مذہب

مطالعہ سیرت و تاریخ و تہذیب

مبصر: سہیل بشیر کار
رابطہ : 9906653927

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

کوئی بھی بڑا کام کرنے کے لیے لازمی ہے کہ بندہ ماضی کے متعلق جانکاری رکھتا ہو۔ یہ ماضی کی تاریخ ہی ہے جو انسان کو ماضی کی غلطیوں کو دوہرانے سے روکتا ہے۔ انسان ان ستونوں سے واقف ہو جاتا ہے جن پر مختلف تہذیبوں کی تعمیر کی گئی ہو۔ تاریخ ماضی پر پڑے ہوئے نقاب کو اٹھانے کا نام ہے۔ اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لیے ماضی کا علم ضروری ہے۔

344 صفحات پر مشتمل زیر تبصرہ کتاب "مطالعہ سیرت و تاریخ و تہذیب” مشہور و معروف عالم دین پروفیسر محسن عثمان ندوی صاحب کی لائق ستائش کاوش ہے۔ اپنی تاریخ کو جاننے اور اس سے سبق حاصل کرنے کی بہترین کوشش ہے۔ پروفیسر صاحب متنوع موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ان کی درجنوں کتابوں کو اہل علم نے سراہا ہے، زیر تبصرہ کتاب کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں:” اسلام نے اعلی انسانی اوصاف کے پھولوں کی ایک نرسری زمین پر قائم کر کے دکھا دی۔ یہ وہ انسانی اقدار اور اسلامی صفات ہیں جن کے کچھ نمونے اور بہار اسلام کے کچھ جلوے اس کتاب کے مختلف ابواب میں پیش کر دئے گئے ہیں۔ صرف چند نمونے پیش کئے گئے ہیں ورنہ ایسے نمونے جتنے پیش کئے گئے ہیں ہمارے اسلاف کی سیرت میں اس سے کہیں زیادہ کئی گنازیادہ ملتے ہیں، اسلام کی تاریخ میں غلطیاں اور بے اعتدالیاں بھی مل جائیں گی جن کا تذکرہ کتاب میں ہے لیکن شرافت اور عدل و انصاف مروت او رواداری کے نمونے زیادہ ملیں گے۔ اعلیٰ انسانی اوصاف اور کمالات سے بہرہ ور تمام اسلامی شخصیتوں کا احاطہ کسی ایک کتاب میں نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ یہ اس کتاب کا موضوع ہے اس کتاب کا موضوع سیرت اور تاریخ و تہذیب کا مطالعہ ہے اس کینوس میں قوموں کی مختصر اچھی تاریخ بھی آگئی اور جو کمزوریاں تھیں ان کا بھی تذکرہ ہے۔ تہذیب و تمدن کے ارتقا کی کہانی بھی بیان کی گئی ہے، یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور مسلمانوں کے زوال کی داستان بھی ہے، اس کتاب کے کینوس میں تاریخ کے مختلف پہلوؤں کا دلچسپ اور مختصر مطالعہ ہے۔ کتاب ” مشتے نمونہ از خروارے کی حیثیت رکھتی ہے ضروری ہے کہ ہماری نئی نسل کم از کم اسلام اور دنیا کی تاریخ سے واقف ہو، اور ہر گھر میں یہ کتاب پڑھی جائے اور سنائی جائے تا کہ ہماری نئی نسل اسلاف کی بہتر خصوصیات کی وارث بن سکے۔ اور دنیا کی اور قوموں کی برائیوں سے بھی واقف ہو، اقبال کا یہ شعر ایسے ہی موقعہ کے لئے ہے۔ "(صفحہ 9)

مصنف نے کتاب کو 8 ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ کتاب کے پہلے باب میں مصنف نے سیرت پاک کا مختصر مگر جامع اور خوبصورت تعارف پیش کیا ہے۔ تحریر اتنی دلکش ہے کہ منظر قاری کی آنکھوں کے سامنے چھا جانے لگتا ہے۔ ہجرت کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :”راستہ دشوار تھا اور سنگلاخ، رات کی تاریکی تھی، اس میں کم و بیش پانچ میل کا سفر غار ثور تک، رات کے وقت چوٹ کھاتے، پیروں کو زخمی کرتے آبلہ پائی کے مرحلوں سے گزر کر مدینہ کے مسافر غار ثور تک پہونچے، تا کہ یہاں سے مدینہ کا سفر شروع کیا جائے۔آفتاب نبوت مکہ میں طلوع ہوا تھا اب اس کی کرنیں مدینہ کے بام ودر پر پڑنے والی تھیں۔ اب مدینہ کو یہ سعادت ملنے والی تھی کہ یہاں سے ہدایت کی روشنی ساری دنیا میں پہونچے ملک فتح ہوں، ابلیس کے لشکر کی شکست ہو، اللہ کی ہدایت ایک خالق کی عبادت دنیا کے کونے کونے تک پہونچ جائے۔ "(صفحہ 31) مصنف نے سیرت کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے خوبصورت استدلال کیا ہیں ایک جگہ لکھتے ہیں:” اب کوئی پیغمبرانہ کام کو لے کر اٹھنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے، کئی جلدوں میں تفسیر لکھنے اور حدیث کی شرح مرتب کرنے کے لئے بہت سے لوگ تیار ہو جاتے ہیں لیکن یہ دین کی حفاظت کا کام ہے وہ اس کا نام دین کی دعوت رکھ دیتے ہیں کبھی بھی کئی صدیاں گذر جاتی ہیں اور ایک شخص بھی دین کی دعوت کو لے کر کھڑا نہیں ہوتا ہے، مسلمانوں کے سامنے نماز، روزہ کی تلقین کولوگ دعوت سمجھنے لگتے ہیں، لاکھوں کروڑوں انسانوں میں پوری صدی گذر جانے پر بھی ایک شخص نہیں اٹھتا ہے جو پیغمبروں کی طرح قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دے اور ان کو شرک سے روکے۔ "(صفحہ 18) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ میں محنت کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:” مسلمانوں کے قائدین کو اب تک سمجھ میں یہ بات نہیں آئی ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں انہوں نے کیا غلطی کی ہے۔ انہوں نے سیکڑوں دینی مدر سے قائم کئے اور ایک مدرسہ بھی ایسا قائم نہیں کیا جہاں سے پڑھ کر لوگ برادران وطن سے لسان قوم میں خطاب کرتے اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے۔ مسلمان علماء آج تک اپنی غلطی نہیں سمجھ سکے ہیں۔مسلمانوں کی غلطی یہ رہی ہے کہ انہوں نے اپنے علماء کو حق و باطل کا معیار سمجھ لیا ہے مسلمان بھی یہ نہیں سمجھ پاتے ہیں کہ ان کے علماء نے کیا غلطی کی ہے انہوں نے علماء کو معیار بنالیا ہے سیرت طیبہ کو معیار نہیں بنایا۔ اس کے باوجود کہ علماء کا کام سیرت کے طریق سے ہٹا ہوا ہے تو حید کی دعوت دینے والا کوئی نہیں ہے بت پرستی سے روکنے والا کوئی نہیں ہے حالانکہ پیغمبر کے کام کا ارتکاز اسی پر ہوتا تھا۔ علماء سیرت پر کتابیں لکھتے ہیں لیکن وہ کام نہیں کرتے ہیں جو پیغمبر نے انجام دیا۔ مسلمانوں کی ہلاکت اور بربادی کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے پیغمبروں کا طریقہ چھوڑ دیا ہے۔ نہ عوام یہ کام انجام دیتے ہیں اور نہ ہی علماء یہ کام انجام دیتے ہیں۔ "(صفحہ 26) جنگ بدر کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اس امر پر کہ مسلمانوں کیوں ناکام ہوتے ہیں؛ لکھتے ہیں:” ساری مصیبت تو اسی لئے آئی ہے کہ مسلمانوں نے صدیوں سے اپنا فرض منصبی ادا کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ایک عالم دین جب مدرسہ سے نکالتا ہے تو ایک اور مدرسہ قائم کر لیتا ہے اور قائم کرنے والوں میں ایک شیخ التفسیر بن جاتا ہے دوسرا شیخ الحدیث اور تیسر امفتی اعظم اور سب مل کر اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ دین کی عظیم خدمت انجام دے رے ہیں۔ علماء میں پیغمبرانہ دعوت کے لئے کوئی نہیں اٹھتا ہے۔ پیغمبرانہ دعوت کو چھوڑے ہوئے اتنی صدیاں گذر گئی ہیں کہ اب مسلمانوں کو اپنی کسی کوتاہی کا احساس تک نہیں ہوتا ہے۔ علماء کی تعداد سیکڑوں سے کم نہیں اور ان میں ایک بھی نہیں جو کفر و شرک کے ماحول میں دین توحید کی صدا لگائے اور لسان قوم میں قوم کو اسلام کی دعوت دے۔ "(صفحہ 39)

موصوف ہندوستانی مسلمانوں کو عزت کی راہ دکھاتے ہیں:” ہندوستان میں مسلمان عزت و شوکت چاہتے ہیں اور اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں تو ان کو ہندوستان میں وہ کام کرنا پڑے گا جو مکہ کی زندگی میں کیا گیا۔ یعنی دعوت کا کام، اور اگر یہ کام نہیں کیا گیا تو انہیں نہ دار العلوم دیوبند بچا سکے گانہ تبلیغی جماعت نہ کوئی اور مدرسہ اور نہ کوئی اور جماعت اور تنظیم۔ مسلمان پانچ مرتبہ مسجدوں سے اذانیں سنتے ہیں اذان کے کلمات سے ان کا دعوتی ذہن نہیں بنتا ہے انہوں نے سمجھا کہ یہ صرف مسجد میں نماز کا اعلان ہے۔ حالانکہ اگر یہ صرف نماز کا اعلان ہوتا تو حی علی الصلاۃ” کہنا کافی تھا اشہد ان لا الہ الا اللہ اور اشہد ان محمد رسول اللہ کے تکرار کی ضرورت نہ تھی۔ حکم ہے جب اذان ہو تو خاموش ہو جاؤ اور اذان کے الفاظ کو دہراؤ کسی نے اس حکم کی مصلحت پر غور نہیں کیا۔‘‘ (صفحہ 40) بیعت الرضوان کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "اس سے ہمیں یہ سبق ملا کہ مسلمانوں میں کسی پر ظلم ہو؛ کسی کوقتل کردیا جائے تو خاموش بیٹھنا اور صرف خبرسن لینا بھی ایک جرم ہے اور بے غیرتی کی بات ہے۔ کچھ نہیں تو پولیس کی کارروائی کرنا، میڈیا کو متوجہ کرتا، افسران حکومت کو کارروائی پر مجبور کرنے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے، مقتول کو اور اس کے اہل خانہ کو بے یار ومددگار چھوڑ دینا گناہ اور بے غیرتی کی بات ہے۔ "(صفحہ 46)

دین اسلام مساوات کا درس ہی نہیں دیتا بلکہ عملی اقدام بھی کرتا ہے۔ جب حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ایک اہم جنگ میں سپہ سالار بنایا گیا تو اس سے استدلال کرتے ہوئے مساوات کا درس دیتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:” حضرت زید ایک غلام تھے جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد فرمایا تھا ان کی قیادت میں مہاجرین اور انصار کا قافلہ تھا۔ اسلام میں عزت تو صرف دین اسلام کی عزت ہوتی ہے مسلمانوں نے خاندان اور برادریوں کو عزت کا معیار قرار دے دیا ہے۔‘‘ (صفحہ 49) مصنف نے نہایت ہی عمدہ طریقے سے سیرت کے اہم واقعات کو بیان کیا ہے،اس باب کا اختتام بڑی خوبصورتی سے کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ” عہد جدید میں سیرت نبوی کا صیح ڈھنگ سے مطالعہ درکار ہے، مسلمانوں میں فکر و دانش کا ارتقا در کار ہے علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کی ضرورت سے بھری بیداری کی ضرورت ہے۔ زائد یہ نظر کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ عصر حاضر کے چیلنج کو سمجھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہماری کوششوں کو صحیح سمت مل سکے۔ ہم نے اسلام کے تصور حیات کو نہیں سمجھا ہے، ہم نے قرآن کا اور سیرت کی کتابوں کا گہرائی سے مطالعہ نہیں کیا، جو کتابیں عام طور پر ہمارے مطالعہ میں رہتی ہیں اور ہمیں پڑھائی جاتی ہیں ان سے اسلام کا تصور حیات واضح نہیں ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے انقلاب کو ہم سمجھ نہیں سکتے ہیں۔ "(صفحہ 55)

کتاب کے دوسرے باب” تاریخ اسلام پر ایک طائرانہ نظر”میں مصنف نے تاریخ اسلام کی عروج و زوال کی داستان، اور روشن مستقبل کی تلاش اور دین و سیاست کا رشتہ پر بحث ہے۔ مصنف نے اس باب میں پہلے دور خلفائے راشدین (632 سے 661) کی خصوصیات بیان کی ہے۔ انہوں نے اس دور کے کارناموں کو نمایاں کیا ہے، مصنف لکھتے ہیں کہ خلافت علی منہاج النوۃ کی پیشگوئی جو 30 سال کے لئے کی گئی تھی وہ امام حسن کی خلافت پر ختم ہوئے، مصنف لکھتے ہیں کہ اسلامی تاریخ کے طالب علم کو اہتمام اور توجہ کے ساتھ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت خلفائے راشدین کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مزاج اسلام کو سمجھنے میں اس دور سے مدد ملے گی اس کے بعد اسلام کی جلوہ باشیاں اگر باقی ملیں گی تو علماء اور فقہا اور محدثین اور مجددین نہ کہ خلفاء اور سلاطین کی زندگی میں البتہ وہ عمر بن عبدالعزیز کے دور کو بھی دیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ مصنف نے اس باب میں تاریخ اسلام میں ملوکیت اور قیصر و کسری کی سنت کا آغاز ہونے والے دور؛ خلافت بنی امیہ کی بھی تاریخ بیان کی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ دور بادشاہت کا دور تھا۔ جمہوری یا شورائی نظام حکومت کی جگہ مطلق العنانی نے لی تھی اور حکومت جانشینی اور موروثی بن گئی تھی۔ یہ دور 661 سے شروع ہوتا ہے اور اس کا اختتام 1032 عیسوی میں ہوتا ہے، اس دور میں بہت ساری فتوحات بھی ہوئی، اموی دور میں دس صوبے تھے اس سے اس دور کی وسعت کا اندازہ ہو جاتا ہے البتہ 721 عیسوی میں اتنی وسیع حکومت امیوں کے ہاتھ سے نکل گئی اور اب یہ حکومت عباسیوں کو ملی، بغداد میں عباسی حکومت 500 برس سے زیادہ عرصہ قائم رہی۔ مصنف نے مختصر مگر جامع انداز میں اس دور پر روشنی ڈالی ہے۔ مصنف نے تاریخ کا بے لاگ جائزہ لیا ہے۔ بنی عباسی خلفا کے بارے میں لکھتے ہیں: ” دیگر عباسی خلفاء کے کارنامہ حیات پر نظر ڈالی جائے تو مامون رشید سچ مچ لعل بدخشاں کی طرح تابناک اور درخشاں نظر آئے گا۔ معتصم باللہ خود غیرتعلیم یافتہ تھا لیکن اس نے خلق قرآن کے مسئلہ میں کئی علماء کوسرکاری پالیسی سے اختلاف کے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خلیفہ واثق نے علماء کو اذیت دینے کے لئے آتشیں تنور بنوایا تھا خلیفہ جعفر متوکل نے حضرت امام حسین کی قبر پر ہل چلوا دیا۔ متوکل کے حرم میں چار ہزارخوبصورت کنیزیں تھیں خلیفہ مہدی اور خلیفہ ہادی باللہ سب شراب و شباب کے رسیا تھے۔ امین الرشید بھی عیاش تھا۔ یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ ان بادشاہوں کی تاریخ اسلام کی تاریخ ہے یا غیر اسلام کی تاریخ ہے۔ ہارون رشید اور مامون رشید نسبتا بہتر حکمراں تھے لیکن برا مکہ کے ساتھ انہوں نے جو سلوک کیا اس کا جواز پیش کرنا مشکل ہے۔ آخری خلیفہ مستعصم باللہ بھی عیش کوش بیگانہ ہوش اور میخانہ بدوش تھا۔ چار سو خادم دربار میں ملازم تھے جب وہ نکلتا تھا تو گھوڑوں کو زیورات سے آراستہ کیا جاتا تھا، کیا ایسے خلفاء اور سلاطین کی تاریخ کو تاریخ اسلام کہنا درست ہو سکتا ہے؟ یہ سب اسلام شکنی کی تاریخ ہے نہ کہ اسلام کی علم برداری کی تاریخ۔ ساری مشکل اس میں ہے کہ ہم نے حکومت اور سلطنت کی تاریخ کو اسلام کی تاریخ قرار دے دیا ہے۔(صفحہ 82)

مصنف نے اندلس کی مسلم حکومتیں (773سے 1492عیسوی)پر مختصر مگر جامع تاریخ بیان کی ہے، اس دوران مسلمانوں نے دنیا کو بہت کچھ دیا زندگی کے ہر فیلڈ میں، یہ باب پڑھ کر جہاں مسلمانوں کی ترقی پر مسرت کا احساس ہوتا ہے وہی مسلمانوں کے زوال پر افسوس بھی۔ یہاں بھی مصنف نے اندلس کے حالات کوہندوستان کی حالات سے مماثلتیں پیش کی ہیں۔ ایک اور یورپی ملک صقلیہ (سسلی) پر مسلمانوں کی حکومت دو سو سے زیادہ سال (827 سے 1052 عیسوی) رہی اور حکومت اٹلی، سوئٹزرلینڈ اور مالٹا تک پہنچ گئی۔ یہاں بھی اگرچہ مسلمانوں نے اندلس (اسپین) کی طرح پوری طاقت سے حکومت کی لیکن عددی اعتبار سے وہ اقلیت میں رہے۔ پھر وہی آپسی جنگوں نے مسلمانوں کو کمزور کیا اسی باب میں مصنف نے مغلیہ دور اور سلطنت عثمانیہ کے عروج و زوال پر بھی روشنی ڈالی ہے، یہاں مصنف نے مسلمانوں کے زوال کی دو وجوہات بیان کی ہے ایک سائنس اور ٹیکنالوجی میں کمی؛ دوسرا دین کا محدود تصور۔ ساتھ ہی انہوں نے پانچ ایسی کمزوریوں کو بیان کیا ہے جو زوال کے اسباب بنے۔

کتاب کے تیسرے باب میں "اسلامی تاریخ میں عدل و انصاف، رواداری اور شرافت کی قدریں” میں مصنف نے اسلامی تاریخ میں رواداری، تحمل، عفو و درگذر، ہمت و شجاعت اور شوق شہادت کی مثالیں دی ہیں، اس باب میں مصنف نے اس سلسلے میں جس کا بھی تذکرہ کیا ہے کسی خاص پہلو کا تذکرہ کیا ہے جیسے حضرت ابوبکر کی سادگی اور درویشانہ زندگی، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رواداری، اور رعایا پروری، حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فیاضی اور سخاوت، حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عدل و انصاف۔ یہ باب پڑھ کر جہاں اپنے عظیم لوگوں کی عظمت واضح ہو جاتی ہے وہیں قاری کے دل میں رقت اور آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے ہیں، اس باب میں مصنف نے جہاں دلکش واقعات بیان کیے ہیں وہی اسلام کے متعلق بہت سی غلط فہمیوں مثلا جزیہ کے حوالے سے اشکالات کو دور بھی کیا ہے۔ مصنف نے محمود عزنوی اور محمد بن قاسم کے متعلق غلط فہمیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح سلطان زین العابدین کا غیر مسلموں کے ساتھ شفقت کا سلوک کے چند نمونے بھی پیش کیے ہیں۔

کتاب کا چوتھا باب تیسرے باب کا تسلسل ہے جس میں مصنف نے اسلامی تاریخ کے 72 حیرت انگیز موثر واقعات کو بیان کیا ہے۔ یہ واقعات گزشتہ باب کی طرح انسان کی تعمیر سیرت میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں، یہ واقعات صحابہ کرام، تابعین، تبہ تابعین، علماء کرام کے بیان کیے ہیں یہ اسلامی اخلاق کے پھولوں کا یہ بولتا ہوا چمن ہے۔

کتاب کے پانچویں باب "یورپ کی نشان ثانیہ اور مسلمانوں کا زوال” میں مصنف نے بتایا ہے کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کیسے شروع ہوئی۔ اس باب میں مصنف نے قرون وسطی کے مسلمانوں کے کارنامے بیان کرنے کے بعد امت مسلمہ کی آج کی حالت پر گفتگو کی ہے۔ مولانا ظفر احمد عثمانی کے حوالے سے امت کو پیغام دیتے ہوئے بتاتے ہیں:”دشمن کے مقابلہ میں قوت حرب ( جنگی طاقت ) کو اس حد تک بڑھانا چاہئے کہ دشمن پر ہیبت طاری ہو جائے، ہمارے پہلے خلفاء اور سلاطین اس حکم پر پوری طرح عامل تھے، حضرت معاویہ نے خلافت بنی امیہ میں پانچ سو بحری جہازوں کا جنگی بیڑا تیار کیا تھا، وہ دشمن کی جنگی قوت سے مدافعت کا پورا سامان تیار کرتے تھے دوسروں کے دست نگر نہ تھے جیسے ہم آج کلدوسروں کے محتاج ہیں سب مسلمانوں کومل کر اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کرنے چاہئیں اور نئ نئی ایجا دیں بھی کرنی چاہئیں یہ سب اعدو الهم ما استطعتم “ میں داخل ہیں۔”(صفحہ 290) اگر اس باب میں مصنف یورپ کی نشاۃ ثانیہ کی مختصر تاریخ اور عوامل بھی بیان کرتے تو یہ باب زیادہ موثر ہوتا ہے۔

کتاب کے چھٹے باب "اسلام، ہندو مذہب، فارسی اور سنسکرت” میں مصنف نے ان حکمرانوں اور افراد کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنے ہمسایہ غیر مسلموں کے مذہب جاننے کی کوشش کی؛ لکھتے ہیں: "مسلمانوں میں ذوق جستجو اور مذاہب کے مطالعہ کا شوق پوری تاریخ کے ہر عہد میں پایا جاتا رہا ہے۔ ہندو مذہب کے بارے میں جاننے اور ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کا ترجمہ کرنے کی کوششیں ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں مسلسل پائی جاتی ہیں۔ مغلیہ عہد کے دور ہما یونی میں محمد گوالیاری نے سنسکرت کی مشہور تصنیف امرت کنڈ کا فارسی ترجمہ بحر الحیات کے نام سے کیا۔ اس کتاب میں برہمنوں کے مذہبی خیالات و عقائد پر مباحث ہیں اور یہ کتاب مخطوط کی شکل میں برٹش میوزیم میں موجود ہے۔ شیر شاہ کے دور میں ملک جائسی نے ہندی پدر ماوت لکھ کر لسانی اور مذہبی رواداری کا ثبوت دیا۔ اکبر نے سنسکرت کی کلاسیکل کتابوں کے فارسی میں منتقل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ اس کے حکم سے نقیب جان، ملا عبد القادر بدایونی، ملاشیری اور سلطان حاجی تھا نیسری نے مہا بھارت کا فارسی ترجمہ ۹۹۵ ھ میں کیا اس کی خواہش پر اس کو مصور بھی کیا گیا اور اس کا فارسی نام رزم نامہ رکھا گیا۔ پھر ملا عبد القدر بدایونی نے لگا تار چار سال کی محنت کے بعد رامائن کا بھی ترجمہ 996 ھ میں مکمل کیا۔ اتھر وید کا فارسی ترجمہ حاجی ابراہیم سرہندی نے کیا۔ ملاشیری نے فارسی میں ہر بنس کا ترجمہ کیا جس میں کرشن جی کی زندگی کے حالات ہیں۔ آئین اکبری اور منتخب التواریخ وغیرہ میں ان کتابوں کا تذکرہ موجود ہے۔ اکبری دور میں ابوالفضل نے ہندؤوں کے علوم وفنون کا گہرا مطالعہ کیا اور ان کی عقل و دانش اور نفس کشی کو دلکش پیرایہ میں پیش کیا۔ اکبری عہد کا یہ عظیم مؤرخ انڈولوجی کا ماہر اور ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کا عالم تھا اس نے ہندؤوں کے مذہبی عقائد کا تجزیہ بڑی دیدہ وری سے کیا ہے۔ اس کی کتاب آئین اکبری اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔” (صفحہ 298) مصنف نے لکھا ہے کہ مسلمانوں نے سنسکرت کی مختلف کتابوں کا فارسی ترجمہ کیا، اسی طرح بہت سے ہندو افراد نے فارسی میں شاعری کی۔ مصنف نے اس کی بھی کئی مثالیں پیش کی ہے۔

کتاب کے ساتویں اور آخری باب "تاریخ تمدن و تہذیب” میں پوری دنیا کی تہذیب و تمدن کی داستان سنائی گئی ہے، اس باب میں مصنف نے مختصر مگر جامع انداز میں لاکھوں سال کی داستان ابتدا سے عہد حاضر تک کی تاریخ بیان کی ہے۔ اگرچہ یہ کام آسان نہیں لیکن قاری کو تشنگی رہتی ہے۔

کتاب میں بہت قیمتی معلومات ہیں لیکن راقم کا ماننا ہے کہ اگر مطالعہ سیرت، مطالعہ تاریخ اور مطالعہ تہذیب پر الگ الگ کتابیں لکھی جاتی تو تشنگی باقی نہیں رہتی۔ کتاب کی طباعت اعلی ہے اور زیر تبصرہ کتاب کو ‘مجلس تحقیقات و نشریات اسلام’ لکھنو نے شائع کیا ہے۔ کتاب کی قیمت 300 روپے بہت ہی مناسب ہے۔ یہ کتاب فون نمبر 05222741539 سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
٭٭٭