مضامین

مہرالنّسا سے ملکہ نورجہاں بیگم تک

ملکہ نور جہاں کی شخصیت میں تاریخ اوررومان اس طرح مکمل مل گئے ہیں کہ تاریخ کے ساتھ ساتھ شعروادب میں بھی وہ ایک اہم موضوع سخن کے طورپر زندہ ہے ۔

ملکہ نور جہاں کی شخصیت میں تاریخ اوررومان اس طرح مکمل مل گئے ہیں کہ تاریخ کے ساتھ ساتھ شعروادب میں بھی وہ ایک اہم موضوع سخن کے طورپر زندہ ہے ۔

 وہ خود بھی سخن فہم ،معاملہ فہم، امور مملکت سے باخبراور شاعرہ تھی۔ وہ مرزا غیاث الدین بیگ کی بیٹی تھی جو صفوی عہد میں اپنے والد کے ایران سے ہندوستان تک کے سفر کے دوران میں قندھار کے مقام پرپیدا ہوئی اورمہرالنّسا نام پایا۔

 مرزا غیاث کی اکبربادشاہ کے دربارتک رسائی ہوئی اور وہیں مہرالنّسا کی شہزادہ سلیم کے دل تک رسائی ہوئی۔

 اکبرکو یہ بات پسند نہ آئی اوراس نے اپنے ایک اہل کارعلی قلی خان (جس کو شیرانگن کا خطاب بھی ملا)اسے اس کی شادی کردی اور اسے بنگال میں تعنیات کردیا۔ شیرانگن وہیں ایک معر کے میں مارا گیا۔

 بعض لوگ اس کے قتل کا الزام جہانگیر کو دیتے ہیں۔ جہانگیر کے عہد میں مہرالنّسا کوواپس بلالیا اور جہانگیر نے اس سے شادی کرلی اور وہ مہرالنّسا سے نورجہاں بیگم ہوگئی۔

 اس کے بعدتاریخ گواہ ہے کہ وہ کس طرح امورمملکت میں شامل اورداخیل ہوئی بلکہ کہا جاتا ہے جہانگیر کے پردے میں اصل حکمران وہی تھی۔

1645ء میں اس کی وفات کے بعداس کی وصیت کے مطابق اسے لاہور میں دفن کیاگیا اور رواوی کنارے اس کا مزار اب بھی موجود ہے۔ اس کے قریب ہی جہانگیر کا مقبرہ ہے ۔ ملکہ کولاہور بہت پسند تھا اوریہ شعر بھی ملکہ سے ہی منسوب کیاجاتا ہے۔

 لاہور را پہ جان برابر خریدہ ایم

 جان وادہ ایم وجنت دیگر خریدہ ایم

(لاہور کوہم نے جان کے برابر قیمت پرحاصل کیا ہے وہم شے جان قربان کرکے ایک نئی جنت خریدی ہے)

٭٭٭