مذہب

خلیفہ اول امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے مختصر احوال

حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کی فضیلت اور ان کے مقام ومرتبے کے اعتراف میں ان کی بیعت کرنے میں جلدی کی۔ پھر ہر طرف سے لوگ حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کرنے کیلئے آنے لگے، حتیٰ کہ راستے تنگ پڑگئے اسلم قبیلے نے اپنے تمام لوگوں سمیت بیعت کی، جب وہ بیعت کر رہے تھے تو حضرت عمرؓ کہہ رہے تھے: جب میں نے اسلم قبیلے کو دیکھا تو مجھے نصرت کا یقین ہوگیا۔ (تاریخ طبری)

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد دورِ خلافت کا آغاز ہوا، باجماعِ امت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے مقرر ہوئے، چونکہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اس لئے آپ کے بعد خلافت کا سلسلہ چلا، صحابہ کرام کی خلافت کے بارے میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَعَدَ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِم (سورہ نور) تم لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ انہیں زمین پر ضرور بہ ضرور خلافت عطا فرمائے گاجس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلافت دی تھی ۔

امام رازی اس آیت شریفہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں یہ آیت خلفاء اربعہ کی امامت کی دلیل ہے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے مومنین سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین پر خلیفہ بنائے گا، جیسا کہ پچھلی امت میںانبیاء کے بعدان کے خلفاء مقرر کیا تھا۔ یہ خلافت راشدہ کا زمانہ رب کے پسندیدہ دین کو مضبوط کردے گا اوررعایا کو امن عطا کریگا۔ مشیتِ خداوندی کی تکمیل خلافت ِ راشدہ سے ہوئی، جب آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوگئے، مرض اتنا شدید ہو گیا کہ قیام وچلنے پر قدرت باقی نہ رہی تو آپؐ نے لوگوں سے کہا ابوبکر ؓ سے کہو کہ وہ لوگوں کی امامت کرے۔ قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: مروا ابابکرفلیصل بالناس (بخاری) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ ! ابوبکر کے علاوہ کسی اور کو امامت کیلئے مقرر فرمائیے، آپؐ نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ہی میں صدیق اکبر صحابہ کرام کو نماز پڑھاتے رہے، اس فرمان نبوی سے ثابت ہوا کہ حضور ؐ نے حیات مبارکہ میں ہی اپنا خلیفہ ، جانشین، سجادہ مقرر کر دیا تھا، یہ خلافت علی منہاج النبوۃ تھی۔ یعنی خلافت نبوت کے طریقہ پر چلتی رہی۔آپؐ کی خلافت کی مویّد یہ حدیث شریف بھی ہے جس میں وارد ہے: رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایک خاتون آئیں اور اپنی محتاجی کا ذکر کیا ، آقا نے انہیں مال عطا کیا اور فرمایا پھر آنا، اس نے کہا :یا رسول اللہ ؐ ! اگر آپ کو نہ پائوں ( یعنی اگر آپؐ وصال کر جائیں ) تو کس سے رجوع ہوں، آپؐ نے فرمایا : ابوبکر کے پاس آنا۔ جیسا کہ مسلم شریف میںہے: ان امرأۃ سألت رسول اللہ ﷺ شیئاً فامرھا أن ترجع الیہ ۔۔ الیٰ آخرہ (مسلم) اس حدیث شریف سے آپؓ کی خلافت کی طرف اشارہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری بروز پیر وفات پائی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کی وجہ سے سارے صحابہ غم میں مبتلا ہوگئے، بعض صحابہ تو اپنا ہوش ہی کھو بیٹھے جن میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے، انہوں نے کہا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم انتقال کر گئے ہیں تو میں تلوار سے اس کی گردن اڑا دونگا، ایسے نازک حالات میں کسی ایک باہمت زیرک مدبر کی ضرورت تھی جوتمام مسلمانوں کو متحد کرکے اسلامی حکومت کی باگ ڈور سنبھالے ، ایسے وقت ایک مرد حق امیر المومنین حضرت ابو بکر ؓ نے کھڑے ہو کر مختصر خطبہ دیا، آپؓ نے اللہ تعالی ٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا : سنو ! جو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو بے شک سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم انتقال کرگئے اور جو اللہ عزو جل کی عبادت کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ زندہ ہے اس کو موت نہیں آئے گی اور یہ آیت کریمہ پڑھی: إِنَّکَ مَیِّتٌ وَإِنَّہُم مَّیِّتُون (الزمر: ۳۰) بے شک آپ فوت ہو نے والے ہیں اوریہ لوگ بھی مرنے والے ہیںاور یہ آیت شریفہ بھی پڑھی: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ وَمَن یَنقَلِبْ عَلَیَ عَقِبَیْہِ فَلَن یَضُرَّ اللّہَ شَیْئاً وَسَیَجْزِیْ اللّہُ الشَّاکِرِیْنَ (آل عمران: ۱۴۴) محمد صلی اللہ علیہ وسلم (معبود نہیں ہے) صرف ایک رسول ہیں ،ان سے پہلے اور رسول گزر چکے ہیں ،تو کیا اگر وہ وفات پاجائیں یا شہید ہوجائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤگے اور جوالٹے پاؤں پھرے گا تو وہ اللہ کو ہر گز کچھ نقصان نہ پہنچائے گا اور عنقریب اللہ شکر گزاروں (نیک لوگوں ) کو بدلہ عطا فرمائے گا۔

اور جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا، (وہ سن لے) اللہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ اس کا محافظ ہے وہ زندہ ہے، ہمیشہ رہنے والا ہے، وہ فوت نہیں ہوگا، اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، وہ اپنے دین کا محافظ ہے، اپنے دشمن سے انتقام لینے والا ہے، وہ ہر ایک کو اس کی برائی کی سزا دینے پر قادر ہے میں تمہیں اللہ کی طرف سے تمارے نصیب ومقدر کے بارے میں اس سے ڈر نے کی نصیحت کرتاہوں، اور اس چیز کے بارے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں جو تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس لے کر آئے تھے، تم پر لاز م ہے کہ تم ان کی حیات طیبہ کو اپنے لئے مشعل راہ بنائو اور اللہ تعالی کے دین کو مضبوطی سے تھامے رہو، ہر وہ شخص جسے اللہ ہدایت سے محروم رکھے وہ گمراہ ہے، اور ہر وہ شخص جسے وہ عافیت سے محروم رکھے وہ مصیبت میں ہے، اور جس کی اللہ تعالیٰ مدد نہ کرے وہ ناکام ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جس کو وہ گمراہ کردے وہی گمراہ ہے ۔ آپؓ کے اس حوصلہ افزا خطبہ کی وجہ سے لوگوں میں گویا دوبارہ جان آگئی ۔

لیکن انصارصحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین سے پہلے ہی خلافت کا مطالبہ کردیا، جبکہ مہاجرین نے خلافت کے بارے میں ابھی سوچا بھی نہیں تھا، بلکہ کبار صحابہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز وتدفین میں مشغول ومصروف تھے، حضرت سعد بن عبادہ ؓ خلیفہ بننے کا ارادہ رکھتے تھے، ادھر حضرت عمر بن خطاب ؓ کو جب اس اجلاس کی اطلاع ملی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کے پاس حاضر ہوئے اور حضرت ابوبکر ؓ کو پیغام بھیجا کہ باہر تشریف لائیں۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے فرمایا میں اس وقت مصروف ہوں، حضرت عمر ؓ نے پھر کہلا بھیجا کہ ایسا واقعہ رونما ہوا ہے جس کیلئے جانا بہت ضروری ہے، جب وہ باہر تشریف لائے تو حضرت عمر ؓ نے انہیں سقیفہ بنی ساعدہ میں رونما ہونے والے حالات سے آگاہ کیا پھر حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح کو ساتھ لے کر بڑی تیزی کے ساتھ سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف چل پڑے۔ حضرت عمر ؓ نے بات کرنا چاہی تو حضرت ابو بکر ؓ نے انہیں یہ کہتے ہوئے خاموش کر ادیا کہ ذرا ٹھہرو میں پہلے ان سے بات کرلوں۔

پھرانہوں نے وہ تمام باتیں کہہ دیں جو حضرت عمرؓکہنا چاہتے تھے۔ (تاریخ طبری:۲؍۲۴۱) حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حمد وثنا سے اپنی گفتگو کا آغاز فرمایا، پھر کہا: اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی مخلوق کی طرف رسول اور اپنی امت پر گواہ بنا کر مبعوث فرمایا تا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور اسے یکتا تسلیم کریں، جبکہ وہ اس سے پہلے اس کے علاوہ مختلف معبودوں کی پوجا کیا کرتے تھے اور وہ اس زعم میں تھے کہ وہ (جھوٹے) معبود اس کے ہاں ان کی شفاعت کریں گے اور انہیں فائدہ پہنچائیں گے۔ ان کے یہ معبود تراشے ہوئے پتھر سے بنے ہوئے تھے، پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وَیَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّہِ مَا لاَ یَضُرُّہُمْ وَلاَ یَنفَعُہُمْ وَیَقُولُونَ ھَـؤُلاء شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللّہِ (سورہ یونس) اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو ان کو نہ نفع دے سکتی ہیں اور نہ نقصان پہنچاسکتی ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔

اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہم سب کو اسلام کی توفیق عطا فرمائی پھر حضرت ابوبکر ؓ نے انصار صحابہ سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : ’’الائمۃ من قریش‘‘ یعنی خلافت قریش میں ہوگی۔ یہ کہنا تھا کہ سب انصار صحابہ خاموش ہوگئے پھر آپؓ نے فرمایا: قریش میں سے حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہ ؓ موجود ہیں ان میں سے جسے چاہواپنا امیر منتخب کرلو۔ ان دونوں نے کہا: ’’نہیں، اللہ کی قسم ! آپؓ کے ہوتے ہوئے ہم یہ ذمہ داری قبول نہیں کرسکتے، کیونکہ آپ تمام مہاجرین میں افضل ہو، غار ثور میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق رہے ہو، نماز کی امامت کیلئے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی فرماچکے ہو اور نماز ہی ہمارے دین کا سب سے بڑا رکن ہے، لہٰذا یہ حق کسے پہنچتا ہے کہ وہ آپؓ سے آگے بڑھ کر خلافت کے منصب پر فائز ہوجائے، آپؓ اپنا ہاتھ بڑھائیں تاکہ ہم آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کریں۔‘‘ جب وہ دونوں آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے آگے بڑھے تو حضرت بشیر بن سعد ؓ ان دونوں سے پہلے آپ کی طرف بڑھے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی، اس طرح انہوں نے سب سے پہلے ابو بکر صدیق ؓ کی بیعت کی۔

حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کی فضیلت اور ان کے مقام ومرتبے کے اعتراف میں ان کی بیعت کرنے میں جلدی کی۔ پھر ہر طرف سے لوگ حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کرنے کیلئے آنے لگے، حتیٰ کہ راستے تنگ پڑگئے اسلم قبیلے نے اپنے تمام لوگوں سمیت بیعت کی، جب وہ بیعت کر رہے تھے تو حضرت عمرؓ کہہ رہے تھے: جب میں نے اسلم قبیلے کو دیکھا تو مجھے نصرت کا یقین ہوگیا۔ (تاریخ طبری)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز وتکفین: حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز وتکفین عمل میں آئی اور آپ ؐ کو چہار شنبہ کی رات قبر انور میں اتارا گیا، آپؐ کو آپ کی قمیص میں ہی غسل دیا گیا، آپ کو تین سفید سوتی یمنی چادروں میں کفن دیا گیا، آپ کے کفن میں نہ قمیص تھی نہ عمامہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل اور کفن دینے کے بعد چارپائی پر رکھا گیا، مسلمان گروہ در گروہ وہاں داخل ہوتے، وہاں کھڑے ہو کرتنہا نماز پڑھتے، پھر باہر آجاتے پھر دوسرے لوگ اندر چلے جاتے، اس نماز میں کسی نے امامت نہیں کی حتیٰ کہ جب تمام مرد فارغ ہوگئے تو پھر خواتین داخل ہوئیں اور پھر بچے داخل ہوئے۔

سب سے پہلے حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما داخل ہوئے، انہوں نے کہا: السلام علیک ایھا النبي ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اور ان کے ساتھ مہاجرین وانصار کے بھی کچھ افراد تھے، انہوں نے بھی ویسے ہی خدمت اقدس میں سلام عرض کیا جیسے حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہمانے عرض کیا تھا، انہوں نے صفیں باندھیں اور تنہا تنہا نماز ادا کی لیکن ان میں سے کسی نے امامت نہیں کی، حضرت ابوبکر ؓ اور عمرؓ پہلی صف میں تھے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہو کر کہا۔

اے اللہ! ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپؐ پر جو شریعت نازل کی گئی آپؐ نے اسے پہنچا دیا، آپؐ نے اپنی امت کی خیر خواہی کی، آپؐ نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا حتیٰ کہ اللہ نے اپنے دین کو غلبہ عطا کیا ، آپؐ اس ایک ذات پر ایمان لائے جس کا کوئی شریک نہیں، اے ہمارے معبود! ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل فرما جو آپؐ پر نازل ہونے والی شریعت پر ایمان لائے، ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ملا دے تاکہ ہم انہیں پہچان سکیں اور وہ ہمیں پہچان سکیں، آپ مومنوں پر مشفق ومہربان تھے، ہم ایمان کا نہ تو کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ اس کے عوض کوئی قیمت چاہتے ہیں۔ (البدایہ والنہایہ) لوگ آمین آمین کہہ رہے تھے، پھر وہ نکل آئے اور دوسرے لوگ اندر چلے گئے۔

بیعت کے بعد حضرت ابوبکر ؓ کا خطبہ: حضرت ابوبکر ؓ کی عام بیعت مکمل ہوجانے کے بعد وہ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا: لوگو! مجھے تمہارا حکمران بنایا گیا ہے،جبکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں(آپؓ نے تواضع اختیار کرتے ہوئے یہ فرمایا)، اگر میں اچھا کام کروں تو میری مدد کرنا، اگر میں غلطی کروں تو مجھے درست کردینا، سچائی امانت ہے، جھوٹ خیانت ہے، تم میں سے جو ضعیف (کمزور) ہے وہ میرے ہاں قوی (طاقتور) ہے حتیٰ کہ میں اس کا حق اسے دلادوں اور تم میں سے جو قوی ہے وہ میرے نزدیک ضعیف ہے حتیٰ کہ میں اس سے حق لے لوں، ان شاء اللہ تعالیٰ تم میں سے کوئی بھی جہاد ترک نہ کرے کیونکہ جو قوم اسے ترک کر دیتی ہے اللہ تعالیٰ اس پر ذلت ورسوائی مسلط کردیتا ہے، جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرنا اور اگر میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو پھر تم پر میری اطاعت لازم نہیں۔ اللہ تم پر رحم فرمائے، نماز کیلئے تیار ہوجائو۔ (تاریخ طبری، الریاض النضرۃ، تاریخ الخلفاء )

اہل سنت والجماعت کے پاس خلفاء راشدین میں ’’خلیفہ اول ‘‘حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، آپ ؓ کا اسم شریف عبداللہ بن عثمان ( ابو قحافہ )ہے ۔ اور آپ ؓ کا لقب ’’عتیق‘‘ ہے۔

رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے جس شخص پر بھی اسلام پیش کیا اس نے اسمیں شک ،تردداور غورو فکر کیا البتہ ابوبکر ؓ پر جب اسلام پیش کیا تو انہوں نے اسمیں تردد نہیں کیا ،بلکہ فوراً اسلام قبول کئے۔ حضرت عماربن یاسر ؓ فرماتے ہیں: رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ومامعہ الا خمسۃ اعبد وامراتان و ابوبکر (بخاری ) میں نے رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( ابتداء اسلام میں) پانچ غلام ،دوعورتیںاورابوبکرؓ کو(داخل اسلام)دیکھا۔ بچوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے سید نا علی ؓ ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ پیر کے دن ۲۲ جمادی الثانیہ ۱۳ ھ کو ۶۳ سال کی عمر میں انتقال کر گئے سید نا عمر فاروق ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر انور کے پہلو میںآپ کو دفن کیا گیا ۔

اللہ ہم سب پر خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فیض کو جاری فرمائے (آمین بجاہ سید المرسلین)
٭٭٭