مذہب

بے قصور گرفتار مظلوموں کی مدد

اس وقت ملک میں ایک اندازہ کے مطابق تقریباًدس ہزار مسلم نوجوان سلاخوں کے پیچھے ڈال دیئے گئے ہیں، ان کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے اور ان ہی کے ذریعہ پورے خاندان کی معاشی ضروریات پورا ہواکرتی تھیں

اس وقت ملک میں ایک اندازہ کے مطابق تقریباًدس ہزار مسلم نوجوان سلاخوں کے پیچھے ڈال دیئے گئے ہیں، ان کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے اور ان ہی کے ذریعہ پورے خاندان کی معاشی ضروریات پورا ہواکرتی تھیں، کئی والدین ہیں جو اپنے بچوں کی دید کی حسرت آنکھوں میں سجائے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگئے، کئی بیویاں ہیں کہ سالہا سال سے انھوں نے خوشی کا چہرہ نہیں دیکھا، کتنے ہی لڑکے اور لڑکیاں ہیں جن کی معصوم آنکھیں اپنے والدکے انتظارمیں آنسو بہا رہی ہیں، اور گھر کے ذمہ دار فرد کے جیل میں چلے جانے سے وہ نہ صرف تعلیم و تربیت سے محروم ہیں؛ بلکہ حلق تر کرنا بھی ان کے لئے دشوار مرحلہ ہے، افسوس یہ ہے کہ ان گرفتار نوجوانوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے، جن پر اب تک کوئی فرد جرم عائد نہیں ہوئی ہے، پولیس اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے سے عاجز آچکی ہے؛ لیکن قانون کی تفصیلات اور عدالتوں کی ہدایتوں کے برخلاف حکومت ان بے قصوروں کو نا کردہ گناہ کی سزا دے رہی ہے، بظاہر ان کا قصور صرف مسلمان ہونا اور دیندار ہونا ہے ۔

یہ صورتِ حال انتہائی تکلیف دہ، مادر وطن کے دامن انصاف پر بد نما دھبہ، ملک کی جمہوریت اور سیکولرزم پر زبردست حملہ، انسانی حقوق کے ساتھ کھلا ہوا مذاق اور اخلاقی اقدار کی پامالی ہے ۔

اس میں شبہ نہیں کہ فرقہ پرستی کا یہ زہر زندگی کے تمام شعبوں میںخون کی طرح شامل ہورہا ہے، پھر بھی عدلیہ کا نظام بڑی حد تک غنیمت ہے اور دیر سے سہی مظلوموں کو انصاف مل جاتا ہے؛ لیکن یہ انصاف بھی دو پہلوؤں سے ادھورا ہے، ایک تو انصاف میں حد سے گذری ہوئی تاخیر، جرم وسزا کے مقدمات کے لئے ایک مدت مقرر ہونی چاہئے کہ اس مدت کے اندر اندر پولیس اپنے ثبوت پیش کر دے اور ملزم کو اپنی صفائی کا موقعہ مل جائے؛ کیوں کہ انصاف میں تاخیر خود ایک ناانصافی ہے، اگر کسی شخص کی عمر کے دس دس سال صرف معاملہ کی تحقیق میں جیل میں گذر جائیں تو اکثر اوقات پولیس کی اذیت رسانی او رذہنی تناؤ کی وجہ سے ایسا شخص کوئی کام کرنے کے لائق نہیں رہتا، اور ذرائع ابلاغ کی ’’عنایت‘‘ سے وہ اس قدر بدنام ہوجاتا ہے کہ اسے لوگ ملازمت دینا پسند نہیں کرتے، دوسرے ایسے بے قصور لوگوں کو صرف رہا کر دینا کافی نہیں ہے، عدالت کو چاہئے کہ وہ ایسے لوگوں کو بے قصور گرفتار رکھے جانے کا ہرجانہ ادا کرے، ان کو اچھے شہری ہونے کا سرٹیفکیٹ دے، ان کو ان کی صلاحیت کے مطابق ملازمت مہیا کرے، تب جاکر یہ خود انصاف کے ساتھ ’’انصاف‘‘ ہوگا، ورنہ تو وہ انصاف ادھورا ہی سمجھا جائے گا جس میں سالہا سال نوجوانوں کو قید کی صعوبت سے دوچار رکھا جائے، ان کا کیریئر تباہ ہوجائے اور پھر انھیں باعزت بری تو کردیا جائے؛ لیکن انھیں ایک ایسے مستقبل کی طرف دھکیل دیاجائے، جو ایک تاریک سرنگ کی طرح ہو اور جس کے آگے کوئی روشنی نہ ہو ۔

اس سلسلے میں خود ملت ِاسلامیہ کی کیا ذمہ داریاں ہیں ؟ ہمیں اس پر بھی نظر رکھنی چاہئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صرف ظلم کرنے سے بچنے کا ہی حکم نہیں دیا ہے؛ بلکہ ہمیں مظلوم کی مدد کرنے کا بھی حکم دیا ہے، حضرت براء بن عازب ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا ہے، اِن سات باتوں میں ایک مظلوم کی مدد کرنا ہے (بخاری، حدیث نمبر: ۲۴۴۵)ایک بار آپؐ راستے سے گذر رہے تھے، کچھ انصار راستے میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے ارشاد فرمایا : اگر تم کو ایسا ہی کرنا ہے تو سلام کا جواب دو، مظلوم کی مدد کرواور گذرنے والے کو راستہ بتاؤ، (ترمذی، حدیث نمبر: ۲۷۲۶) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اپنے بھائی پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس پر ظلم ہوتا ہوا دیکھ کر چھوڑدیتا ہے، پھر آگے ارشاد فرمایا : جو کسی مسلمان سے مصیبت کو دُور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت کو دُور فرمائیں گے: من فرج عن مسلم کربۃ فرج اللّٰه عنہ کربۃ من کربات القیامۃ (بخاری، حدیث نمبر: ۴۲۴۲)یوں تو مظلوم کی مدد کرنے کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں؛ لیکن اس میں نہایت اہم صورت کسی قیدی کو آزاد کرانا ہے، حضرت ابوموسی اشعریؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا : بھوکوں کو کھلائو، بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کو رہا کراؤ: … فکوا لعانی، قال سفیان: والعانی الأسیر (بخاری، حدیث نمبر: ۵۶۴۹)

’’قید‘‘ سے ملتی جلتی شکل غلامی کی تھی، جو اسلام سے پہلے مروج تھی اور جسے اسلام نے بتدریج ختم کیا، غلام گویا اپنے مالک کی قید میں ہوتا تھا، وہ نہ اپنی ذات میں مالک کی اجازت کے بغیر تصرف کر سکتا تھا اور نہ اپنے کمائے ہوئے مال میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی غلام کو آزاد کرایا تو یہ اس کے لئے دوزخ سے آزادی کا فدیہ ہوگا (ابو داؤد، حدیث نمبر:۳۹۶۶) حضرت ابوہریرہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا، اللہ تعالیٰ اس غلام کے ایک ایک عضو کے بدلے اس آزاد کرنے والے کے ایک ایک عضو کو یہاں تک کہ اُس کی شرمگاہ کے بدلے اِس کی شرمگاہ کو دوزخ کی آگ سے آزاد کردیں گے (مسلم، حدیث نمبر: ۱۵۰۹) اس مضمون کی متعدد روایتیں حدیث کی کتابوں میں نقل کی گئی ہیں، غور کیا جائے تو بے قصور قیدیوں کی غلامی ان زرخرید غلاموں کی غلامی سے بڑھی ہوئی ہے؛ اس لئے کسی بے قصور مسلمان قیدی کو آزاد کرانا بلاشبہ ایک غلام کو آزاد کرنے سے کم اجر و ثواب کی بات نہیں ۔

مسلمان مختلف طریقوں پر اپنے ان مظلوم بھائیوں کی مدد کرسکتے ہیں:

الف: تمام مسلمان متحد ہو کر بیک آواز اپنے اپنے علاقہ میں سیاسی نمائندوں پر دباؤ ڈالیں اور ان سے مطالبہ کریں کہ ان کا ووٹ اس بات سے مشروط ہوگا کہ وہ بے قصور نوجوانوں کو رہا کرانے میں تعاون کریں اور پولس کو ان قوانین کا پابند بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، جنھیں قانون ساز اداروں نے پاس کیا ہے، یا جن کے بارے میں عدالتوں کی ہدایات موجود ہیں ۔

ب: جمہوری نظام میں عوامی احتجاج کی بڑی اہمیت ہے؛ اس لئے پورے ملک میں پُر امن احتجاج منظم کیا جائے اور قانون اور آئین کی حدود میں رہتے ہوئے ریلیاں نکالی جائیں، جلسے کئے جائیں، سیمینار منظم کئے جائیں، احتجاجی خطوط لکھے جائیں اور جو بھی کوشش ہوسکتی ہے، ان کو روبہ عمل لایا جائے ۔

ج: مختلف ریاستوں کی سطح پر بھی اور مرکزی سطح پر بھی ایسے بے قصوروں کے لئے لیگل سیل قائم کئے جائیں، مسلمان وکلاء اس عظیم کازکے لئے اپنی مفت خدمات پیش کریں، یاکم سے کم فیس لینے کو قبول کریں، سیکولرزم کے حامل غیرمسلم وکلاء سے بھی مدد لی جائے، اہل ثروت مسلمان قانونی چارہ جوئی کے لئے مالی تعاون پیش کریں، قانونی کوششوں کا ہدف صرف ان کی رہائی نہ ہو؛ بلکہ یہ بھی ہوکہ جن پولس والوں نے نوجوانوں کو پھنسایا ہے، انھیں قرار واقعی سزا ملے، نیز قانونی کاروائی کو درمیان میں چھوڑنہ دیا جائے؛ بلکہ اسے نتیجہ تک پہنچایا جائے اوراس کے لئے مسلسل جد و جہد جاری رکھی جائے ۔

د: جو لوگ قید ہیں، ان کے اہل خانہ کی دیکھ ریکھ کا معقول انتظام کیا جائے، اگر ان کے بچے دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دینی مدارس ان کے ساتھ خصوصی رعایت کریں اورپوری کفالت اپنے ذمہ لیں، اگر وہ عصری تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے ادارے ان کے لئے مفت تعلیم مہیا کریں، اگر ان کی لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ ہوتو مسلمان تاجرین آگے بڑھ کر ان کے لئے اشیائِ ضرورت فراہم کریں، ایسے فنڈ قائم کریں جن کے ذریعہ ان کے گھر والوں کی ضروریات متوسط درجہ میں پوری ہوجائیں، اگر ان کے بچے بے روز گار ہیں تو ان کی صلاحیت کے لحاظ سے ان کے لئے روز گار فراہم کرنے کی کوشش کی جائے، ایک ایسی ملت جو بیس کروڑ افراد پر مشتمل ہو، اگر وہ اپنی قوم کے ستم رسیدہ، مظلوم اورمسلمان ہونے کی وجہ سے ستائے جانے والے دس ہزار گھروں کی کفالت نہ کر سکے تو اس سے بڑھ کر غیرت کی اور کیا بات ہوگی ؟

ھ: ان کاموں کے لئے مسلمانوں کو ایک منظم ادارہ کی بنیاد رکھنی چاہئے یا مختلف ریاستوں میں مختلف تنظیموںکو خالص دینی اور ملی جذبہ کے ساتھ اس کام کا بیڑا اُٹھانا چاہئے،افسوس کہ ہمارا ایک مرض یہ ہوگیا ہے کہ اگر مصیبت کے وقت اللہ کی توفیق سے ہم سے کچھ کام ہوجاتا ہے تو اس کے لئے بھی یہ جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ اس کام میں کس کا کتنا حصہ ہے ؟ ہونایہ چاہئے کہ اگر اللہ کسی سے کچھ کام لے لیں تو ہم اپنی خدمات کو اخبارات کے صفحات اور میڈیا کی اسکرین پر رقم کرنے کے بجائے اللہ کے رجسٹر میں درج کرانے کو تیار ہوجائیں، اگر ایسا ہو تو ہم دنیا میں بھی ایک باعزت قوم کی طرح جی سکتے ہیں اور آخرت میں بھی اللہ کی خوشنودی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں ۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ فرقہ وارانہ فسادات، دھماکے اور ان دھماکوں کے نام پر بڑی تعداد میں بے قصور مسلمانوں کی گرفتاری کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے؛بلکہ یہ ایک منصوبہ بند سازش ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو پست ہمت کرنا، انھیں اکیلا وتنہا کردینا، انھیں رسوا و خوار کرنا، ان کو ایک بے اثر، احساس کمتری سے دوچار، بے حوصلہ، مقاومت کے جذبہ سے خالی، شکست کی نفسیات سے دوچار، غریب ومفلس، جاہل واَن پڑھ، اپنی تاریخ پر شرمسار اور اپنے دین سے بے زار اقلیت بنا کر رکھنا ہے، اگر ہم نے اجتماعیت، مومنانہ فراست، جرأت وہمت، خطرات کا مقابلہ کرنے کی ہمت، ایمانی اُخوت، تعلق مع اللہ، ایک داعی کی حیثیت سے برادرانِ وطن کے ساتھ حسن سلوک اورجو مواقع حاصل ہیں، ان سے بھر پور استفادہ کے ساتھ اپنے قدم آگے نہیں بڑھائے تو منزل دُور سے دُور تر ہوتی چلی جائے گی اور ہماری مظلومیت کی داستاں بھی دراز سے دراز تر ہوتی رہے گی، پس ضروری ہے کہ ہم اپنے چہرے سے غفلت کی چادر اُٹھائیں اور شعور کی آنکھیں کھولیں، عزم وحوصلہ کو اپنا ہتھیار بنائیں اور اجتماعیت کا طریقۂ کار اپنائیں ۔ ٭