رمضان

خواتین رمضان المبارک کیسے گزاریں

رمضان المبارک کا رحمتوں بھرا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور نوازشات انہی لوگوں کا مقدر بنتی ہیں جو اس ماہ کی مناسبت سے اپنے اوپر عائد فرائض و ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی سرانجام دیں۔ ر

ڈاکٹربی بی خاشعہ
شاداں میڈیکل کالج حیدرآباد

رمضان المبارک کا رحمتوں بھرا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور نوازشات انہی لوگوں کا مقدر بنتی ہیں جو اس ماہ کی مناسبت سے اپنے اوپر عائد فرائض و ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی سرانجام دیں۔ روزہ چونکہ پرمشقت عبادت ہے اس لئے اس میں احتیاط بھی ضروری ہے۔ رحمت، خیر و برکت اور مغفرت سے بھرپور ماہ صیام کا اللہ کے نیک بندوں کوشدت سے انتظار ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ نیکی، برکت، بخشش،عنایت،صدقہ وخیرات،رضائے الٰہی کے حصول اورجہنم سے گلوخلاصی کا مہینہ ہے۔رمضان المبارک کا روزہ، تراویح، صدقہ، دعا، ذکر، تلاوت، مناجات، عمرہ اور دیگر اعمال صالحہ جہاں مردوں کیلئے ہیں وہیں عورتوں کیلئے بھی ہیں۔ ان اعمال کا اجر وثواب جس طرح مردوں کو نصیب کرتا ہے ویسے ہی اللہ تعالیٰ عورتوں کو بھی عنایت کرتا ہے۔

جس طرح مرد وں پر روزہ رکھنا فرض ہے ویسے عورتوں پر بھی فرض ہے اور جس طرح مردوں کو رمضان المبارک میں لمحہ لمحہ عبادت وریاضت میں گزارنا چاہئے ویسا ہی حکم عورتوں کے لیے بھی ہے۔ خصوصاً یہ کہ روزوں کے حوالے سے ہم پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں، جن کی ادائیگی سے صحیح معنوں میں روزوں سے حاصل ہونے والی برکات و ثمرات سے مستفیض ہوا جاسکتا ہے:

نبی رحمت تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اعمال کی درستگی اور صحت کا دار و مدار نیت پر رکھا ہے۔ الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ باطنی ارادے اور عزم کی پختگی بھی نیت ہے۔ یوں تو ہر عبادت کی قبولیت نیت سے مشروط ہے مگر روزے کا تعلق نیت کے ساتھ بڑا گہرا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم مسنون الفاظ کے ساتھ روزے کی نیت کے علاوہ دل سے بھی پختہ عہد کریں۔ بعض نماز یا روزے جیسی عبادات کو اپنے آبائو اجداد کی عادت کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ وہ روزہ اس لئے رکھتے ہیں کہ لوگ روزے رکھتے ہیں، وہ حج اس لئے کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی حج کرتے ہیں، وہ تزکیہ نفس کے لئے مجاہدہ اس لئے کرتے ہیں کہ لوگوں کو ایسا کرتے دیکھتے ہیں۔ اللہ کی بندگی میں یہ تقلید کافی نہیں۔ ہمارے لئے واجب ہے کہ ہم اللہ کی رضا کے لئے بندگی کا شعور رکھتے ہوئے روزے رکھیں۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ روزہ رکھنے کی حقیقی نیت کریں۔ جب ہم غروب آفتاب کے وقت روزہ افطار کرنے لگیں تو یہ قلبی اقرار کریں کہ ہم نے اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے ایک عظیم دن کی قدر کی اور اسے اس کی منشاء کے مطابق گزارا۔ انشاء اللہ آنے والے دن کو بھی اسی جذبے، اخلاص اور محبت کے ساتھ روزے کی حالت میں گزاریں گے۔ سحری کرتے وقت یہ نیت کرنی چاہئے کہ اس کھانے سے جسم میں جو طاقت آئے گی اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں صرف کیا جائے گا اور اس سے دن بھر روزہ برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔

یوں روزے دار کا ہر ہر لمحہ رضائے الٰہی کا مظہر بن جائے گا اور اس کے تمام اعمال و افعال قربِ الٰہی کا ذریعہ بنتے چلے جائیں گے۔ ماہ رمضان میں ہم پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ہم کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کریں کیونکہ قرآن مجید اسی مہینے میں نازل کیا گیا جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ. ’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں‘‘۔ (البقره، 2: 185)

یہ اللہ کا کلام ہے جب ہم اس کی تلاوت کررہے ہوں تو ہمارے جسم پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے جاہ و جلال اور عظمت کا اثر مرتب ہورہا ہو۔ قرآن حکیم کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنا بھی ناگزیر ہے۔ یہ قرآن کا فرمان ہے اور یہی قرآن حکیم کا اصل مقصد ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ قرآن کی تلاوت کرنے والا یا فائدہ حاصل کرنے والا ہے یا نقصان۔ یا تو قرآن حکیم کی تلاوت سے اس کے ایمان و یقین میں اضافہ ہوتا ہے یا پھر قرآنی احکام پر عمل نہ کرکے خسارے میں رہتا ہے۔ ہمیں بدعملی کا خسارہ اٹھانے سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے۔

اس بات کو اس مثال سے سمجھیں کہ قرآن مجید والدین کے ساتھ حسنِ سلوک، حسنِ خلق اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے لیکن اگر ان احکامات پر مبنی آیات وہ اشخاص تلاوت کریں جو عملاً والدین سے بدسلوکی، بداخلاقی اور قطع رحمی میں ملوث ہوں تو ایسے اشخاص کل بروز قیامت قرآن کی شفاعت سے محروم ہوں گے، رمضان سے متعلق یہ تصور عام ہے کہ اس ماہ میں خواتین کا کام بس مردوں کے لیے سحری اور افطاری کی تیاریوں میں مصروف رہنا ہے حالاں کہ رمضان میں روزہ، تراویح، صدقہ، دعا، ذکر، تلاوت، مناجات، عمرہ اور دیگر اعمال صالحہ عورتوں کے لیے بھی ہیں۔ اکثر خواتین روزہ تو رکھ لیتی ہیں مگر سحری و افطاری کے چکر میں پڑ کر ذکر و تلاوت اور دعاؤں میں مشغولیت سے محروم رہ جاتی ہیں۔ لہٰذا بہتر ہے کہ رمضان سے متعلق ان امور کا ذکر کیا جائے جسے مسلمان خواتین اس ماہ مبارک کی بھرپور برکات حاصل کرنے کے لیے اختیار کریں:

فرض نماز کی شروع وقت میں ادائیگی کا خاص اہتمام کریں، سحر و افطاری کے چکر میں مکروہ وقت تک نہ ٹالیں، جبکہ فرض نماز کا قضا کرنا تو سخت ترین گناہ ہے۔یا تو کوئی خاص وقت مقرر کرکے تلاوت قرآن کریم کریں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ہر نماز کے بعد کم از کم چوتھائی پارہ ضرور پڑھیں۔تراویح کی بیس رکعات خواتین کے لیے بھی مسنون ہیں۔ یہ موقع سال میں ایک ہی بار آتا ہے۔جس طرح رمضان کے دن کے روزوں کی حدیث پاک میں فضیلت آئی ہے اسی طرح رات کے قیام یعنی تراویح پر بھی مغفرت کی بشارت ہے۔ لہذا اس کی ادائیگی میں سستی و کاہلی نہ برتیں۔اللہ کا ذکر کرنے کے لیے بھی ایک یا کچھ اوقات مخصوص کریں اور ان میں ناغہ نہ کریں۔

ذکر میں ایک ایک تسبیح ”لا الٰہ الا اللہ“، ”لاحول ولا قوۃ الا باللہ“، درود شریف اور استغفار کی پڑھیں۔ سحری و افطاری میں ایسی غیرضروری چیزوں کا اہتمام کرنے سے گریز کریں جن کے باعث آپ کی عبادات میں خلل پڑتا ہو۔ انواع و اقسام کے کھانوں کے لیے سارا سال پڑا ہے، یہ خاص مہینہ آخرت کے کھانے کمانے کے لیے خاص ہے۔ اس کو چند سموسوں پکوڑوں پر ضایع مت کریں۔گھر کے کاموں کا اس طرح انتظام کریں کہ آپ کو چوبیس گھنٹوں کے دوران سات گھنٹے کی بھر پور نیند لینے کا موقع ملے، چاہے ایک ساتھ یا الگ الگ وقتوں میں۔ اگر آپ صحیح طریقے سے نیند نہیں لیں گی تو چند ہی دنوں میں تھک کر بیمار ہوجائیں گی اور رہا سہا انتظام بھی سب درہم برہم ہوجائے گا اور بیماری کی تکلیف الگ اٹھانا پڑے گی۔افطار میں جلدی کرنا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے اور فرمایا کہ افطار کا وقت ہونے پر افطار کرنے میں جلدی کرو کیوں کہ یہودی اور عیسائی افطاری میں تاخیر کرتے ہیں۔ویسے تو ہر وقت دعا کرسکتے ہیں اور عبادت کرنا بھی ایک الگ عبادت ہے مگر بعض اوقات دعا کے لیے بہت اہم ہیں، ان میں ایک افطار کا وقت بھی ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ تین قسم کے لوگ کی دعا رد نہیں ہوتی ہے۔ ایک منصف امام کی، دوسرے روزہ دار کی جب وہ افطار کرے، تیسرے مظلوم کی۔

بغیر سحری کے بھی روزہ درست ہے بلکہ اگر سحری میں آنکھ نہ کھلے تو سحری نہ کرنے کی وجہ سے رمضان کا فرض روزہ چھوڑنا بہتر نہیں ہے اور سخت ترین گناہ ہے۔ سحری کرنا سنت اور ثواب کا کام ہے جسے بلاعذر چھوڑنا اجر و ثواب سے محرومی کا باعث ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی سحری کھائی ہے اور دوسروں کو بھی سحری کی ترغیب دی ہے اور فرمایا ہے کہ سحری کھاؤ کیوں کہ اس میں برکت ہے۔روزے کی حالت میں بری باتوں سے، گالی گلوچ سے بچیں، بلکہ اگر کوئی دوسرا بحث و تکرار کرے یا گالی دے تو اس کا جواب نہ دیں بلکہ اس سے کہہ دیں میں روزے سے ہوں۔ حدیث پاک میں ہے کہ اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغابازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالی کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ رمضان میں جب افطاری بنائیں تو اپنی استطاعت کے مطابق تھوڑا سالن یا چند روٹیاں زائد بنالیں یا شربت کے ایک گلاس یا چند کھجوروں سے پڑوس میں یا مسجد میں کسی کا روزہ افطار کروادیں۔ اس بات کا انتظار نہ کریں کہ جس دن بہت زیادہ افطاری بنے گی صرف اسی دن بھجوائی جائے گی۔

حدیث پاک میں ہے کہ جس شخص نے کسی روزہ دار کو افطار کروایا تو اس شخص کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا ثواب روزہ دار کے لیے ہوگا، اور روزہ دار کے اپنے ثواب میں سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔اعتکاف جس طرح مرد کے لیے مسنون ہے اسی طرح عورت کے لیے بھی مسنون ہے۔ خواتین اپنے گھر کے کسی کمرے کے ایک حصہ کو اعتکاف کے لیے مخصوص کرلیں اور اس حصہ سے بلاضرورت باہر نہ نکلیں، جیسے بیت الخلاء و غیرہ جانے کی ضرورت پوری کرنی ہے۔رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں کا ایک بڑا حصہ عبادت میں گزار دیں، کچھ دیر سو بھی سکتے ہیں تا کہ تازہ دم ہو کر دوبارہ عبادت میں مشغول ہوسکیں۔ رمضان المبارک کے یہ رحمتوں بھرے شب و روز ہمیں گناہوں سے اجتناب کی نہ صرف دعوت دیتے ہیں بلکہ اس کے لئے ایک نورانی ماحول بھی فراہم کرتے ہیں۔

لہذا ہمیں ان لمحات میں اس قدر محنت مجاہدہ اور ریاضت کرنی چاہئے کہ ایک ماہ کی مشق ہمیں پوری زندگی اطاعت و فرمانبرداری کے قالب میں ڈھال دے۔ہم پر واجب ہے کہ ہم اس مبارک مہینے میں اپنے اعمال کا جائزہ لیں۔ اگر برے اعمال کے مرتکب ہیں تو ہم ان کی بجائے نیک اعمال سرانجام دینے کو اپنا معمول بنالیں۔رمضان المبارک کے سعادت بھرے لمحات ہمیں وقت کی قدرو اہمیت کی جانب بھی متوجہ کرتے ہیں۔ ہم میں سے جو کوتاہی کرتا ہے یا خود ہی اپنا وقت ضائع کرتا ہے اسے ابھی سے اپنے اوقات کو منظم کرنا چاہئے اور اپنی زندگی کے چلن کو درست کرنا چاہئے۔سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نعمتان مغبون فیهما کثیر من الناس الصحة والفراغ. ’’دو نعمتیں ایسی ہیں کہ ان میں بہت سے لوگ کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں اور وہ ہیں صحت اور فراغت‘‘۔ (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب الصحة والفراغ ولا عیش الاعیش الآخرة: 6412)

اس حدیث مبارک میں جسمانی صحت اور وقت کی فراغت کو نعمت قرار دیا گیا ہے۔ مغبون فیہما کا مطلب یہ ہے کہ وقت ضائع کرنے والے کو کوتاہی کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔ معاشرے میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ جن نوجوانوں کو اللہ تعالیٰ نے صحت اور فراغت سے نواز رکھا ہے وہ اکثر و بیشتر کوتاہی کے مرتکب پائے جاتے ہیں۔ وہ اپنا وقت کھیل کود اور سیر سپاٹے میں ضائع کردیتے ہیں اور اپنی صحت کو برے اعمال کے ارتکاب سے برباد کربیٹھتے ہیں، اس حوالے سے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ہمیں عافیت اور سلامتی کی التجا کرنی چاہئے۔

سب سے پہلے نماز کے اوقات کی حفاظت کرنی چاہئے یعنی بروقت نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا ہمارے لئے از حد ضروری ہے، کوئی دور کرنے والا ہمیں نماز سے دور نہ کرسکے اور نہ ہی امتحان، مذاکرہ، مہمان کا استقبال، کسی کا کوئی بات سننا، کوئی کتاب کا پڑھنا یا کہیں آنا جانا نماز سے ہمیں غافل نہ کرسکے۔ جس نے نماز کو ان وجوہات میں سے کسی بھی وجہ کے پیش نظر ترک کیا تو سب سے پہلے اس نے اپنی ذات سے خیانت کی۔

پھر اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے خیانت کی اور پھر اپنے دین سے خیانت کی۔ رمضان المبارک کے یہ ایام ہمیں اپنے نظام الاوقات کو ترتیب دینے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کا باقاعدگی سے اہتمام کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ نیز ہمیں اس امر کی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ ہم محض لہو و لعب میں ہی زندگی کے ان قیمتی ایام کو ضائع نہ کریں بلکہ ان اوقات کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ رب کریم سے دعا ہے کہ ہمیں اس ماہ مبارک میں ان ساری نعمتوں سے مالامال کردے،آمین۔
٭٭٭