مذہب

حضرت سیدنا شیخ عبد القادرالجیلانی غوث الاعظم دستگیرؒ

شہر بغداد میں دریا دجلہ کا ایک حسین منظر جس کے کنارے کھلے آسمان کے نیچے سات سال تک حضرت شیخ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگلی پھل اور سبز پتّے کھا کر اللہ تعالی کی عبادت و ریاضت میں مشغول رہے۔

سید شجاعت اللہ حسینی بیابانی

آپ کا اسم مبارک عبد القادر ابن ابو صالح جنگی دوست، لقب محی الدین۔ سلسہ نسب گیارہ واسطوں سے حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا حیدر کرار کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔آپ بنی ہاشم سید ہیں۔ آپ کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی حضرت فاطمہ ، لقب امتہ الجبار اور کنیت ام الخیر تھی۔ آپ حضرت عبد اللہ صومعی رحمت اللہ علیہ کی صاحبزادی تھیں۔ حضرت عبد اللہ صومعی رحمت اللہ علیہ مستجاب الدعوات ولی اللہ تھے۔

آپ 29 شعبان 470 ہجری گیلان میں پیدا ہوئے اس وقت آپ کی والدہ محترمہ کی عمر 60 سال تھی۔ آپ کی والدہ محترمہ نے فرمایا کہ عبد القادر ، رضاعت کے دوران (ماں کا دودھ پینے کی عمر میں) رمضان میں دن کے وقت دودھ نہیں پیا کرتے تھے۔ (قلائدالجواہر) آپ پیدائشی ولی اللہ، مفسر قرآن، محدث، فقہیہ، معلم شریعت، طریقت و دینیات، واعظ پر اثر، مبلغ عظیم ،غریب و یتیم پرور، تارک دنیا ، زاہد، مجتنب، اعلیاروحانی شخصیت کے مالک صوفی، قطب الاقطاب،صاحب کشف و کرامات، بانی سلسلہ قادریہ، غوث الاعظم، غوث الثقلین، محی الدین اور پیروں کے پیر تھے۔ حضرت سیدنا شیخ عبد القادرالجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے والدہ محترمہ سے حصول علم کے لئے بغداد جانے کی اجازت طلب کی تو وہ چالیس ( 40) دینار آپکےگڈری میں بغل کے نیچے سی دیئے اور آپ کو رخصت کرتے ہوئے وعدہ لیا کہ کسی حالت میں بھی جھوٹ نہیں بولینگے۔ چنانچہ آپ ایک قافلہ کے ہمراہ بغداد کی جانب روانہ ہوگئے۔

جب وادی ریبک پہنچے تو ساٹھ ڈاکوؤں نے قافلے کو گھیر کر سب کا مال و اسباب لوٹ لیا۔ ایک ڈاکو نے آپ سے پوچھا کہ ائےلڑکےتیرے پاس کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ چالیس دینار ہیں۔ اس نے پوچھا کہاں ہیں؟ تو آپ نے جواب دیا کہ گڈری میں بغل کے نیچے سلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈاکو مذاق سمجھ کر چلا گیا۔ ایک اور ڈاکو نے آپ سے پوچھا تو آپ نے اس کو بھی وہی جواب دیا۔ اس نے آپ کو اپنے سردار کے پاس لے گیا۔ سردار نے آپ کی تلاشی لی تو آپ کے پاس سے چالیس دینار نکلے۔ سردار بڑے تعجب سے پوچھا کہ تجھے سچ بولنے پر کس چیز نے مجبور کیا؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنی ماں سے ہمیشہ سچ بولنے کا عہد کیا ہے۔

اور میں اس عہد کی کسی طرح خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ یہ سنتے ہی ڈاکوؤں کا سردار روتے ہوئے کہا کہ آپ تو اپنی والدہ سے کئےہوئے عہد کی خلاف ورزی نہیں کی اور میں اللہ سے کئےہوئے عہد کی خلاف ورزی کرتا رہا۔ چنانچہ ڈکوؤں کا سردار اور اس کے تمام ساتھی آپ کے دست حق پرست پر توبہ کرکے تمام لوٹا ہوا مال قافلہ والوں کو واپس کردیا۔ دراصل یہ سچ اور آپکی روحانی تصرف کا کرشمہ تھا اور یہ سب سے پہلی جماعت تھی جو گناہوں سے تائب ہوکر آپ کے ہاتھ پر توبہ کی اور یہ سلسلہ آپکے دوران حیات جاری و ساری رہا اور لاکھوں لوگوں نے آپ کے دست حق پرست پر توبہ کی اور صراط مستقیم پر گامزن ہوئے۔

آپ 18سال کی عمر میں موضع نیف علاقہ گیلان جو ملک ایران میں واقع ہے سے بغداد کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت خضر علیہالسلام نے آپکو شہر بغداد میں سات سال تک داخل ہونے سے منع کردیا۔ آپ دریا دجلہ کے کنارے سات سال تک مقیم رہ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہمہ تن مشغول رہے۔ اس دوران آپ جنگلی پھل اور سبز پتّے کھا کر گذارہ فرمائے۔ (وضتہ الابرار: امام تقی الدین)

شہر بغداد میں دریا دجلہ کا ایک حسین منظر جس کے کنارے کھلے آسمان کے نیچے سات سال تک حضرت شیخ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگلی پھل اور سبز پتّے کھا کر اللہ تعالی کی عبادت و ریاضت میں مشغول رہے۔

ایک شب آپ نے غیبی آواز سنی:”اے عبد القادر! اب تم بغداد میں داخل ہوسکتے ہو”، آپ شہر بغداد میں حضرت شیخ حماد ابن مسلم رحمت اللہ علیہ کی خانقاہ میں داخل ہوے۔ حضرت شیخ حماد ابن مسلم رحمت اللہ علیہ نے آپ سے معانقہ کیا اور فرمایا: "اے نور نظر عبد القادر! جو دولت و عزت آج مجھے حاصل ہے وہ کل تمھارے لئے ہوگی اور جب وہ نعمتیں حاصل ہوجائیں تو اس بوڑھی دنیا کے ساتھ انصاف سے کام لینا”۔ (قلائدالجواہر) حضرت شیخ نور الدینابوالحسن رحمت اللہ علیہ نے فرمایا:

” حضرت شیخ عبد القادرالگیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کے قدموں کی برکت سے عراق کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ وہاں مسلسل رحمت کی بارش ہونے لگی۔ تاریکیاں چھٹ گئیں۔ رشد و ہدایت کے چشمے ابلنے لگے اور آپ کے انوار سے عراق کا ذرہ ذرہ جگمگا اٹھا۔ سر زمین عراق ابدال و اوتاد کا مرکز بن گئی”۔ (بہجتہ الاسرار) آپ نے سب سے پہلے قران کریم پڑھا اور اس کے بعد اکابر علماء سے اصول و فروع کی تعلیم حاصل کی۔ مخالفت نفس کے سلسلہ میں شدید مجاہدات کئے اور صعبتوں کو حاصل زیست بنالیا۔ فقر و فاقہ کی حالت میں بادیہ پیمائی کرتے اور ویرانوں میں قیام فرما یا کرتے۔

(تاریخ محب الدین ابن نجار ) حضرت شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے 588 ہجری میں بغداد میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: "مین پچیس سال تک صرف عراق کے صحراؤں اور ویرانوں میں گھومتا رہا۔ اور چالیس سال تک عشاء کے وضو سے (مسلسل عبادت کرتے ہوئے) فجر کی نماز ادا کی”۔ علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد حضرت شیخ حماد ابن مسلم بن دباس رحمت اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر رہ کر طریقت و سلوک کی راہیں طے کیں اور خرقہ شریفہ (جو بارگاہ احدیت سے جناب جبریل علیہالسلام کے ذریعہ سے حضور پر نور علیہ الصلوٰۃ السلام کو ملا تھا، اور بارگاہ رسالت سے حضرت علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ کو عطا کیا گیا تھا اور مولائے کائنات کے واسطہ سے علماءصلحاءامّت کے پاس سے ہوتا ہوا حضرت ابو سعید مخرمی رحمت اللہ علیہ تک پہنچا تھا) حاصل فرمایا۔ (قلائد الجواہر) حضرت ابو سعید مخرمی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے عبد القادر کو خرقہ پہنایا ہے اور انہوں نے مجھے۔

اس طرح ہم دونوں نے ایک دوسرے سے کسب فیض کیا۔ (قلائد الجواہر) حضرت شیخ عبد القادرالجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ مجھے نماز ظہر سے قبل حضور اکرم صلی اللہ علیہوسلم کی (خواب میں) زیارت نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہوسلم نے فرمایا: "اے میرے بیٹے تم کلام (یعنی تقریر) کیوں نہیں کرتے”؟ میں نے عرض کی کہ میں ایک عجمی کی حیثیت سے فصحاء بغداد کے سامنے لب کشائی کیسے کرسکتا ہوں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنا منہ کھولو”۔

جب میں نے منہ کھولا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات مرتبہ میرے منہ میں اپنا لعاب دہن لگایا اور حکم دیا: "حکمت و موعظت کے ذریعہ لوگوں کو خدا کے راستہ کی دعوت دیتے رہو”۔ اس وقت میرے اوپر ایک وجدانی کیفیت طاری ہوگئی۔ بعد نماز ظہر دوبارہ مجھ پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہوگئی اور (خواب) میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا ۔ وہ فرمارہے ہیں: "اپنا منہ کھولو "۔ جب میں نے منہ کھولا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے چھ مرتبہ میرے منہ میں اپنا لعاب دہن لگایا۔ اس کے بعد آپ نظروں سے پوشیدہ ہوگئے۔ اس کے بعد میں نے بغداد واپس آکر لوگوں کو پند و نصائح (بذریعہ تقریر) شروع کردیئے۔ (قلائد الجواہر) یہ واقعہ 521 ہجری کا ہے۔

اسکے بعد تو قلب غوثیت مآب میں وہ انشراح ہوا کہ رشد و ہدایت کی تاریخ میں ایک عظیم الشان باب کا اضافہ ہوگیا۔ پہلی مرتبہ جسوقت سرکار جیلانی منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو گو کہ چند کلمات طیبات ارشاد فرماے تھے لیکن سنے والوں کا عجب حال تھا۔ وجد و حال سے لوگ بیتاب ہوئےجارہےتھے۔اور اس کے بعد تو آپ کی تاثیر تقریر و وعظ کی یہ کیفیت تھی کہ ساٹھ ساٹھ ستر ستر ہزار آدمی محفل واعظ و تقریر میں شامل ہوا کرتے تھے۔ ان نورانی محفلوں میں اکثر لوگوں کے دل انابت الی اللہ کی دولت سے مالا مال ہوجایا کرتے تھے۔

(مولانا عبد الرحیم اترولوگنڈوی‘ سیرت غوث اعظم صفحہ83) حضرت ابو سعید مخرمی رحمت اللہ علیہ نے اپنا مدرسہ نظامیہ آپ کے سپرد کردیا۔وہاں آپ رشد و ہدایت کیا کرتے تھے۔ اسی مدرسہ سے آپ کی کرامتوں کا ظہور شروع ہوا اور آپ کے پر اثر رشد و ہدایت سے آپ کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ زائرین سے مدرسہ بھر جاتاتھا۔ لوگ بازو سرائے میں بھی بیٹھا کرتے تھے۔ مدرسہ کی توسیع کی گئی اور مدرسہ آپ کے نام سے موسوم کیا گیا۔

مدرسہ کا نام نظامیہ سے قادریہ ہوگیا۔ جہاں آپ درس و تدریس ، فتویانویسی اور رشد و ہدایت میں مشغول ہوگئے۔ آپ کی شہرت اتنی ہوئی کہ دور دراز سے نہ صرف عام لوگ بلکہ علماء و صلحاء بھی آپ سے علم شریعت و طریقت کے علاوہ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم حاصل کی۔ عراق و دیگر ممالک کے مریدین کی تعلیم و تربیت بھی اسی مدرسہ میں ہوا کرتی تھی۔ اہل بغداد کثیر تعداد میں تائب ہوکر آپ کے دست اقدس پر بیعت کئے۔

ہزار ہا احبار یہود و نصاری نے آپ کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہو کر فلاح دارین پائے۔ سنان نامی ایک راہب آپ کے پاس آیا اور کہا کہ میں یمنی باشندہ ہوں اور میرے قلب میں اسلام قبول کرنے کا خیال پیدا ہوا تو میں نے یہ طے کیا کہ یمن میں جو سب سے نیک شخص ہوگا اس کے ہاتھ پر ایمان قبول کرونگا۔ میں نے خواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا جو مجھے حکم دے رہے ہیں کہ بغداد جاکرحضرت شیخ عبد القادرالجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست اقدس پر ایمان لاؤ جو اس وقت خطہ زمین پر ایک عظیم الشان شخصیت ہیں۔آپ کی ذات زہاد، عباد، فقہا اور فقراء کی مقتداد پیشوا تھی۔

آپ اپنے دور کے ماہر علوم ظاہر و باطن، قطب دوران اور سرچشمہء علم و فضل تھے۔ آپ سے متواتر اس قدر کرامتیں ظاہر ہوئیں کہ آپ کے بعد کسی دوسرے میں نہیں پائی گئیں۔ (قلائد الجواہر) شیخ الاسلامعزالدین فرماتے ہين کہ اس قدر تواتر کے ساتھ کسی کی کرامتیں نہیں ملتیں جتنی کہ سلطان الاولیاءحضرت شیخ عبد القادرالجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ظاہر ہوئیں۔ آپ نہایت درجہ حسّاس تھے اور قوانین شرعیہ پر سختی سے عمل پیرا تھے۔ اور ان کی طرف تمام لوگوں کو متوجہ کرتے تھے۔مخالفین شریعت سے ہمیشہ اظہار تنفر کیا کرتے۔

اپنی تمام تر عبادات، مجاہدات کے باوجود آپ بیوی اور بچوں کا پورا پورا خیال رکھتے تھے۔آپ فرماتے کہ جو شخص حقوق اللہ و حقوق العباد کی راہوں پر گامزن رہتا ہے، وہ بہ نسبت دوسرے لوگوں کے مکمل اور جامع ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہی صفت شارع علیہالسلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تھی۔ حضرت محمد یحی اتادنی رحمت اللہ علیہ قلائدالجواہر میں لکھتے ہیں: "شیخ عبد القادراولیاء اللہ کے سرخیل اور اصفیاء کے سر تاج ہونے کے ساتھ ہی سنّت کو زندہ کرنے والے اور بدعات کو مٹانے والے تھے۔ شریف النسب، صاحب کرامات و مقامات تھے۔

حنابلہ کی درس گاہ آپ ہی کے ذریعہ قائم ہوئی اور آپ ہی نے حنبلی مسلک کو بام عروج تک پہنچایا اور احیاء دین فرمایا۔ آپ کے مواعظ سامعین پر بے حد اثر انداز ہوتے”۔یہ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر الگیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھے جو باطنیوں، فدائیوں، اعتزالی فلسفہ اور دیگر گمراہ فرقوں کے عقائد باطلہ کا رد فرمایا۔ بذریعہ اپنے روحانی تصرفات مدرسہ اور خانقاہی نظام کو بام عروج پر پہنچاکر شریعت اور طریقت کا صحیح و قابل عمل راستہ دکھایا اور لوگوں کے نفوس و قلوب کے تزکیہکےذریعہ دین اسلام میں پھر سے ایک نئی جان ڈالی۔ اس لئے ہی آپ کو "محی الدین” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس خانقاہی نظام کے دور رس نتائج برآمد ہوئے۔

آپ کے شاگرد، خلفاء اور مریدین آپ کی خانقاہ میں شریعت، طریقت اور تزکیہ نفس کی تعلیم و تربیت پاکر اپنے مرشد اعلی کے حکم سے ہر اس جگہ پہنچ جاتے جہاں مسلمان دینی طور پر نہایت ہی ابتر زندگی گذار رہے ہوتے ان کی اصلاح کرتے ان کو صراط مستقیم۔ یہ حضرات اپنا گھر بار، رشتہ دار، کاروبار وغیرہ تمام چھوڑ کر سینکڑوں میل کا سفر کرکے صعوبات سفر اٹھاکر بے زاد راہ محض توکل علی اللہ اس نیک و عظیم مقصد اور پیر و مرشد کے حکم کی تعمیل کے لئے کھڑے ہوتے۔ چنانچہ آج بھی عرب ممالک کے علاوہ عجمی ممالک افریقہ، ایران، بر صغیر ہند، انڈونیشیاء ، ملیشیاء میں جگہ جگہ شہر شہر ،قریہ قریہ حضرت سیدنا شیخ عبد القادرالجیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کے بھیجے گئے صوفیاء شاگرد کے آستانے ملتے ہیں جو نہ صرف لوگوں کو مشرف بہ اسلام کرے بلکہ بد عقیدہ و گمراہ مسلمانوں کی اصلاح فرمائے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ تا قیام قیامت جاری رہے گا۔
٭٭٭