طنز و مزاحمضامین

ایک اور وصیت نامہ

عطاءالحق قاسمی

میرے لاڈلے ڈکیت بیٹے!
امید ہے تم خیریت سے ہو گے اور لوگوں کی خیریت مسلسل خطرے میں ڈال رہے ہو گے، میرے بیٹے، سب سے بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے میں نے تمہاری تربیت پر خاص توجہ دی تھی، میری خواہش تھی کہ تم اپنے خاندان کا نام روشن کرو چنانچہ میں ہر واردات میں تمہیں ساتھ لے کر جایا کرتا تھا بلکہ اس سے بھی بہت پہلے یعنی جب تم بہت چھوٹے تھے، میں تمہاری تربیت سے غافل نہیں تھا، تمہیں یاد ہے کہ نہیں جب تم کھیل کود کے دوران اپنے ساتھیوں سے پٹ کر گھر آتے تھے تو میں تمہیں مزید پیٹا کرتا تھا کہ مار کھا کر کیوں آئے ہو۔میری خواہش تھی کہ تمہارے دوستوں میں کوئی ایسا بچہ نہ ہو جس کے والدین رزقِ حلال پر یقین رکھتے ہوں کیونکہ محدود آمدنی کے باوجود انہیں خوش وخرم دیکھ کر تمہارے دل میں ترقی کرنے کی خواہش ماند پڑ سکتی تھی جبکہ اس کے برعکس میں تمہیں ان ٹی وی ڈراموں کی کیسٹیں دیکھنے کے لیے دیا کرتا تھا جن میں عالیشان گھر،شاندار کاریں اور زرق برق لباس میں ملبوس خوبصورت لڑکیاں دکھائی گئی ہوتی تھیں اور ان بچوں سے دوستی بڑھانے پر زور دیتا تھا جن کے والدین راتوں رات امیر ہو گئے تھے، مجھے یاد ہے اس زمانے میں میری تربیت کے مثبت اثرات تمہاری سوچ میں ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے چنانچہ ایک دفعہ تم نے ایک شاعر کی نظم سنی جو دو لفظوں یعنی ”پیسے کیسے“ پر مشتمل تھی تو تم نے فوراً ایک بڑے پلازہ جس پر ہذامن فضل ربی لکھا تھا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے مخاطب کرکے کہا تھا ”ابو ایسے“ جس پر میں بہت خوش ہوا تھا۔ مگر ڈکیت بیٹے، میں نے تم سے جو امیدیں قائم کی تھیں، تم ان پر پوری طرح پورے نہیں اترے، میں تو چاہتا تھا کہ تم ڈاکہ زنی مار دھاڑ اور سفاکی کی وہ انتہا کرو کہ ایک طرف لوگوں کو بلکہ مجھے یقین آ جائے کہ تم واقعی میرے بیٹے ہو اور دوسری طرف تقابلی مطالعہ کے نتیجے میں لوگ مجھے اچھے لفظوں سے یاد کرنے لگیں مگر تمہاری نرم خوئی کی وجہ سے مجھے ہر جگہ گالیاں پڑ رہی ہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ باپ بہت بڑا خنزیر تھا بیٹا اس سے کم خنزیر ہے۔ کیا اپنے وقت کے بہت بڑے ڈکیت باپ کا نام اس طرح روشن کیا جاتا ہے کہ پستول دکھا کر اور گھر والوں کو باندھ کر سارا مال وزر سمیٹ لیا جائے اور اس گھر کی بہو، بیٹیوں کو اپنی بہو، بیٹیوں کی نظر سے دیکھا جائے؟ کسی نے ذرا آہ وزاری کا ڈرامہ کیا کہ یہ زیور جو تم لے جا رہے ہو یہ میں نے بیٹی کے جہیز کے لیے تیار کیا تھا اور تم زیور وہیں چھوڑ کر کسی اگلے گھر کو لوٹنے چل پڑو؟کوئی ڈکیتی کے دوران مزاحمت کرے اور تم گولیاں اس کے سینے میں نہ اتارو؟بیٹے تمہیں کیا ہو گیا ہے۔کیا میں نے تمہیں پال پوس کر اس لیے بڑا کیا تھا کہ تم اپنے باپ دادا کے نام پر بٹہ لگاؤ تم سے تو آج کے وہ پڑھے لکھے نوجوان بہتر ہیں جو کھاتے پیتے اور معزز خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کی آنکھوں میں سور کا بال ہے۔وہ جب کسی گھر میں داخل ہوتے ہیں سب کچھ پامال کرتے چلے جاتے ہیں ویسے تمہاری صحت تو ٹھیک ہے ہو سکے تو کسی اچھے حکیم سے مشورہ کرو۔ میرے ڈکیت بیٹے ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اگر محسوس کرتے ہو کہ یہ سب کچھ تم سے نہیں ہو سکتا تو اس معزز پیشے کو بدنام کرنے کی بجائے تم کوئی کاروبار شروع کرلو،تم اگر چاہو تو میں تمہیں ملک پلانٹ یا منرل واٹر پلانٹ کے لیے رقم فراہم کر سکتا ہوں ملک پلانٹ کے لیے زیادہ انویسٹمنٹ کی ضرورت پڑے گی جبکہ منرل واٹر پلانٹ تمہارے گھر کے صحن میں کارپوریشن کے نلکے کی صورت میں موجود ہے بس تمہیں پلاسٹک کی بوتلیں خریدنا ہوں گی اور یا پھر منرل واٹر کے خوبصورت لیبل چھپوانا ہوں گے البتہ ان دونوں مصنوعات کی پبلسٹی پر خاصی بڑی رقم خرچ کرنا پڑے گی مگرتم اس کی پروا نہ کرو میرے کمزور ہاتھوں میں اب بھی اتنی جان ہے کہ یہ ساری رقم ایک ہی ہلے میں جمع کر سکتا ہوں۔ پیارے بیٹے! کچھ کاروبار اس کے علاوہ بھی میرے ذہن میں ہیں مثلاً کوئی فینانس کمپنی کھول کر لوگوں کے کروڑوں روپے ہڑپ کر سکتے ہو، اسٹاک ایکسچینج کی ہیرا پھیری میں حصہ لے سکتے ہو، کوئی بااثر سا قبضہ گروپ جوائن کر سکتے ہو حکومت کی نجکاری پالیسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اندرون خانہ مل ملا کر اربوں کی چیز کوڑیوں کے مول خرید سکتے ہو لیکن ان سب کاموں سے پہلے تمہیں ہر دور میں حکومتی پارٹی جوائن کرنا ہو گی کیونکہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے ان سہولتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا، اس ضمن میں ایک دو استثنائی مثالیں موجود ہیں مگر استثنائی مثالوں کو کلیہ تو نہیں بنایا جاتا اور ہاں مجھے تمہارے دوستوں سے معلوم ہوا ہے کہ تم حقوق العباد کے معاملے میں کوتاہی برتتے ہو میرے ڈکیت بیٹے،لوگوں کے حقوق ہر چیز پر فائق ہیں۔ان کا خیال رکھا کرو۔متعلقہ تھانے کی منتھلی انہیں وقت پر پہنچایا کرو اپنے علاقے کے ایم پی اے، ایم این اے اور ناظم کو باقاعدگی سے تحفے تحائف دیا کرو، اس سے باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔میں اس وقت اپنی عمر کے آخری حصے میں ہوں اللہ کا شکر ہے کہ جتنی گزری ہے عزت سے گزری ہے، میری باتوں پر عمل کرنے کا وعدہ کرو، ورنہ اس خیال سے میری روح قبر میں بھی بے چین رہے گی کہ میں نے تمہاری تربیت پر جتنا وقت صرف کیا تھا وہ سب ضائع گیا۔خط ختم کرنے سے پہلے ایک اور بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ نذرنیاز میں کبھی کوتاہی نہ برتو۔جب ڈکیتی کی نیت سے گھر سے نکلو تو پہلے بابا جی کے مزار پر حاضری دو اور انہیں سلام کرکے آگے جاؤ کامیاب ڈکیتی پر بابا جی کے نام کی دو دیگیں ضرور دو، میں نے پیر صاحب ہتھوڑا شریف سے تمہار ی کامیابیوں کے لیے جو تعویز لیا تھا وہ ڈکیتی کی واردات کے دوران ہمیشہ اپنے بازو پر باندھ کر رکھو۔ اللہ نے چاہا تو تمہیں ہر قدم پر کامیابیاں ملیں گی۔کمزوری اور نقاہت کی وجہ سے مزید نہیں لکھا جا رہا لہٰذا تم مجھے فون پر اپنے فیصلے سے فوری طور پر آگاہ کرو کہ تم نے روایتی ڈاکو ہی بنے رہنا ہے یا یہ کام زیادہ بہتر انداز میں بزنس مین کے طور پر کرنا ہے۔ اگر تم وارداتوں کیلئے بزنس کا رستہ اختیار کرنا چاہتے ہو تو مجھے بتاؤتاکہ اس میں ہونے والی انویسٹمنٹ کیلئے تمہیں رقم بھیج سکوں کیونکہ مجھے پتہ چلا ہے کہ تم اپنی حق حلال کی کمائی اداکارہ چھمک چھلو پر نچھاور کر چکے ہو۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ آخر ہم اتنی محنت کرتے کن کے لیے ہیں!