مذہب

ادب ہی سے انسان، انسان ہے

ادب انسان کی زینت ہے، اس کی وجہ سے آدمی لوگوں میں امتیازی مقام حاصل کرتا ہے، وہ ہر ایک کی نگاہ میں محبوب بن جاتا ہے اور سب پر فوقیت لے جاتا ہے، تمام عبادتوں میں ادب کا حکم دیا گیا، ساری عبادتوں میں اگر ادب کو ملحوظ رکھا جائے تو وہ محمود ومقبول ہوجاتی ہیں۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

ادب انسان کی زینت ہے، اس کی وجہ سے آدمی لوگوں میں امتیازی مقام حاصل کرتا ہے، وہ ہر ایک کی نگاہ میں محبوب بن جاتا ہے اور سب پر فوقیت لے جاتا ہے، تمام عبادتوں میں ادب کا حکم دیا گیا، ساری عبادتوں میں اگر ادب کو ملحوظ رکھا جائے تو وہ محمود ومقبول ہوجاتی ہیں۔ حقوق اللہ وحقوق العباد میں ادب کی بڑی اہمیت ہے۔ انسان کی تخلیق کے بعد سب سے پہلا حکم اسے ادب ہی کا ملا، اولادِ آدم کو سب سے پہلا درس ایک دوسرے کیلئے سلامتی طلب کرنے کا دیا گیا۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے :

عَنْ أَبِي ہُرَیْرَۃَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَلَقَ اللَّہُ آدَمَ عَلَی صُورَتِہِ طُولُہُ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمَّا خَلَقَہُ قَالَ اذْہَبْ فَسَلِّمْ عَلَی أُولَئِکَ النَّفَرِ ۔۔۔ الیٰ آخرہ (بخاری ومسلم) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا، آپ ساٹھ گز لمبے تھے، جب انہیں پیدا کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا جائو جو فرشتوں کی جماعت بیٹھی ہوئی ہے انہیں سلام کرو پھر ان کے کلمات کو غور سے سنو کہ وہ کیا کہتے ہیں۔

پھر وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا تو آپؑ تشریف لے گئے اور’ السلام علیکم‘ کہا تو فرشتوں نے جواب میں کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ آپؐ نے فرمایا انہوں نے ’رحمۃ اللہ‘ کا اضافہ کیا پھر حضورؐ نے ارشاد فرمایا جو بھی جنت میں جائیگا وہ حضرت آدم ؑ کی صورت پر ہوگااور وہ ساٹھ گز لمبا ہوگا اوراس وقت سے اب تک بنی آدم کی لمبائی میں کمی ہوتی رہی۔ اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ ابن آدم کو جو سب سے پہلا حکم ملا وہ ایک دوسرے کی تعظیم وسلامتی کا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ سلام کرنا ادب ہی کا ایک حصہ ہے، اسی سے دشمنی کی آگ بجھ جاتی ہے اور آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے، رب تبارک تعالیٰ نے اپنی اہم عبادت نماز کے آخر میں ایک دوسرے مسلمان پر سلام بھیجنا لازم قرار دیا، نماز کی تکمیل سلام پر ہوتی ہے، سلام کرنا گویا ایک دوسرے کا ادب کرنا ہے اور یہ سب سے بہتر عمل ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما أن رجلاً سأل رسول اللہ ﷺ: أي الإسلام خیر؟ ۔۔۔ اٖلیٰ آخرہ (بخاری ومسلم) حضرت عبداللہؓ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اسلام کی کونسی خصلت سب سے بہتر ہے، آپؐ نے فرمایا تم (لوگوں) کو کھانا کھلائو اور ہر (مسلمان) کو سلام کرو جسے تم جانتے ہو یا نہ جانتے ہو۔ سلام کرنے میں بھی ادب کی تعلیم ہے، بخاری شریف میں ہے: قال رسول اللہ ﷺ لیسلم الصغیر علی الکبیر والمار علی القاعد والقلیل علی الکثیر (بخاری) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: چھوٹا بڑے کو سلام کرے اور گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اورکم تعداد والی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے۔ ’سلام ‘ کرنا خود ادب بجالانا ہے، اس میں بھی آداب بتائے گئے، سلام کرنا قانونِ اسلامی سے ہے اور اجر وثواب کا باعث ہے، یہ آداب زندگی سے ہے۔

مسلمانوں کے درمیان آپسی ملاقات میں صرف سلام پر اکتفاء کرنا ادنیٰ درجہ ہے، مصافہ ومعانقہ کرنا یہ اعلیٰ درجہ ہے۔ چنانچہ رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: تمام تحیتکم بینکم المصافحۃ (ترمذی، احمد) (اے مسلمانوں) تمہارے درمیان مکمل سلام مصافحہ کرنا ہے، مصافحہ میں اظہار محبت، وبھائی چارگی ہے، اس سے نفرتوں کی آگ بجھ جاتی ہے، جذبِہ ہمدردی، ادب ظاہر ہوتاہے، دلوں میں محبتوں کے چراغ روشن ہوتے ہیں، دومومن کے ملنے سے رب کریم خوش ہوتا ہے اور گناہوں کو معاف کرتا ہے، چنانچہ حدیث شریف میںہے: قال رسول اللہ ﷺ: ما من مسلمین یلتقیان فیتصافحان الا غفر لھما قبل ان یفترقا (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ) رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دو مسلمان آپس میں مصافحہ کرتے ہیں تو انکے جدا ہونے سے قبل دونوںکے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔

ہر وقت مصافحہ کرنے میں حرج ہوتا ہے، لیکن مصافحہ کے لئے کسی وقت یا جگہ کی کوئی قید نہیں۔ بازار، مکان، مسجد، مجلس جہاں ملاقات ہو مصافحہ کی اجازت ہے۔ یقینا مصافحہ میں ثواب ہے اگر مسلمان نماز کے بعد مصافحہ کرتے ہیں تو شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے۔ بعدِ نماز امام ِمسجد یا عالم ِدین یا عام لوگوں سے مصافحہ کرنے میں اظہار خیال کا موقع ملتا ہے، ایک دوسرے کے حالات معلوم ہوتے ہیں، دورِ حاضر میں اکثر لوگ فرض کی ادائیگی کے بعد فوراً مسجد سے باہر نکل جاتے ہیں، کچھ لوگ آپس میں مصافحہ کرتے ہیں تو بعض حضرات اسے بدعت سمجھتے ہیں، یہ تو آپس میں ایک دوسرے کے حال چال پوچھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

شریعت مطہرہ میں قابل قدر اصحاب وقابل عظمت چیزوں کا ادب ہے۔ قبلہ کا ادب ہے، علماء ومشائخ کا ادب ہے، امیر وسردار کا ادب ہے، ماں باپ کا ادب ہے، بڑے بزرگوں کا ادب ہے اور انکے حدود بھی مقرر کئے گئے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی شخص ماں باپ، یا علماء ومشائخ یا بزرگ حضرات یا سردار کی تعظیم کرتے ہوئے کھڑا ہوتا ہے تو یہ جائز ہے، بلکہ رسول ِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ادب بجالانے کا حکم دیا : چنانچہ بخاری ومسلم میں ہے: عن ابي سعید الخدري ؓ قال رسول اللہ ﷺ: قوموا الیٰ سیدکم أوالی خیرکم (بخاری ومسلم) حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار صحابہ سے ارشاد فرمایا تمہارے سردار (آرہے ہیں) ان کے لئے کھڑے ہوجائو۔

آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں انصاری صحابہ حاضر تھے آپؐ نے حضرت سعد بن معاذ ؓ کو آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا تمہارے سردار آرہے ہیں ان کیلئے کھڑے ہوجائو۔ یہ حدیث شریف بخاری ومسلم کے علاوہ احادیث شریفہ کی کئی کتب میں آئی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ علماء مشائخ ، ماںباپ، سردار بزرگ کیلئے کھڑا ہونا جائز ہے، بلکہ سنتِ صحابہ، سنت قولی ہے۔ البتہ اپنی تعظیم کیلئے لوگوں کو کھڑے ہونے کا حکم دینا ان کے نہ کھڑے ہونے پر ناراض ہونا، اس میں اپنی کسر شان سمجھنا یہ درست نہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: قال رسول اللہ ﷺ من سرّہ ان یتمثل لہ الرجال قیاما ۔۔۔ اٖلیٰ آخرہ (ترمذی) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جسے یہ پسند ہو کہ لوگ اس کیلئے کھڑے ہوجائیں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ اس حدیث سے واضح ہے جو اپنی تعظیم کروانے کیلئے لوگوں کو کھڑا کرتا ہے ان کے نہ کھڑے ہونے پر ناراض ہوتاہے ایسے شخص کیلئے سخت وعید آئی ہے۔

اگر لوگ بخوشی ادب کی خاطر کھڑے ہوتے ہیں تو ممانعت نہیںہے۔ کسی شیخ یا عالم یا عادل حاکم یا استاذ کے سامنے شاگردوں کا کھڑا ہونا مستحب ہے، اگر چہ یہ حضرات بیٹھے ہوئے ہوں اور شاگرد وغیرہ کھڑے ہوں (مرقات) بعض حضرات بڑوں کے ادب کی خاطر کھڑے ہونے کو حرام وناجائز قرار دیتے ہیں، ان کا اس طرح کہنا حدیث شریف کے بالکل خلاف ہے، یہ حقیقت ہے کہ مسلم معاشرے سے آہستہ آہستہ ادب ختم ہوتا جارہا ہے، نہ ماں باپ کا ادب باقی ہے، نہ علماء ومشائخ کا ادب باقی ہے، نہ ہی بڑے بزرگوں کا ادب باقی ہے نہ عبادتوں میں ادب باقی ہے، اللہ کے گھر مسجدوں کا ادب بھی باقی نہ رہا۔

ایک نمازی وضو کرنے کے بعد چہرے اور ہاتھ پر لگا ہوا پانی مسجد کے اندر اپنے ہاتھوں سے چھڑکتا ہے، وہ اس فعل کو عار بھی نہیں سمجھتا بلکہ بعض کا روباری مسلمان مساجد میں صرف قضائے حاجت کیلئے آتے ہیں، پیشاب پاخانہ سے فارغ ہونے کے بعد نماز ادا کئے بغیر ہی چلے جاتے ہیں، کیا اللہ کے گھر قضائے حاجت کے لئے ہیں؟ یقینا مساجد شعائر اللہ ہیں (اللہ کی نشانیاں) ان کا ادب بجالانا ضروری ہے، مساجد صرف ذکر الٰہی وعبادت کیلئے ہوتی ہیں۔ مسجدوں میں دنیاوی باتیں کرنے سے نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اسلام نے خاص کر عبادتوں میں آداب کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیا، اس میںکوتاہی اور ادنیٰ سی غفلت اس کی روح سے محرومی کا سبب ہے۔

یہ حق ہے کہ نماز سب سے اہم عبادت ہے جو مومن کی معراج ہے، مومن کی روحانی غذا ہے، دلوں کا چین ہے سکون وراحت کا باعث ہے۔ دور حاضر میں ہماری نمازیں بھی صرف رسمی ہوگئیں۔ بقول شاعر مشرق: رہ گئی رسمِ اذانِ، روح بلالی نہ رہی۔ آدابِ صلوۃ باقی نہ رہے، یہ ایسی عبادت ہے جس کے آداب میں سے ہے کہ اگر کوئی نمازی کے سامنے سے گزرنا چاہے تو وہ ہرگز سامنے سے نہیں گذر سکتا، آگے سے گذرنے والے کیلئے انتہائی سخت وعید آئی ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے: قال رسول اللہ ﷺ: لو یعلم المارّ بین یدي المصلي ماذا علیہ ۔۔۔ اٖلیٰ آخرہ (بخاری ومسلم) رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جان لے کہ (نمازی کے سامنے سے گذرنے میں) کیا گناہ ہے تو وہ ضرور چالیس (سال یا ماہ) کھڑے رہنا پسند کرے گامگر ہرگز نماز کے سامنے سے نہیں گزریگا۔

نمازی کی بڑی اہمیت ہے اسی لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کے آداب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: قوموا للہ قانتین (بقرہ) (اے نمازیوں حالت نماز میں) خاموشی کے ساتھ کھڑے رہو، نماز میں کسی قسم کی حرکت نہ ہو، اس کے آداب کو ملحوظ رکھا جائے، بلکہ حالت نماز میں اگر کسی کا خیال خدا کے علاوہ دوسری طرف چلا جائے تو رب کریم کی رحمت کہتی ہے بندے تیرے پاس مجھ سے بھی بڑھ کر کوئی اور چیز ہے جو تو اپنا خیال دوسری طرف لے جارہا ہے، لیکن بعض حضرات کی نمازوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ حالت ِنماز میں باربار اعضاء کو کھجاتے ہیں، آواز کے ساتھ منہ کھول کر جمائی لیتے ہیں جبکہ عمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، ننگے سر نماز ادا کرتے ہیں اور نمازی کے سامنے سے گذرنے کو گناہ نہیں سمجھتے۔

حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے سوال کیا سب سے بڑی چوری کونسی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں تو آپؐ نے ارشاد فرمایاسب سے بڑی چوری یہ ہے کہ نماز کو اس کے فرائض وآداب کے ساتھ نہ ادا کیا جائے۔ کیا رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر عمامہ وٹوپی کے نمازیں پڑھتے تھے؟ کیا آپؐ اپنے پیروں کو پھیلا کر نماز ادا کرتے تھے؟ کیا نماز میں اس طرح کی حرکت کرتے تھے؟ جو شخص اپنی نماز میں آداب کو ملحوظ رکھتا ہے یقینا اس کو سکون ملتا ہے، رب رحیم کا فرمان ہے: الا بذکر اللہ تطمئن القلوب: سنو! آگاہ ہوجائو! اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کواطمئنان نصیب ہے۔

نماز اللہ کی عبادت ہے، دل کا سکون ہے اسلام نے ہر عمل میں ادب کی تعلیم دی۔ اگر جمائی بھی آجائے تو اس کے بھی آداب سکھائے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے: ان رسول اللہ ﷺ قال:اذا تثاء ب احدکم فلیمسک بیدہ علی فیہ (مسلم) بے شک رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی جمائی لینے لگے تو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لے، اس لئے کہ شیطان منہ میں داخل ہوتا ہے ۔ اس کی آواز اور اس کے زور سے سانس لینے سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے، کسی بھی دین میں ایسی تعلیم نہیں دی گئی۔ شریعت مطھرہ نے زندگی کے ہر گوشہ میں ادب کی تعلیم دی۔

رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم ہر اچھے کام میں دایاں ہاتھ استعمال کرتے مثلا: وضو، غسل، کھانے پینے، پہننے، لین دین وغیرہ اور استنجاء اورقضائے حاجت کیلئے بایاں ہاتھ استعمال فرماتے ، یہ حقیقت ہے کہ آدمی ادب ہی سے بلند مقام حاصل کرتا ہے، بے ادبی انسان کو ذلیل وحقیر بنادیتی ہے، غور طلب بات ہے خانہ کعبہ مکہ مکرمہ میں ہے، وہ اللہ کا سب سے قدیم گھر ہے، اسکا ادب بجالانے کا حکم شریعت نے دیا ، دنیا کے کسی بھی خطہ میں ہو، وہاں سے ہزاروں میل دور ہوتو بھی اس کا ادب کرنا لازمی ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اذا اتیتم الغائط فلا تستقبلوا القبلۃ ولا تستدبروھا (بخاری ومسلم) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم پیشاب پاخانہ کیلئے جائوتو تم قبلہ کی طرف رخ کرونہ پیٹھ کرو۔ یہ حکم ساری دنیا کے مسلمانوں کیلئے ہے، مسلمان خانہ کعبہ سے ہزاروں میل دور رہتے ہوں تو بھی ان پر لازم ہے کہ وہ قبلہ کا ادب بجالاتے ہوئے ادھر رخ وپیٹھ کرکے قضائے حاجت نہ کریں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں ادب کا کتنا زیادہ پاس ولحاظ رکھا گیا ، لیکن افسوس ہے کہ نوجوانوں سے آدابِ زندگی بالکل ختم ہوتے چلے جارہے ہیں۔

اللہ ہم سب کو ادب کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔
٭٭٭