طنز و مزاحمضامین

عادتیں

ڈاکٹر محبوب فرید

ہر ذی نفس میں کچھ نہ کچھ عادتیں ہوتی ہیں۔ان میں کچھ عادتیں اچھی اور کچھ بری لیکن اچھی یا بری عادتوں کا معیار ہر ایک کے پا س الگ الگ ہوتا ہے۔جس عادت کو آپ اچھی سمجھتے ہیں وہ دوسرو ں کے نزدیک بری ہوسکتی ہے۔ عادتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں بعض بین الاقوامی سطح کی ہوتی ہیں‘ بعض قومی اور مقامی سطح کی۔
ا س کے علاوہ ایک اورقسم نجی عادتوں کی ہوتی ہے جن کا ذکر ہم نہیں کرسکتے۔بعض عادتیں قدیم اور بعض جدید نوعیت کی ہیں۔اس میں شک نہیں کہ عادتیں‘حماقتیں اور کہاوتیں بدلتی رہتی ہیں۔
۱۔ انگوٹھا چوسنا: یہ ایک بین الاقوامی سطح کی عادت ہے۔ ہم تجربہ کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے ہر حصہ میں انگوٹھا چوسنے والے پائے جاتے ہیں۔ہم نے لندن‘امریکہ‘ آسٹریلیا‘ دبئی‘ سعودی عرب وغیرہ میں کئی بچو ں کو انگوٹھا چوستے دیکھا ہے۔بچپن میں بچوں کی یہ عادت بہت معصوم اور اچھی معلوم ہوتی ہے،لیکن جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو ان کی اس عادت کو چھڑانا پڑتا ہے۔ بھلے ہی ڈاکٹر سے مشورہ کرنا پڑے۔ اس کی وجوہات سے بعض ڈاکٹر بھی پوری طرح واقف نہیں ہوتے اس لیے اس عادت کو نفسیاتی مسئلہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں، البتہ اس عادت کو چھڑانے کے طریقے ضرور بتا دیتے ہیں۔
۲۔ دانتو ں سے ناخن تراشنا: یہ عادت بھی عالمی سطح پر پائی جاتی ہے۔ایسے لوگوں کے ناخن زندگی میں کبھی بڑے ہی نہیں ہوتے۔ان لوگوں کو نیل کٹر خریدنے کی ضرور ت ہی نہیں پڑتی۔یہ کام وہ دانتوں سے لیتے ہیں۔جب بھی فرصت ملے ان کے ہاتھ دانتوں کے حوالے ہوجاتے ہیں۔اس عادت میں بچے بڑے سب ہی شامل ہوتے ہیں،لیکن کوشش کی جائے تو یہ عادت چھوٹ سکتی ہے۔
۳۔ داڑھی اور مونچھ: بعض حضرات کو غور و فکر اور کوئی اہم فیصلہ لیتے وقت اپنی مبارک داڑھی پر ہاتھ پھیرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس عادت کی برکت سے وہ زندگی کے بڑ ے بڑے مسئلے چٹکی میں حل کرلیتے ہیں۔ بعض لوگوں کو اپنے مونچھ پر ہاتھ پھیرنے کی عادت ہوتی ہے۔ چاہے دلی‘امرتسر کے ہوں یا یو پی بہار کے بعض عادتیں آگے چل کر مجبوری بن جاتی ہیں۔ پھر ان سے جان چھڑانا مشکل ہوجاتاہے۔یہ ساری عادتیں زمانہئ قدیم سے چلی آرہی ہیں۔
۴۔ رات کوجاگنا‘دن کو سونا: اب تو اس عادت کو تو انسان کے بنیادی حقوق میں شامل کرلینا چاہیے۔ اس عاد ت میں عموما ً ہماری نوجوان نسل لڑکے اور لڑکیاں تیز ی سے مبتلا ہورہی ہیں۔ گزشتہ چند دنوں سے ہمارے شہر میں نوجوانوں میں ہارٹ اٹیک کی وجہ سے اموات کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس کی وجوہات میں ایک رات کو جاگنا اور دن کو سونا بھی شامل ہے۔ ہمارے شہر میں اس عادت کا کب سے آغاز ہوا یہ کہنا مشکل ہے مگر اتنا تو کہا جا سکتاہے کہ قلی قطب شاہ کے زمانے لے کر نظام سابع تک بھی یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن یہ عادت امراء تک محدود تھی۔ مگر جب سے ہائی ٹیک سٹی اور ایم این سیز میں نوجوان ملا زمت کرنے لگے ہیں، تب سے شہر کی راتیں دن اور دن رات میں بدل گئے ہیں۔ یہ تو بعض نوجوانوں کی مجبوری ہے۔لیکن جن کے پاس کام کاج نہ ہو اور نیند نہ آئے تو نوجوان ہی کیا بزرگ حضرات بھی گلی کے نکڑ یا چبوتروں پربیٹھ کر قومی بین الاقوامی اور مقامی اِشوزا پر گھنٹوں مباحث اور مذاکروں کا اہتمام کرتے ہیں۔جس میں سیاست سے لے کر صحافت تک‘ نوٹ بندی سے لے کر نشہ بندی تک‘ فلم پٹھان سے کنگنا رناوت تک‘ کرناٹک کے مشہور ڈاکو ویرپن سے لے کر قدیر خان کی ہلاکت تک بے باک گفتگو ہوتی ہے۔ایسی چبوترا میٹنگس سے ہماری عوام دوست اور فرض شنا س پولیس چوکنا ہوگئی۔اب وہ بہ بانگ دہل ”سائرن“ بجا کر آتی ہے۔ جب تک حاضرین محفل تھوڑی دیر کے لیے گلی کوچوں میں رو پوش ہوجاتے ہیں۔ کارروائی تھوڑی دیرکے لیے ملتوی (استھگت) ہوجاتی ہے۔پولیس اپنا فرض انجام دے کر واپس ہوتی ہے۔ کیوں کہ انہیں اور بھی کام انجام دینے پڑتے ہیں اور پھر وہی ”پلاس کے تین پتے“سیشن کا دوبار ہ آغاز ہوجاتا ہے۔ یہاں کارروائی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا۔
بعض وقت کچھ شرکا ء پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ پولیس انھیں رات بھر بیٹھا کر ان کی اور ان کے ماں باپ کی کونسلنگ کرتی ہے، لیکن جو اولا د ماں باپ کو نہیں سمجھتی وہ پولیس کو کیا سمجھے گی۔ ا س کا صرف ایک ہی حل ہے کہ ان کی گھر اور اسکول کالج میں کردار سازی کی جائے۔
۵۔ ہوٹلوں میں کھانا:ہر شر میں خیر ہوتا ہے۔ عالمی وبا ء کووڈ۱۹ کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کو برسو ں بعد فرصت کے لمحات میسر آئے۔ اس دوران لوگ کھانے پکانے کے ماہرہوگئے خاص کر مرد حضرات۔اس میں شک نہیں کہ آج بھی حیدرآبا د کی مشہور ڈش بریانی ہے۔لیکن اب بریانی کی شہرت کے سورج کو گہن لگ رہاہے۔ جب سے لوگ خلیجی مما لک سے کشتی جلا کر آئے ہیں وہ اپنے شہر میں عربی ڈشس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔آج بھی ان کے دل ودما غ میں لحم کبسہ‘ مندی الدجاج‘ فول‘فلافل‘ حمص‘ سمبوسہ‘ ہریسہ‘ الملوخیہ المصریہ‘ کنافہ‘ موزیریلہ‘مصری ماوا‘ مصری کوشاری‘محشیی الکرنب وغیرہ چھائے ہوئے ہیں۔
شادی ولیمہ کی گرانڈ تقاریب میں بھی کبسہ‘مندی کی صدا ئیں بلند ہورہی ہے۔اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس میں تیل گھی کے علاوہ مرچ مصالحہ کم ہوتے ہیں۔ یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک تھا۔اب تو کبسہ مندی کی بڑی بڑی ہوٹلیں بڑے زور و شور سے کاروبا ر کررہی ہیں۔جو دوست احباب کے ساتھ رات کی دعوتوں کے لئے مشہور ہیں۔
کووڈ۱۹ کی خبر سن کر بعض لوگوں نے برتن بجائے تھے۔ ”گو“ کووڈ کے نعرے لگائے تھے۔ ایسا کیوں کیا؟…………نہیں معلوم…………!!۔ کووڈ کے بعد لوگوں کی ہوس کے ساتھ ساتھ بھوک بہت بڑھ گئی۔ہر محلہ میں فوڈ اسٹریٹ قائم ہورہی ہیں۔ اتفاق سے ہم جس محلہ میں رہتے ہیں کسی زمانے میں ادیبوں اور شاعروں سے جانا جاتا تھا لیکن اب کھانے کھلانے اور پینے پلانے کے لیے پہچانا جارہے۔ اب ہمارا محلہ شاورما اسٹریٹ اور جوس سینٹرس کے لیے نام کما رہاہے۔اس میں اہلیان محلہ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ وہ تو اب بھی اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔
۶۔ پان‘ گٹکا‘ سگریٹ‘ شراب‘ منشیات‘ ادویات وغیرہ کا استعمال:اصل عادتیں تو یہ ہیں۔جو انسان کو گھر سے گور تک پہنچا دیتی ہیں۔سگریٹ نوشی کا آغاز بلا وجہ محض فیشن کے طور پر ہوتاہے۔بعد میں اس کی عادت پڑجاتی ہے۔ اس میں پچاس فی صد دوستوں کا ہاتھ ہوتاہے تو پچاس فی صد باپ‘ بھائی‘استا د یا اپنا پسندیدہ فلم اسٹا ر ہوتا ہے۔سگریٹ پینے والے کو معلوم ہوتاہے کہ اس سے عمر کم ہوجاتی ہے۔ حکومت ہر بجٹ میں سگریٹ کے دام شائد اس لیے بڑھا دیتی ہے کہ لوگ سگریٹ پینا چھوڑدیں لیکن پینے والا سو روپے کاسگریٹ خرید کر پیئے گا یا مانگ کر پئے گا۔شراب تو شراب ہے اور فی زمانہ اس کا حصول نہایت آسان ہوگیا ہے۔ عورت مرد‘بچے بوڑھے سب اس کے عادی ہورہے ہیں۔ گزشتہ سال نو کے موقع پر تلگو ریاستوں آندھرا و تلنگانہ میں 172 کروڑروپے کی شراب پینے کا ریکارڈ قائم کردیا گیا۔ جب کہ شہر حیدرآباد میں صر ف ایک رات میں 23کروڑسے زیادہ کی شراب پی گئی۔کمال تو یہ کہ ایک طرف شراب فروخت ہورہی تھی اور دوسری طرف شراب پی کر گاڑی چلانے والو ں کے خلاف بڑے پیمانے پر چالانات کئے جارہے تھے۔یہ بات سب ہی تسلیم کرتے ہیں کہ شراب بری چیزہے۔ اس سے صحت بھی خراب ہوتی ہے‘ دولت بھی جاتی ہے اور خاندا ن ٹوٹ پھوٹ جاتاہے۔ انسان شراب کیوں پیتا ہے؟ وہ دراصل کچھ دیر کے لیے اپنے آپ کو بھلا دینا چاہتاہے مسائل سے فرار اختیار کرنا چاہتاہے۔ یہ بری عادت تب ہی چھوٹ سکتی ہے جب خود پینے والا چھوڑ نا چاہے۔اس قبیح عادت میں بلا لحاظ مذہب و ملت امیر غریب‘ عور ت مرد‘بچے بوڑھے سب شامل ہیں۔ حکومت بھی بڑے پیمانے پر اس کے خلاف شعور بیدار ی مہم شروع کرے، مگر سرکا رکی بھی کچھ مجبوریا ں ہوتی ہیں۔این ٹی آر نے کوشش کی تھی پھر بہار میں بھی کوشش کی گئی مگر سب ٹائیں ٹائیں فش…………
پان‘تمبا کو کی عادت بھی عجیب ہے۔بعض دل والے تو دن میں بیس تیس پان کھا کر تھوک دیتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ پان تمباکو کے شوق نے پان کے ڈبوں کی بڑی حوصلہ افزائی کی ہے۔پہلے یہ ڈبے ہوتے تھے اب یہ خوبصورت مع ایر کنڈیشنڈ شوروم جیسے ہوگئے ہیں۔پان کے مختلف نام اور صفات ہیں، سب کا ذکر کرنا یہاں نا ممکن ہے۔ہم ایک دن محلہ کی بڑی پان شاپ کم شوروم پر پان لے کر کچھ دیر کے لیے مشاہدے کے لیے رک گئے۔مالک پان شاپ نے ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہا کہ ہم وہاں سے جلد سے جلد اپنے گھر روانہ ہوجائیں۔ ورنہ ………… ہم نے ادباً عرض کیا کہ بھائی میں تو آپ سے صر ف یہ پوچھناچاہتاہوں کے آپ کے پاس کتنے قسم کے پان ملتے ہیں او ر ان کی قیمت کیا ہوتی ہے؟آپ نہایت سیدھے سادے انسان ہیں اس لیے سادہ پان کھا یا‘ وہ چھ روپے کا ہے اور زیادہ سے زیادہ …………ہم نے اس سے پھر پوچھا تو کہا …………تین سو روپے۔ ہم نے پوچھا ……اس میں کیا خاص بات ہوتی ہے۔……اس نے نواب واجد علی خان کا نام لیا……
آگے کی روداد ہم خود سمجھ گئے۔ آپ سمجھے …………!! پھر اتنے مصالحہ جات کا ذکر کیا کہ ہم ششدر رہ گئے۔ جیسے سونف‘ لونگ‘الیچی خرمے‘ گلقند‘ جڑی بوٹیاں‘ وغیرہ۔ اس پر پان کا انداز ِپیشکش بھی معنی خیز ہوتا ہے۔پان کے ساتھ شوقین حضرات مختلف برانڈس کے تمباکو‘ زردہ بھی کھاتے ہیں جو نہ صرف نام بلکہ نمبر سے جانے جاتے ہیں بعض پان کھانے والوں کے تو صرف کوڈ نمبر ہیں۔ وہ ڈبے پر جاتے ہی پہچان لیے جاتے ہیں۔بولنے کی زحمت نہیں ہوتی۔یہ ان کا اعزاز ہوتاہے۔
بعض شوقین حضرات پان کے ساتھ خوشبو کے لیے مختلف قوام استعمال کرتے ہیں جیسے بابا نورتن‘ بابا بلاک‘ کشمیری قوام‘ وغیرہ یہ بھی زردہ اور زعفران سے تیار کیاجاتاہے نورتن کیسر قوام پان کی قیمت 120روپے ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ پان کھانے اور کھلانے والوں کی ایک دنیا ہوتی ہے۔بعض شوقین حضرات زردہ اور چونا ہتھیلی پر رگڑکر داڑھ میں رکھ لیتے ہیں …………پھر وہ آسمانوں میں اڑنے لگتے ہیں۔

۷۔ گٹکا کی عادت:ایک دن کسی کام سے ہم کو باہر جانا پڑا۔ اس دن شہرمیں گھنے بادل چھائے ہوئے تھے اور ہلکی پھلکی بوندا باندی ہورہی تھی۔جب ہم تیار ہوکر کارکے قریب پہنچے تو بیگم نے بے مانگے مشورہ دیا کہ بارش کے آثار ہیں، کار کی بجائے آٹوسے چلے جائیے۔پھر راستے میں ٹرافک بھی ہوگی اور پولیس چالانا ت بھی۔ ہم نے سمجھا کہ بیگم کا مشورہ صحیح ہے چلو عمل کرکے دیکھتے ہیں۔جاتے وقت تو ہم آسانی سے منز ل پر پہنچ گئے۔ کام بھی ہوگیا۔مسئلہ واپسی کا تھا۔ شام ہورہی تھی۔ ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی۔ ہر راہ گیر کو اپنے ٹھکانے پر پہنچنے کی فکر تھی۔ہم نے ”اولا‘ اوبر‘ راپیڈو وغیرہ سب آزما لیے۔ اُس وقت ہمارے سوا سب مصروف تھے۔ سڑک کے کنا رے کھڑے ہر آٹو کو ہاتھ سے روکنے کا اشارہ دینے لگے۔سب آٹو ایسے جا رہے تھے جیسے چاند پہ جانے کا ارادہ ہو۔ایک آٹو والے کو ہم پرترس آیا۔ قریب آکر تحکمانہ انداز میں پوچھا ……کہاں جانا ہے؟ ہم نے ادب و شائستگی سے عر ض کیا ……فلاں جگہ …… اس نے پھر آٹو اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا …………میں تو ادھر نہیں جارہا ہوں ……فلاں جگہ چلنا ہو تو بولو……ہم نے عرض کیا ادھر جاکر ہم کیا کریں گے، اس نے کہا‘یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ہم چپ ہوتے ہی وہ آٹو اسٹا رٹ کیا اور نو دو گیارہ ……اس کے جاتے ہی ایک نوجوان آٹو ڈرائیور بڑی تیزی کے ساتھ بریک لگا کر ہمارے سامنے علاء الدین کے جن کی طرح وار د ہوگیا۔اس کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی ہم نے ساری حاجتیں بیان کردیں۔اس نے کہا آپ جہا ں چاہو گے وہا ں پہنچادوں گا۔ہم نے سمجھا یہ کوئی بھلا مانس ہے اور ضرورت مند بھی۔ ہم نے اس سے پوچھا ……کیاکرایہ لوگے بھیا۔ اس نے کہا آپ جو دیں گے۔ ہم نے اس موضوع پر زیادہ تکرار کرنا منا سب نہیں سمجھا۔ آٹو میں قدم رنجہ ہوتے ہی آٹو نے وہ اڑان بھری جیسے چا ند پہ جانے کا ارادہ ہو۔ہم بے بس تھے …… ایک ایک کرکے زندگی کے سارے گناہ یاد آنے لگے۔ پس اللہ کو یاد کرنے لگے‘ کلمہ شہادت بھی پڑھ لیا۔ گناہوں سے توبہ کرلی۔جن کو قرض دیا تھا معاف کردیا‘ جن کی غیبت کی تھی، ان سے دل ہی د ل میں معافی مانگ لی۔ اکثر غیبت چغلی تو اپنے دوست احباب اور کام کے ساتھیوں کی ہوتی ہے۔کینہ تو رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے ہوتا ہے۔ سب سے فرداً معافی کا اب موقع نہیں تھا۔ اس لیے اجتماعی معافی مانگ لی۔بیوی کا ذکر ہم نے عمداً نہیں کیا۔ کیوں کہ طرفین کی جانب سے اکثر و بیشتر کمی زیادتیاں ہوتی رہتی ہیں۔ راستے میں یوں تو کئی پان کے ڈبے آئے ا ور گزرگئے، لیکن ایک خاص ڈبے پر اس نے سوار ی روک دی۔اور کہا …………چچا کرایہ دیجئے …………ہم نے سوچا ……ہمارا بھتیجا کب سے اتنا نالائق ہوگیا کہ ہم سے یہ جملہ کہے………… ہم نے ہمت کرکے کہا ………… بھیا!کرایہ ابھی کیسے؟ منز ل پر پہنچانے کے بعد دیں گے۔ا س نے کہا کوئی بات نہیں۔ وہ ڈبے پر گیا اور کچھ کوڈ ورڈس میں کہا۔پھر اس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھما دی گئی۔اس نے وہ چیز داڑھ میں دبائی اور پھر ہمارا آٹو گٹکے پر سوار ہوا میں اڑنے لگا، منزل پر پہنچ کر اس نے چار گنا زیادہ کرایہ طلب کیا۔ہم نے کہا بھائی ہم تو وہاں سے روز آتے جاتے رہتے ہیں۔ اصل میں کرایہ تو ……اتنا ہوتا ہے۔اس نے شاہانہ انداز میں کہا …………یہ بھی رکھ لو…………ہم شرمندہ ہوکر سور وپے بڑھا دیئے وہ تب بھی نہ مانا۔ اور بحث و تکرار پر اتر آیا۔گلی کے نکڑ پر محلے کے کچھ نوجوان کی سملین چلی رہی تھی۔ دو چار اٹھ کر ہماری طرف آگئے۔ اور پوچھا کیا ہوا جناب؟…………اس سے پہلے کہ ہم کچھ کہتے وہ آٹو اسٹارٹ کیا اور چلتا بنا۔ ہماری بیگم بالکونی میں نورجہاں کی طر ح کھڑی نظار ہ کررہی تھی ہمارے مکالموں سے لطف اندوز ہورہی تھی، کیوں کہ یہ سارا کھیل اسی کا رچایا ہواتھا۔ ہم اگر کار سے چلے جاتے تو یہ نوبت کبھی نہ آتی۔کچھ بھی صحیح لیکن گٹکے نے ایک گھنٹہ کا سفر آدھے گھنٹے میں کرادیا۔ ہم گٹکے ڈرائیور کے ممنون و مشکور ہیں کہ اس نے خیریت کے ساتھ منز ل پر پہنچا دیا۔
یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ گٹکا صحت کے لیے مضر ہے مگر کیا کریں عاد ت سے مجبور ہیں۔گٹکے کا بہت بڑا خاندان ہے۔ اس میں پان‘ تمباکو‘ قوام‘ گانجہ چرس‘افیون‘نیند کی گولیاں‘ وائٹنر‘ بعض کھانسی کے شربت وغیرہ شامل ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت سماج میں پھیلائی جارہی ہیں۔ اسکول کے بچے‘ نوجوان لڑکے لڑکیاں‘ بچے بوڑھے بھکاری‘ بے روزگار سب اس برائی میں مبتلاہورہے ہیں۔کوئی چاکلیٹ میں تو کوئی آیسکریم میں‘ تو کوئی فروٹ جوس میں‘ تو کوئی اسٹریٹ فوڈ میں نشہ آور چیز یں ملا کر اپنے کاروبار کو فروغ دے رہا ہے لیکن نوجوانوں کا مستقبل تاریک ہورہا ہے۔ ہم صرف اتنا ہی کرسکتے ہیں کہ عوام میں اس بری عاد ت سے متعلق شعور بیداری مہم شروع کردیں۔