سوشیل میڈیامذہب

واٹس ایپ وغیرہ پر آنے والے سلام کا جواب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دینے کا حکم فرمایا، اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے کہ زبانی سلام کرنے والے ہی کا جواب دیا جائے؛ بلکہ خط کے جواب میں سلام کے جواب لکھنے کا بھی علماء ومشائخ کا معمول رہا ہے؛

سوال: جب سے واٹس ایپ، ایمیل اوردوسرے الکٹرانک ذرائع وجود میں آئے ہیں، خط لکھنے کا رواج بہت ہی کم ہوگیا ہے؛مگر بعض حضرات اس کا اہتمام کرتے ہیں کہ پہلے سلام لکھتے ہیں پھر اپنا پیغام، تو جس شخص کو پیغام دیا گیا ہے، کیا اس پر اس سلام کا جواب دینا لازم ہے؟

اور اگرواجب ہے تو کیا صرف زبان سے جواب دے دینا کافی ہے یا میل کے ذریعہ جواب دینا لازم ہے۔(عظمت اللہ، لکھنؤ)

جواب:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دینے کا حکم فرمایا، اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے کہ زبانی سلام کرنے والے ہی کا جواب دیا جائے؛ بلکہ خط کے جواب میں سلام کے جواب لکھنے کا بھی علماء ومشائخ کا معمول رہا ہے؛

اس لئے اگر ان جدید ذرائع سے کسی کا سلام پہنچے تو ان کا جواب دینا بھی ضروری ہے؛ البتہ تحریری طور پر یا آواز کے ذریعہ ہی جواب دینا ضروری نہیں، اگر زبان سے غائبانہ طور پر سلام کا جواب دے دے تو یہ بھی کافی ہے؛

چنانچہ علامہ شامی نے علامہ مناوی سے نقل کیا ہے:

أی !ذا کتب لک رجل بالسلام في کتاب وصل !لیک وجب علیک الرد باللفظ أو بالمراسلۃ وبہ صرح جمع شافعیہ وھو مذھب ابن عباس (ردالمحتار:۶؍۴۱۵،کتاب الحضر والاباحۃ)

البتہ اگر اسی ذریعہ سے تحریری جواب دے دیا جائے تو بہتر ہے؛ کیوں کہ جب سلام کرنے والا جواب دینے والے کے جواب سے واقف ہو جاتا ہے تو محبت بڑھتی ہے، اور اُنس میں اضافہ ہوتا ہے،

اور اگر جواب نہ دیا جائے تو بعض دفعہ بدگمانی کا سبب بنتا ہے، مشہور محدث وفقیہ امام نووی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے: ویتأکد ردالکتاب فان ترکہ ربما أورث الضغائن (حوالہ ٔ سابق)