مذہب

یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے

عالمی وملکی سطح پراسلام اورمسلمانوں کے خلاف رچی جانے والی سازشوں کےباوجودمسلمان خواب غفلت میں ہیں، اس وقت امت کا بڑاالمیہ ہے یہ کہ وہ اختلاف وانتشار کا شکار ہیں، یوں تو دورعثمانی کے آخری عہدمیں شیعہ سنی اختلاف رونما ہوا، اس کی وجہ مسلمان دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے،عرب وعجم کی اکثریت اہل سنت وجماعت سے ہے اورایک طبقہ شیعہ کا ہے

مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786

عالمی وملکی سطح پراسلام اورمسلمانوں کے خلاف رچی جانے والی سازشوں کےباوجودمسلمان خواب غفلت میں ہیں، اس وقت امت کا بڑاالمیہ ہے یہ کہ وہ اختلاف وانتشار کا شکار ہیں، یوں تو دورعثمانی کے آخری عہدمیں شیعہ سنی اختلاف رونما ہوا، اس کی وجہ مسلمان دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے،عرب وعجم کی اکثریت اہل سنت وجماعت سے ہے اورایک طبقہ شیعہ کا ہے، ان میںبھی کئی ذیلی شاخیں وجودمیں آگئی ہیں،یہ اختلاف ہی کیا کم تھا کہ بعدکے ادوارمیں اہل سنت وجماعت میں بھی اورکئی گروپ بندیاں قائم ہوئیں ،گوکہ یہ حقیقت کے اعتبار سے سنی شیعہ کے اختلاف جیسانہیں ہے،فکری ونظری اعتبار سے دلائل کی بنیاد پراس اختلاف کی گنجائش ہے بشرطیکہ وہ تعصب اورنفسانیت سے پاک ہو،ان اختلافات کونظریاتی اختلاف ہی ماناجائے گا۔پتہ نہیں کیوں یہ اختلاف برصغیر ہند و پاک میں وہابیت، نجدیت، دیوبندیت اورسلفیت کے نام سے متعارف ہوگیا ہے،بعض طبقات کےشدت پسند علماءان مسائل میں کسی سمجھوتہ کے لئے راضی نہیں ہیں،ان کےمتبعین بھی اسی ڈگرپرچل پڑے ہیں۔

اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ہرطبقہ اپنی فکرونظرکے مطابق عمل کرےلیکن جب ان اختلافات کوحق وباطل کے اختلاف کی طرح مان کراس میں شدت اختیار کی جائے، مناظروں اور مباحثوں کا بازار گرم ہو اور اس کوتکفیرکی سرحدوں تک پہونچا دیا جائے توپھرجو نقصان امت کےاجتماعی کازکوہوسکتاہےوہ ناقابل تلافی ہوگا۔ تحفظات ذہنی کے بغیر ان اختلافات کاسنجیدگی سے جائزہ لیاجائے تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امت مسلمہ کوان کی وجہ جونقصان اٹھاناپڑاہے شاید دشمنان اسلام کی ریشہ دوانیوں سے بھی اتنا نقصان نہیں ہوا ہے، اس سے بڑھ کر افسوس کی بات اورکیا ہوسکتی ہے، اس بنیاد پر مساجد تقسیم ہوگئی ہیں اوربعض مساجد پر تو یہ ہدایات بھی آویزاں ہیں کہ ’’فلاں فلاں کواس مسجد میں داخلہ کی اجازت نہیں‘‘۔

ان بنیادوں پربعض خاندانوں اورمسلم بستوں میں آپس میں سلام وکلام اوربات چیت بھی منقطع ہے، ایک دوسرے کی مجالس میں ان کے علماء شرکت سے گریزاں ہیں،حدتویہ کہ یہ شدت پسندی موت کے بعد بھی دیکھی جاتی ہے،کسی ایک طبقہ کے فردکی نمازجنازہ دوسرے طبقہ کا فرد پڑھا دے توایک ہنگامہ رونما ہوجاتا ہے،اس خصوص میں چندسال پہلے بعض علماء کے فتاوی میڈیا میں زیربحث رہے ہیںجس سے مخالف اسلام افراد کو دشنام طرازی کاموقع ہاتھ لگ گیاتھا،جبکہ اسلامی نقطہ نظرسے مساجدمیں غیرمسلم بھائیوں کی آمدبھی منع نہیں ہے، سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیمون میں کئی ایک قبائل کے سرداراورمختلف قوموں کے وفودآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا کرتے تو مسجد نبویؐ میں ان کی اقامت کاانتظام ہوتااور ان کے کھانے پینے کانظم حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےسپردکیاجاتا،مدینہ پاک کی مسجدمیں آج بھی ایک استوانہ ’’استوانہ وفود‘‘کےنام سے موسوم ہے جوریاض الجنہ میں واقع ہے،الغرض اسلام کے عہدزرین کی روایات میں اس کا بڑا پاس ولحاظ رہا ہے پھر کیوں فکری ونظری اختلافات کی بنیادپرمساجدکے دروازے ایک دوسرے پر بند ہیں؟ بڑے افسوس کی بات ہے کہ یہ اختلافات غیرمسلموں کے پاس بھی بحث کاموضوع بن گئے ہیں، چنانچہ ایک غیرمسلم خوتون اینکرنے اپنےویڈیومیں مسلمانوں کوآئینہ دکھایا ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے ’’مسلمانوں کی اصل زبان عربی ہے لیکن مسلمان اس سے غافل ہیں، ۱۴سوسال سے لیکرآج تک روزہ، نماز، خطبہ سب عربی زبان میں ہوتاہے لیکن مسلمان اس کو سمجھنے سےقاصرہیں،وہ قرآن پڑھناتوسیکھ لیتے ہیں لیکن قرآن میں کیا لکھاہے اور اللہ سبحانہ نے کیا پیغام دیا ہے اکثرمسلمان اس سے ناآشناہیں،مسلمان قرآن کو یاد کر لیتے ہیں لیکن اکثر اس کے معانی ومفاہیم سے واقف نہیں ہوتے، افسوس اس بات کا ہے کہ بہت سےمسلم مذہبی رہنمابھی اس سے کماحقہ واقف نہیں ہیں۔ بعد کی ادوارمیں مختلف زبانوں میںقرآن کےتراجم ہوئے ہیں تب کہیں جاکرپڑھے لکھے مسلمانوں میں تھوڑی بہت اسلام اور قرآن کی سمجھ پیداہوئی ،یہ بھی ایک المیہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک خاصی تعداد دوسری زبانوں سے بھی کماحقہ واقف نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ نئے دورکے ایجوکیشن سسٹم سے دور ہیں۔

مسلمانوں میں ذات، برادری کے اختلافات بھی ہیں لیکن اس کے ساتھ ایک بیماری نے بہت ہی تیزی سے پائوں پسارلئے ہیںاس کا نام ہے فرقہ پرستی، مسلمانوں میں سب سے زیادہ خاندان وقبیلہ اور مسلک کی بنیاد پر کئی فرقےوجودمیں آگئے ہیںجن کو دیوبندی، وہابی، بریلوی کے نام سے پہچاناجاسکتاہے،آپ کو یہ بات سن کربھی بہت ہنسی آئے گی کہ بھارت کامسلمان ہی وچار دھارا کے آدھار پر ایک دوسرے کومسلمان نہیں مانتے،آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ایک دوسرے کومسلمان نہیں مانتے توپھرکیا مانتے ہیں،دراصل یہ لوگ ایک دوسرے کو کافر اور غیرمسلم مانتے ہیں،دراصل ہر دیوبندی، وہابی، بریلوی ایک دوسرے کو اپنا وچارک دشمن مانتے ہیں،ایک دوسرےکے خلاف فتاوی جاری کرتے رہتے ہیں، بھارت کے مسلمانوں نے اپنے وچار دھارا کے آدھارپراپنی اپنی مسجدیں بھی بنوالی ہیں، ہر وچار دھارا والاوکتی(فرد)دوسرے وچاردھارا والوں کی مسجدمیں نمازپڑھنے سے پرہیزکرتے ہیں،ایک خاص طبقہ کانام لیکر اس نےکہاہے کہ اس کے ہاںدوسرا طبقہ مسلمان ہی نہیں ہے اور وہ کبھی بھی جنت میں نہیں جائے گا،ان میں یہ بات بھی ہے کہ زندہ رہتے ہوئے وہ ایک دوسرے کوکافراوربدعقیدہ مانتے ہیںجب ان میں سے کسی کاانتقال ہوجائےتوان کے آخری رسومات یعنی تجہیزوتکفین ،نمازجنازہ وغیرہ بھی دوسرے مسلک والے انجام نہیں دے سکتے،دنیا بھر کے باقی دیشوں میں پڑھے لکھے لوگ اسلام کوپڑھ کراورسمجھ کر اسلام اپناتے ہیں، لیکن بھارت میں مسلمان بننے سے پہلے یہ بھی خود کوطے کرنا ہوتا ہے کہ وہ کونسا مسلمان بنے گا،مطلب یہ کہ دیوبندی بنے گا، بریلوی بنے گا یااہلحدیث اوروہابی بنے گا،ان مسالک کے کچھ علماء کاآپس میں آمناسامناہوتاہےتو وہ ایک دوسرے کونفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں،ہرفرقہ دوسرے فرقہ والے سے سلام بھی نہیں کرسکتاکیونکہ اس کوبھی گناہ ماناجاتاہے کیونکہ وہ ان کو مسلمان ہی نہیں مانتے،تویہ حال ہے بھارتی مسلمانوں کااٹوٹ اتحاد واتفاق کا‘‘۔علامہ اقبالؔ رحمہ اللہ نے بھی اپنے دل کےدردکوالفاظ کاجامہ پہنایاہے،ظاہرہے یہ صورتحال ہردل دردمندکوغمزدہ اوراشکبارکرتی ہے۔

شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو!

ان ناخوشگوارحالات کے پس منظرمیں ہرمکتبہ فکرکے مسلمانوں کواس آئینہ میں اپنی تصویرضروردیکھناچاہیے،اپنے فکری و نظری اختلافات کوبھول بھال کرآپسی اتحاد واتفاق کی ایک عظیم مثال قائم کرناچاہیےتاکہ اغیارکوانگشت نمائی کاموقع نہ مل سکے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے عالم میں مختلف بنیادوں پر اختلاف وانتشارہے،شکست وریخت کا دوردورہ ہے، تعمیر و تخریب جاری ہے،ایسے میں مسلمانوں کواسلام نے جو عزت و شوکت عطاکی ہے اورجووقارواعتباربخشاہے وہ زندہ وتابندہ رہے۔

سارےمسلمان خواہ وہ کسی مسلک ومشرب کومانتے ہوں وہ سب کے سب کتاب وسنت کے منصوص اعتقادات واحکامات پرمتفق ہیں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہےان بنیادوں پراپنے اتحاد واتفاق کواٹوٹ اورمضبوط بنائیں،اس وقت مسلمان اپنے فقہی مسالک اور فروعی مشربی افکارونظریات سے اونچے اٹھ کر اسلام کے اہم پیغام’’ وحدت امت ‘‘کوعملا عام کریں۔اللہ سبحانہ نے اس امت کواسلام کے پیغام رحمت کی اشاعت کاامین بنایا ہےاس لئے وہ اپنے اس ذمہ دارانہ منصب کی لاج رکھیں،باطل سے نبردآزما رہتے ہوئےحق کوقائم کرنے کی سنجیدہ کوششیں جاری رکھیں، جزوی و فروعی مسائل کی بنیادپر فکرونظرکے جوقلعہ تعمیر کر لئے گئے ہیںان کومنہدم کریں،اسلام نے جن پاکیزہ اہداف کی امانت مسلمانوں کے سپردکی ہے اس کواپنے غیرمسلم بھائیوں تک ایسے پہونچائیںکہ ہرکوئی حق کا شناسابن جائے قلب ونظرمیں اسلام کی محبت رچ بس جائے۔

موجودہ ناگفتہ بہ حالات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیںپھربھی مسلک ومشرب کی ترویج واشاعت ہی کودین حق کی اشاعت سمجھناسخت نادانی ہےتوپھرکہاں رواہے کہ ان بنیادوں پرایک دوسرے پرکوہِ آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑیں، بغض وعنادکی آگ کی چنگاریوں سے امت کے اتحاد و یکجہتی کی عمارت کوجلاکرخاکسترکریں ،یہ آگ سلگتی رہے ،بھڑکتی رہے تو اپنے ہی بھائی اس میں جلیں گے،اب بھی نہ جاگیں توپتہ نہیں وہ آگ اپنی لپیٹ میں لیکرکب تک مسلمانوں کوشعلہ زن کرتی رہے گی کچھ کہانہیں جاسکتا۔مسلمان خوداپنے درمیان مسلکی بنیادپرنفرت کی دیواریں کھڑی کرلیں توپھریہ اسلام مخالف طاقتوں کی طرف سےآنے والےنفرت کے سیلاب پرکیسے بند باندھ سکیں گے؟

اسلام تویہ چاہتاہے کہ مسلمان اتحادویگانگت کے ساتھ اسلام کے علمبرداربنکراسلام کا پرچم عالم میں لہرائیں،اجڑے دیار کو آباد کریں،باطل کی خارزارراہوں میں ایمان واسلام اور پیار و محبت کے پھول بچھائیں،رحمت سے مملو اسلام کے پاکیزہ اصولوں کےبادل بن کرباطل کے آسمان پرچھاجائیں اور رحمت و رأفت، الفت ومحبت کی بارش برسائیں۔سیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فیض نگاہ سے ٹوٹے دل جڑگئے تھے،ذلت ورسوائی کی پستیوں سے نکل کرعظمت ورفعت کے آسمان پرچمکتے ستارے بن کر جگمگائے تھے،اس عظیم انقلاب نے تاریخ عالم کا رخ موڑ دیا تھا، مغرور و متکبر متواضع ومنکسرالمزاج اور خود غرض انسان اخلاص وایثارکاپیکربن گئے تھے،یہ ایک ایسا صالح انقلاب تھا جس نے عالم بشریت کی تقدیربدل دی تھی،آج بھی روحانی اعتبار سے تشنہ انسانیت شربت حق کے ایک جرعہ کے لئے ترس رہی ہےکہ کوئی آئے اوران کی پیاس بجھائے،باطل کی ظلمتوں میں بھٹکنے والےایسے روشن چراغ کے منتظرہیں جوان کوحق کی راہ دکھائے۔ امت مسلمہ ان اہداف کی امین ہے یہ امانت امت دعوت تک نہ پہونچانے کی وجہ امت کی کشتی مصائب وآلام کے منجدھارمیںہےاس کوساحل کےکنارہ لگانےکی یہی ایک راہ ہے کہ اسلام کے عالمگیرپیغام ہدایت کواروں کوتک پہونچائیں، کفر وشرک کی سخت تاریکیوں میں بھٹک رہی انسانیت کوراہ ہدایت کے اجالوں میں لائیں۔اپنے اورپرائے کی تخصیص کے بغیرعدل وانصاف کوقائم کریں،ہرطرح کےظلم وجورکی بیخ کنی کریں،وقت پڑنے پرظالم طاقتوں سے پنجہ آزمائی کےلئے تیاررہیں، یہ کام مشکل ضرورہے لیکن ان کےلئے آسان ہےجن کا ظاہروباطن یکساں ہو ،اخلاق وکردارپختہ ہوں،فراست ایمانی،بصیرت قلبی سےسینے معمور ہوں،جذبہ ایثاروقربانی سےسرشار ہوں، سیرت کی پاکیزگی،معاملات کی درستگی سے دوسروں کومتاثر کریں ۔

اب جبکہ خاص طورپربھارت دیش میںاسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کالاواپک رہاہے،کفروشرک کے ظلمت کدے باطل کی تاریکیوں کوپھیلانے اوراسلامی اصول واقدار، تہذیب وشناخت کے روشن میناروں کو زمیں دوزکرنے کی سازشوں کے گڑھ بنے ہوئے ہیں۔پہلے مسلم پرنسل لاء میں مداخلت کا دروازہ کھولاگیا،بتدریج کئی ایک اسلامی قوانین پرہاتھ ڈالا گیا، آہستہ آہستہ ایسے قوانین رواج دینے کی کوشش کی گئی جواس کے مخالف ہیں،خاص طورپرطلاق ثلاثہ کوبلاوجہ نزاع کاباعث بنایا گیا اور یہ بات جتائی گئی کہ یہ قانون حکومت نے مسلم بہنوں کو انصاف دلانے کےلئے کیاہےیہ کس حد تک صداقت پرمبنی ہے روز روشن کی طرح سب پرعیاں ہےاوراب ’’نکاح حلالہ،کثرت ازواج‘‘ جیسےمسائل کوبلاوجہ بحث کا موضوع بنادیاگیاہےممکن ہے خالص اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کی بنا اچھالا جارہا ہو یا اسلام کےخلاف دل کے پھپھولے پھوڑنےکے ناپاک جذبہ سے اس کو عدالت تک پہونچایا گیا ہواس پرکچھ کہانہیں جاسکتا۔

اس وقت حجاب کا موضوع کرناٹک کی سرحدوں سے نکل کر پورے بھارت کا موضوع بننے جارہاہے،بابری مسجدکادردناک سانحہ ہی کیا کم تھا کہ جمہوریت دشمن طاقتوں نےتاج محل،قطب مینارجیسی تاریخی عمارتوں کوبزورطاقت ہندومذہبی مقامات ثابت کرنےکی سازش رچی، اس وقت گیان واپی مسجد کے خلاف محاذ کھڑا کیا گیا افسوس اس بات کاہے کہ آج جوفیصلہ ہواہے اس نے مسلمانوں پرایک اورکاری ضرب لگایاہےاوراورکئی مساجدان کے ناپاک ایجنڈہ میں شامل ہیںجن کووقفہ وقفہ سے اٹھایا جاتا رہے گا تاکہ ہندو ووٹ بنک مضبوط ہو،ظاہرہےجوحکومتیں رعایا کی فلاح وبہبودکے بارے میں سنجیدہ نہ ہوں ،روزگارکے ذرائع بند ہوں، شہری سطح غربت سے نیچے زندگی بسرکررہے ہوں،بھوک و فاقہ سے اپنی جانیں گنوارہے ہوںاس سے ان کوکوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس وقت بھارت کی معیشت انتہائی گراوٹ کا شکار ہے حکومت کاکام غریبوں کوچھت فراہم کرناہےنہ کہ غریبوں کے خون پسینہ بہاکرگاڑھی کمائی سےبنائے مکانات پر بلڈوزر چلا کر زمیں دوزکرنا،یہ اوراس طرح کے کئی ایک اہم مسائل ہیں جو خاص طورپرملک کی بڑی مسلم اقلیت کےلئےچھیڑے گئے ہیں۔

امت کے اختلاف وانتشارکافائدہ اٹھاکربھارت میں جمہوریت دشمن طاقتیںجو خونچکاں داستانیں رقم کررہی ہیںوہ اتنی درد انگیز ہیں جس سےجمہوریت پسندمسلم وغیرمسلم انسان دوست غم سے کراہ رہے ہیں،ان کے دل زخموں سے چھلنی ہیں، ہر کوئی فریادرساں ہےکہ ملک کی یکجہتی وسالمیت پرکوئی آنچ نہ آئے، دستور سے جو کھلواڑ ہورہا ہے وہ بند ہو، شرانگیز فتنہ پسند درندوں پرشکنجہ کساجائے۔بڑی خوش آئندبات یہ ہے کہ انصاف پسندجمہوری قدروں کے پاسدارانسان دوست کئی غیر مسلم بھائی بہنیں ظلم کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ صف آراء ہیں۔

کیا اب بھی وقت نہیں آیاہےکہ سارے مسلمان خواہ وہ شیعہ ہوں کہ سنی اوران دونوں کے ذیلی طبقات کلمہ کی بنیادپرایک ہوںاوردشمن طاقتوں کوملت کی وحدت کوبے دردی سے پارہ پارہ کرنے کی ہمت نہ ہو،اب بھی غفلت سے نہ جاگیںتوپھراللہ سبحانہ کی نصرت سے محروم رہیں گےممکن ہے کہ چشم زدن میں الحاد و دہریت کے طوفان اٹھیں گے اوراسلام کے بنیادی اعتقادات اور اس کے احکام ومسائل کی مضبوط بنیادوں میں دڑار پیدا کردیں گےاورمسلمان جواسلام کی اہم بنیادوں پرمتحدومتفق ہونے جارہے ہیں اس کومتزلزل کرنے کی سازش رچتے رہیں گے۔ الامان والحفیظ

ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت اسلامیہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا (آل عمران؍۱۰۳)کی کامل آیت پاک کا مطالعہ کریںاوراس کا مفہوم دلوں پرکندہ کرلیں اوراس پوری آیت پاک میں امت پرکئے گئے جس انعام کاذکرفرمایاگیاہےاس کاعملاشکرانہ اداکریں،علامہ قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں: وأمرنا بالاجتماع على الاعتصام بالكتاب والسنة اعتقادا وعملا،وذلك سبب اتفاق الكلمة وانتظام الشتات الذي يتم به مصالح الدنيا (تفسیر قرطبی:۴؍۱۶۴)۔اس آیت میں اللہ سبحانہ نے ہم کو حکم دیاہے کہ اعتقادی وعملی طورپرسارے مسلمان ملکرکتاب وسنت کی رسی کومضبوطی سے تھام لیںاوریہی اتحادکااہم سبب ہوسکتاہے،اسی سے انتشاروپراگندگی کاخاتمہ ممکن ہے اوراسی اتحادواتفاق کی نعمت سے ہماری زندگی پرسکون بن سکتی اورآخرت کامیابی سے ہمکنارہوسکتی ہے، دین ودنیا کےحالات اسی سے سنورسکتے ہیں۔

دل دردمند اور فکر ارجمند کے مالک سارے مسلمان علامہ اقبالؔ رحمہ اللہ کی زبان میں دست بدعاہیں،اللہ سبحانہ اس کوقبول ومنظورفرمائے(آمین)۔

یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے، جو رُوح کو تڑپا دے
پھر وادیِ فاراں کے ہر ذرّے کو چمکا دے
پھر شوقِ تماشا دے، پھر ذوقِ تقاضا دے
محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بِینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اَوروں کو بھی دِکھلا دے
بھٹکے ہوئے آہُو کو پھر سُوئے حرم لے چل
اس شہر کے خُوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے
٭٭٭