مذہب

تکیہ پر بیٹھنا

شرعا تکیہ پر بیٹھنے کی ممانعت نہیں ہے، حدیث میں کئی مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا تکیہ پر بیٹھنا منقول ہے،

سوال: لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ تکیہ پر نہیں بیٹھنا چاہئے، عام طور پر گھر کے بزرگ حضرات بھی اس سے منع کرتے ہیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟(محمد عمران، بنڈلہ گوڑہ)

جواب: شرعا تکیہ پر بیٹھنے کی ممانعت نہیں ہے، حدیث میں کئی مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا تکیہ پر بیٹھنا منقول ہے،

ایک بار یہودیوں کی دعوت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں گئے، اور ان کا تعلیمی ادارہ جو’’ بیت المدرس‘‘ سے موسوم تھا، پر توقف فرمایا، ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تکیہ رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی تکیہ پر تشریف فرما ہوئے:

فوضعوا لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسادۃ فجلس علیھا (سنن ابی داؤد،حدیث نمبر: ۴۴۴۹)،

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس دو صاحب آئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان کے لئے تکیہ رکھا، ایک تکیہ پر بیٹھ گئے، اور دوسرے زمین پر بیٹھ گئے، تو آپ نے انہیں باصرار تکیہ پر بٹھایا، (بیہقی عن شعب الایمان عن ابی جعفر، حدیث نمبر: ۵۸۵۴)

اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو تکیہ پر بٹھایا (کنز العمال عن عطاء، حدیث نمبر: ۳۶۹۵۵)

حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی مروی ہے کہ ایک ولیمہ میں شریک ہوئے تو تکیہ پر نشست فرمائی، علامہ کاسانیؒ نے اس کا ذکر فرمایا ہے(بدائع الصنائع: ۵؍۱۳۱)

دوسرے فقہاء نے بھی مصورتکیہ کاحکم بیان کرتے ہوئے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے (المبسوط للسرخسی:۱؍۱۱۱) اس لئے شرعا تکیہ پر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں۔

لیکن بعض امور کا تعلق تہذیب ومروت سے ہوتا ہے، ہندوستان میں عام طور پر جو تکیہ سر کے نیچے رکھا جاتا ہے، اس پر بیٹھنے کو تہذیب و ادب کے خلاف سمجھا جاتا ہے،

اور لوگوں کو اس سے ناگواری ہوتی ہے، اور اگر کوئی عمل شرعا ضروری نہیں ہو اورلوگوں کے لئے ناگواری کا باعث بنتا ہو تو اس سے بچنا بہتر ہے؛

اس لئے جہاں اس کو برا سمجھا جاتا ہو، وہاں بلا ضرورت تکیہ پر بیٹھنے سے بچنا بہتر معلوم ہوتا ہے۔واللہ اعلم۔
٭٭٭