طنز و مزاحمضامین

ہوئے پڑھ کے ہم جو رُسوا

سید محمد جلیل

اخبار بینی اور کتب بینی کی اصطلاح تو ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں، لیکن مفت خوری کی مناسبت سے مفت بینی کی عادت کے بارے میں سمع خراشی کرکے آج ہم آپ کا قیمتی وقت بھی مفت ہی ضائع کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ وہ عادت ہے جو صرف پڑھے لکھے لوگوں میں ہی پائی جاتی ہے بلکہ یوں کہیں کہ صرف یہی طبقہ ہے جو اس عادت کا متحمّل ہو سکتا ہے ورنہ جن کے لےے کالا اکشر بھینس برابر ہو وہ بیچارے کیا اس کے عادی ہوں گے۔ قرض کی پینے والوں کو تو اپنی اس عادت مے خوری کے ایک دن رنگ لانے کا اندیشہ بھی لگا رہتا ہے ،لیکن مفت پڑھنے کی عادت رکھنے والے حضرات کسی بھی اندیشے سے بے نیاز ہو کر اپنے مفت بینی کے عمل کو جاری و ساری رکھ سکتے ہیں۔
اخباروں کی مفت بینی تو ایک عام وبا ہے بلکہ اسے ایک مستحسن عادت میں شمار کیا جاتا ہے۔اگر اخبار مفت پڑھنے کا رواج نہ ہوتا تو شاید اسّی فی صد افراد کو دنیا کے حالات سے بے خبر ہی رہنا پڑتا ۔کاغذ کی قلت کے زمانے میں تو اخبار والوں کو خود ہی اعلان کرنا پڑتا تھا کہ اخبار پڑھنے کے بعد دوسروں کو بھی پڑھنے کا موقع دیں، لیکن عام حالات میں وہ اخبار والے بھی جودوسروں کی مفت تخلیقات شائع کرنا اپنا جائز حق تصور کرتے ہیں ، اخبار پڑھنے کے مفت عمل کو ناجائز ٹھہرانے کی کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اگر اخبار مفت پڑھنا کسی کی طبیعت کو گوارا نہیں تو اس کے بھی کئی طریقے لوگوں نے ایجاد کر رکھے ہیں جیسے باسی اخبار آدھے دام میں خرید کر پڑھنا یا چندہ کرکے اخبار خریدنااور باری باری سے مطالعہ کرناوغیرہ۔
مانگ کر اخبار پڑھنے والوں کی بھی الگ الگ قسمیں ہو سکتی ہیں۔ ہمارے ایک پڑوسی تھے، وہ جب بھی اخبار پڑھنے کے لیے مانگ کر لے جاتے تو واپسی کے بعد اخبار میں کھڑکیاں اور دروازے نکال کر ہی لوٹا تے تھے ۔ اعتراض کرنے پر فرماتے:
”بھئی ایک غزل بڑی تگڑی تھی اسے میں نے کاٹ کر رکھ لیا ہے “ یا”ریلوے ٹائم ٹیبل کی ضرورت تھی ، میں نے اسے تراش کر محفوظ کرلیا ہے۔“ پھر اپنے اس فعل کا جواز بھی خود ہی بیان فرمادیتے کہ” اخبار پڑھنے کے بعد تو آپ کے لےے بیکار ہی ہو جاتا ہے۔“
ایک بزرگ تو ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے ۔ موصوف اخبار پہنچنے کے ایک گھنٹہ قبل سے ہی آکر کمرے میں براجمان ہو جاتے اور بے چینی سے یوں پہلو بدلتے رہتے جیسے اخبار کے آنے کا نہیں، تولّد ہونے کا انتظار فرما رہے ہوں۔ ہاکر کے آتے ہی جھپٹ کر اخبار پر قبضہ کرتے اور یہ کہتے ہوئے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوجاتے کہ بس ایک گھنٹہ کے اندر پڑھ کر واپس کردوں گا ۔ کبھی فرماتے کہ آپ ہاکر کو کیوں نہیں کہتے کہ اخبار ذرا پہلے پہنچایا کرے ،بڑا انتظار کرواتا ہے ۔ میں جواب دیتا کہ آٹھ بجے سے پہلے تو مجھے اخبار دیکھنے فرصت ہی نہیں ملتی پھر خواہ مخواہ کیوں اس سے الجھیں۔ ایک دن فرمایا”اچھا آپ فکر نہ کریں میں خود ہی اسے سمجھا دوں گا ۔“اور پھر اس ہاکر کو پتہ نہیں کیا سمجھا دیا کہ اخبار سیدھے انہی کے پاس پہنچنے لگا اور میں خود اخبار پڑھنے کے لےے ان کی توجہ کا محتاج ہو گیا۔ البتہ مہینے میں ایک دن بل کے ساتھ وہ ہاکر مجھے اخبار ضرور تھما جاتا۔
جہاں تک کتابوں کا سوال ہے اس کے مفت پڑھنے والوں کا حلقہ اور بھی وسیع ہے ۔ یوں تو کتابیں مفت پڑھنے کے لےے ہر شہر میں چھوٹی بڑی لائبریریاں موجود رہتی ہیں اور لوگ ان سے حتی المقدور استفادہ بھی کرتے ہیںلیکن کتابیں مفت حاصل کرکے اپنے گھر میں نیم دراز ہو کر پڑھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ ایسے مطالعہ کاروں کے وسیع المطالعہ ہونے سے انکار کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ آپ بڑے سے بڑے ادیب ،شاعر، نقاد، پروفیسر، استاد، علّامہ، صحافی، افسانہ نگار، مزاح نگار، طنز نگار، خاکہ نگار، مرثیہ نگار۔ غرض نگارستان کی دنیا کے کسی بھی فرد سے خدا کو حاضر ناظر جان کر اگر حلف لینے کو کہیں کہ اس نے کبھی مفت مطالعہ نہیں کیا ہے تو شایدایک بھی فرد اپنی عاقبت خراب کرنے کو تیار نہ ہوگا۔
ایک اچھے مطالعہ کار کی یہ خوبی ہونی چاہےے کہ وہ ہر موضوع کی کتابوں کومطالعہ میں رکھے ، چاہے خرید کر پڑھے یا مانگ کر ، چھین کر پڑھے یا چرا کر۔ مگر پڑھے ضرور۔ اگر آپ مطالعے کا ذوق رکھتے ہیں اور خدانے آپ کی جیب کو بھی صحّت مندی عطا فرمائی ہے تو ایسے بھی احباب ملیں گے جو کسی بھی نئی کتاب کے بک اسٹال پر نظر آتے ہی فوراً آپ کو اطلاع فراہم کریں گے اور خرید لینے کی بھی فرمائش کریں گے ۔ یہ اوربات ہے کہ خریدنے کے بعد اس کتاب کو آپ کی الماری کی زینت بنتے بنتے برسوں لگ جائے۔یا پھر اس کی نوبت ہی نہ آئے۔
کبھی مفت بینی کی عادت عارضہ بھی بن جاتی ہے ۔ ایسے مریض جب کتابیں مانگ کر لے جائیں تو پھراس کی واپسی کی امید موہوم ہو جاتی ہے۔ اگر شدت سے مطالبہ کیا تو جھنجھلاکر فرمائیں گے :
”صاحب ! آپ کی کتاب بڑی حفاظت سے میں نے اپنے کتب خانے میں رکھ چھوڑی ہے، آپ کو جب بھی خواہش ہو بلا تکلف آکر مطالعہ کر سکتے ہیں ، آپ کو بھلا اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔“
کتابیں تو کتابیں ڈکشنریاں بھی ان کی دسترس سے محفوظ نہیں رہتیں ۔ یہاں تک جب خود آپ کو کسی لفظ کی تحقیق کی ضرورت ہو تو وہ دے تودیں گے ،لیکن جلد واپس کرنے کی فرمائش یوں کریں گے جیسے یہ اُن ہی کی ملکیت ہو۔
بعض اوقات کتابیں مانگ کر لے جانے والے آپ کو اس طرح بے وقوف بنا سکتے ہیں جس کا تصور بھی آپ نے نہ کیا ہو ۔ میرے ایک دوست کے صاحب زادوں کا یہ واقعہ عبرت کے لیے کافی ہے ۔ ان کے بچے بڑی عقیدت مندی سے میرے پاس آتے اور کچھ کتابیں دینے کی ضد کرتے ۔ اب میرے پاس زیادہ تر کتابیں اردو شاعروں اور ادیبوں کی ہوا کرتی ہیں(یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ان میں اکثر کتابیں مفت حاصل شدہ ہی ہوتی ہیں)اب ایسی دقیق کتابیں بھلا ان بچوں کو کیا دیتا ، لیکن واہ رے ان کی اردو نوازی ، شعرو شاعری کی وہ کتابیں جن کے اشعار خود میرے لےے ”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی“ کا نمونہ تھے، وہ بڑے شوق سے چُن چُن کر لے جاتے۔ میں اپنے نالائقوں کو ان کی مثالیں دے کر عار بھی دلاتا کہ ایک تم لوگ ہو کہ اِن کتابوں کو اُلٹ پلٹ کر دیکھنے کی بھی توفیق نہیں ہوتی اور اُن بچوں کو دیکھو کہ ہر دوچار روز پر نئی کتابیں مانگ کر لے جاتے ہیں ۔ ان کے اس شوق مطالعہ سے میں اس قدر متاثر تھا کہ واپسی کے بعد کتاب کے بگڑے ہوئے حلےے کو بھی نظر انداز کردیتا ۔ انھیں اجازت تھی کہ جو بھی کتاب پسند ہو اسے اٹھاکر لے جا سکتے ہیں ۔ پھر اچانک انھوں نے کتابیں لے جانا بند کردیں تو مجھے تشویش ہوئی کہ مبادا اردو زبان ان نوخیز مطالعہ کاروں سے محروم نہ ہو جائے۔انھیں بلواکر میں نے دریافت کیا تو مسکرا کر، بلکہ کچھ مضحکہ اڑاتے ہوئے انھوں نے فرمایا:
”چچا!اب آپ کی کتابوں کی ضرورت نہیں، پاپانے ہمیںریکٹ خرید کر لا دیاہے۔“
مُفت بینی کی یہ عادت کبھی تعلقات کو بڑے نازک موڑ پر بھی لے آتی ہے۔ میں اُس زمانے کا واقعہ آپ کو سُناتا چلوں جب میں بچپنے کی حدوں کو پار کررہا تھا ۔ اُس عمرمیں ناولوں کا مطالعہ ، خاص کرابن صفی کے جاسوسی ناولوں کا ، بزرگوں کے عتاب کے لےے کافی تھا، لہٰذا اسے چھپاکر ہی پڑھنا پڑتا تھا ۔ ایک بار میں ٹرین میںسفرکررہا تھا ، رات بھر کا سفر ، ٹرین پر سونے کی عادت نہیں ۔ میں نے ایک جاسوسی ناول خرید کراسے اپنے بیگ میں زادراہ کے طور پر رکھ لیا ۔ جو بزرگ رشتے دارمجھے اسٹیشن تک چھوڑنے آئے تھے ، اتفاق سے ان کے ایک شناسا ہمارے ساتھ ہی سفر کررہے تھے ۔ از راہ تحفظ انھوں نے مجھے اپنے شناسا کے حوالے کردیا کہ ایک گارجین کی صورت رہے گی ساتھ ہی جاتے جاتے انھوں نے ہمارا خیال رکھنے کی بھی تاکید کردی ۔ اب میرے لےے ناول کو نکال کر ان کی نظروں کے سامنے پڑھنے کی ہمت نہیں تھی البتہ جب موصوف اوپر کی برتھ پرنیند کی آغوش میں چلے گئے تو میں نے خاموشی سے ناول نکال کر پڑھنا شروع کیا ۔ ابھی چند صفحات ہی پڑھے ہوں گے کہ ان کی صدائے ناگہانی کانوں سے ٹکرائی:
”برخوردار! کیا پڑھ رہے ہو ؟….ذرا دیکھیں۔“
میں نے ہڑبڑا کر کتاب ان کے حوالے کردی۔ پھریہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ انھوں نے کتاب کا جومطالعہ شروع کیا تو مکمل پڑھ لینے سے پہلے انھوں نے میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا ۔اور میں،راستہ بھر دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا اور سوچتا رہا کہ کاش!پاو¿ں دبانے کی طرح گلا دبانا بھی عین سعادت مندی میں شمارہو تا!
بہر حال مفت بینی کی لت کو عادت مبارکہ میں شمار کریں یاعادت قبیحہ میں اس سے یکسر نجات پانے کی کوشش کرنا لاحاصل ہے ،بلکہ مفت پڑھنے کے اس عمل میں اگر کبھی رسوائیوں کا بھی سامنا کرنا پڑے تو خندہ پیشانی سے قبول کرلینا چاہےے اس لیے کہ پڑھ کر رسوا ہونا بہتر ہے اس رسوائی سے جو اَن پڑھ رہ کر حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر مفت بینی کے مثبت پہلوو¿ں کا احاطہ کریں تو دیکھیں گے کہ اسے جاری رکھنے میںہی زبان کی تیز رفتارترقی کا راز پوشیدہ ہے۔٭٭٭
٭٭٭