طنز و مزاحمضامین

محبوب

بھارت چند کھنہ

محبوب کا تصور مختلف زمانوں میں مختلف رہاہے۔ حسن کا معیار بھی فیشن کی طرح شاید بدلتا رہتا ہے۔ پرانے زمانے کے محبوبوں کا خاکہ ہم کو اس زمانے کے شاعروں کے کلام میں نظرآتا ہے۔ یہ لوگ بڑے سخی تھے کہ سیاہ خال کے لیے دل تو کیا سمر قند اور بخارا تک بخش دینے پر آمادہ ہوجاتے تھے۔ سخاوت یقینا ً ایک بڑی خوبی ہے، مگر ان پر انے زمانے کے شاعروں کو شاید موجودہ زمانے کی مہنگائی سے دوچار ہونا نہیں پڑا تھا ورنہ وہ بھی غالباً سمرقند کی جگہ قند کی ڈلی اور بخارا کے بجائے ایک آدھ آلو بخارا بخشنے پر ہی اکتفا کرتے۔ بہرحال ان کا محبوب گل بیز، گہرریز، گہریار اور گہرتاب تھا۔ وہ نوخواستہ، نورس، نوطلعت اور نوخیزتھا۔ اس کی فطرت میں خونریزی، کم آمیزی، دل آویزی اور جنوں خیزی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ تھا خوش چشم، خوش آواز، خوش اطوار اور خوش اندام۔ اس کے علاوہ وہ گل پیرہن، گل بدن، گل رخ، اور گل رنگ بھی تھا۔ اس کا دہن ایسا چھوٹا تھا کہ،
بے نشانی سے نشاں بھول گیا مانی کو
کھچ چکا نقشہ تو پھر اس کو دہن یاد آیا
ہر ایک زمانے کا ادب اس زمانے کی زندگی کی عکاسی کرتا۔ پرانے استادوں کا زمانہ وہ زمانہ تھا جب پردے کا سخت رواج تھا۔ محبوب کنٹرول کی قیمتوں پر بکنے والی اشیاء کی طرح یا جو ہری ہتھیاروں کے بنانے کے نسخوں کی طرح نظر سے پوشیدہ رہتاتھا۔ مکانوں کے اندر، بند دروازوں کے پیچھے وہ کہیں پسینہ میں شرابور رہتا۔ کبھی کبھار اگر جھروکوں پر پڑی ہوئی چلمن کے پاس اس کی رسائی ہوجاتی تو وہ گزر پر پھرنے والے عشاق آہیں بھرتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے،
ان کا رخسار ہے، آنچل ہے یا پیرہن ہے
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں
محبوب کو اس طرح دیکھ کر دیکھنے والابس ایک ہی جلوے میں شیدائی یا سودائی ہو جاتا تھا۔ وہ دور سے محبوب کو پل بھر کے لیے دیکھ لیتا تھا اور اس کے بعد اس کی تخیل کی آنکھیں کھل جاتی تھیں۔ اپنے محبوب کی آنکھیں کبھی اس کو گول یا نرگسی، کبھی مرگ کی آنکھ، کبھی لیمو کی پھانک، کبھی کنول کی طرح اور کبھی متوالی، مدبھری، نشیلی، نیند پالی، خواب آلود، خمار آلودہ یا جھکی ہوئی اوراگر اس سے بھی دل کی تسکین نہ ہوتی تو پھر یہی آنکھیں ڈورے دار کٹیلی، فتنہ انگیز، شوخ، چنچل، چربانک، رسیلی، رس بھری، گلابی، شربتی اور بعض مرتبہ چور، غلافی، بادامی، چڑھی ہوئی، نیلی یاسرمگیں بن جاتی تھیں۔ شعر ملاحظہ فرمائیے،
نرگس مستِ یار کے آگے
ہوئی غیرت سے آب آب شراب
حضرت نسیم فرماتے ہیں،
ہوگیا بے ہوش جس پر نظرتیری پڑگئی
کس قدر لبریز مستی نرگس مخمور ہے
حضرت نصیر کا خیال بھی ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں،
دل سے تو پس جائے، سرسے قصد پابوسی کرے
گرتری آنکھوں کے دیکھے سرخ ڈوروں کو حِنا
محبوب کی آنکھوں کے ان تصورات کے برعکس ملک چین کے محبوب ملاحظہ فرمائیں۔ چین کے لوگ بڑی بڑی نرگسی آنکھوں کے متوالے نہیں۔ چین کا محبوب نیم باز آنکھوں کے لیے مشہور ہے۔ ایسی آنکھیں جو چہرہ پر مانند شگاف نمایاں ہوں۔ ہمارے چینی بھائیوں کو آخر وہی چیز بھائی جس کو انہوں نے دیکھا اور پاسکے۔
پرانے زمانے کا محبوب اپنے لمبے، کالے اور ریشمی بالوں کے لیے بھی مشہور تھا۔ اس کے بال گِرہ درگرہ اور پیچ درپیچ تھے، جن کا رنگ بھنورے جیسا کالا اور لٹوں میں ناگن کی چال تھی۔ یہ سب دل موہ لینے کے جال تھے۔ یہ مزہ تو دیتے تھے مگر تھے یہ ڈسنے والے چنانچہ اردو شاعری میں گیسو کالے سانپ بن کر رہ گئے۔ میرٓفرماتے ہیں،
یاد آتی ہے جو وہ زلف سیاہ
سانپ سا چھاتی یہ پھر جاتا ہے۔ آہ!
ہوس نے تو ان زلفوں کے ڈسے ہوئے کو مرنے کے بعد بھی چین نہیں لینے دیا۔ کہتے ہیں،
چھاتی پہ اس کی کیوں نہ پھرے سانپ قبر میں
جو ہو ڈسا ہوا تیری زلف سیاہ کا
زلفوں سے پناہ مانگ کر محبوب کے رخسار کو دیکھئے جس میں رنگینیاں سمٹ کر سماگئی تھیں، جس میں گلاب کا رنگ اور نئے کھلے ہوئے پھول کی تازگی تھی۔ شاعر کا خیال ملاحظہ ہو،
یاد میں اس کے گل عارض کی اشک خوں سے رات
لی جدھر کروٹ ادھر بستر گلابی ہوگیا
قصہ مختصر رخسار محبوب اردو شاعری میں ایک معمہ بن کر رہ گیا۔ چنانچہ ایک شاعر فرماتے ہیں،
تیرے رخسار کو کس چیز سے دیجئے تشبیہ
گل میں یہ آب نہیں، شمع میں یہ تاب نہیں
پرانے زمانے کے محبوب کے کس کس حصہ جسم کا ذکر کیا جائے۔ اس کی گفتار یعنی غنچہ دھن کے منہ سے پھول جھڑتے (سینہ کا ابھار کبھی تو انگیا کی چڑیا، گٹھڑی میں باندھا ہوا اچھا مال اور کبھی ایسی چڑیا جو نور کے انڈے رکھ کر اڑگئی تھی، سمجھا جاتاتھا) اس کی نزاکت کا یہ عالم تھا کہ بارنگاہ سے وہ کچلی جاتی۔ رنگ ایسا کہ چاندنی پڑنے سے میلا ہوجاتا، کمر پتلی، صراحی دار گردن، گوری گوری پنڈلی جس کو دیکھ کر شمع خجلت سے تھوڑی تھوڑی ہوجاتی تھی۔ اس کا بازو آستین ہی میں تلوار بے نیام کا کام کرتا تھا۔ ایسا محبوب جب سولہ سنگھار یعنی سرمہ، مسی، کاجل، کنگھی، چوٹی، مانگ پٹی، گہنے، کپڑے، چوٹی، مہندی وغیرہ کرکے جلوہ افروز ہوتا تو وہ کون سا دل تھاجو اس کو دیکھ کر نہیں تڑپتا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرتِ داغ جنت میں پہنچ کر بھی مایوس رہے:
پکارا دیکھ کر میں حور کی شکل
خداوندا یہ وہ صورت نہیں ہے
پرانے زمانے کے محبوب کا حلیہ آپ نے ملاحظہ فرمایا، جو چند ے آفتاب اور چندے مہتاب تھا، مگر صد حیف کہ اس زمانے کے عشاق، بچارے اپنی تخیل کی دنیا میں سرد آہیں بھر اکرتے تھے۔ ان بچاروں کو اس زمانہ کے مواقع نصیب نہیں تھے کہ سڑک پر دیدار نہ ہوا تو کالج کے سامنے ملاقات ہوگئی۔ اگر ایسا بھی نہ ہوسکے تو نمائش میں، کھیل کے میدان پر یا ریسٹوران میں تو محبوب نظرآہی جاتاہے۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر اسٹیشن کا پلیٹ فارم، بس اسٹینڈ، باغ عام یا کلب گھر سلامت رہیں۔ وہاں توضرور ملاقات ہوجاتی ہے، اگر بفرض محال ان مقامات پر بھی قسمت یاد رسی نہ کرے تو سینما گھر کے سامنے لگے ہوئے کیو میں توبہرحال وہ ضرور موجود رہے گا۔ اب صدائے جرس ناقہ لیلیٰ کا انتظار نہیں کرناپڑتا۔ بس اپنی تنگ پتلون میں ٹانگیں گھسیڑیں، پیٹ تک پہنچ کر ختم ہوجانے والا بھٹرکیلا، چمکدار اور نہایت باریک کپڑے کا بش کوٹ زیب تن خاکی کیا اور سائیکل پر خاک اڑاتے اور سیٹی بجاتے متذکرہ بالا اڈوں پر پہنچ گئے۔ اگر محبوب ان مقامات پر بھی دکھائی نہ دے اور اگر وہ موٹر ران یا اسکوٹر پسند ہے تو پٹرول بنک پر ورنہ چاول یا شکر کی تلاش میں بہرصورت آپ اس کو لمبی قطار میں کھڑا دیکھ سکتے ہیں۔
زمانے کے ساتھ ساتھ آج کل کے محبوب کا حلیہ بھی بدل چکاہے۔ اب اس کو لیلیٰ اور شیریں کی طرح خدا داد خوبیوں پر اکتفا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر اس کا قد سروسہی کی طرح دراز نہیں تو وہ چارچھ انچ اونچی ایڑی کا سینڈل پہن کر اس کمی کو پورا کرلیتاہے۔ اس کی اصلی رنگت آپ کو کبھی نظر نہیں آتی کیوں کہ یہ نہایت ”پرحجاب“ ہونے کی وجہ اپنے چہرے اور اپنی رنگت کو غازہ اور پوڈروں کے پردوں کے پیچھے پوشیدہ رکھتا ہے اور جب چاہے اور حسب ضرورت اپنی رنگت کو جامنی، سیندھوری، گلابی یا دودھیا بنا لیتا ہے۔ اس کے ہونٹ ہمیشہ لپ اسٹک کی مدد سے پرانے شاعروں کی لاکھوں رنگینیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے، شگفتہ اور یاقوتی یا گلابی نظر آئیں گے بلکہ حسب ضرورت بڑے یا چھوٹے بن کر منظر عام پر جلوہ افروز ہوں گے۔
آنکھیں ایسی کہ مختلف کاجلوں برش اور پنسلوں کے استعمال سے راتوں کی نیندیں حرام کردیں۔ سیاہ خال محبوب کی مرضی کے مطابق جب اور جہاں خواہش ہو، چہرہ پر نمودار، کمر کورسیٹس میں جکڑی خوشمائی کی حدود سے باہر نکل نہیں سکتی۔ بال حسب خواہش کالے، پیلے، سنہری، آسمانی، حنائی، سفید یا بھورے کرلیے جاسکتے ہیں۔ اس طرح آج کل کا محبوب سائنس کے کرشموں کے اثر سے نہایت سندر اور جاذب نظر نظر آتا ہے۔
اس بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جس طرح فی زمانہ کوئی چیز خالص نہیں ملتی اور جس طرح آئس کریم کی جگہ بلاٹنگ پیپر، دودھ کے لیے پوڈر اور پانی، چمڑے کے بدلے پلاسٹک، کالی مرچ کی جگہ پپیئی کے بیج استعمال کئے جاتے ہیں اور مختلف اناجوں میں اناج کے رنگ کے کنکر ملا دیے جاتے ہیں، اسی طرح حسن میں بھی آمیزش پائی جاتی ہے اور بچارے عشاق نقلی چیزوں کو دیکھ دیکھ کر گراں قدردل کھو بیٹھتے ہیں۔ البتہ یہ بات الگ ہے کہ خودعشاق بش کوٹ پوش کا دل بھی پرانے زمانے کے عاشقوں کا سا نہیں رہا۔ بلکہ نقلی اور گھٹیا چیزوں کی طرح اپنی حرکت کرنے کی خوبی کھو بیٹھنے پر پابہ رکاب رہتاہے!
خیر یہ تو انقلابات زمانہ ہیں، مادرگیتی گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کے لئے مشہور ہے۔ لیکن ہائے! وہ زلفِ دراز! وہ کنڈل اتار کر چلنے والے سانپ! وہ گھر کر چھا جانے والا ابر بہار، وہ گیسوئے مسلسل! افسوس کہ جب سے ملکہ ایران نے بالوں کا نیا فیشن دنیا کو بخشا ہے۔ محبوب کے بال اپنی درازی کھوبیٹھے ہیں، محبوب کا سراب پوڈل کتے کے سر کی طرح نظر آنے لگا ہے یا پھر ایسا لگتا ہے کہ محبوب نے سر پر بھڑوں کا چھتا بھڑوں سمیت جمالیا ہو۔ زلف دراز کا وہ خم کہ جس کی تعریف میں لکھتے لکھتے شاعروں کی انگلیوں میں خم پڑگئے تھے اور جس کی یاد میں وہ خم کے خم لنڈھا دینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ ان پر اب فیشن گھروں کے ماہروں کی قینچیاں چل گئی ہیں۔ ان کو بڑا چھوٹا کاٹ کر چہرے کے گرد بکھیر دیا جاتا ہے اور حیرت ہے کہ اس جھاڑی نما سجاوٹ کو دیکھ کر ہی دلوں پر برچھیاں چل جاتی ہیں۔
خیر یہ تو نظر اپنی اپنی پسند اپنی اپنی کا معاملہ ہے۔ اس میں راوی جیسے دقیانوسی انسان کا کچھ کہنا فضول ہے۔ البتہ محبوب کے تذکرے میں اس فلمی محبوب کا ذکر بھی ضروری ہے جو ہم کو سنیماﺅں کے پردہ سمیں پر نظر آتاہے۔ مغربی ممالک کی فلموں کا محبوب یقینا کمر پتلی، صراحی دار گردن اور نہایت سڈول جسم کا حامل ہوتاہے۔ مگر ہندوستانی فلموں خصوصاً جنوبی ہند کی فلموں کا محبوب نہایت ٹھوس قسم کا محبوب واقع ہوا ہے جو بھاری بھرکم ہونے کے علاوہ دوتین تھوڈیوں کا مالک ہوتاہے۔ اس محبوب کا ہیروبھی جسامت اور جسم کے اعتبار سے اپنی محبوب سے کچھ کم نہیں ہوتا۔ اس تن وتوش کے محبوب اور ہیرو جب یکمشت اسکرین پر آجاتے ہیں تو بمشکل تمام اسکرین ان کو پناہ دے سکتا ہے اور بقیہ سین سینری ان کے پس پشت پڑ جاتے ہیں۔ اس محبوب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ جب کبھی ہیرو اظہار عشق پر اتر آتاہے تو محبوب فوراً بھاگنا شروع کردیتاہے اور چونکہ اکثروبیشتر عشق کا ظہور کسی باغ یا جنگل میں کیاجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ شارعِ عام پر تو یہ ہو نہیں سکتا۔ اس لیے ہیرو محبوب کا پیچھا کرتا ہے، مگر اس کی سب کو ششیں بے سود ثابت ہوتی ہیں اور اس کی دوڑ دھوپ لاحاصل۔ اکثر اس کھیل میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ محبوب کسی موٹے تنے کے درخت کے پیچھے اپنے آپ کو چھپا لینے کی کوشش کرتا ہے۔ تو یہ سودائی یعنی موٹا ہیرو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھتا ہے اور حیران ہوجاتاہے کہ اس کا محبوب آناً فاناً کدھر غائب ہوگیا۔ ایسے موقع پر جی چاہتا ہے کہ موقع محل پر پہنچ کر اس وحشت زدہ ہیرو کو کان سے پکڑ کر اس کا محبوب اسے بتاتے ہوئے یہ کہا جائے کہ ”اے بے دال کے بودم یہ رہا تیرا محبوب! یہ کوئی سوئی تونہ تھی جو گھاس پھوس کے انبار میں تجھے نظر نہ آئی۔ ہوسکتاہے کہ تیری آنکھیں کمزور ہیں۔ اس لیے جا، اور پہلے ان کا علاج کراور پھر قصداً اظہارِ عشق کرنا۔“
حیرت ہے کہ اس قسم کے منظر دیکھ کر فلمی دنیا کے سودائی عش عش کرنے لگتے ہیں!
محبوب کے مختلف رخ آپ نے دیکھ لیے۔ اردو شاعری کا محبوب ایک نایاب شئے ہے، جس کا خود کوئی وجود نہ تھا لیکن اس کا تذکرہ ہر صاحب دیوان شاعر کے یہاں مو جو د ہے۔ اس لیے ہم آج بھی اس کے وجود کے قائل ہیں۔
حالانکہ آج کا محبوب جیسا کہ میں ابھی عرض کر چکا ہوں یکسر بدل چکاہے۔ اس کے طور طریقے بدل چکے ہیں۔ بدلے ہوئے زمانے میں اگر میں اس سے یہ استدعا کروں تو شاید بیجا نہ ہوگا کہ،
مجھ سے پہلی سی سخاوت میرے محبوب نہ مانگ
کیوں کہ دنیا گرانی کے ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ ان حالات میں اگر تو چاہے تو ناک کان تراش لے، مگر اے محبوب تومجھ سے روپیہ پیسہ نہ مانگ، کیوں کہ یہ شئے اب تجھ سے زیادہ گراں ہے۔
٭٭٭