مذہب

تذکرہ امام ربانی شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ

آپؒ کا اسم گرامی ’’احمد‘‘ کنیت ابوالبرکات، لقب بدر الدین، خطاب امام ربانی مجدد الف ثانی ہے، آپؒ کی ولادت بمقام سرہند ۱۴؍ شوال ۹۷۱ھ شبِ جمعہ ہوئی اور آپؒ کی وفات ۲۸؍ صفر ۱۰۳۴ھ روز سہ شنبہ سرہند میں ہوئی۔ آپؒ کے والد ماجد حضرت شیخ ’’عبدالاحد‘‘ بلند پایہ عالم دین، عظیم المرتبت صوفی تھے، آپؒ کا سلسلہ نسب امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تک اکتیس واسطوں سے پہنچتا ہے۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

آپؒ کا اسم گرامی ’’احمد‘‘ کنیت ابوالبرکات، لقب بدر الدین، خطاب امام ربانی مجدد الف ثانی ہے، آپؒ کی ولادت بمقام سرہند ۱۴؍ شوال ۹۷۱ھ شبِ جمعہ ہوئی اور آپؒ کی وفات ۲۸؍ صفر ۱۰۳۴ھ روز سہ شنبہ سرہند میں ہوئی۔ آپؒ کے والد ماجد حضرت شیخ ’’عبدالاحد‘‘ بلند پایہ عالم دین، عظیم المرتبت صوفی تھے، آپؒ کا سلسلہ نسب امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تک اکتیس واسطوں سے پہنچتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی نے اکثر علومِ دینیہ اپنے والد گرامی سے حاصل کی۔ ان کے علاوہ حضرت مولانا کمال کشمیری ؒ ، حضرت مولانا یعقوب کشمیریؒ اور قاضی بہلول بدخشیؒ جیسے اکابر علماء سے بھی علم وفنون کی تحصیل کی، آپؒ حافظ قرآن تھے، اسرارِ قرآنی پر زبردست عبور حاصل تھا، علم حدیث میں بہت بلند مقام حاصل تھا۔ خود فرماتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مجھے طبقہ محدثین میں شامل کرلیا گیا ہو (زبدۃ المقامات) مسائلِ فقہ، اصولِ فقہ میں غیر معمولی مہارت تھی ، آپؒ حنفی المسلک تھے۔ علمِ کلام میں مجتہد تھے۔ آپؒ فرماتے ہیں مجھے ایک شب رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں فرمایا تم علم کلام میں مجتہد ہو اس وقت سے مسائل کلامیہ میں میری رائے خاص اور میرا علم مخصوص ہوا۔

حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ، تمام امور شریعہ میں احتیاط وتقویٰ کو ملحوظ رکھتے تھے، آپؒ کی نماز آپ کی کرامت تصور کی جاتی تھی۔ اس لئے کہ آپؒ نماز کے فرائض واجبات، سنن ومستحبات کو نہایت آداب سے ادا فرماتے تھے۔ مولانا بدر الدین سرہندی ؒ لکھتے ہیں: ’’ میں آپؒ کی نماز دیکھ کر بے اختیار ہوجاتا اور یقین رکھتا تھا کہ آپؒ ہمیشہ حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ہیں اور اسی طریقے کے مطابق آپؒ نماز ادا کرتے ہیں اور یوں تو اس حقیر نے دوسرے علماء ومشائخ کو بھی دیکھا ہے لیکن ایسی نماز کسی کی نہیں دیکھی۔‘‘ اور فرماتے ہیں کہ : ’’ اسی لیے ایک کثیر جماعت آپؒ کی نماز ہی کی وجہ سے آپؒ کی معتقد ہوئی تھی۔‘‘ (حضرات القدس )

حضرت مولانا بدرالدین سرہندی ؒ لکھتے ہیں: ’’ ایک عاقل خدا پرست شخص جو حضرت مجدد کی خدمت میں حاضر ہو چکا تھا، بیان کرتا تھا کہ میں برہان پور میں شیخ فضل اللہ علیہ الرحمۃ کی خدمت میں پہنچا جن کو اس سر زمینِ دکن کا قطب کہا جا سکتا ہے، انہوں نے مجھ سے حضرت مجدد کے اخلاق واطوار کے متعلق دریافت کیا کہ تم ان کی خدمت میں رہے ہو، بتائو وہ کیسے ہیں؟ میں نے کہا کہ میں ان کے باطنی احوال کیا بیان کرسکتا ہوں، البتہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ظاہر وغائب میں جس طرح وہ سنت اور اس کی باریکیوں کی رعایت فرماتے ہیں، اگر اس زمانے کے تمام مشائخ بھی جمع ہوجائیں تو اس کا دسواں حصہ بھی ادا نہیں کرسکتے۔ شیخ فضل اللہ علیہ الرحمۃ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ جو کچھ اسرارِ حقیقت یہ قطب الاقطاب فرماتے ہیں اور لکھتے ہیں وہ سب صحیح اور حقیقی ہیں، اور وہ اس معاملے میں بالکل سچے ہیں اور متحقق بھی ہیں کیونکہ قول کی سچائی اور حال کی بلندی محض حضورِ انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمال اتباع کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘ (حضرات القدس)

محبت رسول ؐ کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت مطہرہ و سنتِ طیبہ اور اسوئہ حسنہ پہ عمل کیا جائے۔ حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ، اس وصف میں درجہ کمال پر فائز تھے۔ آپؒ کے مکتوبات ورسائل کا بنیادی موضوع ہی اتباعِ شریعت ہے۔ فرماتے ہیں: ہم اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہیں کہ کسی امر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت اختیار کریں۔ اگرچہ مشابہت صورت ہی کے اعتبار سے ہو۔ لوگ بعض سنتوں میں شب بیداری اور اس طرح کی نیت کو دخل دیتے ہیں۔ ان کی کوتاہ اندیشی پر تعجب ہوتا ہے۔ ان کی ہزاروں شب بیداریوں کو آدھی متابعت کے عوض ہم نہیں خرید تے۔ رمضان کے آخری عشرہ میں ہم اعتکاف کے لئے بیٹھے ، دوستوں کو جمع کیاتو آپ نے فرمایا کہ متابعت ِ رسول ؐکے علاوہ اور کوئی نیت نہ کرو ۔ ایک متابعت کے حصول کے عوض ہمیں سیکڑوں تنہائیاں قبول ہیں، لیکن ہزاروں تبتل اور انقطاع، توسل، متابعتِ رسولؐ کے بغیر ہمیں قبول نہیں۔

حضرت علامہ اقبال ؒ نے جو آپؒ کو ’’عرفان کا مجتہدِ اعظم‘‘ قرار دیا ہے آپؒ کے رشحاتِ قلم کا مطالعہ کرنے سے اس کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ آپؒ نے تصوف کے میدان میں ایسے عارفانہ حقائق ومعارف کا اظہار کیا جس کی مثال سابق میں نہیں ملتی۔ فکر وعرفان کی ان جولانیوں کے بارے میں خود لکھتے ہیں: حق جل شانہ، کے انعامات کے متعلق کیا لکھا جائے اور کس طرح شکر ادا کیا جائے، جن علوم ومعارف کا فیضان خداوند جل شانہ، کی توفیق سے ہوتا ہے ان میں سے اکثر قیدِ تحریر میں آتے ہیں اور اہل نااہل کے کانوں تک پہنچتے ہیں، لیکن جو اسرار ودقائق کہ ممتاز ہیں ان کا ایک شمہ بھی ظاہر نہیں کیا جاسکتا بلکہ رمز واشارہ کے ذریعے بھی ان کے متعلق بات نہیں ہوسکتی، بلکہ اپنے عزیز ترین فرزند (جو اس فقیر کے معارف کا مجموعہ اور مقاماتِ سلوک کا نسخہ ہیں) کے سامنے بھی ان اسرار کی باریکیوں کا ذکر نہیں کرتا۔ معانی کی باریکیاں زبان کو پکڑتی ہیں اور اسرار کی لطافت لب کو بند کرتی ہے۔ ویضیق صدری ولاینطلق لسانی (زبدۃ المقامات)

آپؒ کو علم سے خصوصی لگائو تھا۔ طلبِ علم کو صوفیانہ مجاہدات پر ترجیح دیتے تھے۔ مولانا بدر الدین سے فرمایا کرتے ، سبق لائو اور پڑھو۔ جاہل صوفی تو شیطان کا مسخر ہوتا ہے (حضرات القدس) آپؒ نے خود علم کی تلاش میں دور دراز کا سفر اختیار کیا۔ آگرہ میں فیضی اور ابولفضل جیسے ممتاز علماء بھی آپؒ کے علم و فضل کا لوہا مانتے تھے۔ علامہ ہاشم کشمی ؒ نے ایک واقعہ لکھا ہے: ’’ ایک دن حضرت مجدد ؒ ابوالفیض کے گھر آئے۔ وہ غیر منقوطہ (بغیر نقطہ) تفسیر لکھنے میں مصروف تھا۔ جب اس نے آپؒ کو دیکھا تو خوش ہوا اور کہا آپؒ خوب تشریف لائے۔ تفسیر میں ایک مقام آیا کہ اس کی تفسیر وتاویل غیرمنقوطہ (بغیر نقطہ) الفاظ کے ذریعے مشکل ہوگئی۔ میں نے بہت دماغ سوزی کی لیکن دل پسند عبارت دستیاب نہیں ہوئی۔ حضرت مجدد ؒ نے گو کہ بے نقط عبارت کی مشق نہیں کی تھی لیکن کمال بلاغت کے ساتھ مطالبِ کثیر ہ پر مشتمل ایک صفحہ لکھ دیا، جس سے وہ حیرت میں پڑگیا۔‘‘ (زبدۃ المقامات)

حضرت خواجہ کی تعلیم وتربیت کے فیضان نے آپؒ کو ملت اسلامیہ کا پاسبان بنادیا۔ آپؒ نے اپنی جرأت واستقامت سے اکبری الحاد وجہانگیری طوفانوں کے رخ موڑ دئیے اور کفرستانِ ہند میں اسلام کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیا۔ اس بات پر مورخین کرام کا اتفاق ہے کہ اگر آپؒ کی ذات مقدسہ سرزمینِ ہند میں جلوہ افروز نہ ہوتی تو جلال الدین اکبر کے خود ساختہ ’’دینِ الٰہی ‘‘ کی تاریکی اسلام کے اجالوں کو چاٹ جاتی۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے کیا خوب لکھا: آج جو مساجد میں اذانیں دی جارہی ہیں، مدارس سے قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلنواز صدائیں بلند ہورہی ہیں اور خانقاہوں میں جو ذکر وفکر کی گونج سنائی دے رہی ہے اور قلب وروح کی گہرائیوں سے جو اللہ کی یاد کی جارہی ہے یا لا الٰہ الا اللہ کی ضربیں لگائی جارہی ہے، ان سب کی گردنوں پر حضرت مجدد کا بارِ منت ہے۔ اگر حضرت مجدد الف ثانی اس الحادوار تداد کے اکبری دور میں اس کے خلاف جہاد نہ فرماتے اور وہ عظیم تجدیدی کا رہائے نمایاں انجام نہ دیتے تو نہ مساجد میں اذانیں ہوتیں، نہ مدارس میں قرآن، حدیث، فقہ اور باقی علوم کا درس ہوتا اور نہ خانقاہوں میں سالکین وذاکرین اللہ، اللہ کے روح افزا ذکر سے زمزمہ سنج ہوتے الا ماشاء اللہ (سیرت مجدد الف ثانی)

حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کا دو ر از حد پُر آشوب تھا۔ بدعت وضلالت کے اندھیرے پھیلے ہوئے تھے۔ کفر وشرک کی آندھیاں زوروں پر تھیں۔ اکبر اعظم کی اسلام دشمنی اور جہانگیر کی آزادروی کے سامنے ایک فقیرِ بارگاہِ رسالت تھا جس کے عزم واستقلال نے بدعت وضلالت کے اندھیروں اور آندھیوں کا تسلط ختم کیا اور شہنشاہوں کی اکڑی ہوئی گردنیں خم کردیں۔ اللہ! اللہ! آپؒ کے عزم واستقلال کی درخشندہ مثال سے تاریخ حریت جگمگا رہی ہے۔ بادشاہِ وقت نے سجدۂ تعظیمی کے لئے مجبور کیا لیکن آپؒ نے فرمایا: جو سربارگاہِ الوہیت میں جھکتا ہو، کسی اور کے دروازے پہ کیسے جھک سکتا ہے۔ یہ سنکر بادشاہ غیظ وغضب میں آ گیا، ادھر آپؒ کے مخلصین نے یہ مشورہ دیا کہ بادشاہوں کے لئے سجدۂ تعظیمی جائز ہے، سجدۂ تعظیمی کرلیں، آپؒ کو کوئی گزند نہ پہنچے گی۔ اس مردِ حق آگاہ نے فرمایا: ’’ یہ فتویٰ تو رخصت ہے۔ عزیمت یہ ہے کہ غیر حق کے سامنے سجدہ نہ کیا جائے۔ ‘‘ (سیرت مجدد الف ثانی ) ۔ پھر اس کے بعدآپؒ کو طرح طرح کے ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا لیکن مجال ہے جو عزم واستقلال کے عظیم پیکر کے قدموں میں لغزش پیدا ہوسکے۔ ایسی استقامت کی توقع فاروقِ اعظیم کے لختِ جگر سے ہی کی جاسکتی ہے۔ شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال آپؒ کے عزم واستقلال کو سلام پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نَفسِ گرم سے ہے گرمي احرار

سجدہ تعظیمی نہ کرنے کی وجہ سے آپؒ کو قید میں ڈال دیا گیا۔
ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب لکھتے ہیں: ’’نہ معلوم اس ہندو راجپوت نے کیا سلوک کیا، آگرہ سے گوالیا رکس طرح لے گیا، قلعہ گوالیار میں لے جاکر کیا کیا، ہاں اس پائے نازنین کو پابندِ سلاسل کیا، یہ کیسا ظلم کیا۔ سر زمینِ ہند میں اس کے جاں نثار و فدا کار اس کے اشارے کے منتظر ہیں مگر وہ اپنے رب کریم کی رضا پر راضی ہے۔ ظالم ظلم کیے جارہے ہیں مگر وہ لطف اٹھا رہا ہے۔ کیا چشمِ عالم نے کبھی یہ منظر دیکھا ہے؟ ظالم نے نہ صرف پابندِ سلاسل کیا، گھر اجاڑا ، کتب خانہ ضبط، جائیداد ضبط، کنواں ضبط، زمین ضبط، جو کچھ پاس تھا سب ضبط کرکے آپؒ بے آسرا کردیئے گئے مگر جس کا آسرا خدا پر ہو وہ کسی آسرے پر نہیں رہتا۔ ‘‘ (سیرت مجدد الف ثانی)

حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کے مکتوبات آپ کے جذبہ تسلیم و رضا کے بہترین عکاس ہیں۔ آپؒ عالم اسیری میں لکھتے ہیں: ’’میر نعمان کو معلوم ہوا ہوگا کہ میرے خیر اندیش دوستوں نے ہرچند میری رہائی کے اسباب پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن کچھ نتیجہ نہ کلا۔ جو کچھ خدا نے کیا وہی بہتر ہے۔ بمقتضائے بشریت مجھ کو بھی اس سے کچھ رنج ہوا اور دل میں تنگی ظاہر ہوئی لیکن تھوڑے ہی زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ رنج اور دل کی تنگی فرحت وشرحِ صدر سے بدل گئی، اور یقین خاص سے معلوم ہوا کہ اگر ا س جماعت کی مراد جو میرے درپے آزار ہے، اللہ جل سلطانہ کی مراد کے موافق ہے تو پھر اس پر نا پسندید گی اور دل تنگی بے معنی اور دعویٰ محبت کے منافی ہے۔‘‘ (مکتوب۱۵: دفتر سوم)

حضرت مجدد الف ثانی قدسؒ سرہ ، حق گوبے باک ، نڈر اور بہادر شخصیت کے مالک تھے۔ قاضی ظہور احمد اختر لکھتے ہیں: ’’حضرت مجدد نے جس سیاسی گھٹن اور جاہ وجلال اقتدار کے ہوتے شاہانِ وقت پر تنقید کی وہ انہیں کا حصہ تھا۔ اس نازک دور میں حکومت یا سربراہانِ حکومت پر تنقید کرنا اتنا آسان نہ تھا جتنا آج آسان ہے۔ ذرا ذرا سی باتوں پر تختہ دار پر چڑھادیا جاتا تھا، بلکہ اکبر کے متعلق مورخین نے لکھا ہے کہ اپنے مخالفین کو اپنے ہاتھ سے زہر دے کر تڑپاتڑپا کے ماردیا کر تا تھا۔ (فسانہ سلطنت مغلیہ) آپؒ کی حق گوئی کا ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ آپ ابوالفضل سے ملنے آئے، ابوالفضل کو معلم ہواکہ آپؒ روزے سے ہیں ۔ اس نے وجہ دریافت کی تو آپؒ نے فرمایا، چاند کے متعلق ابھی تک شرعی شہادت فراہم نہیں ہوئی۔

ابوالفضل نے کہا، بادشاہ نے تو حکم دے دیا ہے، اب کیا عذر ہے؟ بے ساختہ آپؒ کے منہ سے اس وقت یہ جملہ نکلا۔ بادشاہ بے دین است، اعتبار ندارد (بادشاہ بے دین ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں۔) (الفرقان) اندازہ کیجئے کہ مغل اعظم کے بہت بڑے ’’حواری‘‘ کے سامنے مغل اعظم پر اس قدر سخت تنقید کرنا کس بے خوفی، حق گوئی اور بہادری کی علامت ہے ! مکتوبات شریفہ کا مطالعہ کریں، آپؒ نے حکومت ِ وقت کی خوب خبرلی، مثلاً جہانگیر کے دور میں اس کے باپ پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’بادشاہ کی درستگی سے عالَم کی درستگی ہے اور بادشاہ کے فساد سے عالَم کا فساد۔ آپؒ جاتنے ہیں کہ زمانہ ماضی (یعنی عہدِ اکبری) میں اہلِ اسلام پر کیا کچھ نہیں گزرا۔ اسلام کی غربت حد کو پہنچی ہوئی تھی۔ اہلِ اسلام کی بدحالی اس سے آگے نہیں بڑھی تھی کہ مسلمان اپنے دین پر رہیں اور کافر اپنے طریقہ پر جیسا کہ آیت لکم دینکم ولي دین سے ظاہر ہے۔ لیکن زمانہ ماضی میں تو یہ حال ہوا کہ کفار تو برملا پورے غلبہ کے ساتھ دارِ اسلام میں احکامِ کفر جاری کرتے تھے اور مسلمان احکام ِ اسلامِ ظاہر کرنے سے عاجز وقاصر تھے، اگر ظاہر کرتے تو قتل کردئیے جاتے تھے‘‘ (مکتوبات: ۸۷) اگر مجدد الف ثانی ؒ کا سر زمین ہند پر یہ تجدیدی کارنامہ نہ ہوتا تو مسلمانوں کو اسلام کے احکام پر چلنا دشوار ہوتا۔ اللہ آپؒ کے فیض کو ہمیشہ جاری وساری رکھے۔ آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭