رمضان

نمازِ تراویح کی فضیلت و تعداد ِ رکعات

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، مسلمان استقبال رمضان کی تیاریوں میں مصروف ہیں، یہ برکت، رحمت، مغفرت کا مہینہ ہے، اس میں ہر عبادت کا اجر وثواب بڑھا دیا جاتا ہے، شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے، جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں،

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، مسلمان استقبال رمضان کی تیاریوں میں مصروف ہیں، یہ برکت، رحمت، مغفرت کا مہینہ ہے، اس میں ہر عبادت کا اجر وثواب بڑھا دیا جاتا ہے، شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے، جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں، اس ماہ میں خاص کر دو عبادتیں روزہ اور نماز تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے، نماز تراویح کی احادیث شریفہ میں بڑی فضیلت آئی ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے: عن أبي ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ قال: من قام رمضان ایماناواحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ (بخاری) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

جو شخص رمضان کی راتوں میں بحالت ایمان واخلاص اجر وثواب کی نیت سے قیام کرے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جب بندہ گناہوں سے پاک ہوجاتاہے تو وہ محبوب ِ خدا اورجنت کا حق دار بن جاتا ہے۔ انسان کے گناہ ہی ہیں جو عذاب ِ الٰہی ، خداوندی کے جلال کو دعوت دیتے ہیں، اگر گناہ میٹ دیے جائیں تو بندے کو قربت رب نصیب ہوتی ہے۔ یقینا نمازِ تراویح گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جماعت کے ساتھ نمازِ تراویح پڑھائی، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: عن عائشۃ ام المومنین رضي اللہ عنھا: ان رسول اللہ ﷺ صلی ذات لیلۃ في المسجد، فصلی بصلاتہ ناس، ثم صلی من القابلۃ، فکثر الناس ۔۔۔ الیٰ آخرہ (بخاری، مسلم، ابو داود، نسائی، موطا امام مالک، مسند احمد، بیہقی) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں (نفل ) نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپؐ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر آپؐ نے اگلی رات نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہوگئے پھر تیسری یا چوتھی رات بھی لوگ اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ کے باہر تشریف نہ لائے، جب صبح ہوئی تو فرمایا: میں نے دیکھا جو تم نے کیا اور مجھے تمہارے پاس (نماز پڑھانے کیلئے ) آنے سے صرف اس اندیشہ نے روکا کہ یہ تم پر کہیں فرض نہ کردی جائے اور یہ رمضان المبارک کا واقعہ ہے۔

یہ رحمت عالم ؐ کی امت پر کرم نوازی ہے کہ تین دن کے بعد آپ ؐ نے نماز ِ تراویح اس لئے نہیں پڑھا ئی کہ کہیں رب تبارک وتعالیٰ امت پر یہ نماز فرض نہ کردے اور پھر امت محمدیہ اسے چھوڑنے کی وجہ سے گنہگار نہ ہو جائے ۔اسی طرح رمضان المبارک میں نماز تراویح پڑھنے کی فضیلت کا تذکرہ کیا، چنانچہ حدیث شریف میں ہے: عن عبدالرحمن بن عوفؓ عن رسول اللہ ﷺ انہ ذکرشھر رمضان ففضلہ علی الشھور، وقال: من قام رمضان ایمانا واحتسابا خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ امہ ۔۔۔الیٰ آخرہ (نسائی، ابن ماجہ) حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کا ذکر فرمایا تو سب مہینوں پر اسے فضیلت دی۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ایمان کی حالت میں حصول ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں قیام کرتا ہے تو وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا۔‘‘

’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کیے ہیں اور میں نے تمہارے لئے اس کے قیام (نماز تراویح) کو سنت قرار دیا ہے لہٰذا جو شخص ایمان کی حالت میں حصول ثواب کی نیت سے ماہ رمضان کے دنوں میں روزہ رکھتا اور راتوں میں قیام کرتا ہے وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے وہ اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا تھا‘‘۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ ؓکرام کو قیام رمضان (تراویح) کی ترغیب دیا کرتے تھے لیکن حکم نہیں فرماتے تھے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافت ابوبکر ؓ اور خلافت عمرؓ کے اوائل دور تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ نے انہیں حضرت ابی بن کعب ؓ کی اقتداء میں جمع کردیا اور وہ انہیں نماز (تراویح) پڑھایا کرتے تھے لہٰذا یہ وہ ابتدائی زمانہ ہے جب لوگ نماز تراویح کیلئے (باجماعت) اکٹھے ہوتے تھے۔ امام عسقلانی نے ’’التلخیص‘‘ میں بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دو راتیں ۲۰ رکعت نماز تراویح پڑھائی جب تیسری رات لو گ پھر جمع ہوگئے تو آپؐ ان کی طرف (حجرہ مبارک سے باہر) تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح آپؐ نے فرمایا:

مجھے اندیشہ ہوا کہ (نماز تراویح ) کہیں تم پر فرض نہ کردی جائے اور تم اس کی طاقت نہ رکھو۔ عن ابي ھریرہ ؓ قال: خرج رسول اللہ ﷺ فاذا اناس في رمضان یصلون في ناحیۃ المسجد ۔۔۔ الیٰ آخرہ (ابوداود، بیہقی) حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے : فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (حجرہ مبارک سے ) باہر تشریف لائے تو کیا دیکھتے ہیں کہ رمضان المبارک میں چند لوگ مسجد کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہے تھے تو آپ ؐ نے فرمایا: یہ کون ہیں؟ عرض کیا گیا: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن پاک یاد نہیں اور حضرت ابی بن کعب نماز پڑھتے ہیں اور یہ لوگ ان کی اقتداء میں نماز پرھتے ہیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے درست کیا اور یہ کتنا اچھا عمل ہے جو انہوں نے کیا۔ اور بیہقی کی ایک روایت میں ہے فرمایا:

انہوں نے کتنا احسن اقدام یا کتنا اچھا عمل کیا اور ان کے اس عمل کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند نہیں فرمایا۔ اسی طرح بخاری شریف کی ایک اور روایت میں ہے: عن عبد الرحمن بن عبد القاري انہ قال : خرجت مع عمر بن الخطاب ؓ لیلۃ في رمضان الیٰ المسجد فاذا الناس اوزاع متفرقون یصلي الرجل لنفسہ ۔۔۔ الیٰ آخرہ (بخاری) حضرت عبدالرحمن بن عبد القاری روایت کرتے ہیں: میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو کیا دیکھتا ہوںکہ لوگ متفرق تھے کوئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا تو ایک گروہ کسی کی اقتداء میں نماز پڑھ رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

میرے خیال میں انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو اچھا ہو گا پس آپ رضی اللہ عنہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے سب کو جمع کر دیا، پھر میں ایک اور رات ان کے ساتھ نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (ان کو دیکھ کر) فرمایا: یہ کتنی اچھی بدعت ہے، اور جو لوگ اس نماز (تراویح) سے سو رہے ہیں وہ نماز ادا کرنے والوں سے زیادہ بہتر ہیں اس سے ان کی مراد وہ لوگ تھے (جو رات کو جلدی سو کر) رات کے پچھلے پہر میں نماز ادا کرتے تھے اور تراویح ادا کرنے والے لوگ رات کے پہلے پہر میں نماز ادا کرتے تھے۔

بیس رکعات تراویح پر صحابہ کرام کا اجماع (اتفاق) ہے اور اسی پر تابعین، جمہور علماء ، اہل کوفہ، شوافع اور فقہاء کرام کی ایک بڑی جماعت کا عمل رہا ہے، جیسا کہ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے: وقال ابن عبد البروھو قول جمھور العلماء وبہ قال الکوفیون والشافعی وأکثر الفقھاء وھو الصحیح۔ علامہ ابن عبدالبر علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ (بیس رکعات تراویح) یہی تمام علماء کا قول ہے اور تمام اہل کوفہ کا یہی مذہب ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور اکثر فقہاء کرام نے بھی یہی کہا ہے اور یہی درست بات ہے۔

شارح صحیح بخاری ، صاحب عمدۃ القاری علامہ بدرالدین عینی حنفی رحمۃاللہ علیہ (متوفی ۸۵۵ھ ) رقمطراز ہیں: واحتج اصحابنا والشافعیۃ والحنابلۃ بمارواہ البیھقی باسناد صحیح عن السائب بن یزید الصحابی قال کانوا یقومون علی عھد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعشرین رکعۃ وعلی عھد عثمان وعلي رضی اللہ تعالیٰ عنھما مثلہ: ائمہ حنفیہ ، ائمہ شافعیہ وائمہ حنابلہ نے بیس (۲۰) رکعات تراویح پر اس حدیث شریف کو دلیل بنایا جسے امام بیہقی نے اپنی سند صحیح کے ساتھ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، آپ نے فرمایا کہ صحابہ کرام اور تابعین عظام حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں بیس رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے او ر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اسی طرح (بیس رکعات تراویح ) پڑھا کرتے تھے۔

ائمہ اربعہ امام اعظم ابوحنیفہ ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور ایک قول کے مطابق امام مالک رحمہم اللہ تعالیٰ کا اتفاق ہے کہ نمازِ تراویح بیس رکعات ہی ہیں، جبکہ امام مالک کا ایک اور قول ۲۰ رکعات تراویح اور ۱۶ رکعات نفل کا ہے [چونکہ مکہ مکرمہ میں لوگ تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد طواف کیا کرتے تھے، اسی لئے امام مالک سے طواف کے بجائے غیر مکی کیلئے ہر چار رکعت کے بعد چار رکعت نفل پڑھنے کا قول منقول ہے] اس طرح جملہ چھتیس رکعات ہوتے ہیں جس میں تراویح کی بہر حال ۲۰ رکعات ہی ہوتے ہیں۔

علامہ ابن نجیم مصری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۹۷۰ھ ) کنز الدقائق کی شرح البحرالرائق میں تحریر فرماتے ہیں: نماز تراویح کی بیس رکعات ہیں، جمہور فقہاء کا یہی قول ہے اور مشرق ومغرب میں اسی پر مسلمانوں کا عمل ہے :’’وعلیہ عمل الناس شرقا وغربا ‘‘ ۔

علامہ ابن رشد مالکی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۵۹۵ھ ) نے بدایۃ المجتہد میں بیس رکعات تراویح سے متعلق ائمہ اربعہ کا مذہب نقل فرمایا: فاختار مالک فی احد قولیہ وابوحنیفۃ والشافعی واحمد وداود القیام بعشرین رکعۃ سوی الوتر۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک قول کے مطابق اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور امام داود رحمۃ اللہ علیہ نے بیس رکعات (تراویح) کو اختیار کیا ہے۔

عن یزید بن رومان، انہ قال: کان الناس یقومون في زمان عمر بن الخطاب ؓ ۔۔۔ الیٰ آخرہ (بیہقی، موطا امام مالک) حضرت یزید بن رومان نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں لوگ (بشمول وتر) 23 رکعت پڑھتے تھے۔ بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی تھی۔

آٹھ رکعات کی روایت کا حقیقی معنی ومفہوم : صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے ، جس میں آٹھ رکعات کا ذکر موجود ہے: عن ابي سلمۃ بن عبد الرحمن انہ اخبرہ انہ سأل عائشۃ رضی اللہ عنھا کیف کانت صلوۃ رسول اللہ ﷺ فی رمضان فقالت ماکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یزید في رمضان ۔۔۔ الیٰ آخرہ (بخاری) حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، وہ بیان فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا:

ماہ رمضان میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیا کیفیت ہوتی؟ تو حضرت ام المومنین ؓ نے فرمایا: حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان اور اس کے علاوہ دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زائد ادا نہ فرماتے تھے، چار رکعات ادا فرماتے، ان کے خشوع وخضوع اور حسن وکمال کے کیا کہنے، پھر چار رکعات ادا فرماتے ان کے حسن وکمال کے بارے میں مت پوچھو، پھر تین رکعات ادا فرمایا کرتے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نے عرض : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ وتر ادا کرنے سے پہلے آرام فرماتے ہیں، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے عائشہ ؓ بلاشبہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا۔

آٹھ رکعات کی روایت تراویح کیلئے ناقابل استدلال: اس روایت سے رکعاتِ تراویح کی تعداد جیسے اہم مسئلہ کے اثبات میں استدلال نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے: حضرت عائشہ ؓ سے جہاں گیارہ رکعات کی روایت منقول ہے وہیں سات رکعات ، نو رکعات اور تیرہ رکعات کی روایتیں بھی موجود ہیں، جس میں تین رکعات وتر منہا کئے جائیں تو چار رکعات، چھ رکعات ، آٹھ رکعات اور دس رکعات ہوتے ہیں، ایک ہی نماز سے متعلق اس اختلاف کے ساتھ روایتیں ہونے کی وجہ سے بعض محدثین نے اس روایت کو مضطرب کہا اور مضطرب روایت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا، فتح الباری شرح صحیح بخاری میں مذکور ہے: قال القرطبی اشکلت روایات عائشۃ علی کثیر من اھل العلم حتی نسب بعضھم حدیثھا الی الاضطراب (فتح الباری شرح صحیح البخاری) علامہ قرطبی ؒ (متوفی: ۶۷۱ھ) نے کہا کہ حضرت عائشہ ؓ کی یہ روایتیں بہت سے اہل علم کیلئے اشکال کا سبب واقع ہوئی ہیں، یہاں تک کہ بعض علماء نے اس حدیث کو مضطرب قرار دیا۔

آٹھ رکعات والی روایت تہجد سے متعلق ہے: ام المومنین کی روایت کی بناء پر کہا جاتا ہے کہ نماز تراویح آٹھ رکعات ہیں، اس روایت سے نما ز تراویح کی آٹھ رکعات ہونے کا استدلال کرنا صریح غلطی ہے، جو علم حدیث کے فنون ، روایت حدیث اور درایت حدیث کے بالکل خلاف ہے۔ اگر حضرت عائشہ ؓ کی اس روایت کو تعمق وامعان سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ روایت تراویح سے متعلق ہی نہیں ، بلکہ تہجد سے متعلق ہے، کیونکہ حضرت عائشہ ؓ رمضان اور غیر رمضان کے آٹھ رکعات کے بارے میں فرمارہی ہیں اور ہر صاحب عقل شخص جانتا ہے کہ نماز تراویح صرف رمضان میں ادا کی جاتی ہے، غیر رمضان میں نہیں!

ورنہ یہ کہنا پڑے گا کہ تراویح سال بھر پڑھی جائے، جب کہ اس روایت سے آٹھ رکعات کا استدلال کرنے والے بھی سال بھر تراویح نہیں پڑھتے !! اس روایت پر عمل اسی وقت ہوگا جب کہ آٹھ رکعات سے تہجد مراد لی جائے، ان آٹھ رکعتوں کا تہجد ہونا حضرت عائشہ ؓ کی مندجہ ذیل روایت سے ظاہر ہوتا ہے: عن عائشۃ کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم یصلی من اللیل احدی عشرۃ رکعۃ، فاذا طلع الفجر صلی رکعتین خفیفتین، ثم اضطجع علی شقہ الٔایمن حتی یجیٔ الموذن فیوذنہ (بخاری) سیدتنا عائشہ ؓ سے روایت ہے، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں گیارہ رکعات ادا فرماتے اور جب فجر طلوع ہوجاتی تو دو مختصر رکعتیں ادا فرماتے پھر داہنے پہلو پر استراحت فرماتے، یہاں تک کہ مؤذن حاضر ہوتے اور آپ کی خدمت میں معروضہ کرتے۔

ام المومنین ؓ کی روایت کی بناء پر کہا جاتا ہے کہ نماز تراویح آٹھ رکعات ہیں، اس روایت سے نماز ِ تراویح کی آٹھ رکعات ہونے پر استدلال کرنا صریح غلطی ہے۔ اگر یہاں آٹھ رکعات سے تراویح کی رکعتیں مراد لی جائے تو کہنا پڑے گا کہ تراویح سو کر اٹھنے کے بعد رات کے اخیر تہائی حصہ میں ادا کی جائے جب کہ سو کر اٹھنے کے بعد تراویح پڑھنا کسی کا عمل نہیں۔ اگر حضرت عائشہ ؓ آٹھ رکعات کی روایت تراویح سے متعلق بیان فرمائی ہوتیں تو آپ خود بھی آٹھ رکعات تراویح ادا فرماتیں اور اپنے زمانے میں اہل اسلام کا سنت کے خلاف عمل دیکھ کر خاموش نہ رہتیں، جب کہ حضرت عائشہ ؓ سے ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ آپ نے آٹھ رکعات تراویح پڑھی ہوں، آپ خلفاء راشدین کے زمانہ میں رہیں، صحابہ کرام بالاتفاق بیس رکعات ادا فرماتے رہے، اگر یہ عمل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہوتا تو آپ ضرورنکیر فرماتیں، حضرت عائشہ ؓ کا بیس رکعات تراویح پر سکوت اختیار کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ کی آٹھ رکعات والی روایت تراویح سے متعلق نہیں۔

خلیفہ ثانیؓ کے دور سے حرمین شریفین میں بیس رکعت تراویح باجماعت پڑھنے کا اہتمام آج تک جاری وساری ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم کو سیدھی راہ پر چلائے اور رمضان میں عبادات رمضان کو پورے خشوع وخضوع اور اخلاص کے ساتھ انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭