سیاستمضامین

G-7دنیا کے سات بڑوں کا اجلاس

گروپ سات، نظریاتی طور پر دنیا کے 7 ہم خیال، امیر و ترقی یافتہ صنعتی ملکوں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ پر مشتمل ہے۔ گروپ کا آغاز 1973ء میں اُس وقت ہوا جب عرب اسرائیل جنگ کے دوران سعودی فرماں روا شاہ فیصل مرحوم نے عربوں کے معاملے میں معقولیت پر مجبور کرنے کے لیے مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی بند کردی تھی۔ اس کے نتیجے میں یورپ اور امریکہ شدید بحران کا شکار ہوئے اور امریکی وزیر خزانہ نے اپنے جرمن (اُس وقت مغربی جرمنی) ہم منصب ہیلمٹ شمٹ، فرانسیسی وزیر خزانہ گسکارڈدیستان اور برطانیہ کے انتھونی باربر کو مشورے کے لیے امریکہ آنے کی دعوت دی۔ اجلاس کے دوران معیشت کے چاروں ماہرین نے بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پر غور کیا۔ گفتگو بے حد مفید رہی اور بات چیت کے اختتام پر جب یہ چاروں افراد رسمی ملاقات کے لیے امریکی صدر نکسن کے پاس پہنچے تو وہیں قصر مرمریں (وہائٹ ہائوس) کی لائبریری میں ایک اور اجلاس ہوا جس میں تیل بحران کے ساتھ دوسرے معاشی مسائل، امکانات اور مواقع پر تفصیلی بات چیت کے بعد مل کر کام کرنے کا عہد کیا گیا۔ اس غیر رسمی و غیر روایتی مجلس کا نام ”لائبریری گروپ“ طے پایا۔ کچھ دن بعد جاپان بھی اس گروپ میں شامل ہوا اور لائبریری گروپ G-5بن گیا۔ دو سال بعد جب گسکارڈ دیستان فرانس کے صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے گروپ پانچ کا سربراہی اجلاس طلب کیا۔ پیرس میں 1975ء کے اس تین روزہ اجلاس کو اقتصادی چوٹی کانفرنس یا ورلڈ اکنامک سمٹ کا نام دیا گیا۔ اس اجلاس میں اٹلی بھی شریک ہوا، چنانچہ اس محفل کو گروپ 6 کہا جانے لگا۔

مسعود ابدالی

دنیا کے سات بڑے ممالک یعنی گروپ سات یا G-7 کا سربراہی اجلاس جرمن شہر کُرن (Krun) کے تاریخی قلعے شلوس ایلامائو (Schloss Elmau) میں ختم ہوگیا۔ کوہِ الپس کے دامن میں یہ چار منزلہ عمارت اس اعتبار سے تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ دوسری جنگِ عظیم میں نازیوں کی شکست کے بعد یہاں ہٹلر کے ہاتھوں بے گھر کیے جانے والے یہودیوں نے پناہ لی تھی۔ بلند مینار والا یہ قلعہ 1914ء میں ایک فلسفی اور پروٹسٹنٹ عالم جوہانس ملر اور ماہرِ تعمیرات پروفیسر کارل سیٹلر نے تعمیر کیا تھا۔ جون کی 26 سے 28تاریخ تک جاری رہنے والی یہ بیٹھک گروپ سات کی 48 ویں سربراہ کانفرنس تھی۔ گزشتہ چوٹی کانفرنس ایک سال پہلے لندن میں منعقد ہوئی تھی۔ سینتالیسویں سربراہی اجلاس کا سب سے اہم فیصلہ رکن ممالک کی کارپوریشنوں پر کم سے کم 15 فیصد انکم ٹیکس کا نفاذ تھا۔
گروپ سات، نظریاتی طور پر دنیا کے 7 ہم خیال، امیر و ترقی یافتہ صنعتی ملکوں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ پر مشتمل ہے۔ گروپ کا آغاز 1973ء میں اُس وقت ہوا جب عرب اسرائیل جنگ کے دوران سعودی فرماں روا شاہ فیصل مرحوم نے عربوں کے معاملے میں معقولیت پر مجبور کرنے کے لیے مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی بند کردی تھی۔ اس کے نتیجے میں یورپ اور امریکہ شدید بحران کا شکار ہوئے اور امریکی وزیر خزانہ نے اپنے جرمن (اُس وقت مغربی جرمنی) ہم منصب ہیلمٹ شمٹ، فرانسیسی وزیر خزانہ گسکارڈدیستان اور برطانیہ کے انتھونی باربر کو مشورے کے لیے امریکہ آنے کی دعوت دی۔ اجلاس کے دوران معیشت کے چاروں ماہرین نے بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پر غور کیا۔ گفتگو بے حد مفید رہی اور بات چیت کے اختتام پر جب یہ چاروں افراد رسمی ملاقات کے لیے امریکی صدر نکسن کے پاس پہنچے تو وہیں قصر مرمریں (وہائٹ ہائوس) کی لائبریری میں ایک اور اجلاس ہوا جس میں تیل بحران کے ساتھ دوسرے معاشی مسائل، امکانات اور مواقع پر تفصیلی بات چیت کے بعد مل کر کام کرنے کا عہد کیا گیا۔ اس غیر رسمی و غیر روایتی مجلس کا نام ”لائبریری گروپ“ طے پایا۔ کچھ دن بعد جاپان بھی اس گروپ میں شامل ہوا اور لائبریری گروپ G-5بن گیا۔ دو سال بعد جب گسکارڈ دیستان فرانس کے صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے گروپ پانچ کا سربراہی اجلاس طلب کیا۔ پیرس میں 1975ء کے اس تین روزہ اجلاس کو اقتصادی چوٹی کانفرنس یا ورلڈ اکنامک سمٹ کا نام دیا گیا۔ اس اجلاس میں اٹلی بھی شریک ہوا، چنانچہ اس محفل کو گروپ 6 کہا جانے لگا۔
اس کے اگلے برس امریکی صدر جیرالڈ فورڈ نے اپنی کالونی پورٹوریکو میں سربراہی اجلاس کی میزبانی کی، جہاں کینیڈا کے وزیراعظم آنجہانی پیرے ٹروڈو (موجودہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے والد) خصوصی دعوت پر شریک ہوئے، جس کے بعد یہ ادارہ گروپ سات بن گیا۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے تاسیس کی یاد تازہ کرنے کے لیے 1997ء کا سربراہی اجلاس ڈینور (Denver) شہر کی نوتعمیر شدہ سرکاری لائبریری میں طلب کیا، جس میں روسی صدر بورس یلسن بھی مدعو کیے گئے اور یہ فورم گروپ آٹھ بن گیا۔2014ء کی سربراہ کانفرنس بحر اسود کے ساحلی شہر سوچی (روس) میں ہونی تھی لیکن کریمیا پر قبضے کے بعد روس کو گروپ آٹھ سے نکال دیا گیا۔ اُس سال سربراہ کانفرنس بیلجیم کے شہر برسلز میں ہوئی، اور یہ تنظیم اب دوبارہ گروپ سات ہے۔
اپنی ولادت کے پہلے پانچ چھ سال تک گروپ سات اقتصادی اتحاد کے طور پر کام کرتا رہا۔ کچھ علمائے سیاست گروپ سات کو آزاد عالمی مرکزِ دانش یا Think tankقرار دیتے ہیں۔ لیکن تمام ممالک ایک خاص سیاسی نظریہ و عقیدہ رکھتے ہیں اور دنیا پر چودھراہٹ قائم رکھنے کے لیے یہ اپنے عزم کے اظہار میں کسی مداہنت سے بھی کام نہیں لیتے۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں امریکی صدر رونالڈ ریگن اور برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے زور اور اصرار پر عالمی سیاست اور دفاعی امور پر بھی بحث مباحثہ شروع ہوا۔
گروپ سات ممالک کی مجموعی آبادی دنیا کے 10فیصد کے برابر ہے لیکن دنیا کی 31فیصد دولت ان سات ممالک میں ہے۔ گروپ سات کی دولت و ثروت کا تخمینہ جی ڈی پی کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔ اِن ممالک میں جہاں وسائل اور دولت کا انبار ہے وہیں گروپ سات دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کا بھی ایک بڑا سبب ہے کہ 21فیصد کاربن کا اخراج ان ہی سات ملکوں سے ہوتا ہے۔
اس بار گروپ سات چوٹی کانفرنس کا خیالیہ یا theme ”عادل دنیا کی طرف پیش قدمی“ تھا، اور جن موضوعات پر بحث کی گئی وہ کچھ اس طرح ترتیب دیے گئے:
٭سیاسی، عسکری اور ماحولیاتی اعتبار سے پائیدار عالمی نظام
٭اقتصادی استحکام
٭صحت مند زندگی
٭بہتر مستقبل کے لیے سرمایہ کاری
٭اتحاد میں برکت (UNITED TOGETHER)
یہ گروپ چونکہ بنیادی طور پر اقتصادیات کا فورم ہے اس لیے اس میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور اس نوعیت کے دوسرے ادارے بھی شریک ہوتے ہیں۔ اِس بار ہندوستان، ارجنٹینا، انڈونیشیا، سینیگال اور جنوبی افریقہ کے سربراہان بھی خصوصی دعوت پر بطور مبصر شریک ہوئے۔ یوکرین روس تنازعے میں کریملن کے خلاف سخت مؤقف اختیار نہ کرنے پر تین ماہ پہلے جرمنی کے چانسلر اولاف شلز نے ہندوستان کا دعوت نامہ منسوخ کرنے کا عندیہ دیا تھا، لیکن صدر بائیڈن کے اصرار پر جرمنی نے یہ اعتراض واپس لے لیا۔
ایجنڈا اپنی جگہ، لیکن یوکرین بات چیت پر چھایا رہا، تاہم مشترکہ اعلامیے میں اس کا براہِ راست کوئی ذکر نہ تھا۔ اختتام پر مندرجہ ذیل چار نکاتی ”عہدنامہ“ جاری ہوا:
٭گروپ سات رہنمائوں نے انسانی حقوق کے تحفظ کا عزم کرتے ہوئے چین میں اویغور مسلمانوں کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کی شدید مذمت کی۔
٭کاربن سے پاک ماحول کے حصول کیلئے2030ء تک Decarbonized Road کے ہدف کا اعادہ کیا گیا۔
٭اسی کے ساتھ 2035ء تک توانائی کے باقی شعبوں کو کاربن سے پاک یا ڈی کاربونائزڈ کرنے کا ہدف طے ہوا۔
٭گروپ نے شاہراہیں، مواصلاتی ڈھانچے اور ماحولیاتی کثافت کے خاتمے کے لیے اگلے پانچ سال کے دوران دنیا بھر میں 600 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا وعدہ کیا جس میں سے نصف یورپی ممالک فراہم کریں گے۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے ”کاربن سے پاک ماحول“ کی مختصر سی تشریح پر چند سطور:
پیٹرولیم مصنوعات اور کوئلہ دورِ حاضر کا روایتی ایندھن ہے۔ خام تیل اور گیس کا کیمیاوی نام ہائیڈروکاربن ہے۔ کوئلے سے حاصل ہونے والی گیس میتھین (methane) بھی ہائیڈروکاربن ہے جس کے جلنے سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونوآکسائیڈ اور دوسرے مرکبات خارج ہوتے ہیں جو نہ صرف انسانی صحت کے لیے مضر ہیں، بلکہ یہ کرئہ ارض کی طرف آنے والی اوزون سے بچائو کے لیے قدرت کی تعمیر کردہ مدافعتی تہہ یا Ozone Layerمیں شگاف کا سبب بھی بن رہی ہے۔ کاربن سے پاک سڑک و شاہراہ کا مطلب ہے کہ 2030ء کے بعد پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں ترک کردی جائیں گی جبکہ 2035ء کے بعد بجلی گھروں کے لیے بھی تیل کے استعمال پر پابندی ہوگی۔
بادی النظر میں مشترکہ اعلامیے سے انصاف پر مبنی مستحکم و پائیدار دنیا کی تعمیر کا عزم ظاہر ہوتا ہے، لیکن بات چیت کی جو تفصیل امریکی ذرائع ابلاغ پر شائع ہوئی ہے اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ممالک دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
ترقی و خوشحالی کے لیے جس خطیر سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ دراصل چین کے Belt and Road Initiatives یا BRIکے توڑ کے لیے ہے۔ چین نے One Belt one Roadکے نام سے برّی اور آبی شاہراہوں کا یہ عالمی منصوبہ 2013ء میں شروع کیا تھا جسے اب BRIکہا جاتا ہے۔امریکہ نے اس مقصد کے لیے 200 اور یورپی یونین نے 300 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے جبکہ جاپان اور کینیڈا 100 ارب ڈالر فراہم کریں گے۔ ان منصوبوں کے لیے امریکہ کی ترجیحات صحت عامہ، صنفی مساوات اور Digital Infrastructure ہیں۔ کانفرنس میں بحث مباحثے کے دوران یورپی رہنمائوں نے دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو عالمی جمہوریت، عقیدے کی آزادی اور آزاد پریس کے لیے خطرہ قرار دیا۔ چینی وزارتِ خارجہ نے بعض رہنمائوں کی تقریروں پر سامراجی تکبر کی پھبتی کستے ہوئے یورپی رہنمائوں کو سردجنگ کی گھسی پٹی حکمتِ عملی ترک کرنے کا مشورہ دیاہے۔
اسی تناظر میں شمالی کوریا نے ایشیائی نیٹو کے قیام کا خطرہ ظاہر کیا ہے۔ گروپ سات اور اس کے فوراً بعد نیٹو سربراہ کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے سرکاری خبر رساں ایجنسی KCNA کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان ایشیائی نیٹو بنانے کی کوشش کررہے ہیں جس کا ہدف شمالی کوریا ہوگا۔ بیان میں شمالی کوریا نے نیٹو کی میڈرڈ(ہسپانیہ) چوٹی کانفرنس میں جاپان اور جنوبی کوریا کے سربراہان کی بطور مبصر شرکت اور اس دوران امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کے خصوصی سربراہی اجلاس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ”تین کا یہ ٹولہ“ شمالی کوریا کے خلاف معاندانہ عزائم رکھتا ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ نے کچھ ایسے ہی تحفظات کا اظہار معاہدئہ اربع یا QUADکے خلاف کیا ہے۔ ”کواٖڈ“ ہندوستان، جاپان، آسٹریلیا اور امریکی بحریہ کے درمیان ایک غیر تحریری فوجی معاہدہ ہے جس کا مقصد بحرالکاہل میں آزادانہ جہازرانی کو یقینی بنانا ہے۔ بیجنگ کا خیال ہے کہ کواڈ اب جنوب ایشیائی نیٹو کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔
اسی کے ساتھ امریکی سپریم کورٹ نے حال ہی میں جو دوفیصلے جاری کیے ہیں، گروپ سات کے قائدین اسے سربراہ کانفرنس میں کیے جانے والے فیصلوں کے منافی قرار دے رہے ہیں۔
افتتاحی اجلاس سے دو دن پہلے امریکی عدالتِ عظمیٰ نے اسقاطِ حمل کے معاملے کو ریاستوں کے حوالے کردیا۔ 1973ء میں سپریم کورٹ نے ”میرا جسم میری مرضی“ کا اصول تسلیم کرتے ہوئے اسقاط کو پُرامید مائوں کا حق قرار دیا تھا۔ لیکن اب 3 کے مقابلے میں 6 ججوں نے فیصلہ دیا کہ اسقاط کے جائز یا ناجائز ہونے کا فیصلہ ریاستوں کو کرنا چاہیے۔ تیرہ سے زیادہ ریاستوں کی مقننہ اسقاط کو غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔ گروپ سات کا کہنا ہے کہ صنفی مساوات اور خواتین کا اقتصادی استقلال اِس سال کے فیصلوں کی روح ہے اور امریکی سپریم کورٹ نے اسقاطِ حمل کا حق خواتین سے چھین کر حوا کی بیٹی کو دوسرے درجے کی مخلوق بنادیا ہے جسے اپنے جسم پر بھی اختیار حاصل نہیں۔ فیصلے سے امریکی سپریم کورٹ کی نظریاتی تقسیم ایک بار پھر سامنے آگئی۔ تینوں لبرل ججوں نے فیصلے کی مخالفت کی۔ دلچسپ بات کہ اس فیصلے کا مسودہ کچھ عرصہ پہلے Leak ہوچکا تھا۔
امریکی عدلیہ میں قدامت پسندوں نے پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے ایک اور فیصلہ یہ سنایا کہ مقتدرہ برائے تحفظِ ماحول (EPA)کو کلیدی ضابطے بنانے کا اختیار نہیں۔ اس سلسلے میں قانون سازی وفاقی اور ریاستی مقننہ کو کرنی چاہیے۔ یہ فیصلہ بھی نظریاتی بنیادوں پر ہوا، اور تینوں لبرل ججوں نے اکثریتی فیصلے کے خلاف نوٹ لکھے۔ اس فیصلے سے جہاں EPAکی قدغنوں سے پریشان امریکی سرمایہ کار و صنعت کار، خاص طور پر تیل اور تعمیرات کی صنعت سے وابستہ طبقے نے اطمینان کا سانس لیا ہے وہیں گروپ سات کی قیادت کو ڈر ہے کہ EPA مفلوج ہوجانے کی صورت میں 2030ء تک کاربن سے پاک شاہراہوں کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہوجائے گا۔
صدر بائیڈن نے اپنے حلیفوں کو یقین دلایا ہے کہ ان دونوں معاملات پر قانون سازی کے ذریعے وہ عدالتی فیصلوں کے منفی اثرات کے سدباب میں کامیاب ہوجائیں گے، لیکن زمینی حقائق اور نومبر کے انتخابات کے لیے عوامی جائزے برسراقتدار ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے انتہائی مایوس کن ہیں۔ سیاسیات کے پنڈتوں کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ دونوں حکمراں جماعت کے ہاتھ سے نکلتے نظر آرہے ہیں۔ گروپ سات کا بھی یہی خیال ہے کہ دعوے اور وعدے اپنی جگہ لیکن نومبر کے انتخابات کے بعد قانون سازی کے اختیار سے محروم بائیڈن انتظامیہ عملاً اپاہج بطخ یا Lame duckبن کر رہ جائے گی۔