مذہب

مدارس، ہماری اسلامی شناخت کا حصہ

ہندوستان میں اسلامی مدارس کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ مغلیہ دور میں بہت بڑی تعداد میں تشنگان علم و فن، مدارس سے سیراب ہو کر قوم و ملت کی تعمیر میں گراں قدر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ لیکن اس دور کے مدارس میں تمام علوم یکجا پڑھائے جاتے تھے، دنیاوی علوم اور دینی علوم کی الگ الگ تشخیص نہیں تھی۔

اسانغنی مشتاق رفیقی
وانم باڑی۔ موبائل: 9894604606

ہندوستان میں اسلامی مدارس کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ مغلیہ دور میں بہت بڑی تعداد میں تشنگان علم و فن، مدارس سے سیراب ہو کر قوم و ملت کی تعمیر میں گراں قدر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ لیکن اس دور کے مدارس میں تمام علوم یکجا پڑھائے جاتے تھے، دنیاوی علوم اور دینی علوم کی الگ الگ تشخیص نہیں تھی۔ طالب علم کو جس علم سے دلچسپی ہوتی وہ اس سے فیض یاب ہوکر اپنی زندگی کا رخ طے کر لیتا تھا۔ اور یہ مدارس الگ سے شاندار عمارات میں نہیں قائم تھے بلکہ مسجدوں اور خانقاہوں سے ملحق تھے۔

یہیں پر موجود حجروں میں اساتذہ، طالب علموں کو درس دیتے اور ایک مدت کے بعد جب ان میں استعداد دیکھ لیتے تو انہیں سند دے کر فارغ کر دیتے۔ ان مدرسوں کو بادشاہ وقت کے ساتھ ساتھ وزراء، جاگیر داروں، سرداروں اور صاحبان زر کی سرپرستی حاصل رہتی اور یہ نظام اسی طرح پھولتا پھلتا رہا۔ جب ہندوستان میں مغلیہ دور کا زوال شروع ہوا اور اقتدار پر انگریز قابض ہونے لگے تودرس و تدریس کے اس نظام میں رخنہ پیدا ہوگیا۔ انگریز کی پہلی کوشش یہی رہی وہ جن سے اقتدار چھین رہے ہیں ان کو ہمیشہ کے لئے ہر اعتبار سے کمزور کردیں ۔ چونکہ مسجد سے ملحق ان مدرسوں کا نظام مسلمانوں کی حکومت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا کام دیتا تھاجہاں سے افراد تیار ہو کر حکومت کے لئے انتظامیہ مہیا کرتے تھے تو فرنگیوں نے اس پر کاری ضرب لگاکر اس نظام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔پہلی جنگ آزادی کے بعد علم و ہنر کے تمام مراکز کو اس بری طرح برباد کیا گیا کہ ان کا نام و نشان زمین سے ہی نہیں تاریخ کے صفحات سے بھی مٹ کر رہ گیا۔ علماء اور دانشوروں کی بہت بڑی تعداد کو باغی قرار دے کر سولی پر لٹکا دیا گیا یا توپ سے باندھ کر اڑا دیا گیا۔ ایسا لگنے لگا تھاکہ شاید ہندوستان میں بھی اسپین کی تاریخ دہرائی جائے گی اور مسلمانوں کو اس سر زمین سے نیست و نابود کر دیا جائے گا۔

اس طوفان بلا خیز میں مٹھی بھر اولولعزم اصحاب علم و دانش نے کم از کم عوام کی ملی تشخص کی حفاظت کو ذہن میں رکھ کر آزاد دینی مدارس کی بنیاد رکھی اورچونکہ دنیاوی فنون کی تعلیم کو حکومت وقت نے اپنے ذمے لے لیا تھا اس لئے صرف اور صرف خالص دینی تعلیم کے لئے ان مدرسوں کو مخصوص کر دیا گیا۔ ساتھ ہی یہ اصول بھی وضع کر لئے گئے کہ وہ ان مدارس کے چلانے میں حکومت وقت سے یا اس کے کسی ذیلی ادارے سے بھی کبھی کوئی مدد نہیں لیں گے۔ لگ بھگ سولہ سترہ دہائیوں سے بر صغیر میں قائم ہوئے یہ مدارس جن کی تعداد روز بروز بڑھتی گئی اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود عوام کو دین سے جوڑے رکھنے کی اپنی مشن میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ان کی خدمات جلیلہ سے شاید ہی کسی کو انکار ہو۔ سخت سے سخت نامساعد حالات میں بھی اپنے اصولوں سے کوئی سمجھوتہ کئے بغیر ان مدرسوں نے اسلام کے شمع کو جلائے رکھا اور ہمیشہ ہر جگہ کلمۂ حق کی سر بلندی کے لئے کوشاں رہے۔

یہ اور بات ہے کہ ان مدرسوں پر اسلام سے زیادہ اپنے اپنے مسلک کی ترویج اور تبلیغ کرنے کے الزامات لگتے رہے، عوام کو مسلکی نا اتفاقیوں میں الجھا کر انہیں تقسیم کر کے اپنے مطلب کے لئے انہیں استعمال کرنے کا داغ بھی ان کے پیشانیوں پر لگا لیکن بحیثیت کل بر صغیر، خاص کر ہندوستان میں ان کی نفی کر کے اسلام اور مسلمانوں کا تصور محا ل ہے۔ آج وطن عزیز میں موجود محراب و منبر سے اگر توحید اور رسالت کے نعرے گونج رہے ہیں تو وہ انہیں مدارس کا فیض ہے، اگر یہاں کے کوچہ و بازار میں مسلمانوں کے دکان و مکان میں اسلامی شناخت کا احساس زندہ نظر آرہا ہے تو وہ انہیں مدارس کے بوریہ نشین اساتذہ اور روکھے سوکھے کھانے والے طالب علموں کے خلوص اور للٰہیت کے طفیل ہے۔ اگر خدانخواستہ ہمارے اکابرین نے بر وقت اس طرف توجہ نہ کی ہوتی اور دینی مدارس کا یہ نظام قائم نہ کیا ہوتا تووطن عزیز میں ہمارا وجود تو ہوتا لیکن پتہ نہیں ہم کفر و الحاد کے کن تاریکیوں میں بھٹک رہے ہوتے، ارتداد کے تباہ کن صحراؤں میں ہمارا مقدر بھٹک جاتا اور شرک و گمراہی سے ہم اپنی آخرت تباہ کر چکے ہوتے۔

موجودہ حالات میں یہ مدارس در حقیقت ہماری ملی شناخت ہی نہیں وطن عزیز میں ہمارے وجود کے ضامن بھی ہیں۔ ممکن ہے مدارس کے نصاب سے ہمیں اختلاف ہو، ان کے درمیان پائے جانے والے مسلکی شدت پسندی سے ہمیں سخت گلہ ہو، ہم چاہتے ہوں کہ ان مدارس کے روایتی نصاب کو زمانے سے ہم آہنگ کیا جائے اور ان میں لچک پیدا کی جائے، جدید علوم اور دنیاوی فنون کو بھی ان میں خاطر خواہ جگہ دی جائے تاکہ یہاں سے فارغ ہونے والا کوئی بھی طالب علم احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر زمانے کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اس سے نبرد آزما ہوسکے۔ہماری یہ بھی شدید خواہش ہو کہ وطن عزیز میں موجود تمام مدارس ایک وفاق کی شکل میں جڑ کر اگر خدمات انجام دیں تو ان میں ایک ہمہ گیری اور آفاقیت پیدا ہوگی۔

چونکہ اس طرح یہ سب اکٹھا ہو کر ایک بڑی طاقت بن جائیں گے، حکومت وقت ان پر کسی قسم کی مداخلت کرنے سے پہلے سو بار سوچے گی، اور اگر کہیں سے حکومتی در اندازی ہو بھی گئی تو یہ سب اکٹھا احتجاج کرکے اسے کسی بھی غلط قدم سے باز رکھ سکتے ہیں۔ مدارس کے حوالے سے یہ ہماری ساری خواہشیں اور چاہتیں یقیناً نیک نیتی سے لبریز ہیں اور ہم اس کے لئے مدارس میں اصلاحی تحریک بھی چلاتے رہیں گے لیکن موجودہ صورتحال میں اپنی خواہش اور چاہت کے مطابق مدرسوں کو ڈھلتا نہ دیکھ کر ان سے کنارہ کشی اختیار کر لینا، اور بے جا ظلم و ستم، مصائب و آلام کے اس دور میں انہیں تنہا چھوڑ دینا بلکہ الٹا ان پر نصیحتوں کے انبار لادنا سخت احسان فراموشی ہوگی۔

وطن عزیز میں مدارس کو لے کر جو فضا بن رہی ہے یا بنائی جا رہی ہے اور ان مدرسوں کو ختم کردینے کی جو سازشیں پس پردہ برپا ہیں وہ بہت خطرناک ہیں، ایسے میں امت کے ہر فرد کو چاہئے کہ وہ اپنے اطراف موجود مدارس سے اپنے آپ کو جوڑے اوروہاں کے شب و روز سے واقفیت حاصل کر کے اپنی بساط بھر وہاں کے معمولات کا حصہ بنے ۔ قانونی صلح کی ضرورت ہو تو قانونی صلح مہیا کرائے، بنیادی ضروریات جیسے بیت الخلاء اور کھیل کے میدان وغیرہ کا مسئلہ ہو تو اسے حل کرنے کی سعی کرے، ٹرسٹ یا سوسائٹی ایکٹ میں اگر ان مدارس کا اندراج نہیں ہے تو فوراً اندراج کی سبیل پیدا کرے، اگر وہ مدارس بینک سے جڑے ہوئے نہیں ہیں تو انہیں بینک سے جوڑے اور حساب و کتاب صحیح رکھنے میں ان کی رہنمائی کرے، قیام و طعام یعنی ہوسٹل فسیلیٹی،پاکی صفائی اور فائر سیفٹی وغیرہ سرٹیفکیٹ کے حصول میں ان کا بھر پور ساتھ دے تاکہ جو سازشیں ان کی خلاف رچی جارہی ہیں وہ ان سے آسانی سے مقابلہ کرسکیں اور ساتھ ہی ہم، ہماری اسلامی شناخت کو مٹانے کیلئے جو مسلسل کوششیں ہورہی ہیں انہیں ناکام کر سکیں۔
٭٭٭