مذہب

علماء اور حکومت

دین حق اور شریعت اسلامی اپنی مکمل اور آخری شکل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسانیت تک پہنچ چکا ہے ؛ اس لئے قیامت تک اس دین کو بے آمیز طریقہ پر محفوظ رہنا ضروری ہے، خود اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے

دین حق اور شریعت اسلامی اپنی مکمل اور آخری شکل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسانیت تک پہنچ چکا ہے ؛ اس لئے قیامت تک اس دین کو بے آمیز طریقہ پر محفوظ رہنا ضروری ہے، خود اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:۹) قرآن کی حفاظت میں ’’الفاظ قرآنی‘‘کی حفاظت تو داخل ہے ہی ’’معانی قرآن‘‘کی حفاظت بھی شامل ہے، قرآن مجید کے درست معانی اور اس کی صحیح تشریحات علماء کی ذمہ داری ہے ؛ اس لئے منجانب اللہ ہر عہد میں علماء سے دو طرح کی خدمتیں لی گئی ہیں : ایک یہ کہ ان کو ایسی علمی بصیرت عطا کی گئی کہ وہ الفاظ قرآنی کی بے جا تشریحات اوراحکامِ شریعت کی ناحق تأویلات کے فتنہ سے اُمت کو بچائیں، دوسرے : اسلام کی تعلیمات کو حکومت کے اثرات اور اس کی مداخلت سے محفوظ رکھیں ؛ کیوںکہ حکومتیں اکثر مذاہب پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں، ہندو مذہب اور عیسائیت اس کی واضح مثالیں ہیں، مسلم حکومتیں بھی ایسے ناپاک عزائم سے پاک نہیں رہی ہیں ؛ لیکن چوںکہ اللہ تعالیٰ کو اسلام کی حفاظت مقصود تھی ؛ اس لئے ہمیشہ ایسی کوششیں ناکام و نامراد رہی رہیں۔

علماء اسلام اس سلسلہ میں اتنے حساس واقع ہوئے تھے کہ جو راویان حدیث شاہی دربار کا چکر لگاتے، اہل علم کو ان کی روایت قبول کرنے میں تأمل ہوتا تھا، اور جو فقہاء حکومتوں کے زیر اثر ہوتے، اصحاب علم کی بارگاہ میں ان کے فتاویٰ کو قبولیت وپذیرائی حاصل نہیں ہوتی تھی، بڑے بڑے اہل علم کو سرکاری عہدوں کی پیش کش کی گئی ؛ لیکن انھوں نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور ہمیشہ امراء و سلاطین کی ہم نشینی کو علماء و مشائخ کے لئے ناپسند کیا گیا، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’علماء اللہ کے بندوں پر اس کے رسولوں کے بعد ذمہ دار ہیں، جب تک سلاطین کے ساتھ ان کا ملنا جلنا نہ ہو، اگر انھوں نے ارباب اقتدار سے اختلاط رکھا تو اللہ کے رسولوں کے ساتھ خیانت کی ؛ لہٰذا ایسے لوگوں سے بچ کر اور دُور دُور رہو‘‘ (احیاء العلوم:۱؍۱۰۱) ایک اورروایت میں ہے کہ بدترین علماء وہ ہیں جو امراء (ارباب اقتدار) کے پاس آمد ورفت رکھتے ہیں اور بہترین امراء وہ ہیں جو علماء کے پاس آتے جاتے ہیں، (حوالۂ سابق) ایک اورروایت میں آپؐ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ جس نے حکمراں کے پاس آمد ورفت رکھی، وہ فتنہ میں مبتلا ہوا: من أتی السلطان اُفتتن (احیاء العلوم بحوالہ ابوداؤد وغیرہ) ایک اور روایت میں ہے کہ تم پر ایسے امراء اور ذمہ دار آئیں گے، جن کی بعض باتیں اچھی ہوں گی اور بعض بری، توجس نے ان کی بری بات پر نکیر کی، اسے تو نجات مل گئی اور جس نے صرف دل میں برا محسوس کیا، وہ بھی بچ گیا ؛ لیکن جو اس کی باتوں پر راضی رہا اور اس کی پیروی کی تو اللہ تعالیٰ اسے محروم کردیں گے ۔ (احیاء العلوم: ۱؍۱۰۰، بحوالہ مسلم)

اسی لئے علماء نے ہمیشہ اربابِ حکومت اور اہلِ اقتدار کے پاس علماء کے آنے جانے کو ناپسند کیا ہے، امام غزالیؒ نے اسے ’’علماء سو‘‘یعنی خراب علماء کی علامتوں میں سے ایک علامت بتایا ہے، علامہ ابن جوزی نے اپنی مشہور کتاب ’’تلبیس ابلیس‘‘ میں لکھا ہے کہ شیطان کے اہل علم کو متأثر کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اربابِ اقتدار کے پاس ان کی آمد ورفت بڑھ جائے او روہ ان کے ساتھ مداہنت کا رویہ اختیار کرنے لگیں (تلبیس ابلیس: ۱۳۹) مشہور فقیہ سفیان ثوریؒکہا کرتے تھے کہ جہنم میں ایک وادی ہے،جس میں وہ علماء داخل کئے جائیں گے جو اربابِ اقتدار کے یہاں آمد ورفت رکھا کرتے تھے، سعید بن المسیبؒ سے منقول ہے کہ جب تم کسی عالم کو دیکھو کہ وہ اصحابِ حکومت کے یہاں اکثر جاتا رہتا ہے تو اس سے بچ کے رہو، اس لئے کہ وہ چور ہے، امام اوزاعیؒ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس عالم سے زیادہ کوئی شخص ناپسند نہیں،جو کسی صاحب اقتدار کے یہاں آنا جانا رکھتا ہو، حضرت ابوذرؓ نے حضرت سلمہؓسے کہا : تم اربابِ اقتدار کے دروازے پر جاؤگے تو تم جتنا ان سے دنیا حاصل کروگے، اس سے زیادہ وہ تم کو تمہارے دین سے محروم کردیں گے ۔ (احیاء العلوم: ۱؍۱۰۱)

ظاہر ہے کہ یہ ہدایات اس صورت میں ہیں جب کہ علماء اور مشائخ اپنی اغراض وضرورتوں یا مناصب اور عہدوں کے لئے اربابِ اقتدار تک پہنچیں اور ان کو ان کی غلطیوں پر ٹوکنے کی ہمت نہ پاتے ہوں، اگر کوئی عالم اُمت ِمسلمہ کے کسی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے اخلاص اور بے غرضی کے ساتھ اربابِ حکومت تک پہنچتا ہے تو وہ اس میں داخل نہیں ہے ؛ بلکہ ایسے لوگوں سے امت کو نفع پہنچتا ہے، اسلامی تاریخ میں اس کی بہترین مثال امام ابو یوسفؒ اورمجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ ہیں، امام ابویوسفؒ نے عہدِ عباسی میں عہدۂ قضا قبول فرمایا اور اسلامی تاریخ کے پہلے قاضی القضاۃ بنے ؛ لیکن انھوں نے ہمیشہ اس عہدہ کو اسلام کے فروغ، مسلمانوں کی خیر خواہی اور حکومت کی اصلاح کے لئے استعمال کیا، انھوں نے حکمت ومصلحت کے ساتھ اربابِ اقتدار کو دین سے جوڑے رکھا، اسی طرح مجدد الف ثانی ؒکے زہد وتقویٰ اور علم وفضل سے مشہور مغل بادشاہ جہانگیر متأثر ہوا، مگر انھوں نے اس تعلق کو کسی عہدہ کے حصول کے لئے استعمال نہیں کیا ؛ بلکہ اکبر کے دور میں جو الحاد سلطنت کا جز بن گیا تھا اور اسلامی شعائر کو تہہ وبالا کرنے کی جو سازش کی گئی ـتھی، اپنے اثر کے ذریعہ اس کا سد باب فرمایا، نہ کبھی کوئی عہدہ قبول فرمایا اور نہ کوئی مادی سہولت حاصل کی ۔

عام طور پر علماء حق کے تعلقات ان کی حق پسندی کی وجہ سے حکومتوں سے خراب ہی رہے، سعید بن جبیرؒ حجاج بن یوسف کے حکم پر اس طرح ذبح کر دیئے گئے جیسے جانور کو ذبح کیا جاتا ہے؛ لیکن ثابت قدمی میں کوئی فرق نہیں آیا، امام ابو حنیفہؒ نے عباسیوں کے اصرار کے باوجود عہدۂ قضا قبول نہیں کیا، اس ثابت قدمی پر کوڑے بھی کھائے اور آخر جام شہادت بھی نوش کیا، امام احمد بن حنبلؒ ایسی آزمائش سے گذرے، جس کی مثال کم ملے گی کہ ان کی پیٹھ کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا، جو زخم سے محفوظ ہو اورجس پرکوڑے نہ برسائے گئے ہوں، امام بخاریؒ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہوتے رہے اور آخر اس حال میں ان کی وفات ہوئی کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ کردی گئی تھی، سفیان ثوریؒ نے ارباب اقتدار کی قربت سے بچنے کے لئے اپنے اوپر جنون کی سی کیفیت طاری کرلی تھی، سلف ِصالحین کا حال یہ تھاکہ وہ اربابِ اقتدار کی قربت کو ایسی نظر سے دیکھتے تھے کہ گویا یہ آگ ہے جو ان کے دین و ایمان کو خاکستر کردے گی ۔

انھوں نے دین کی عظمت اور علم کے وقار کو کبھی سرنگوں نہ ہونے دیا، اما م مالکؒ کا مسجد نبوی میں درسِ حدیث ہوتا تھا اور پوری اسلامی مملکت میں آپ کے درس کی شہرت تھی، اس وقت عباسی خلیفہ کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ امام صاحب دونوں شہزادوں کو مؤطا امام مالک کا درس دیں، امام مالکؒ نے خوش اُسلوبی کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے فرمایا کہ اس علم کا آغاز آپ کے گھر سے ہوا ہے، یہ مناسب نہیں کہ آپ ہی کے ذریعہ اس علم کی بے توقیری ہو، علم ایسی چیز ہے کہ اس کے پاس آیاجاتا ہے، علم کسی کے پاس نہیں جاتا ؛ چنانچہ امین الرشید اور مامون الرشید خود درسگاہ میں حاضر ہوئے اور انھوں نے امام مالکؒ سے کسب فیض کیا، امام بخاریؒ سے بخارا کے گورنر نے خواہش کی کہ وہ گورنر ہاؤس میں آکر شہزادوں کو حدیث کی تعلیم دیں ؛ لیکن امام بخاریؒ نے اسے قبول نہیں کیا اور فرمایا کہ میں اس علم کو بادشاہوں کے دروازہ پر رسوا نہیں کرسکتا ’’لا أذل ھذا العلم علی أبواب السلاطین‘‘ شیخ سعید حلبی دمشق کی جامع مسجد میں درس دے رہے تھے او رتکلیف کی وجہ سے پاؤں پھیلائے ہوئے تھے، شام کے گورنر ابراہیم پاشاہ (جس کی سفاکیت اور خونریزی مشہور تھی) کو خیال ہوا کہ میں بھی جا کر شیخ کا درس سنوں ؛ چنانچہ وہ مسجد میں سامنے ہی سے داخل ہوا، شیخ نے اپنا پاؤں نہیں سمیٹا، یہ بات آدابِ شاہی کے خلاف تھی، شیخ کے شاگرد دم بخود تھے کہ شاید اب شیخ کی شہادت ہوگی یا انھیں ذلیل ورسوا کیا جائے گا ؛ لیکن گورنر پر ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ کچھ کہے بغیر واپس ہوگیا، پھر اس نے اشرفیوں (سونے کے سکہ) کی ایک بڑی مقدار اپنے غلام کے ذریعہ شیخ کی خدمت میں بھیجی اور درخواست کی کہ اس کایہ نذرانہ قبول کر لیا جائے، شیخ نے واپس کردیا اور ایک ایسا تاریخی جملہ کہا، جو آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے، اور جو ہر عالم دین کے لئے نقشِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ پاؤں وہی پھیلاتا ہے جو ہاتھ پھیلانا نہ جانتا ہو: ’’الذي یمد رجلہ لا یمد یدہ‘‘۔

شیخ نظام الدین اولیاءؒ کی مقبولیت اور محبوبیت اپنی بلندی پر ہے کہ جلال الدین خلجی (جو خود بھی دیندار بادشاہ تھا) نے بارہا شیخ سے ملاقات کی خواہش کی ؛ یہاں تک کہ امیر خسرو کو اس کے لئے واسطہ بھی بنایا ؛ لیکن آپ کبھی بادشاہ سے ملاقات پر راضی نہیں ہوئے، نہ خود بادشاہ کے یہاں گئے اور نہ بادشاہ کو اپنے دولت خانہ پر باریابی کی اجازت دی، جلال الدین خلجی کے بعد علاء الدین خلجی بادشاہ ہوئے، انھوں نے بھی حاضری کی اجازت چاہی ؛ لیکن آپ کا جوا ب تھا کہ آنے کی حاجت نہیں ہے، میں غائبانہ دعا کرتا ہوں اور غائبانہ دعاء بہت مؤثر ہوتی ہے، ایک بار جب سلطان نے زیادہ اصرارکیا تو فرما یا کہ اس فقیر کے گھر میں دو دروازے ہیں، بادشاہ ایک دروازہ سے آئے تو میں دوسرے دروازے سے باہر چلا جاؤں گا (تاریخ دعوت وعزیمت: ۳؍۸۴) محمد تغلق نے شیخ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ شیخ قطب الدین منور کو تکلیف پہنچانی چاہی ؛ لیکن اس پر قادر نہ ہوسکا، آخر بادشاہ نے ایک لاکھ تنکے (اس زمانہ کاچاندی کا سکہ) بھیجوائے، شیخ نے قبول کرنے سے معذرت کر لی، پھر سلطان نے پچاس ہزار قبول کرنے کی خواہش کی، شیخ نے اسے بھی قبول نہ کیا، اخیر میں بات جب دو ہزار تک پہنچی تو فرمایا کہ درویش کو دو سیر چاول، دال اور ایک دان (اُس زمانہ کا کم مقدار سکہ) کا گھی کافی ہے، آپ نے اپنے مخلصین کے کہنے پر اسے قبول کر لیا کہ کہیں بادشاہ درپئے آزار نہ ہوجائے ؛ مگر اسی وقت اہلِ حاجت میں تقسیم کردیا۔

شاہ نظام الدین اولیاءؒ کے ایک راسخ العقیدہ مرید مولانا فخرالدین زرّاوی تھے، سلطان محمد تغلق جیسے ظالم بادشاہ نے جب خواہش کی کہ وہ کچھ نصیحت کریں تو مولانا نے کہا کہ غصہ دبایا کرو، بادشاہ نے پوچھا : کونسا غصہ ؟ مولانا نے فرمایا : درندوں والا غصہ، جو تمہاری عادت او رطبیعت میں داخل ہے، اس سخت جملہ پر بادشاہ کو ایسا غصہ آیا کہ چہرہ کا رنگ بدل گیا ؛ مگر کچھ کہہ نہیں پایا ۔ (بزمِ صوفیہ: ۳۷۶)

اس کے برخلاف جن لوگوں نے اربابِ اقتدار کی قربت اختیار کی، انھوں نے زیادہ تر دین واُمت کونقصان پہنچایا، ہندوستان کا مشہور بادشاہ اکبر علماء کا بڑا معتقد تھا؛ لیکن مخدوم الملک ملا عبد اللہ سلطان پوری اور صدر الصدور ملا عبد النبی کی باہمی کشاکش اور حرص وجاہ کی طلب نے بادشاہ کی نظر میں ان کا مقام گرادیا تھا ؛ یہاں تک کہ ان حضرات نے بادشاہ کی خوشنودی کے لئے حج کے ساقط ہونے کا فتوی دے دیا، زکوٰۃ سے بچنے کے لئے حیلہ کو جائز قرار دے دیا، اور ان کے آبائی قبرستان سے سونے سے بھرے ہوئے صندوق برآمد ہوئے، جو انھوں نے اپنی دولت کو چھپانے کے لئے دفن کر رکھے تھے، ان حضرات کی آپسی لڑائی کے نتیجہ میں ملا مبارک اور ان کے بیٹے فیضی اور ابو الفضل دربارِ اکبری میں شامل ہوئے، جو علم وقابلیت کے اعتبار سے نادرۂ روز گار لوگ تھے ؛ لیکن دولت کی حرص اور اقتدار کی قربت نے انھیں اس مقام پر پہنچادیا کہ انھوں نے اکبر کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، اور ان کی مدد سے شعائر اسلام کی ایسی اہانت کی گئی کہ ہندوستان کی تاریخ میں شاید کسی غیر مسلم سے بھی ایسا نہ ہوا ہو ۔

علماء چوںکہ دین کے شارح بھی ہیں اور اُمت کے داعی ومصلح بھی ؛ اس لئے اگر ان کا کردار بے داغ نہ رہ پائے تو یہ اُمت کے لئے سب سے زیادہ نقصان کا باعث ہے، ماضی قریب میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے دارالعلوم دیوبند او ردارالعلوم کے واسطہ سے اربابِ مدارس کے لئے جو بنیادی اُصول مقرر فرمایا، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ’’حکومت سے کوئی تعاون قبول نہیں کیا جائے گا‘‘ یا دش بخیر ! ہم لوگوں کی طالب ِعلمی کے زمانہ میں دار العلوم دیوبند کے لئے سابق وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی نے سالانہ ایک لاکھ روپیئے کی پیشکش کی تھی اور دار العلوم کا سالانہ بجٹ بھی اس کے قریب قریب تھا ؛ لیکن دارالعلوم کے مہتمم حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ نے یہ کہہ کر معذرت فرمادی کہ ہمارے بزرگوں نے اس سے منع کیا ہے، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی جنگ آزادی کے سورماؤں میں سے تھے اور اسی جدوجہد میں انھیں مالٹا میں قید وبند کی زندگی بھی گذارنی پڑی ؛ لیکن جب ملک کے آزاد ہونے کے بعد انھیں اعلیٰ ترین سرکاری اعزاز پیش کیا گیا تو انھوں نے اسے قبول کرنے سے معذرت کردی، مقصد یہ تھا کہ علماء و مشائخ اور دینی ادارے حکومتوں کے احسان سے سبکبار رہیں ۔

افسوس کہ عالم اسلام ہو یا ہماراملک، علماء ومدارس کا یہ کردار بتدریج ختم ہوتا جارہا ہے، ان کا ایک طبقہ ایوان اقتدار تک رسائی کے لئے کوشاں ہوتا ہے، اگر اپنی طاقت کے بل پر وہ سیاست میں حصہ لیں تو اور بات ہے ؛ لیکن یہ کوشش اس کے باوجود ہوتی ہے کہ وہ ایک سیکولر جماعت کا حصہ ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ انھیں اپنے ضمیر کی آواز کو پارٹی کی پالیسی کے سامنے دبانا ہوگا، سیاسی لوگوں کی طرح وہ بھی اس بات کے لئے کوشاں رہتے ہیں کہ حکومت انھیں کسی عہدہ پر نامزد کردے، ایسے حالات میں علماء اور مشائخ کے لئے اُمت کے دوسرے اہل افراد کو آگے بڑھانا اور خود ان کی رہنمائی کرنا زیادہ مفید ہوسکتا ہے، خانقاہوں کا امتیاز استغناء تھا؛ لیکن اب بعض اوقات حکومت وقت کے سامنے دست ِسوال دراز کرنے میں ان کا قدم دوسروں سے آگے ہوجاتا ہے ۔

جن ریاستوں میں دینی مدارس نے حکومت سے الحاق کو قبول کیا ہے، ان اداروں کی صورتحال روزِ روشن کی طرح واضح ہے، حاضری کا غلط اندراج، جو طلبہ داخل نہیں ہیں امتحان دلانے کے لئے ان کی حاضری کی خانہ پری، امتحان کے درمیان چوری اور ممتحن سے نمبرات بڑھوانے کی کوشش، ڈیوٹی نہ کرنے کے باوجود تنخواہوں کاحصول، اور پھر ان کاموں کے لئے جھوٹ، دھوکہ اور رشوت کا لین دین، کون سی برائی ہے جو عملاً چند اداروں کو مستثنیٰ کرکے اس نظام میں موجود نہیں ہے ؟ اور اب تو ائمہ مساجد بھی حکومت سے تنخواہیں حاصل کرنے کے لئے بے قرار ہیں، کیا ایسے علماء وائمہ اور مدارس ومساجد سے اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس ملک میں اسلام کا بقا اور تحفظ کا فریضہ انجام دیں گے اور ملی مفادات کے لئے بہ وقت ضرورت حکومتوں کے مقابلہ سینہ سپر ہوجائیں گے؟ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اس طرح کچھ مسلمانوں کو روز گار حاصل ہوجاتا ہے ؛ لیکن سوال یہ ہے کہ مدارس کا مقصد کیا ہے ؟ دوسری تعلیم گاہوں کی طرح بہتر روزگار کی فراہمی یا اسلام کی حفاظت واشاعت ؟ یہ ایک نبوی مشن کا حصہ ہیں یا دوسرے اداروں کی طرح صرف کسب ِمعاش کی مشین ہیں ؟ ؟

یہی صورتِ حال عالمِ اسلام میں دیکھنے کو ملتی ہے، مصر میں پچاس سال سے زیادہ ملحد اور بے دین طبقہ برسراقتدار رہا اور اب بھی ہے ؛ لیکن جامع ازہر جیسے باوقار ادارہ کے سربراہ اعلیٰ حکومت کے ہر فیصلہ پر مہر تصدیق ثبت کرتے رہے، کچھ عرصہ پہلے وہاں کے سابق مفتی اعظم نے فتویٰ دے دیا کہ فوجی بغاوت کے خلاف جو شخص احتجاج کرے، وہ قتل کئے جانے کا مستحق ہے، شام کے مفتی اعظم بھی اب تک بشار الاسد کے حق میں فتوی دیتے رہے ہیں، یہی حال کم وبیش دوسرے مسلم اورخاص کر عرب ملکوں کا رہا ہے کہ سرکاری طور پر جن لوگوں کو فتویٰ دینے کی خدمت سپرد کی جاتی ہے، انھیں حکومت کی موافقت ہی میں فتوی دینا پڑتا ہے، اور گورنمنٹ کے چشم وابرو کے اشارہ پر کام کرنا ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ ارباب اقتدار سے قربت کا نتیجہ ہے !

اس لئے یہ پہلو ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ علماء، مشائخ، مذہبی قائدین اور مذہبی اداروں کو کس طرح حکومت کے اثر سے محفوظ رکھا جائے اور انھیں یہ بات سمجھائی جائے کہ وہ عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں، وہ مسلمانوں کے لئے قبلہ نما کا درجہ رکھتے ہیں، وہ راہ رو نہیں ہیں، وہ مشعل راہ ہیں، اگر وہ حکومتوں کی زلفوں کے اسیر ہوجائیں، اور متاعِ دنیا کے حاصل کرنے کی دوڑ میں جاپڑیں تو یہ ان کے بنیادی مقصد سے بے وفائی اور اپنے خالق سے اور اُمت ِمسلمہ سے بدعہدی کے مترادف ہوگا، خاص کر ہندوستان جیسے ملک میں پوری گہرائی کے ساتھ اس پر غور کرنا ضروری ہے اور وقت کا تقاضا ہے، ورنہ – ہزار بار خدا نخواستہ – اسلام کی حفاظت کا یہ آخری قلعہ بھی اپنے مقصد میں ناکام ہوکر رہ جائے گا، وباللہ التوفیق۔
٭٭٭