رمضان

رکعات تراویح کے بارے میں اختلاف

بعض لوگ کہنے لگے کہ دو کے بجائے تین رکعات امام صاحب نے پڑھادیاہے، بعض کا کہنا تھا کہ امام صاحب نے دو ہی رکعت پڑھائی ہے۔

سوال:- میں جس مسجد میں نماز پڑھتا ہوں، اس میں ایک واقعہ یہ ہوا کہ امام صاحب نے جب تراویح میں سلام پھیرا تو رکعات کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہوگیا،

بعض لوگ کہنے لگے کہ دو کے بجائے تین رکعات امام صاحب نے پڑھادیاہے، بعض کا کہنا تھا کہ امام صاحب نے دو ہی رکعت پڑھائی ہے،

امام صاحب کی بھی یہی رائے تھی کہ انہوں نے دو ہی رکعت پر سلام پھیراہے، ایسی صورت میں نماز دہرائی جائے گی یا امام کی بات قابل قبول ہوگی یا مقتدی کی؟(قاری سلیم اللہ، حافظ بابا نگر)

جواب:- اس سلسلہ میں اصل امام کی شخصیت ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو پوری نماز کا ضامن قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: الإمام ضامن (ترمذی: ۱؍۵۱)؛

لہٰذا اگر امام صاحب کو پورا اطمینان ہو کہ انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی ہے تو اسے دو ہی رکعت سمجھا جائے گا، اگر امام صاحب نے خود اس بات پر اطمینان و یقین نہ کیا ہو کہ انہوں نے دو رکعت پر ہی سلام پھیرا ہے، تو پھر مقتدیوں کا جو گروہ ان کے نزدیک زیادہ قابل اعتماد ہے، ان کی رائے پر عمل کرسکتے ہیں،

یعنی اگر دو رکعت کے بارے میں رائے بنے تو نما ز لوٹانے کی ضرورت نہیں اور اگر تین رکعت کا غالب گمان ہو تو نماز کا اعادہ کرے:

إذا سلم الإمام فی ترویحۃ فقال بعض القوم: صلی ثلاث رکعات و قال بعضہم : صلی رکعتین، یأخذ الإمام بما کان عندہ فی قول أبی یوسف علیہ الرحمہ ولا یدع علمہ بقول الغیر، وإذا لم یکن الإمام علی یقین یأخذ بقول من کان صادقا عندہ (خانیہ: ۱؍۹۳۲)