ادبی

رومن اُردو کا بڑھتا استعمال

کائنات میں موجود اقوام کوتباہ کرنے کے لیے جن ہتھیاروں اورحربوں کا استعمال کیاجاتا ہے ان میں سے ایک اس قوم کی قومی زبان کوختم کرنا بھی شامل ہوتا ہے۔

محمد بن کریم

انسان کی پہچان اس کی ثقافت ،روایات اوررسوم کے ساتھ ساتھ اس زبان سے بھی ہوتی ہے جسے وہ عام زندگی میں روزمرہ کے معاملات حل کرنے کے لیے بولتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ،سب مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا کی مقدس ترین زبان مبارک سے ادا ہونے کا شرف حاصل ہوا اوریہی وہ زبان ہے جسے آخری آسمانی اوررہتی دنیا تک کے انسانوں کی ہدایت کاسامان بننے والی کتاب کی زبان بننے کا اعزاز حاصل ہوا لیکن جس طرح ہرقوم اپنی روایات سے جانی جاتی ہے ویسے ہی اس کی ثقافتی زبان کامقام ہے۔

ایمان کے بعد کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کا مقام کسی بھی قوم اور ملک کی شناخت کوباقی رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ انہی چیزوںمیں سے ایک زبان اوراس زبان کولکھنے کے لیے استعمال ہونے والا رسم الخط ہے ۔ برصغیر ہندوپاک میں کثرت سے بولی اورسمجھے جانے والی زبانوں میں اردو آج بھی سرفہرست ملتی ہے۔ 1857 کی جنگ آزادی میں شکست کے بعد جہاں مسلمانوں کا معاشی ،تعلیمی اورمعاشرتی استحصال کیاگیاوہیں ان کی زبان اردو کو بھی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور اسے جڑسے ختم کردینے کی بھرپورکوششیں کی گئیں جواﷲ کی نصرت سے ناکام ٹھہریں۔

اسی استحصال سے 1867ء میں زبانوں کا جھگڑا وجود میں آیا جسے اردو ہندی تنازعہ کہا جاتا ہے۔ اردوزبان کا عہدیہ عہدار تقا کا سفر ہندی، ہندو ی اور ریختہ کہلائے جانے کے بعد،وقت کے ساتھ ساتھ بدل کرموجود وشکل اردو پرختم ہوا۔ اردو زبان کو لکھنے کا رسم الخط عربی اورفارسی سے ماخوذ ہے۔

یوں جب اردو زبان کو اردو حروفِ تہجی کا استعمال کرکے صفحہ قرطاس پرمنتقل کیاجاتا ہے توجو عبارت سامنے آتی ہے وہ عربی سے مماثلت رکھتی ہے۔ فتح مکہ کے بعدجب اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے صحابہ کرام دنیا کے کونے کونے کوروانہ ہوئے توجہاں بھی اسلام کی تعلیمات پہنچیں، اس علاقے کی زبان میں محفوظ کرلی گئیں۔ عربی زبان کے بعدفارسی اوراردو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات ان دونوں زبانوں میں بحیثیت خزینہ محفوظ ہیں۔ آج تمام عالم میں عربی کے بعداردو زبان میں اسلام کی تبلیغ جاری ہے جوکہ اردوزبان کے لیے بہت بڑا مقام ہے۔

کائنات میں موجود اقوام کوتباہ کرنے کے لیے جن ہتھیاروں اورحربوں کا استعمال کیاجاتا ہے ان میں سے ایک اس قوم کی قومی زبان کوختم کرنا بھی شامل ہوتا ہے۔ مختلف تحریکوں اور دراندازیوں کا سہارا لے کر اس قوم کی زبان کو کسی اورزبان سے بدل دیاجاتا ہے یوں وہ قوم اپنے اجداد کا علم پڑھنے اوراسے اپنی نئی نسل کو منتقل کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے جوکہ اس قوم کی بربادی کی نشانی ہوتا ہے۔ زبان کولکھنے کے رسم الخط بدلنے کا سب سے بڑا اثر ہمیں موجودہ ترکی میں دیکھنے کوملتا ہے۔

اردو ہندی تنازعہ کے بعد سے ہی اردوزبان اوراس کے رسم الخط کا وجود خطرے میں پڑگیا تھا۔ کئی ا یک ریاستوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ تو دیا گیا ہے لیکن آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے،تمام سرکاری کام انگریزی زبان میں ہورہے ہیں۔ اردو الفاظ کواردو حروف تہجی )ا،ب،پ میں لکھنے کے بجائے C,B,Aیعنی انگریزی حروف تہجی میں لکھنا رومن اردو کہلاتا ہے۔

یعنی اردو الفاظ کواردو حروف تہجی کی بجائے انگریزی حروف تہجی کا استعمال کرکے لکھنا رومن اردو کہلاتا ہے اوراس طرز تحریر کودشمن اردو کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ مثلاً کتاب کوKitaabاورقلم کوQalamلکھنا۔رومن اردو کی ابتداء کے بارے میں کچھ بھی کہنا عبث ہے مگرایک محتاط اندازے کے مطابق اس کا آغاز سوشل میڈیا کی تباہ کاریوں کے ساتھ ہی شروع ہواتھا۔ شروع میں جب مختصر پیغامات کے لیےyahooاور دوسری رابطے کی ایپس کا۔ استعمال ۔ شروع ہواتو رومن اردو کا بھی وجود قیام میں آگیا۔ رومن رسم الخط قدیمی ہے اورانجیل اورعیسائیوں کی دوسری مذہبی کتابیں مدت سے رومن رسم الخط میں چھپتی ہیں۔ انگریزوں کے زمانے میں فوجیوں کو ہندوستانی زبان رومن رسم الخط میں پڑھائی جاتی تھی۔

افسوس کہ ہماری قوم بھی ہر گزرتے دن اپنے رسم الخط کوفراموش کرتی جارہی ہے اور ہم بھی یہی غلطی دہرارہے ہیں۔ رفاہ عامہ کے لیے جاری ہونے والے پیغامات ہوں یا پھر اشتہارات اب ہر جگہ رومن اردونے پنجے گاڑ لیے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ رومن اردو کاآغاز کب ہوا، اسے ’’عروج سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے کہ فیس بک، ٹوئٹر اورواٹس ایپ نے بخشا۔ ابتدائی ایام میں جب موبائل فونز میں اردو کی بورڈ میسرنہ تھا، تورومن اردو لکھنا سب کی مجبوری تھی ،لیکن یہ مجبوری ہماری عادت اورسستی بن گئی اوراب اردو کی بورڈ موجود ہونے کے باوجود ہم رومن اردو کو چھوڑنے پرراضی نہیں۔

رومن اردو کی طرف ہمارا جھکاؤ بنیادی طورپر انگریزی سے غیر ضروری لگاؤ کی وجہ سے ہے۔ عصرِ حاضر میں پڑھے لکھے معاشرے کا حصہ ہونے کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ آپ انگلش بولنے، لکھتے اور سنتے ہوں۔ یوں، نئی نسل انگریزی زبان سے بے حد مرغوب ہوچکی ہے اوراس کا اثرآنے والی نسلوں پرہوگا۔ جوغلطی آج کی نسل کررہی ہے اس کا خمیازہ مستقبل میں بھگتنا ہوگا۔ اردو رسم الخط چونکہ عربی سے ماخوذ ہے اس لیے جب بچہ اردو زبان کا رسم الخط لکھنا اور ۔سمجھنا شروع کردیتا تواس کے لیے عربی سمجھنا اور بنیادی طورپر قرآن پاک وپڑھنا آسان ہوجاتا تھا۔

آج، جبکہ۔ ہرطرف رومن اردو کا دور دورہ ہے تونئی نسل اپنی قومی زبان کی اہمیت وافادیت سے نابلد ہوچکی ہے۔ موجودہ سال رومن اردو لکھتے اور پڑھتے ہوئے جوان ہوچکی ہے ۔ جس طرح کسی بھی زبان کوبننے اور بگڑنے میں وقت لگتا ہے، وہ وقت اردو زبان کے بگڑنے کا پورا ہوچکا ہے۔ اردو ادب کو چھوڑکر سکولوں ،کالجوں اوریونیورسٹیوں میں نصابی کتب انگریزی میں پڑھائی جاتی ہیں۔چاہے اسلامیات ہو دیگر اہم موضوعات یہ کتب اب انگلش رسم الخط میں شائع ہونے لگی ہیں جو اردو زبان اوررسم الخط کے مٹنے کی شروعات ہے۔بعض اوقات موبائل کمپنیاں اورسافٹ ڈرنکس کی تنظمیں ،پیسے بچانے کے لیے رومن اردو کا استعمال کرتی ہیں اوریہ صورتحال نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان میں بھی موجود ہے ، ہمارے ہاں تواردو زبان کو ہندی کہا جاتا ہے اوردیونا گری رسم الخط میں لکھا جاتا ہے۔ یوں دنیا میں جہاں کہیں بھی اردو رسم الخط رائج ہے اسے مٹانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔

رومن اردو لکھنے پراعتراضات کا جواب بہت ہی دلگیر ہوتا ہے ۔ کچھ لوگوں کے مطابق اردو ٹائپنگ مشکل ہونے کی وجہ سے وہ انگریزی حروف تہجی کا استعمال کرکے رومن اردو لکھتے ہیں جس سے وقت کی بچت اورآسان پیغام رسانی ہوتی ہے۔ یہ سب عوامل رومن اردو کورواج دینے کی بلاواسطہ کوششیں ہیں جن کے سائے میں آکر ہم خود کو محفوظ سمجھتے ہیں مگریہ سب اردو دشمنی کے حربے ہیں۔ محمد اظہار الحق لکھتے ہیں کہ پہلے فرغل اترا۔ پھر صدری !پھر کرتااتارکرایک طرف رکھ دیا۔ کچھ عرصہ بعد پاجامہ کیا۔ اب صرف زیرجامہ رہ گیا۔ یعنی نیکر ! وہ جواردو کو انگریزی حروف تہجی میں لکھنے پرمصر ہیں یعنی رومن اردو !وہ اس نیکر کوبھی اتارنے پر تلے ہوئے ہیں !رومن اردو بلاشبہ اردو زبان ،رسم الخط اور اردو ادب کے لیے خطرہ ہے۔

آج جس بے دردی سے اردو کا قتل عام ہورہا ہے ،وہ۔ وقت دور نہیں جب آنے والی نسلیں اپنے اجداد کے صدیوں پرانے اردو کے نادرعلمی وادبی سرمائے کو پڑھنے سے قاصر ہوجائیں گے۔ رومن اردو کواپنانے کا ایک اثر ابھی سے ظاہر ہوچکا ہے کہ نئی نسل عربی سے ناطہ توڑچکی ہے۔ اردوزبان کی چاشنی کے سامنے سب ڈھیرہے۔ یہ وہ زبان ہے جسے محبت کی زبان کہاجاتا ہے۔ غیر ہوں یا اپنے اردو ادب کی تاریخ کے سب معترف ہیں۔ رومن رسم الخط کورائج کرنا ایٹم بم گرانے سے کم نہیں ہے ۔ ہمیں اپنے قدم اردورسم الخط کو عام کرنے کے لیے بڑھانے ہوں گے جس میں اگرچہ مشکلات وکٹھنائیوں کا سامنا ہوگا مگر ایک دن یہ محنت رنگ لائے گی اوراردو رسم الخط ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے گا۔ رومن اردو کوخیرباد کہہ کر ہی ہم اپنے اجداد کے صدیوں سے محفوظ شدہ ادبی سرمائے سے مستفید ہوسکتے ہیں اوراسے بچاکر ہم اردوزبان کی خدمت کا حق ادا کرپائیں گے۔

چرچا ہرایک آن ہے اردوزبان کا
گرویدہ کل جہاں ہے اردوزبان کا
٭٭٭