مذہبنکاح

ایک مثالی خاتون بیوی اور ماں کی روپ میں

اللہ سبحانہ نے اس دنیا کو دارالامتحان بنایا ہے، ہر ایک کی زندگی کاانجام موت ہے،ارشادباری ہے ’’ہرنفس کوموت کامزہ چکھنا ہے، قیامت کے دن تم کو (اپنے عمل کا) پورا پورا بدلہ ملے گا پس جوآگ کاایندھن بننے سے بچالیا جائے اورجنت میں داخل کردیا جائے بیشک وہی کامیا ب ہے، دنیا کی زندگی تو صرف دھوکہ ہے‘‘ (آل عمران؍۱۸۵)۔

مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786

اللہ سبحانہ نے اس دنیا کو دارالامتحان بنایا ہے، ہر ایک کی زندگی کاانجام موت ہے،ارشادباری ہے ’’ہرنفس کوموت کامزہ چکھنا ہے، قیامت کے دن تم کو (اپنے عمل کا) پورا پورا بدلہ ملے گا پس جوآگ کاایندھن بننے سے بچالیا جائے اورجنت میں داخل کردیا جائے بیشک وہی کامیا ب ہے، دنیا کی زندگی تو صرف دھوکہ ہے‘‘ (آل عمران؍۱۸۵)۔ اللہ سبحانہ کسی کوجب اس کی موت کا وقت آجائے مہلت نہیں دیا کرتے ۔یعنی ایک لمحہ کی تاخیربھی نہیں ہوتی( المنافقون؍۱۱) مرزا شوق لکھنوی نےاپنے شعر میں موت کی حقیقت کو سمجھایا ہے ۔

موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے

کیا بھروسہ ہے زندگانی کا
آدمی بلبلہ ہے پانی کا

اس دنیا میںخوشی ومسرت ،راحت ورحمت کے مواقع بھی رکھے گئے ہیں،رنج وغم اورمصیبت والم کے بھی ،زندگی میں کبھی خوشیوں، مسرتوں کے شادیانے بجتے ہیں توکبھی امتحان و آزمائش کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں،ایسے میں اسلام نے صبر اور نماز سے مددحاصل کرنے کی تلقین کی ہے۔یقینا اللہ سبحانہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں ۔(البقرہ؍۱۵۳) جب امتحان وآزمائش کی گھڑیاں ہوتی ہیںتواللہ سبحانہ کے نیک بندوں کی زبان پر انا للہ وانا الیہ راجعون کے کلمات جاری ہوجاتے ہیں ،ہم اللہ سبحانہ ہی کے ہیں یقینا ہم اسی کی طرف لوٹنے والےہیںیہی وہ خوش نصیب بندے ہیں جن پر ان کے رب کی بے نہایت نوازشات اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور یہی لوگ راہ ہدیت پر ہیں۔

زندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہےجس سے کسی ذی روح کومفر نہیں،موت کا آنا یقینی ہے ویسے ہرایک کی موت انسان کو غمگین کرتی ہے لیکن اپنے پیاروں کی موت کچھ زیادہ ہی غمزدہ کردیتی ہے، انسان کے لئے دو رشتے بڑی اہمیت رکھتے ہیں ایک والدین کا اور دوسرے رفیق حیات کا، والدین وہ عظیم ہستی ہیںجواس دنیا میں ہمارے وجودکاذریعہ ہیں۔ رفیق زندگی وہ ہوتی ہےجواپناگھربار، محبت وشفقت کے پیکر ماں باپ، پیارے دلارے بھائی بہن سب کو چھوڑ چھاڑ کر ایک انجانے انسان کاساتھی بننے کےلئےتیارہوجاتی ہے۔ زندگی کاسفرخواہ طویل ہوکہ مختصروہ پلک جھپکتے گزر جاتا ہے، زندگی کے آخری پڑائو پریہ حقیقت منکشف ہوتی ہےجس کو خواجہ میردردنےایک شعرکے پیرہن میں ڈھالاہے۔

وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا 

اسلام نے ایک مرد وعورت کو نکاح کے ڈور میں باندھ کر ایک دوسرے کا مونس وغمگسار بنایا ہے ظاہر ہے دونوں میں سے کسی ایک کو دنیا سے رخصت ہونا ہے ،شوہر اور بیوی اپنے رب کی مرضیات کو پیش نظر رکھ کر زندگی گزاریں گے تو دنیا کا یہ رشتہ ان شاء اللہ العزیز آخرت کی ابدی زندگی میں بھی قائم رہے گا ۔ظاہر ہے دونوں میں سے کسی ایک کا دنیا سے رخصت ہوجانا رنج والم کا باعث ہوتا ہے لیکن ایمان والے بندے اپنے رب کے فیصلوں پر راضی رہتے ہیں ۔

تاہم رفیق سفر کی اہمیت اپنی جگہ ہے یہ ایک فطری بات ہے کہ زندگی کا سفریکاوتنہانہیں گزاراجاسکتا،زندگی کے نشیب وفرازمیں ایک رفیق سفرکی ضرورت ہوتی ہے،اللہ سبحانہ نے اس فطری تعلق ومحبت کونکاح سے جوڑاہے،انسانوں کی جنس ہی سےعورت کی تخلیق جنسی یگانگت کی وجہ انس وراحت کاذریعہ بنتی ہے،چمنستان حیات میں ہمیشہ راحت وسکینت کی باغ وبہاری نہیں رہتی بلکہ کبھی دشوارگزارگھاٹیوں سے بھی گزرناپڑتا ہے۔

خوشیوں کے سکھ بھرے اجالوں کے ساتھ غموں کے اندھیارے قدم قدم پرانسان کا امتحان لیتے ہیں، امیدوں، آرزوں اورنیک تمنائوںکے گل وگلزارجہاں مہکتے ہیں وہیں ناکامیوں اور مایوسیوں کےبادل سروں پر منڈلاتے رہتے ہیں ایسے میں رفیق سفرایک نعمت غیر مترقبہ ہوتی ہے، پیارومحبت، ہمدردی وشفقت ،انس و راحت ،اطمینان وسکینت کاایک بیش بہا سہارا مل جاتاہےجس سے سفرحیات کی کٹھن راہوں میں حوصلہ ملتا ہے۔

زندگی کاسفرجیسےجیسے آگے بڑھتاہےرفاقت کارشتہ مزید مستحکم ہوتا جاتا ہے، بلائوں کا ہجوم ہوکہ مصائب وآلام کے طوفان مونس وغمگسار رفیق حیات کے چند میٹھے بول ابرنیساں کےحیات بخش قطروں کی طرح ٹھنڈک پہنچاتے ہیں،اس کی الفت ومحبت اورمشکلات میں اس کی چاہت بھری رفاقت شبنم کی خنکی کی طرح راحت فزاہوتی ہیں۔غارحراء میں جب سیدنامحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرپہلی وحی نازل ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے اپنی مونسہ رفیق حیات بی بی حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہاکے پاس تشریف لائے اور فرمایا ’ ’ مجھےچادر اڑھاؤ، مجھےچادر اڑھاؤ‘‘اہل خانہ نے اس کی تعمیل کی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کو تمام واقعہ سنایا۔

آپ رضی اللہ عنہا نے تسلی آمیز چندجملوں نےبڑی ڈھارس بندھائی اور عرض کی’’ ہرگز نہیں آپ کو یہ خوشخبری مبارک ہو، اللہ سبحانہ آپ کو ہرگز رسوا نہیں فرمائیں گے،اللہ سبحانہ گواہ ہے آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ناداروں کی مالی مددکرتے ہیں ، مہمان نواز ہیں اور راہِ حق میں مصیبت زدہ افراد انسانیت کی مدد کرتے ہیں۔ فدخل على خديجة بنت خويلد رضي الله عنها فقال ( زملوني زملوني ) . فزملوه حتى ذهب عنه الروع فقال لخديجة وأخبرها الخبر(لقد خشيت على نفسي ) فقالت خديجة كلا والله ما يخزيك الله أبدا إنك لتصل الرحم وتحمل الكل وتكسب المعدوم وتقري الضيف و تعين على نوائب الحق (بخاری؍۱؍۴)

الغرض رفیق حیات سےافکارواندیشوںکے گرداب میں پھنسی کشتی ٔحیات کوکنارہ مل جاتاہے،اللہ سبحانہ نے بلیغ پیرائے میںاس رشتہ کی حقیقت کوسمجھایاہے: هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ’’وہ (بیویاں) تمہارالباس ہیں اورتم ان کے لباس ہو‘‘ (البقرہ؍۱۸۷) یعنی پردہ و زینت اورآرام وراحت کا باعث ہیں۔لباس کی طرح یہ فطری رشتہ سترپوش ہونے کے ساتھ وقارواعتباربخشتاہے،باعث زینت وجمال ہے۔

نیک خو بیویاں اطاعت گزارہوتی ہیں (مردوں کے) غیاب میں وہ اللہ سبحانہ کی حفاظت سے حفاظت کرنے والیاں ہوتی ہیں (النساء؍۳۴) حدیث پاک میں ان کی خوبیاں بیان کی گئی ہیںیعنی بہترین بیوی وہ ہےجس کودیکھنے سے مسرت وخوشی حاصل ہو، ہنستے مسکراتے ہوئے شوہر سے ملاقات کرے اور جو اطاعت گزار ہو اور شوہر کی غیر موجودگی میں اپنی عفت وعصمت اور شوہر کے اموال کی حفاظت کرے۔ خير النساء من تسرك إذا أبصرت وتطيعك إذا أمرت وتحفظ غيبتك فى نفسها ومالك (جمع الجوامع۱؍۱۲۳۰۹) الغرض عورت حسن کردار سے اپنی اور اپنے گھروالوں کی زندگی کوجنت کا نمونہ بنالیتی ہے اور آخرت کی ابدی زندگی میں اللہ سبحانہ اس کوجنت(کاراحت وآرام) عطا فرماتے ہیں۔ أيما امرأة ماتت وزوجها عنها راض دخلت الجنة (سنن الترمذی۵؍۳)۔

الغرض اسلام کانظام حیات بڑاپاکیزہ ہے،نکاح اس نظام حیات کااہم ترین باب ہے جس میں مردوزن ایک ساتھ زندگی گزارنے کاعہدوپیمان کرتے ہیں،اس کےذریعہ ایک مضبوط قلبی تعلق محبت قائم ہوتاہے،یہ بابرکت رشتہ سکونِ قلب، تسکین وراحت کاسامان فراہم کرتاہے، اللہ سبحانہ نےبیویوں کو شوہروں کےلئے تسکین خاطرکاسامان بنایاہے’’اوراس کی (قدرت کی)ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئےتمہاری جنس سےبیویاں پیدافرمائیںتاکہ تم ان سے سکون حاصل کرسکو، تمہارے درمیان محبت ورحمت کےجذبات پیدا فرما دئیے‘‘ (الروم ؍۲۱)۔ نیک وصالحہ پاکیزہ اطوارواعلی اخلاق وعادات سے متصف بیوی یقیناقیمتی متاع حیات ہے،حدیث پاک میں اچھی نیک اورصالحہ خاتون کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیا گیا ہے۔ الدنيا متاع و خير متاع الدنيا المرأة الصالحة (شعب الایمان۴؍۱۵۰)۔اس پاکیزہ رشتہ سے ایک صالح خاندان کی تشکیل ہوتی ہے۔

ایک ایسی ہی نیک خاتون جومومنانہ اوصاف ،صالح افکار واعمال کانمونہ تھی،بقضائےالٰہی روزجمعہ مؤرخہ۲۹؍ربیع الثانی ۱۴۴۴ھ م۲۵، نومبر۲۰۲۲ء جس کی وفات ہوئی۔ ۲۵جمادی الاولی مطابق ۵؍جون ۱۹۷۵ء احقرکےساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی،اسلام نےجن اچھےصفات کی حامل عورتوں کی تعریف بیان کی ہےوہ اس کی آئینہ داررہی ہےیہ محض اللہ سبحانہ کافضل وکرم ہےایسی نیک عفیف و پاکدامن نیک خوصالح فطرت، وفاشعار،اطاعت گزار بیوی اللہ سبحانہ نے احقر کو عطا فرمائی اورثمرہ نکاح یعنی اس سے اللہ سبحانہ نے اولاد بھی بخشی جوبفضل تعالی دیندار، والدین کی مطیع وفرماں بردار ہے۔ اس کی زندگی کے شب و روز قابل رشک تھے، فرائض کےساتھ بکثرت نوافل کااہتمام،تلاوت قرآن، ذکر واذکارپرمواظبت ،خلق خداسے مروت،رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی جس کی زندگی کےقابل تقلیدمعمولات رہے ہیں۔

کتاب وسنت کےاکثر اوراد، صبح وشام کےاذکار،موقع ومحل کی مناسبت سےکی جانے والی مسنون دعائیں ازبر تھیں، اپنے بچوں اورپوتوں،نواسوں کا قرآن پاک سننا اورسنانا شب و روز کامشغلہ تھا،خاص طورپر نماز تراویح میں قرآن سنانے سے قبل تمام بچوں کاقرآن پاک سنتی۔ابتداءہی سے امور خانہ داری کی باحسن الوجوہ انجام دہی، حسن انتظام اورمہمان نوازی وخاطر داری، سلیقہ، طریقہ، رکھ رکھائو،برتائو مزاج وطبیعت میں رچا بسا تھا۔ اپنے شوہر کے حقوق وفرائض کےساتھ خدمت وطاعت کی جواضافی اخلاقی ذمہ داریاں ہوتی ہیں جن کاانجام دینابیوی پرلازم نہیں رہتالیکن یہ نیک خوبیوی برضاورغبت اوراپنے من کی چاہت کے ساتھ اس کا بھی بہت زیادہ پاس ولحاظ رکھتی تھی۔

ماں کےروپ میں وہ ایک کامیاب ماں رہی ہےجوماں اسلام کےعالی اخلاق کاپیکر،نیک وصالحہ ہووہ ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں، ماں کی جدائی اولادکےلئےبڑی شاق ہوتی ہے، اولاد کارشتہ ماں باپ کےساتھ خون وگوشت کارشتہ ہوتا ہے جو ایسا ابدی ہے کہ اس کاتعلق دونوں جہاں میں قائم رہتا ہے، ماں کی مثال ایک روشن چراغ کی ہےجس کی روشنی اولاد کےلئےصحیح راہ دکھانے کاکام کرتی ہے،ماں کی گودبچوں کی اولین درسگاہ ہے، بچپن میں بچےجوکچھ اپنی ماں سے سیکھ لیتے ہیں وہ کبھی نہیں بھلاپاتے۔

وہ مائیں جوتعلیم یافتہ اورتربیت سے آراستہ ہوںوہ ایک اچھی ماں کہلاتی ہیں،ان کی گودمیں پرورش پانے والی اولادبھی ان کی عالی صفات کاپرتو ہوتی ہیں،ماں کے روپ میں اس نیک صفت خاتون نےاپنے بچے بچیوں کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ اسلامی احکام وآداب اور اخلاق عالیہ سے نکھارنے اور سنوارنے کے فریضہ کو خوب خوب نبھایا، اولاد کو صالح افکار و اعمال، عمدہ عادات واطوار کا مالک بنانے میںہمیشہ کوشاں رہیں،ان کی جسمانی طہارت، لباس وپوشاک کی ستھرائی ،ان کے خوردنوش کے بہترانتظام اوروقت مقررہ پران کے کھیل کود کاہمیشہ خیال رکھتی ،بچپن کے زمانہ میںبچیوں کی ہمجولیاں اوربچوں کےدوست بھی عصربعدگھرپرجمع ہوتے اورسب ملکرکھیلتےاس کی نگرانی رکھتی اور ان بچے بچیوں کے ساتھ بھی شفقت ومحبت کا برتائو کرتی، خودبھی ہمیشہ احکام اسلامی کےمطابق ساترانہ لباس پہنتی اور بچے بچیوں کوبھی اس کاپابندرکھتی،یہی وجہ ہےکہ ان کے تین لڑکوں نےکبھی افرنگی لباس نہیں پہنا ، اورخاص طورپرلڑکیوں کو بھی اپنے ہی رنگ میں ایسےرنگاکہ انہوں نےگھروں میں بھی غیرساترانہ لباس زیب تن نہیں کیااوراب ان کی اولاد کی لڑکیاں یعنی نواسیاں ،پوتیاں بھی اسی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔ خاص طورپرشادی بیاہ میں اسلامی طرزکےلباس کےساتھ پردہ وحجاب کی ہمیشہ پابندرہی ہیں۔

فللہ الحمد والشکر۔ انشاء اللہ العزیز اللہ سبحانہ کی ذات سے یقین ہے کہ وہ بھی اپنی نسلوں کی ایسی ہی تربیت کریں گی اور ان کو اچھی بیوی، اچھی بہن،اچھی ماں، اچھی بہواوراچھی نند بنانے کےلئے فکرمندرہیں گی۔ اپنے بھائیوں، بہنوں اور خاندانی رشتہ داروں کےساتھ سسرالی رشتہ داروں کا بڑاخیال رکھتی، عام طورپر نند، بھاوج، دیورانی، جٹھانی کے رشتے ناطے نادانی وکم فہمی کی وجہ شکوہ و شکایات کی وجہ بنتے ہیںاللہ سبحانہ نے اپنے بے نہایت فضل و کرم سے مرحومہ کو اس سے بھی محفوظ رکھا تھا۔ الغرض خلوص و محبت کا پیکرتھی جس کی وجہ ہردو(شوہربیوی کے)خاندانوں میں مقبول تھی، مسلم سماج میں ایسی نیک بیویوں ،مائوں اوربہنوں کی کمی نہیں ہےان کی وجہ مسلم سماج کی بڑی حدتک ساکھ برقرار ہے، بکثرت جتنے نیک وصالح، دیندار، متقی وپرہیزگار نوجوان ہیں وہ سب امت کی نیک مائوں کی دین ہیں۔

ایسی خواتین کےتذکرےمنظرعام پرآناچاہیےتاکہ اس سےروشنی ملے،اسی غرض سےایک نیک خاتون کی وفات پر چندباتیں یہاں سپردقلم کی گئی ہیں ،اس تذکرہ سےپندونصیحت مقصودہےکوئی تفاخریا دکھاوا نہیں۔مغربی تہذیب کی یلغار نے مشرقی تہذیب وتمدن کی جڑوں کو کھوکھلا کردیاہے، دینی تعلیم و تربیت سے غفلت ،عصری تعلیم ومعاشی ذرائع کی تحصیل کے لئے مخلوط نظام نےنئی نسل کودین سےبے بہرہ کردیاہے،شرم وحیا، غیرت وحمیت کے تقاضےموت کی نیندسوگئے ہیںجس کی وجہ آبروئیں لٹ رہی ہیں، عزتیں نیلام ہورہی ہیں، فساد وبگاڑ یہاں تک پہنچ گیاہےکہ ارتدادکے دروازے کھل گئے ہیں۔ (الامان والحفیظ)۔

اس لئےفی زمانہ لڑکیوں کی تربیت کی بہت زیادہ اہمیت ہےتاکہ وہ جب ماں بنیں تو اپنے بچوں کی دینی نہج سے عمدہ تربیت کرسکیں،اس غرض کےلئے مائوں کا دیندار ہونا ضروری ہے اس لئےماں باپ کافرض ہےکہ پہلے وہ خوددیندار بنیں اور اپنی اولادکوبھی دینداربنانے کی جتن کریں، گھریلو نظام کواسلامی رنگ ڈھنگ کابنائیں ، امت مسلمہ کے مخیر اصحاب کی بھی ذمہ داری ہےکہ وہ غیرمخلوط نظام تعلیم کے ادارے قائم کریں،نصاب تعلیم میں اسلامی معلوماتی نصاب ضرور شامل رکھیں۔

نظام تعلیم میں خودشناسی وخداشناسی ،موت و آخرت کی یاددہانی کی بڑی اہمیت ہے،اسی سےمسلم سماج کو مغربی افکار و نظریات سے چھٹکارہ مل سکتاہےاوراس کی وجہ پھر سےایک صالح انقلاب برپاہوسکتاہے۔ الغرض ایک مثالی بیوی اور ماں کا گھریلوزندگی کو خوشگوار بنانے اور اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے میں بڑا رول ہوتا ہے ۔ایک اچھے اور مثالی سماج کی تشکیل میں اس کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔اللہ سبحانہ مرحومہ کی بخشش ومغفرت فرمائے اورجنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے اور امت مسلمہ کودینی شعور رکھنے والی مثالی بیویاں اورمائیں عطا فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭