مذہب

فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم

بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے،سیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سےہجرت فرماکرمدینہ منورہ رونق افروز ہونے کے بعدتقریباسولہ ماہ تک اس کی طرف رخ کرکے نماز ادا فرماتے رہےہیں،اللہ سبحانہ نے آپؐ کوشرف معراج عطافرمایااس مبارک سفرکی پہلی منزل مسجد اقصیٰ تھی

مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786

بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے،سیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سےہجرت فرماکرمدینہ منورہ رونق افروز ہونے کے بعدتقریباسولہ ماہ تک اس کی طرف رخ کرکے نماز ادا فرماتے رہےہیں،اللہ سبحانہ نے آپؐ کوشرف معراج عطافرمایااس مبارک سفرکی پہلی منزل مسجد اقصیٰ تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی وہاں امامت فرمائی اس طرح اس عالم میں اللہ سبحانہ نے آپؐکےامام الانبیاء ہونے کااعلان فرمایا۔اسی مبارک مقام سے آسمانوں کی طرف آپؐ کو عروج بخشا گیا، ساتوں آسمانوں کی سیرفرماتے ہوئے آپؐ کی رسائی عرش مقدس تک ہوئی،اس سرزمین پربکثرت انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت مبارکہ ہوئی جس کی وجہ یہ خطہ انوارنبوت سے درخشاں رہا اوریہ پیغام توحیدکی درخشانیاں سارے عالم کوروشن ومنورکرگئیں،اس اعتبار سے ارض فلسطین کی حفاظت عالم کے سارے مسلمانوں کامسئلہ ہے،یہ وقت نہیں ہے کہ مسلم ممالک اورعالم کے مسلمان صیہونیوں کے پے درپے حملوں اورآئندہ فلسطینیوں کوآہستہ آہستہ ان کے حق سے محروم کرنے کی سازشوں پرآنکھیں موندھ لیں،اسلام نے سارے مسلمانوں کوتسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرویا ہے۔ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ (الحجرات؍۱۰) کاارشادگرامی اس کی تصدیق ہے۔عرب وعجم ،خاندان وقبیلہ ،زبان وتہذیب ،ملکوں کا اختلاف اس میں حائل نہیں،اس نسبت سے ایک مسلمان کی تکلیف دوسرے مسلمان کی تکلیف ہے،دنیا کے کسی خطہ میں مسلمانوں پر ظلم ہورہاہوتووہ تنہا ان پرظلم نہیں بلکہ سارے عالم کے مسلمانوں پرظلم ہے۔

حدیث پاک میں تمثیل کی زبان میں اس حقیقت کوپُراثراندازمیں سمجھایا گیاہےارشادہے’’تم مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و محبت کا معاملہ کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ لطف و نرم خوئی میں ایک جسم جیسا پاؤ گے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں مبتلاء ہوتا ہے تو سارا جسم اس کے دردوالم میں ایسے شریک حال ہوجاتاہے پھر وہ آرام کی نیندسونہیں پاتا اور جسم بخارکی تپش میں جل اٹھتا ہے‘‘۔ ترى المؤمنين في تراحمهم وتوادهم وتعاطفهم كمثل الجسد إذا اشتكى عضو تداعى له سائر جسده بالسهر والحمى (صحیح بخاری۱۸؍۴۲۶) فلسطین کے مظلوم مسلمان گزشتہ ایک صدی سے اسرائیل کےجبر وتشددکاشکارہیں،ارض فلسطین پراسرائیل کاتسلط غیرقانونی بھی اورغیراخلاقی بھی،اسلام دشمن طاقتوں نے منصوبہ بندسازش سے فلسطین میں یہودیوں کو آباد کیا ہے کچھ وقفہ نہیں گزرتاکہ اسرائیل کسی نہ کسی حیلہ بہانے فلسطین پرحملہ کاجوازپیش کرتاہے۔اس وقت اسلام دشمن طاقتیں دہشت گردی کے خاتمہ کابیڑااٹھائی ہوئی ہیںلیکن اسرائیل کی دہشت گردی پران کی زبانوں پرتالےپڑےہیںاورخاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، فلسطینی ظلم وجور کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو فلسطینیوں کے لئے بڑاصبرآزماہے۔

یہودیوں کی فلسطین میں پناہ حاصل کرنے کی مختصرتاریخ یہ ہے کہ جنگ عظیم سے پہلے یہودی مظلوم تھےاوران کی بڑی تعدادجرمنی میں قیام پذیرتھی،ہٹلرنے ان کا قتل عام کیااورجوزندہ بچ گئے تھے ان کوشہربدرکردیا،ہٹلرجوظلم وجورمیں اپنی مثال آپ تھاوہ چاہتاتوسارے یہودیوں کوموت کے گھاٹ اتار سکتا تھا لیکن کیا وجہ تھی کہ اس نے کچھ یہودیوں کوزندہ چھوڑدیا،اس طرح کا سوال جب اس سے کیا گیا تواس نے جواب دیا کہ میں نے کچھ یہودیوں کواس لئے زندہ چھوڑاہے تاکہ دنیا کو معلوم ہوکہ یہ قوم کیسی کائدو مکار،چالاک ودھوکہ باز،بے وفاودغا باز ہے۔

گویا ہٹلر کویہ بتانا مقصود تھا کہ اس کو زندہ چھوڑ دیا جائے تو کیسےاپنے محسنوں کا خون خرابہ کرتی اور کیسے اپنی شرارتوں اورفتنہ سامانیوں سے انسانوں کاجینادوبھرکرسکتی ہے،چنانچہ ارض فلسطین میں اپنی مظلومیت کاروپ دھارکراس نے ایسے قدم جمائے کہ ناجائز قابض ہوکرفلسطین کےاصل شہریوں کوان کے شہری حقوق سے محروم کردیا، حالانکہ انسانی فطرت محسنوں کااحسان ماننے پر مجبور کرتی ہے۔ واقعی محسن کش رحم کے قابل نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کاکوئی ملک ان کواپنے پاس پناہ دینے کےلئے تیارنہیں ہوا،وہ دربدرکی ٹھوکریں کھاتے رہے، لیکن ان کے کیدومکر،دھوکہ و دغا بازی کی وجہ کوئی ان پررحم کھانے کےلئے تیارنہیں ہوا۔ برطانیہ کوجب یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ وہ کہیں وہاں آبادنہ ہوجائیں توایک سازش کے ذریعہ ارض فلسطین میں ان کوبسانے کی منصوبہ بندی کی،اس سازش میں اس کوکامیابی حاصل ہوئی،یہودیوں کو جیسے ہی ارض فلسطین میں پناہ ملی اوران کے قدم مضبوط ہوگئے تو پھر انہوں نے اپنے محسنوں کاشکراداکرنے کے بجائے اپنی غداری وبے وفائی کاسلسلہ شروع کردیا اورآہستہ آہستہ فلسطینیوں کو اپنی املاک سے بیدخل کرکے خوداس پرقابض ومتصرف ہوتے رہے۔ارض فلسطین پرصیہونیوں کا غاصبانہ قبضہ ہرآنے والے دن کے ساتھ بڑھتاجارہاہے،صیہونی حکام بیت المقدس پر اپنا تسلط جمانے اور مذہب کے نام پرفلسطین کو تقسیم کرنے کی سازشوں میں لگے ہوئے ہیں،ظاہرہےجن کا اسلام سے کوئی رشتہ ناطہ نہیں ان کابیت المقدس پرکوئی حق نہیں ہے۔

ارض فلسطین پر ناجائز قبضہ کے ساتھ ہی غاصب یہودی فلسطینیوں کے قتل وخون سے اپنے ہاتھ رنگین کررہے ہیں،ان کے اسباب معیشت کو تباہ وبربادکرناان کا مشغلہ بن گیا ہے۔ فلسطین کے علاقوں پرمسلسل قبضہ جماتے ہوئےیہودیوں کو بسایا جارہا ہے، نہتے فلسطینی مظلوموں پرفضائی حملےاسرائیل کی جارحیت کازندہ ثبوت ہیں،کئی فلسطینی ظلماقیدوبندکی صعوبتیں جھیل رہے ہیں، صیہونی حکام ان کو غیر انسانی ظالمانہ تشددکانشانہ بنا رہے ہیں۔

چنانچہ غزہ ۲۸؍اگست ۲۰۲۲ (ایجنسیز)کی خبر کے مطابق قیدیوں کے امورپرنظررکھنے والے سرکاری ادارہ کے وکیل حنان الخطیب نے بتایاکہ اسرائیل کے دامون نامی بدنام زمانہ جیل میں خواتین قیدی حقوق انسانی سے محروم کردی گئی ہیں،جسمانی اورنفسیاتی تشدد کے مکروہ ہتھکنڈے ان پرآزمائے جارہے ہیں اس طرح غیرانسانی سلوک روارکھےجانے کے لرزہ خیز واقعات کاانکشاف ہوا ہے۔

تفتیش کاران خواتین قیدیوں کو ٹارچر سیلزمیں پہنچاکربدترین انسانیت سوز اذیتوں سے دوچار کرتے ہیں، مزید ’’وینا‘‘ نامی خاتون کے حوالہ سے ان پر اور ساتھی خواتین پرقیدیوں پرڈھائے جانے والے مظالم کی تفصیل بیان کی،۲۹؍اگست ۲۰۲۲ء (یواین آئی) نیوز کے مطابق اسرائیل کی نام نہاداوربدنام زمانہ جیلوں میں ہزاروں فلسطینی قیدیوں پرظلم کے پہاڑتوڑے جارہے ہیں،یوں توان جابرانہ و ظالمانہ واقعات پرپردہ ڈالنے کی مجرمانہ کوشش کی جاتی ہے مگر بعض اوقات درندگی وسفاہت کی کچھ تفصیلات منظرعام پرآجاتی ہیں، نہتے فلسطینی قیدیوں کی ایسی تصویرسامنے آئی ہے جو اسرائیلی مظالم کی داستان غم سنارہی ہے،اطلاع کے مطابق صیہونی جیلروں اور جلادوں کی ہٹ دھرمی اورانسان دشمنی کے خلاف طویل بھوک ہڑتال کرنے والے قیدی ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئے ہیں، بظاہر انہیں علاج کی غرض سے منتقل کیا گیا ہے مگراس کی آڑمیں انہیں تشدد آمیز اذیتیوں سے گزاراجارہاہے،اس بات کاامکان ظاہر کیا گیاہے کہ وہ موت کے منہ میں پہونچادئیے جائیں گے۔

غزہ ۳۰؍اگست ۲۰۲۲ء (یواین آئی)کے مطابق انتظامی حراست کو قبول نہ کرنے کے جذبہ سے بھوک ہڑتال کرنے والےخلیل العوادہ جواس وقت ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے ہوئے ہیں جوکسی الزام کے بغیرقیدہیں ان کا کہناہے کہ اپنے گوشت وخون سے من مانی حراست کے خلاف مزاحمت کررہا ہوں، میری یہ تشویشناک حالت فلسطینی قوم کی کمزوری کا مظہر نہیں بلکہ یہ ناجائزقابضین کے حقیقی چہرہ کی عکاس ہے ،مزیدکہاکہ فلسطین ایک خودمختارملک ہوگا اگرچہ کہ اس آزادی کی قیمت بہت زیادہ چکانی پڑے گی۔

الغرض فلسطینی مائیں، بہنیں ، بیٹیاں،نوجوان وضعیف مرد و خواتین، معصوم روتے بلکتےبچے اپنی مظلومیت کی داستان غم سنا رہے ہیں،ان کی آہیںاورکراہیں فضاء میں گونج رہی ہیں، بظاہر کوئی انصاف پسندایسا نہیں ہے جوان کی رودادالم سنےاوران کی دادرسی کرے۔انسانیت کی دہائی دینے والےآخرکہاں ہیں؟ دہشت گردی کاخاتمہ اورامن وآمان کے قیام کی رٹ لگانے والے آخر کیوں روپوش ہیں؟اس کے باوجودفلسطینی مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری ،مادی وسائل کی قلت کے باوجودوہ آج تک اسرائیلی طاقت سے نبردآزماہیں۔

اپنے حقوق اورمسجداقصیٰ کے دفاع میں اپنی،اپنے خاندانوں اورگھروبارکی قربانی پیش کرتے جارہے ہیں، افسوس اس بات کاہے کہ مسلمانوں کے تقریباً ۵۷ممالک ہیں جو تیل کی دولت سے مالامال ہیں وہ چاہیں تو اپنے مادی وسائل کوکام میں لاکراسرائیل کابھرپورمقابلہ کرسکتے ہیںاورقبلۂ اول کی بازیابی میں اپنامومنانہ کرداراداکرسکتے ہیں، لیکن افسوس وہ باطل اسرائیل سے مقابلہ کی ہمت جٹانہیں پارہے ہیں اس فکری غلامی نے اسرائیل کوکسی نہ کسی درجہ میں تسلیم کرلینے پران کومجبورکردیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ کئی ایک مسلم ممالک نے اسرائیل کے آگے سپرڈال دی ہے۔اورکئی ایک ہیں جنہوں نے اپنے ملکوں میں ان کے سفارتخانے قائم کرنے کی راہ ہموارکردی ہے۔فلسطینیوں پرہونے والے مظالم پرصرف ہمدردانہ بیانات جاری کرکے یہ باورنہیں کرایا جاسکتاکہ ہم نے جارحیت کے خلاف آوازاٹھاکراپنا فرض پورا کردیاہے جبکہ مسلح اسرائیلی افواج کاظلم وتشدداوراوران کی وحشیانہ کاروائیاںاورانسانیت سوزمظالم عالم اسلام کے لئے باعث شرم ہیں۔

اسرائیل کا ظالم اور فلسطینیوں کا مظلوم ہوناروزروشن کی طرح عیاں ہےپھربھی کھلے چھپے ان کی ہمنوائی اوران سے دوستی کیا معنی رکھتی ہے؟یہ ارشاد باری پیش نظررہناچاہیے ’’آپ سے یہود و نصاریٰ ہرگزراضی نہیں ہوں گےجب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں، آپ فرمادیجئے اللہ کی ہدایت ہی اصل ہدایت ہےاوراگرآپ باوجوداپنے پاس علم آجانے کے پھربھی ان کی خواہشات کی پیروی کی تواللہ کے سوا آپ کانہ کوئی ولی ہوگا اورنہ مددگار‘‘ (البقرہ: ۱۲۰) اس آیت پاک میں سخت وعیدواردہے ان کےلئے جواپنے تخت وتاج کی بقاءکےلئے ان کے زیرنگیں ہونا منظور کرلیا ہے،ظاہرہے باطل کی خوشنودی اورمداہنت سے کبھی اللہ سبحانہ کی مددونصرت حاصل نہیںکی جا سکتی۔مسلم ممالک اللہ سبحانہ پر توکل اور اس کی مدد و نصرت کی طلب کے ساتھ اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کوختم کرنے اوردنیا سےظلم وجورکے خاتمہ کےلئے متحد اور ایک رائے ہوجاتے توظاہرہے اسرائیل کوارض فلسطین پر ناجائز قبضہ برقراررکھنےکی جرأت نہ ہوتی اوربڑی حدتک دنیا سے ظلم وجور کاخاتمہ ہوتا۔اسلام دشمن طاقتیں چونکہ فلسطین میں اسرائیل کو مضبوط کرناچاہتی ہیں اس لئے وہ ان کی ہرطرح مددکررہی ہیں۔ الکٹرانک میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کودی جانے والی امریکن امداددیگرممالک کودی جانے والی امداد سےکہیںزیادہ ہے، چنانچہ۱۹۸۷ءسے لے کر۲۰۰۳ء تک براہ راست دی جانے والی معاشی اورفوجی امدادتین ارب ڈالر سے زیادہ ہے،علاوہ ازیں جو دوسرے مالی معاملات صرف اور صرف اسرائیل کےلئے خصوصی طورپرطے پاتے ہیں ان کو شامل کرکے یہ امداد تقریبا پانچ ارب ڈالرسالانہ تک جاپہنچتی ہے،اس میں اسرائیل کو دئیے جانے والے قرضہ جات شامل نہیں ہیں، جبکہ امریکی قانون یہ ہےکہ اگروہ ملک جوہری ہتھیاربنائے یا پھر وہ عالمی طورپرتسلیم شدہ انسانی حقوق کو پامال کرتارہےتواس کی امداد خواہ وہ اقتصادی ہویا فوجی بالکلیہ بند کردینی چاہیے،اسرائیل کے جوہری اسلحہ خانے اور حقوق انسانی کی پیہم پامالی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے پھربھی اسرائیل کی مالی مددکاسلسلہ جاری وساری ہے(بحوالہ اسرائیل کی دیدہ ودانستہ فریب کاریاں،پال فنڈ)۔

’’الجزیرہ‘‘کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ریاست کے قیام کے فوری بعدتخمینی ۷؍لاکھ فلسطینی اپنی سرزمین چھوڑنے پر مجبورکردئیے گئے،اس وقت وہ قریبی ممالک مصر، اردن، عراق، لبنان اور شام میں آباد ہوگئے ہیںاورکم وبیش ڈیڑھ لاکھ فلسطینی غاصب اسرائیلی ریاست میں فروکش ہیں ۔ مذکورہ ۲۰۱۷ءکی رپورٹ کے مطابق غرب اردن میں اسرائیلی صیہونی ریاست نے تقریباً ۳۰؍لاکھ فلسطینیوں کو آسمان کے سائبان تلےزندگی گزارنے پرمجبورکرکےوہاں سوسے زائدیہودی بستیاں بسائی ہیں۔ ۲۰۲۱ء میں اسرائیل نے فلسطینیوں پرجوجارحانہ فوجی کارروائی کی تھی وہ گیارہ دن تک جاری رہی اس میں کئی فلسطینی شہید ہوئےاورقومی املاک ،تعلیمی ادارے،شفاخانےوغیرہ تباہ و تاراج کردئیے گئے۔

اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کی وجہ ہزاروں فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں اور لاکھوں نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں، تجزیہ نگاروں نے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد تخمینی ڈھائی لاکھ بتائی ہے۔ان حالات میں عالم اسلام کا فریضہ کیا ہے، کیا وہ صیہونیوں کے مظالم کاتماشہ بینوں کی طرح نظارہ کرتے رہیں یافلسطینی جیالوں کے ساتھ اپنی بساط کے مطابق دفاع میں شریک ہوکر اپنےمسلم امہ ہونے کا ثبوت دیں،ایسے ہی کچھ حالات آغاز اسلام میں مسلمانوں کودرپیش تھے،پانی جب سرسے اونچا ہوگیا تو مسلمانوں کواپنا دفاع کرنےاوردشمن طاقتوں سے مقابلہ کرنے کی اللہ سبحانہ نے دعوت دی۔

’’آخرتمہیںکیا ہوگیاہے کہ تم اللہ سبحانہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتےجبکہ کئی بے بس مردوخواتین اوربچےایسے ہیں جو(ظلم سے تنگ آکر)بارگاہ الٰہی میں معروضہ کرتے ہیں، اے ہمارے رب !ہمیں اس بستی سے نکال دیجئے جس کے رہنے والے ظالم ہیںاورہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی ہمارادوست بنا دیجئے اورہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی مددگارفراہم فرما دیجئے‘‘ ( النساء؍ ۷۵)۔گوکہ یہ آیت پاک مکہ مکرمہ کے مظلوم مسلمانوں کی ترجمان ہے جواسلام دشمن کفارومشرکین کے ظلم کی چکی میں پس رہے تھےاوراللہ سبحانہ کے حضوراپنی بے بسی و بےکسی ،مجبوری ولاچاری،کمزوری وضعیفی کی فریادرسی کرتے ہوئے اللہ سبحانہ سے رحم کی بھیک مانگ رہے تھےاورظالموں کے چنگل سے رہائی کے طلبگار تھے، ظاہرہے اس آیت پاک میںمسلمانوں کواپنے مظلوم بھائیوں اوربہنوںکی حمایت کرنے اوران پرہونے والے مظالم کے خاتمہ کےلئے ظالموں سے پنجہ آزمائی کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔’’اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تووہ اس کا مقابلہ کرتے ہیں‘‘ (الشوریٰ: ۳۹)۔علامہ قرطبی لکھتے ہیں: أي إذا نالهم ظلم من ظالم لم يستسلموا لظلمه ’’اگرکوئی ظالم ان پرظلم کرتا ہے تووہ اس کے سامنے سرنہیں جھکادیتےبلکہ اس سے مقابلہ کے لئےکمربستہ ہوجاتے ہیں‘‘(تفسیر قرطبی۱۶؍۳۹)۔ایمان اور ذلت وخواری ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے،اللہ سبحانہ ایمان والوں کو عزت واکرام،عظمت ووقار سے نوازتےاور سربلندرکھتے ہیں دشمن طاقتوں کے آگے کبھی رسواوپسپانہیں ہونے دیتے،حقیقی معنی میں جن کے ہاں اسلام ہوگاوہ اسلام دشمن طاقتوں کا نرم نوالہ نہیں بن سکتے،ان کی شان یہ ہے کہ وہ فولاد کی ایک مضبوط چٹان بن کران کے آگےڈٹ جاتے ہیں، عفوودرگزران کا اعلی وصف ہے لیکن جب اسلام دشمن طاقتوں کے آگے سرجھکانےکی بات آتی ہے تووہ کبھی اپنے آپ کوذلیل وخوار کرنا گوارہ نہیں کرسکتے۔ على ما جعله الله لهم كراهة التذلل (بیضاوی۵؍۱۵۵) ’’شریف انسانوں کی عزت افزائی اوران کا اکرام واحترام ان کوممنون بنا دیتا ہےلیکن کمینہ فطرت کوعزت دی جائے تواس کی سرکشی اوربغاوت اوربڑھ جاتی ہے‘‘۔

اذا انت اکرمت الکریم ملکتہ
وان اکرمت اللئیم تمردا

مسلمانوں کے اعلی اوصاف یہ ہیں کہ وہ ازخودکسی پرظلم نہیں کرتے،شخصی ظلم ہوتاہوتوبڑی حد تک صبروبرداشت،تحمل و بردباری اور عفو و درگزر کا مظاہرہ کرتے ہیںلیکن جب کوئی ان کے ان اوصاف حمیدہ کی وجہ ان کوکمزورسمجھ کران کوذلیل ورسوا کرنا چاہتا ہے اور اسلام، مقدسات اسلام اورمسلمانوں پرپیہم حملہ آور ہوتا ہے تووہ أَشِدَّاءُعَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح: ۲۹)کے مثل ان کا دنداں شکن جواب دیتے ہیں، باغیوں، سرکشوں کے غرور وتکبر کو خاک میں ملاکرہی سکون کی سانس لیتے ہیں۔ مسلمان حق کا علم اٹھائے ہوئے جب میدان کارزارمیں کود پڑتے ہیں تو باطل کے طوفانوں کارخ موڑدیتے ہیں،کمزوروں اور ضعیفوں سے درگزر ضرور کرتے ہیں لیکن باطل کے نشہ میں چورطاقتیں جو مسلمانوں پرحملہ آورہوتی ہیں ان کوایسا سبق سکھاتے ہیں کہ پھران کومیدان جنگ سے پیٹ پلٹاکربھاگنے کے سواکوئی چارہ نہیں رہتا۔

جس سے جگرلالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں

ان ناگفتہ بہ حالات میں مسلم حکمرانوں اورعالم کے مسلمانوں کواپنی ذمہ داری کا احساس کرناچاہیے،مسلم حکمرانوں کا فرض ہے حدیث پاک کی روسےباطل اسرائیل سے مقابلہ آرائی کے لئے ہر طرح لیس ہوں اورحدیث پاک ’’من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ‘‘ کی روسے وہ اپنی ایمانی کیفیات سے سرشار،اللہ سبحانہ کی دی ہوئی مادی حکومت وسلطنت اوراس کی بخشی ہوئی طاقت وقوت کے بل بوتے پرباطل اسرائیل کے آگے صف آرا ہوںاورمظلوم فلسطینیوں کا ہرطرح تعاون کرکے ان کی بازآبادکاری کا منصوبہ بنائیں،انکے حقوق کی بازیابی اورمسجداقصیٰ کی حفاظت کے جذبہ سےاسرائیل کواس کے غاصبانہ قبضے سے بیدخل کرکے فلسطینی حکومت کے قیام کو یقینی بنائیں۔ مسلمانان عالم پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کی دل کھول کرمالی مدد کریں اور ان کی مددونصرت کےلئے اللہ سبحانہ سے دعائیں مانگیں، اسرائیل کے خلاف اپنا احتجاج درج کروائیں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔اگرہم یہ بھی نہ کرسکیں توپھرہماری اسلامی غیرت و حمیت پرسوالیہ نشان لگ جاتا ہے جبکہ دشمن ہرطرح اسرائیل کی مددکرکے اس کو مضبوط ومستحکم کررہاہے۔

فلسطینی نہتےمسلمان اپنی بے سروسامانی کے باوجودجوش ایمانی سے سرشارہیں،عصری اسلحہ سے لیس نہ ہونے کے باوجود اسرائیلی جارحیت کامقابلہ کررہے ہیں،جذبہ ایمانی اورایمانی رشتہ سے اخوت کا تقاضہ یہ ہے کہ عالم کے سارے انصاف پسندان کی حمایت میں کھڑے ہوں ،مسلم ممالک متحدہ کوششوں سے ظالم اسرائیل سےسخت مقابلہ کریںاورعالم کے مسلمان جومختلف جمہوری ملکوں میں رہتے ہیں یا وہ مسلمان جومسلم ممالک کے شہری ہیں ان کاسب کافرض ہے کہ مسجداقصیٰ کی حفاظت اوردشمن طاقتوں سے اس کی آزادی کےلئے مساجدمیں جمع ہوں اوراتنے جمع ہوں کہ مسجدیں تنگ دامنی کاشکوہ کریں،فجرکی نمازاوردیگرنمازوں میں کثرت تعدادکے اعتبارسےجمعہ وعیدین کا منظرپیش کریں،ان جیسے حالات میںقنوت نازلہ کااہتام بھی ہوناچاہیے۔رجوع الی اللہ ہونادشمنوں کے مظالم سے بچنے کاواحدحل ہےاس میں بڑی غفلت دیکھی جارہی ہے،اس وقت فلسطینی مسلمان غیرانسانی سخت اذیتوں کا شکار ہیں، ارض قدس سےناجائزغاصب اسرائیل کوبیدخل کرنے کی ظاہری تدبیریں جو کچھ ہوسکتی ہیں وہ ضروربروئے کارلائی جانی چاہیے، ظالموں کاتسلط برداشت کرتے ہوئے عالم کے مسلمانوں کو خواب غفلت میں نہیں رہناچاہیے۔اسلاف نے اپنی جان ومال کی بازی لگاکر بیت المقدس کوغاصبین کے قبضہ سے آزاد کروایا ہے تو پھر ہم کوبھی ان کے نقش قدم پرچل کراس فرض کوپوراکرناہے،ہاتھ پر ہاتھ دھرے غفلت ولاپرواہی سےاس انتظارمیں نہیں رہناہے کہ کوئی غیبی طاقتیں آئیں گی اوروہ ارض فلسطین کوناجائزغاصبین کے قبضہ سے آزاد کروالیں گی۔

تھے تو آبا وہ تمھارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!

٭٭٭