رمضان

دینی مدارس کی زکوٰۃ سے بھی کیوں اعانت کی جا سکتی ہے؟

کچھ عرصہ سے بعض حلقوں کی طرف سے اس بات پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ زکوٰۃ کی رقم مدارس کو کیوں دی جائے؟ اس سے خدمت خلق کا کام ہونا چاہئے، غریبوں کی مدد ہونی چاہئے، عصری تعلیم کا انتظام ہونا چاہئے، UPSC کے لئے بچوں کو تیار کرنا چاہئے،

کچھ عرصہ سے بعض حلقوں کی طرف سے اس بات پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ زکوٰۃ کی رقم مدارس کو کیوں دی جائے؟ اس سے خدمت خلق کا کام ہونا چاہئے، غریبوں کی مدد ہونی چاہئے، عصری تعلیم کا انتظام ہونا چاہئے، UPSC کے لئے بچوں کو تیار کرنا چاہئے، غرض کہ قوم کے جتنے کام ہیں، وہ اسی زکوٰۃ کی رقم سے پورے کئے جائیں، اور مدارس پر اس کو خرچ کرنا زکوٰۃ کو غلط مصرف میں خرچ کرنا اور پیسے ضائع کرنا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی بات دو قسم کے لوگ کہتے ہیں، ایک وہ لوگ جن کو حالات کا شعور نہیں، جو سطحی سوچ رکھتے ہیں، شریعت کے احکام سے بھی نابلد ہیںساور ملت کی موجود صورت حال سے بھی ناواقف ہیں، یا وہ لوگ ہیں جو فرض شدہ زکوٰۃ کے علاوہ قومی اور ملی کاموں کے لئے ایک کوڑی خرچ کرنا نہیں چاہتے، شادی بیاہ میں تو پیسوں کا دریا بہا دیتے ہیں، گھروں کی تزئین وآرائش میں توڈھیر ساری دولت لگا دیتے ہیں؛ لیکن اللہ کے دین کے لئے ڈھائی فیصد سے زیادہ ان کے دل میں جگہ نہیں ہے؛ بلکہ اکثر لوگ اپنی زکوٰۃ سے نہیں دوسروں کی زکوٰۃ سے اُن کاموں کو کرنا چاہتے ہیں، جو زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہیں۔

اس مسئلہ پر غور کرنے کے لئے دو باتیں پیش نظر رکھنی ضروری ہیں : اول یہ کہ زکوٰۃ کا مقصد کیا ہے ؟ اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں کیا رعایت ملحوظ ہے ؟ دوسرے کیا یہ مقصد دینی مدارس کو زکوٰۃ ادا کرنے سے حاصل ہوجاتا ہے ؟ – قرآن مجید نے زکوٰۃ کے آٹھ مصارف ذکر کئے ہیں، فقیر، مسکین یعنی غریب اور بہت زیادہ غریب، عاملین یعنی زکوٰۃ کی جمع و تقسیم کا کام انجام دینے والے لوگ، مؤلفۃ القلوب یعنی وہ نومسلم جن کو اسلام پر استقامت کے لئے یا وہ غیر مسلم جن کو اسلام کی ترغیب کے لئے کچھ دیا جائے، غلام، مقروض، اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور مسافر (توبہ: ۶۰) ان آٹھ مصارف میں پانچ وہ ہیں جن کا مقصد غرباء اور حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنا ہے، فقیر و مسکین سے عام محتاج مراد ہیں، غلام، مقروض اور مسافر سے مخصوص نوعیت کے اور وقتی طورپر پریشان حال لوگوں کی حاجت براری مقصود ہے، مؤلفۃ القلوب اور مجاہدین فی سبیل اﷲ کی رعایت کا منشاء اسلام کی سربلندی اور اعلاء کلمۃ اﷲ ہے، ’’عاملین ‘‘کی مد زکوٰۃ سے متعلق انتظامی اُمور کی انجام دہی اور اس کے اخراجات کی تکمیل کے لئے ہے، پس ان مصارف زکوٰۃ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کے بنیادی طورپر دو مقاصد ہیں : غربا کی حاجت پوری کرنا، اسلام کی بلندی اور اس کی دعوت و اشاعت اورحفاظت و صیانت کے نظام کو تقویت پہنچانا ۔

مصرف زکوٰۃ کی روح کو سامنے رکھ کر دینی مدارس کے نظام اور اس کے کردار پر غور کیجئے – دینی مدارس کی حیثیت عام درس گاہوں کی نہیں ہے، عام درس گاہوں کا مقصد بچوں کو ایسی تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جو آئندہ ان کو ملازمت دلائے اور زیادہ سے زیادہ کمانے کے لائق بنائے، جس تعلیم سے جس قدر مستقبل کی معاشی فلاح و بہبود متعلق ہے، وہ اسی قدر لوگوں کے لئے مرکز توجہ بھی ہے اور گراں بھی ؛ بلکہ سرکاری تعلیم گاہوں کی زبوں حالی اور بے سروسامانی نے اب تعلیم کو ایک نہایت ہی نفع بخش اور نفع رساں تجارت بنا دیا ہے ؛ لیکن دینی مدارس کی حیثیت اس سے مختلف ہے، خاص کر ہندوستان میں اس کا ایک خاص پس منظر ہے ۔

مسلم دورِ حکومت تک وہ علوم جن کو آج ’’ جدید علوم ‘‘ کہا جاتا ہے، اس قدر شاخ درشاخ نہ ہوتے تھے، جیساکہ آج ہم دیکھ رہے ہیں، بعض فنون مدون ہوچکے تھے ؛ لیکن ان پر ایک آدھ کتابوں کی تدریس کے ساتھ تجربہ کافی سمجھا جاتا تھا، بعض فنون مدون بھی نہ ہوئے تھے اور ان کے تجربات سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے آئے تھے، جیسے: مختلف شعبوں کی انجینئرنگ اور زراعت وغیرہ، اس کے لئے حکومت کی طرف سے عمومی نوعیت کی درس گاہیں ہوتی تھیں، ان میں زبان، مذہب، اخلاق اور طب وغیرہ کی تعلیم مشترک طورپر ہوتی تھی اور مختلف قوموں کے لوگ مل جل کر تعلیم حاصل کیا کرتے تھے ۔

جب ہندوستان سے مسلمانوں کے اقتدار کا سورج غروب ہونے لگا اور انگریز نہایت چالبازی کے ساتھ اپنے قدم بڑھانے لگے، تو انھوں نے سونے کی اس چڑیا کے بال و پر نوچنے کو کافی نہ سمجھا ؛ بلکہ ہندوستان کو مستقل طورپر اپنے زیر اثر رکھنے کی غرض سے رعایا کی فکر و نظر میں تبدیلی کو بھی ضروری سمجھا اور اس کے لئے چہاررخی تدبیریں کی گئیں، چوںکہ ان کو زیادہ خطرہ مسلمانوں سے تھا، اس لئے انھوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو اور خاص کر مسلمانوں کو اپنی فکری یورشوں کا نشانہ بنایا اور بے سروپا اعتراضات اور خلاف واقعہ شکوک و شبہات اسلام پر شروع کئے، تاکہ ہندوستانیوں کی نئی نسل اپنے مذہب کے بارے میں غیر مطمئن اور بدگمان ہوجائے، دوسرے نہایت ہی قوت کے ساتھ ملک کے چپہ چپہ میں عیسائی مشنریز کو بھیجا اور عیسائیت کی تبلیغ شروع کردی، بعض اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقصد کے لئے ایک ایک شہر میں پانچ پانچ سو پادریوں کے قافلے اُترتے تھے اور عیسائیت کی تقویت کے لئے بڑے بڑے مناظر برطانیہ سے بلائے جاتے تھے ۔

تیسرے انگریزوں نے بلا تاخیر ہندوستان میں ایک نیا نظام تعلیم جاری کیا، جس کا مقصد محض علوم و فنون کی تعلیم نہ تھی؛ بلکہ ہندوستانیوں کو مغرب سے قریب کرنا، ان کو ایسے مذہبی افکار اوراپنی ثقافت کے بارے میں احساس کمتری میں مبتلا کرنا اور انگریز حکومت کے لئے ہندوستانی نوکروں کا ایک انبوہ تیار کرنا تھا، بہ قول لارڈ میکالے ان درس گاہوں کا مقصد تھا کہ ہندوستان کے لوگ رنگ و نسل کے ہندوستانی رہ جائیں اور دل و دماغ میں انگریز بن جائیں، چوتھے ہر طرح کی سرکاری ملازمت کو اسی نئی تعلیم سے متعلق کردیا گیا جس نے بہت جلد ہندوستانیوں کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ اپنی گردنِ طاعت اس نئے نظام کے سامنے خم کردیں ۔

ہندوؤں کے لئے یہ صورت ِحال چنداں قابل تشویش نہ تھی ؛ کیوںکہ ہندو مذہب کی بنیاد کسی متعین فکر و عقیدہ پر نہیں ہے، یہاں تک کہ جو لوگ ہندو دیویوں اور دیوتاؤں کا مذاق اُڑاتے ہیں، وہ بھی ہندومت سے باہر نہیں ہیں، زندگی کے عام مسائل میں یا تو ہندو مذہب کوئی رہنمائی نہیں کرتا، یا کرتا ہے تو وہ آج کے حالات میں ناقابل عمل ہے اور خود ہندو قوم اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے، اس لئے ہمارے ہندو بھائیوں نے تو بلا تأمل اس پر لبیک کہا اوراس کے فوائد بھی اُٹھائے ۔

انگریزوں کو اصل پر خاش مسلمانوں سے تھی اور وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح مسلمانوں کے ایمان کا سودا کریں، اس پس منظر میں بالغ نظر اور دردمند علماء نے محسوس کیا کہ سیاسی اقتدار تو اب رُخصت ہونے کو ہے، کسی طرح مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کی تدبیر کرنی چاہئے ؛ چنانچہ انھوں نے طے کیاکہ ہندوستان کے گوشے گوشے میں دینی درس گاہوں کا جال بچھا دیا جائے اور ایک ایسی نسل کو وجود بخشا جائے جومادی منافع کے پیچھے دوڑنے کے بجائے اپنی دنیا کو قربان کرکے مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت پر کمربستہ رہے، فاقہ مستی اسے گوارہ ہو، معمولی کھانا اور معمولی پہننے پر وہ قناعت کرسکے اورخس پوش جھونپڑیوں میں چٹائیوں پر بیٹھ کر اپنے آپ کو خدا کے دین کی حفاظت اورسربلندی کے لئے وقف رکھے ۔

چنانچہ اس منصوبہ کے تحت پورے ملک میں مدارس و مکاتب کا قیام عمل میں آیا اورایک ایسے تعلیمی نظام کی تشکیل کی گئی جو اپنے اخراجات میں حکومت کا محتاج نہ ہو ؛ بلکہ اگر حکومت مدد کرنا بھی چاہے تو اسے قبول نہ کیا جائے اور ہر طرح سرکاری مداخلت سے آزاد رہ کر یہاں سے دین کی حفاظت و اشاعت کے جذبہ سے سرشار اور ایثار و قربانی سے سرمست بادہ خواروں کی ایک بہت بڑی تعداد پیدا کی جائے ؛ چنانچہ وہ اس میں کامیاب رہے اور انھوں نے ایک ایسے طبقہ کو وجود بخشا جس نے ایک طرف حکومت کی ابتلاؤں کو برداشت کیا، مادی سہولتوں سے محرومی اور طنز وتعریض کے تیر بھی اپنے سینوں پر سہے ؛ لیکن نہ کوئی خوف ان کو اپنے مشن سے دُور کرسکا اور نہ کوئی تحریص ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکی۔

غور کیجئے کہ گذشتہ ڈیڑھ دو سو سال میں اسلام کے خلاف اس ملک میں جتنی یورشیں ہوئی ہیں، ان کا مقابلہ کس نے کیا ہے ؟ جب ملک کی گلی کوچوں میں عیسائی مناد لوگوں کو دعوت ارتداد دے رہے تھے تو کس نے شہر شہر اور قریہ قریہ ان کا تعاقب کیا ؟ جب آریہ سماجی تحریک اُٹھی اور اس نے افلاس زدہ جاہل و ناخواندہ مسلمانوں کو ہندو مذہب کی طرف لوٹنے کی دعوت دی تو کون لوگ تھے جو اس فتنہ کے مقابلہ میں سینہ سپر ہوئے؟ جب پنجاب سے انگریزوں کی شہ پر مرزا غلام احمد قادیانی نے ختم نبوت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو کون لوگ اس فتنۂ کبریٰ کے خلاف اُٹھے اور ہر سطح پر اس فتنہ کی بیخ کنی کا فریضہ انجام دیا ؟ جب کچھ لوگوں نے مستشرقین سے متاثر ہوکر حدیث نبوی کے حجت و دلیل ہونے کا انکار کیا؛ تاکہ شریعت کا طوق اپنے گلے سے نکال پھینکا جاسکے تو کن لوگوں نے ان جھوٹے بازی گروں کی قلعی کھولا؟ اسلام کے خلاف مسلمان نوجوانوں کو کمیونزم کا نشہ پلایا گیا تو یہ کون لوگ تھے جنھوں نے پوری معقولیت کے ساتھ اس طوفان کا راستہ روکا ؟ اور جب مسلمانوں کے بچے کھچے شرعی قوانین کو بھی منسوخ کرنے کی سازشیں رچی جانے لگیں تو کن لوگوں نے تحفظ شریعت کی تحریک چلائی اور ان کالی گھٹاؤں کو اپنا رُخ بدلنے پر مجبور کیا ؟ – یہ سب ان ہی بے نوا فقیروں اور ناسمجھ مسلمانوں کی تنقیدوں کا ہدف بننے والے مولویوں کا کارنامہ ہے، سیاسی قائدین نے سیاسی فائدے اُٹھائے اور موقع و حال کے مطابق اپنے ضمیر کی تجارت بھی کی، دانشور کہلانے والے حکومت کے اونچے عہدوں پر فائز المرام ہوکر اعلیٰ تنخواہیں وصول کرتے رہے اور جہاں حکومت نے ضرورت محسوس کی ان کی زبان سے اپنی باتیں کہلوائیں اور انھوں نے بھی بے تکلف حق نمک ادا کیا ؛ لیکن یہی دینی مدارس ہیں، جنھوں نے مادی نقصان کے باوجود اپنے کاز پر استقامت کی راہ اختیار کی ۔

پھر غور کیجئے کہ ادھر سوا سو سال میں ہندوستان میں جتنی مذہبی تحریکات اُٹھی ہیں ان کی رگوں میں کن کا خون جگر دوڑ رہا ہے اور ان کا اصل سرچشمہ اور منبع کون ہے ؟ یہی مدارس ہیں جنھوں نے جماعتوں کو اچھے داعی اور مبلغ فراہم کئے ہیں، علمی دنیا کو اسلامیات پر اعلیٰ درجہ کا لٹریچر فراہم کیا ہے، عام مسلمانوں کو گاؤں گاؤں امام و خطیب فراہم کئے ہیں، جن کا عام مسلمانوں کو اسلام سے جوڑے رکھنے میں بڑا کردار ہے،جنھوں نے اُردو زبان کو زندہ رکھا ہے جس سے مسلمانوں کا بہت بڑا قومی اور دینی ورثہ متعلق ہے، غرض یہ مدارس پاور ہاؤس ہیں، جن سے دین کے تمام شعبوں کو غذا ملتی ہے اور اسلام کے ہر کاز کو قوت بہم پہنچتی ہے ۔

اسی لئے فرقہ پرست تنظیمیں آج سب سے زیادہ دینی مدارس کو ہدف بنائے ہوئی ہیں، کیوںکہ انھو ںنے محسوس کرلیا ہے کہ جب تک یہ مدارس اور ان درسگاہوں سے پیدا ہونے والے ’ ملاّ‘ باقی رہیں گے، مسلمانوں کو اسلام سے منحرف کرنا اور ان کو اکثریت کی ثقافت میں جذب کرنا ممکن نہ ہوگا اور ان کا یہ خیال یقیناً غلط بھی نہیں ؛ بلکہ یہ حقیقت ہے کہ یہ مدارس ہی ہیں کہ ان کی وجہ سے ہندوستان میں اسپین کی تاریخ دوہرائی نہ جاسکی اور مذہبی غیرت و حمیت اوراسلامی شعار کا احترام و اہتمام جس قدر اس خطہ میں پایا جاتا ہے اکثر مسلم ممالک بھی اس میں ان کی ہمسری نہیں کرسکتے ؛ اس لئے بلاخوف تردید اور بغیر کسی طرفداری کے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس وقت اسلام کی حفاظت و بقاء، اس کی دعوت و اشاعت اور اس کی سربلندی کا سب سے بڑا ذریعہ یہی مدارس ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان مدارس میں ایک بہت بڑی تعداد ان بچوں کی ہے جو غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان مدارس میں ایک بہت بڑا حصہ معاشی اعتبار سے کمزور ہوتا ہے، پس ان مدارس کو زکوٰۃ ادا کرنے میں زکوٰۃ کے دونوں مقاصد کی بیک وقت تکمیل ہوتی ہے، غرباء کی ضرورت بھی پوری ہوتی ہے اور اسلام کی سربلندی کے مقصد میں بھی مدد ملتی ہے ۔

اس لئے ہمارے فقہاء نے خوب سوچ سمجھ کر ضرورت مند علماء اور علم دین حاصل کرنے میں مشغول طلبہ کو زکوٰۃ ادا کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس کو زیادہ باعث فضیلت بتایا ہے، مشہور محدث امام عبداﷲ بن مبارکؒ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی اعانتیں علماء ہی پر خرچ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ مقام نبوت کے بعد علماء سے بڑھ کر کوئی بلند مرتبہ نہیں، (الاتحاف: ۴؍۴۱۷) مشہور فقیہ علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے جو شخص اپنے آپ کو علم کے لئے فارغ کرلے اس کے لئے زکوٰۃ لینا جائز ہے ؛ کیوںکہ وہ دوسرے ذرائع معاش اختیار نہیں کرسکتا : یجوز لہ أخذ الزکاۃ ولو غنیا إذا فرغ نفسہ لإفادۃ العلم وإستفادتہ لعجزہ عن الکسب (درمختار مع الرد: ۶؍۲۸۵)

ایک اور موقع پر فرماتے ہیں : التصدق علی العالم الفقیر أفضل أو إلی الزھاد (حوالۂ سابق: ۳؍۳۰۴)
محتاج عالم یا عابد و زاہد لوگوں پر صدقہ کرنا افضل ہے ۔

اور یہ کچھ فقہاء کی طبع زادبات نہیں ؛ بلکہ خود قرآن مجید سے ماخوذ ہے، اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لِلْفُقَرَاءَ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْباً فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَاھُمْ لاَ یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا وَّمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فِاِنَّ اﷲَ بِہٖ عَلِیْمٌ ۔ (بقرہ: ۲۷۳)

( صدقات میں ) اصل حق ان حاجت مندوں کا ہے جو اﷲ کی راہ میں گھر گئے ہیں، ملک میں کہیں چل پھر نہیں سکتے، ناواقف انھیں غنی خیال کرتا ہے، سو ان سے ان کی احتیاط کے باعث، تو انھیں ان کے چہرہ کے نقوش سے پہچان لے گا، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے اور تم مال میں سے جو کچھ خرچ کرتے ہو اﷲ تعالیٰ اس کا خوب جاننے والا ہے ۔

اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ جو محتاج اور ضرورت مند حضرات دین کے کام کی وجہ سے کسب ِ معاش میں مستقل طورپر لگنے کے موقف میں نہ ہوں، وہ صدقات اور اعانتوں کے زیادہ مستحق ہیں، اسی لئے اکابر مفسرین کا رجحان یہی ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت اس سے اشارہ اصحابِ صفہ یعنی صفہ میں مقیم طالبان علوم نبوت کی طرف تھا ؛ (تفسیر کبیر: ۳؍۶۳۶) بلکہ خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے یہ طریقہ مروج تھا کہ اہل ثروت صحابہ ؓاپنے صدقات کی کھجور اصحاب ِصفہ کے لئے پیش کیا کرتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کو اس کی ہدایت ہوتی تھی، اس لئے یوں تو تمام محتاج و ضرورت مند مسلمانوں کی زکوٰۃ سے مدد کرنی چاہئے ؛ لیکن دینی مدارس کا خصوصی استحقاق قرآن سے بھی ثابت ہے، حدیث سے بھی، سلف صالحین کے عمل سے بھی اور یہ زیادہ مکمل طریقہ پرمقاصد زکوٰۃ کو پورا کرتا ہے اور بالخصوص ہندوستان کے موجودہ حالات میں اسلام کی بقاء اور حفاظت کے لئے یہ نہایت ہی مؤثر ذریعہ اور طاقتور وسیلہ ہے ۔

حکومت اور فرقہ پرست تنظیمیں چاہتی ہی ہیں کہ یہ مدارس بند ہوجائیں ؛ تاکہ اسلامی تشخصات اور مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو مٹانے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے اور صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمان تو زکوٰۃ ہی پوری طرح نہیں نکالتے ہیں ؛ چہ جائے کہ بڑے پیمانے پر ان سے نفل صدقات و عطیات کی توقع رکھی جائے، تو اب اگر زکوٰۃ کا دروازہ بھی مدارس پر بند کر دیا جائے تو وہ خود بخود کمزور ہو جائیں گے اور اس طرح مدارس کو زکوٰۃ نہ ادا کرنے کی بات بالواسطہ طریقہ پر حکومت کے معاندانہ مشن کی خاموش تکمیل ہوگی ؛ لہٰذا اہل نظر اس بات کواچھی طرح سمجھ لیں کہ اگر یہ تحریک دانستہ اُٹھائی جارہی ہے تو یہ گہری اور خطرناک سازش ہے اور اگر نادانستہ کہی جارہی ہے تو زمانہ ناآگہی اور فراست ایمانی سے محرومی کے سوا اور کچھ نہیں، ہونا تو یہ چاہئے کہ مدارس کے اس نظام کو تقویت پہنچائی جائے اور مسلمانوں کو دوسرے مقاصد کے لئے بھی انفاق پر اُبھارا جائے، نہ کہ ایسی تدبیر اختیار کی جائے کہ جس سے اعداء اسلام کی مہم کو تقویت پہنچے،اور اس سوتےہی کو خشک کردیا جائے جس سے دینی کاموں کے ہر شعبہ کو آبِ حیات فراہم ہوتا ہے !!
٭٭٭