا کرنے کا اہل نہیں ہے۔ ایسی صورت جب بھی آئی تو انھوں نے اپنے ادارے کی طرف سے اس طالب علم کے اخراجات جمع کر دیئے۔

مسلمان کتنے لڑکے اور لڑکیاں ہیں؟ سائنس میں ریسرچ کی بات الگ بات ہے، میڈیکل اور انجینئرنگ میں داخلہ نہیں لے پاتے، اس لئے کہ انھیں  Motivate  کرنے اور مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ڈاکٹر اقتدار فاروقی کو کم از کم دو عشروں سے تو جانتا ہی ہوں، بلامبالغہ ان کی مقامی تقریر اور جلسوں میں شریک رہا ہوں جہاں انھوں نے تعلیم اور سائنس کے بارے میں گفتگو کی۔

ہمیں ان کے مضامین پڑھنے کی ضرورت ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ مسلم ادارے چلانے والے کتنے لوگوں نے ان کی کتابیں پڑھی ہیں۔ آج ترقی اور سوسائٹی میں اعتبار حاصل کرنے کے لئے ہمیں خود کو سماج کے لئے ”ناگزیر“ بنانا ہوگا۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم میں ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی جیسا کوئی دانش ور موجود ہے۔ ذرا ان کی تحریر کی طرف توجہ دیں تو ہم، روایتوں اور رواجوں کی گرفت سے اپنے کو آزاد کر کے اپنے اندرسائنسی و فکری شعور کو فروغ دیں کہ یہی ایک راستہ ہمیں ایک بار پھر عظمتوں سے ہم کنار کر سکتا ہے۔

شارب ردولوی (15مارچ 2023)