مذہب

دینی مدارس کا ایک سروے

دینی مدارس کا ایک سروے تو حکومت کررہی ہے۔ حکومت کو فکرہے کہیں کوئی مدرسہ دہشت گردانہ کاروائی میں تو ملوث نہیں ہے، حکومت کو فکر ہے کہیں کسی مدرسہ میں غیر قانونی فنڈنگ تو نہیں ہورہی ہے۔

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

دینی مدارس کا ایک سروے تو حکومت کررہی ہے۔ حکومت کو فکرہے کہیں کوئی مدرسہ دہشت گردانہ کاروائی میں تو ملوث نہیں ہے، حکومت کو فکر ہے کہیں کسی مدرسہ میں غیر قانونی فنڈنگ تو نہیں ہورہی ہے۔ حکومت کی نیت کی کھوٹ کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ اس نے صرف مسلمانوں کی تعلیم گاہوں کو اپنا نشانہ بنایا ہے۔ حکومت کے نزدیک جو مسلمان ہیں وہ غدار ہیں داغدار ہیں اور جو مسلمان نہیں ہیں اور ہندو ہیں وہ ایماندار ہیں وفادار ہیں۔ لیکن یہاں ایک دوسری نوعیت کا سروے کیا گیا ہے۔ یہ حکومت کے سروے سے مختلف ہے اور یہ سروے ایسے مخلصین نے کیا ہے جو مدارس کے مقام اور مقصد سے واقف ہیں۔

مدرسہ کے فضلاء اور فارغین کا اصل کام یہ ہے کہ وہ زندگی کے میدانوں میں دنیا کی رہنمائی کرسکیں اور زندگی کے کشت زاروں میں مولانا علی میاں کے بقول قرآن وحدیث کے چشمہ حیواں سے پانی ڈال سکیں۔ لیکن سروے رپورٹ یہ ہے کہ مدرسوں کے فضلاء کو زندگی کے کشت زاروں سے واقفیت ہی نہیں ہوتی ہے، وہ چشمہ حیواں سے پانی کشت زاروں میں کیسے ڈال سکتے ہیں، اس لئے وہ اس مشن سے عہدہ برآ ہونے میں پورے طور ناکام ہیں۔ وہ دنیا کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے سے قاصر ہیں۔ دنیا کے تمام علوم وفنون اور نظریات جن سے زندگی کی تعمیر یا تخریب ہوتی ہے وہ کشت زار ہیں جن سے واقفیت اور جن کی اصلاح مدارس کے فارغین کا فریضہ منصبی ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق یہ فارغین ان کشت زاروں سے بالکل واقف نہیں ہوتے ہیں۔

مدرسہ کے فضلاء کو نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ پوری دنیا کی فکری اور مذہبی قیادت کرنی چاہئے۔ جب سروے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ مدرسہ کے فضلاء قیادت کا فرض ادا کرنے میں ناکام ہیں البتہ وہ مسجد میں امامت کرسکتے ہیں، تراویح پڑھا سکتے ہیں، محلہ میں کسی کی موت ہوجائے تو وہ نماز جنازہ پڑھا سکتے ہیں۔ دینی مدارس کے فارغین قیادت اور رہنمائی سے قاصر اس لئے ہیں کہ دنیا میں سماجی علوم اور معاشیات کی دنیا میں اور سائنسی علوم میں نظریات کا جو سیلاب آتا ہے اور ان کی وجہ سے جو انقلابات آتے ہیں حکومتیں بنتی اور بگڑتی ہیں (جیسے انقلاب فرانس، انقلاب روس اور ہندوستان میں ’’ہندتوا‘‘ کے نظریات وغیرہ) ان کی ابجد سے بھی وہ واقف نہیں ہوتے ہیں، وہ اسلامی معاشیات کی برتری بھی ثابت نہیں کرسکتے۔ پھر وہ تعطل کا شکار ہوجاتے ہیں اور افکار و نظریات کی دنیا کی قیادت سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں۔

مدارس میں فلسفہ یونان کی کتاب ’’میبذی‘‘ پڑھائی جاتی ہے لیکن جدید فلسفہ سے جس کی آج دنیا میں حکمرانی ہے جس کی وجہ سے مذہب کے خلاف دنیا میں بغاوت ہوئی ہے جیسے ڈارون کا نظریہ ارتقاء، فرائڈ کا نظریہ لاشعور و جنسیت، کارل مارکس کا نظریہ سوشلزم وغیرہ ان نظریات نے کروڑوں لوگوں کے دل و دماغ کو بدل دیا ہے۔ سروے رپورٹ یہ کہتی ہے کہ دینی مدارس کے فارغین نظریات کی دنیا میں اسلام کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہیں۔ آئن اسٹائن کی نظریہ اضافیت پر مولانا عبد الباری ندوی کی شاہکار کتاب مذہب اور سائنس (مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنؤ) ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی کتاب ’’قرآن اور علم جدید‘‘ (اسلامی اکیڈمی لاہور ) اور مولانا وحید الدین خان کی کتاب ’’علم جدید کا چیلنج‘‘ وغیرہ میبذی جیسی کتابوں سے ہزار درجہ بہتر ہیں لیکن یہ کتابیں مدارس کے فارغین نہیں پڑھتے ہیں۔ زیادہ تر فارغین ان کتابوں کو جانتے بھی نہیں ہیں۔

مدارس عربیہ کی اولین ذمہ داری تھی کہ وہ جدید علم کلام تیار کرتے اور نئے اسلوب میں اسلام کی برتری اور افادیت ثابت کرتے لیکن سروے رپورٹ بتاتی ہے کہ جدید علم کلام تیار کرنے کی بات تو دور کی ہے، مدارس دینیہ کے فضلاء ان کتابوں سے بھی واقف نہیں ہوتے جو جدید علم کلام کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ جہاد وہ موضوع ہے جو مستشرقین کی طرف سے سب سے زیادہ تنقید اور اعتراض کا نشانہ رہا ہے، ان اعتراضات کا جواب دینے کے لئے ’’الجہاد فی لاسلام‘‘ لکھی گئی۔ بیشتر دینی مدارس کے فضلاء جدید علم کلام کے لٹریچر سے واقف نہیں، انہیں علم نہیں کہ سود اور جدید معاشی نظریات پر تنقید میں کیا کتابیں ان کی زبان میں تیار ہوئی ہیں۔ سروے رپورٹ کہتی ہے کہ مدارس کے فارغین کو خبر ہی نہیں کہ کن نظریات پر اس دور کا سماجی اور معاشی نظام چل رہا ہے۔ تہذیب کی بنیاد کیا ہے اور دنیا کی تہذیبوں میں اختلاف کیوں ہے اور تہذیبوں کے ٹکرائو کی بات کیوں کی جاتی ہے اور اسلامی تہذیب کی سخت مخالت کیوں ہے۔ اور دنیا کی فکری قیادتوں کا مقابلہ کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ مدرسہ کے فارغین کی نگاہ محدود ہوتی ہے اور ان کا ثقافتی دائرہ محدودتر ہوتا ہے۔ اور ان کی فکری بصیرت کی دیگ کے سارے چاول کچے رہ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ خارجی مطالعہ کا نقص ہوتا ہے۔ نصابی کتابوں اور شروح وحواشی کے سوا وہ کچھ نہیں جانتے ہیں۔

قرآن میں ہے: وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ۔ یعنی ہم نے تمام رسولوں کو اپنی قوموں سے قوم کی زبان میں بات کرنے اور سمجھانے کے لئے بھیجا۔اس پیغمبرانہ مشن پر عمل کا تقاضہ یہ تھا کہ ہندوستان میں جو دینی مدارس قائم کیے جاتے وہ ایسے ہوتے کہ ان سے فارغ ہوکر علماء قوم کو اور برادران وطن کو ان کی زبان میں خطاب کرنے کے لائق ہوتے لیکن سروے رپورٹ بتاتی ہے کہ دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم کے قیام کے وقت سے ایک دینی مدرسہ بھی ایسا قائم نہیں ہوسکا جن کے فضلاء قوم کو قوم کی زبان میں خطاب کرنے کے اہل ہوتے۔ مدرسوں میں انگریزی پڑھنے کی بھی مخالفت کی گئی تھی۔ اس لئے ہمارے دینی مدارس کے فارغین ’’خیر امت‘‘ کے اعزاز کے مستحق نہیں بن سکے کیونکہ ان کے اندر ’’اخرجت للناس‘‘ کے لئے جو ضروری صلاحیتیں درکار تھیں وہ پیدا نہیں ہوسکیں وہ ’’الناس‘‘ کے بجائے صرف مسلمانوں کے اندر زور خطابت دکھانے کے لائق رہ گئے۔ سروے رپورٹ کہتی ہے کہ دینی مدارس کے علماء اب خیر امت کے اعزاز سے محروم کردئیے گئے ہیں۔ اس لئے کہ خیر امت کی کوالٹی ان کے اندر نہیں پائی جاتی ہے۔ تصور کیجئے کہ ہندوستان میں پھیلے ہوئے دینی مدارس اپنے اپنے علاقہ کی لسان قوم میں ’’قوم‘‘ میں دین کے تعارف کا کام انجام دیتے تو صورت حال برعکس ہوتی اور مسلمانوں کو کوئی شکایت نہ ہوتی اور راوی چین ہی چین لکھتا اور وہ سربلند ہوتے۔

مصر و شام اور دوسرے مسلم ملکوں میں فقہ کی تعلیم میں وسیع النظری ہوتی ہے اور ’’الفقہ علی المذاہب الاربعہ ‘‘جیسی بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، لیکن ہندوستان کے دینی مدارس کے فارغین فقہی موشگافیاں بہت کرتے ہیں۔ نہ ان کے پاس کارجہاں بانی ہے اور نہ کارجہاں بینی۔ ان کا کام یہی ہے کہ اپنے مسلک کو قرآن وحدیث سے ثابت کرتے رہیں۔ حدیث کی کتابیں بھی فقہ حنفی کو ثابت کرنے کے لئے وہ پڑھاتے ہیں۔ بخاری کے استاذ ’’قرأۃ فاتحہ خلف الامام‘‘ پرحنفی مسلک کے ثبوت کے لئے کئی کئی دن تک تقریر فرماتے ہیں۔ اساتذہ طلبہ سب مسلکی تنگ نظری کا شکار ہوتے ہیں۔ چاہے پورے ملک میں مسلمانوںکی شبیہ خراب ہوجائے۔ چاہِے سپریم کورٹ ان کے خلاف فیصلہ دے دے۔ چاہے پارلیمنٹ میں ان کے خلاف قانون پاس ہوجائے مدارس کے علماء حنفی مسلک کو چھوڑنے اور کسی دوسرے فقہی مسلک کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ اگر امام ابوحنیفہؒ بھی موجود ہوتے تو ان کے اس حنفی تشدد کو پسند نہیں کرتے لیکن ہمارے دینی مدارس کے فارغین میں مسلکی تشدد ان کے ضمیر اور خمیر میں داخل ہو گیا ہے۔ اسی لئے علامہ اقبال کو بھی اپنی ’’سروے رپورٹ‘‘ میں کہنا پڑا ’’دین ملا فی سبیل اللہ فساد‘‘۔

٭٭٭