مذہب

شادی کی بیجا رسومات، خواتین خود اپنے پیروں پر کلہاڑی چلا رہی ہیں

مثلاً کوئی باپ اپنی لڑکی کیلئے اتنا روپیہ جب خرچ کرے گا تو لازمی طور پر جب اس کے لڑکے کی شادی کا موقع آئے تو اپنی ہونے والی بہو کے والدین سے وہ سب کچھ طلب کرے گا جس طرح خود اس کی اپنی بیٹی کو جہیز، جوڑے کی رقم وغیرہ میں دے چکا تھا،غرض کہ اس طرح کا عمل رد عمل سارے مسلم معاشرے کو دیمک کی طرح کھائے جارہا ہے۔

مولانامحمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگارو آزاد صحافی۔ Cell:9849099228
(۲)

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

یہ بات ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک عزیز ہندوستان اور ہمارے پڑوسی ملک پاکستان میں ان دنوںمسلم معاشرے کے اندر کئی بے جا رسومات جنم لی گئی ہیں، خاص طور پر شادی بیاہ کے معاملات میں بے جا رسومات کا چلن عام ساہوگیا ہے،دولت مند لوگ اپنے حساب سے اور درمیانی قسم کے لوگ اپنی طاقت کے مطابق بے جا رسومات اور اسراف میں مبتلا ہیں۔ غرض کہ مذکورہ دونوں طبقات اس لعنت میںملوث ہیں جو کہ مسلم معاشرے کے لئے تباہی و بربادی کا باعث ہے اور یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ اس کی بنیاد ڈانے والی صرف خواتین ہی ہیں۔ اگر ہم منگنی سے لے کر پانچویں جمعگی تک کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ شادی کی بے جا رسومات نے آج ہمارے مسلم معاشرے کو کس طرح مصیبت میں مبتلا کر کے رکھ دیا ہے۔ گویا لڑکی کاکسی گھر میں تولد ہونا، قیامت کے برپا ہونے کے مصداق ہوگیا، یعنی قیامت سے پہلے قیامت ہوجاتی ہے۔

’’ہائے ہماری بد بختی‘‘

اسے ہم اپنی بدبختی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہیں تو اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو چھوڑ کر اپنی طرف سے نئی نئی اور بے جا رسومات کو اپنی زندگی میں ایجاد کرلیا اور اسے رواج دے لیا ہے جبکہ شعبہ حیات کے ہر موڑ پر کتاب سنت ہمیں رہنمائی کرنے کے لئے موجود ہے۔ یعنی ان میں یہ تعلیمات موجود ہیں کہ انسان کو اخروی کامیابی کے علاوہ دنیاوی کامیابی کیلئے کس طرح کا عمل کرناضروری ہے۔ چاہے معاملہ شادی بیاہ کا ہو یا کسی اور دوسرے امور کی انجام دہی سے تعلق کا، بحر حال یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے کہ ملت اسلامیہ اپنے پاس ایک بہترین تعلیم رکھتے ہوئے بھی اس پر توجہ نہیں کرتی اور نہ ہی اس کے مطابق اپنے کو سنوارنے کی کوشش کررہی ہے۔

بن بیاہی لڑکیوں کا سب سے بڑا مسئلہ

سارے جہاں والوں کیلئے رحمت عالم، محسن انسانیت بناکر مبعوث کئے گئے، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح و شادی بیاہ کے سلسہ میں ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو تم نکاح کو آسان کرو تا کہ زنا مشکل ہوجائے اور آپؐ کی تعلیمات میں یہ بھی ملتا ہیکہ وہ نکاح بہت ہی مبارک ہے جس میں مشقت کم سے کم ہو لیکن آج ہم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں نے نکاح کو جو کہ ایک عبادت ہے انتہائی مشقت میں مبتلا کرنیو الی چیز بنالیا ہے اس وقت جو لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی ہیں، ان کا سب سے بڑا مسئلہ جوڑے کی رقم اور معقول جہیز کی عدم فراہمی ہے کیونکہ اس کے بغیر کسی لڑکی کا دلہن بننے کا خواب ادھورا ہی رہتا ہے۔

عورت کو عطا کیا جائے یا اس سے طلب کیا جائے؟

کتاب اللہ و سنت رسولؐ میں ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ مسلم مرد اپنا مال خرچ کرتے ہوئے عورتوں کو اپنے عقد نکاح میں لائیں۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے مرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ہونے والی دلہن (بیوی) کیلئے حسب گنجائش کپڑے فراہم کرے اور اس کے رہنے اور کھانے کا بندوبست کرنے اور بطور مہر کے جو بھی قرار داد منظور ہو اسے خوشدلی سے ادا کرے کیونکہ یہ اس کا حق ہے۔ اس لئے مرد کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے روپیہ خرچ کرے اور عورت کی ضروریات کی تکمیل کرے ناکہ الٹا اس سے روپیہ پیسہ بٹورے، اس طرح کا عمل صنف نازک پر ظلم اور اپنی مردانگی کو داغدار کرنا ہے۔

مرد کا درجہ عورت کے مقابل

کیونکہ اسلام میں عورت کے مقابل مرد کا درجہ ایک گنا زیادہ رکھا گیا ہے فرمایا۔

’’الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض و بما انفقو ا من اموالھم ‘‘

ترجمہ : مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بناء پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر جو فضیلت بخشی ہے یہ دو وجہ سے ہے ایک تو اللہ تعالیٰ خود مرد کو ایک گنا زیادہ درجہ عطا فرمائے ہیں یہ تو اسی کی مصلحت ہے اور وہ خود اس کی اچھائی سے خوب واقف ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ مرد آدمی اپنا مال عورت پر خرچ کرتے ہیں اسی سبب اللہ نے مرد کی حیثیت قوام کی رکھی ہے،قوام اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالات میں چلائے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہو‘‘۔

عورت ہی عورت کیلئے رکاوٹ

شادی بیاہ کے معاملہ میں بے جا اور غیر شرعی رسومات کو جاری کرتے ہوئے ہماری خواتین خود اپنے پیروں پر کلہاڑی چلا رہی ہیں۔ اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات صاف طور پر ہمارے سامنے آتی ہے کہ جتنے بھی رسومات اس وقت چل رہے ہیں یہ ان ہی کے دم خم سے قائم ہیں، شادی بیاہ اور بن بیاہی لڑکیوں کے مسائل کو صرف خواتین ہی حل کرسکتی ہیں شرط یہ ہے کہ بے جا رسومات کے بوجھ کو معاشرے سے خارج کردیں اور ایام جاہلیت کی زنجیروں کو کاٹ پھینکیں، محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ایک عظیم کارنامہ ہے کہ آپؐ نے لوگوں کے بوجھ کو ختم فرمایا، اور ایام جاہلیت کی تمام رسم رواج کی زنجیروں کو کاٹ پھینکا، جو لوگوں نے خود اپنی جہالت کی بناء پر اپنے اوپر لادے ہوئے تھے۔

شادی بیاہ، عقد نکاح بہت آسان ہے خدا سے تقوی کرنے والی لڑکی کا انتخاب کیا جائے، مہر کا تعین ہو، دن تاریخ مقرر کی جائے، گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول ہو، اور اللہ تبارک تعالیٰ نے جو کچھ بھی دیا ہے حسب حیثیت طعام ولیمہ کیا جائے، مذکورہ اہم چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہمیں کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔

آج ہم مذکورہ بالا چیزوں کے علاوہ نئی نئی چیزوں کی ایجاد کر ڈالی لڑکی کو انگوٹھی چڑھانے کی رسم کے عنوان سے لڑکے کیلئے انگوٹھی یا گھڑی کے علاوہ لڑکی والوں سے دعوت طعام کا مطالبہ کرتے ہوئے لڑکی کے والدین کا لاکھوں روپیہ خرچ کرواتے ہیں، پھر آگے ایک اور رسم ہوتی ہے اس کا عنوان دیا جاتا ہے ’’پاؤں میز کا رسم‘‘ اس میں بھی لڑکی کے والدین کو مشقت میں مبتلا کرتے ہوئے پیسہ خرچ کروایا جاتا ہے اور جوڑے کی رسم کے نام سے تھیلی بھر روپیہ حاصل کیا جاتا ہے، اور ان ہی ایام میں جہیز کے متعلق نئے نئے مطالبہ شروع کئے جاتے ہیں کبھی کہا جاتا ہے نانی کی خواہش یہ ہے کہ کبھی کہا جاتا ہے فلاں صاحبہ ہمارے خاندان کی بڑی ہیں ان کی اس طرح کی خواہش ہے اور کبھی تو خود دولہے کی خواہش بتاکر استحصال کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہ فلاں شادی خانہ لیا جائے اور کھانے میں یہ یہ لوازمات ہوں ؟ بیچارے لڑکی کے والدین لڑکے والوں کی اس ناجائز و جبراً خواہشات کی تکمیل کے لئے دوڑ دھوپ شروع کردیتے ہیں بہر حال سودی قرض و دیگر ذرائع سے اس کی پابجائی ہونے کو ہوتی ہے کہ ایک اور مطالبہ یہ آتا ہے کہ سانچق، مہندی کی رسم لے کر ہم آرہے ہیںلہٰذ پچیس عورتوں کیلئے اہتمام ہو اور یہ حقیقت ہے کہ ان ساری باتوں کا تعلق خواتین سے ہے کہ انہوں نے اپنی جی کی خواہش کی بناء پر نئے نئے مطالبات کرتے ہوئے ’’لڑکی والوں کو اس بات پر مجبور کردیا کہ یہ ان کی تکمیل کریں۔مگر افسوس ہے اس بات پر کہ خواتین اس طرح کی رسم و رواج کی دلدل میں خود بھی تواترتی چلی جارہی ہیں جس کا انہیں شعور نہیں ہے۔

مثلاً کوئی باپ اپنی لڑکی کیلئے اتنا روپیہ جب خرچ کرے گا تو لازمی طور پر جب اس کے لڑکے کی شادی کا موقع آئے تو اپنی ہونے والی بہو کے والدین سے وہ سب کچھ طلب کرے گا جس طرح خود اس کی اپنی بیٹی کو جہیز، جوڑے کی رقم وغیرہ میں دے چکا تھا،غرض کہ اس طرح کا عمل رد عمل سارے مسلم معاشرے کو دیمک کی طرح کھائے جارہا ہے۔

حاصل کلام

آج ہمارے مسلم خواتین یہ عہد کرلیں کہ ہم شادی بیاہ کی بے جا رسومات کو ترک کردیں گے اور اگر اس پر عمل بھی شروع کردیں تو انشا اللہ تھوڑے عرصہ میں بن بیاہی لڑکیوں کے مسائل حل ہوجائیں گے آج جو خواتین اپنی بیٹیوں کے معاملہ میں فکر مند ہیں ان کو ہر گز فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کیلئے عزم و حوصلہ کی ضرورت ہے کہ ساری خواتین یہ ارادہ کرلیں کہ جہیز، جوڑے کی رقم اور بے جا رسومات کا مطالبہ کرنے والوں کو ہم اپنی بیٹی نہیں دیں گے اس طرح خود بخود لالچی قسم کے لڑکے والوں کی ہمت شکنی ممکن ہوسکے گی اور یہ کام صرف خواتین ہی سے ممکن ہے۔
٭٭٭