مذہب

آثار مبارک

ذات پاک حضرت محمدمصطفیٰ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم سے اہل اسلام کو ہمیشہ سے ہی بے پناہ محبت رہی ہے۔ حق اور حضرت حق تعالیٰ اسی رحمت للعالمین کے ذریعہ عیاں ہوئے ہیں۔

سید شجاعت اللہ حسینی بیابانی

ذات پاک حضرت محمدمصطفیٰ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم سے اہل اسلام کو ہمیشہ سے ہی بے پناہ محبت رہی ہے۔ حق اور حضرت حق تعالیٰ اسی رحمت للعالمین کے ذریعہ عیاں ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت، رسالت، علوم، کمالات، مقامات اور احوال کو ختم کردیا گیاہے۔ کوئی مقام بلند اور کوئی مرتبہ اعلیا ایسا نہیں ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا نہ کیا گیا ہو۔ بعد از خدا بزرگ توئی قصّہ مختصر۔گنج مخفی یعنی اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ ظاہر ہو اور جانا جائے اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے نورسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو پیدافرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے سارے مخلوقات کو پیدا فرمایا۔ مرتبہ رسالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظیر ممکن نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض ہر زمانہ کے لوگوں پر عام تھا اور رہے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہر شئے مقدس، متبرک، محترم اور بے مثال قرار پاتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار مبارک، باقیات اور متروکات سارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک نشانیاں ہیں اور با برکت ہیں اور یہ برکت ان میں اس ذات با برکت خالق کل اللہ رب العالمین سے آئی ہے جسکے دست قدرت میں دونوں جہانوں کی سلطنت عظمیا ہے۔تابوت سکینہ کا ذکر سورہ بقرہ میں ، حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص کا ذکر سورہ یوسف میں مقدس وادی طویا کا سورہ طہ میں وغیرہ۔ تابوت سکینہ انبیاء کرام کے آثار مبارک کا حامل بابرکت صندوق: قرآن المجید و الفرقان الحمید میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کےآثار مبارک یا باقیات کو ‘ مِّمَّا تَرَکَ فرمایا ہے اور ان کی تعظیم و توقیر کرنے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا کہ اگر (تم )ایمان رکھتے ہو( تو) تمھارے لئے اس میں بیشک بڑی نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ:اور ان سے(یعنی قوم بنی اسرائیل سے) ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس تابوت آئیگا جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین( یعنی سکینہ) ہے اور کچھ باقیات( بچی ہوئی چیزیں) معزز موسیٰ علیہ السلام اور معزز ہارون علیہ السلام کے ترکہ کی اسے فرشتے اٹھاتے لائیں گے ۔

اگر (تم) ایمان رکھتے ہو (تو) تمھارے لئے اس میں بیشک بڑی نشانی ہے ۔(البقرہ: 248) تفاسیرمیں ،تابوت سکینہ شمشاد(شیشم) کی لکڑی کا ایک صندوق تھا ۔امام فخر الدین رازیؒ فرماتے ہیں :اس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا اس میں تمام انبیاء علیہم السلام کی تصاویر اور متروکہ اشیاء تھیں ۔یہ آثار مبارک کا حامل متبرک صندوق وراثتاً منتقل ہوتا ہوا حضرت موسٰی علیہ السلام تک پہنچا۔ آپ اس میں توریت بھی رکھتے تھے اور اپنا مخصوص سامان بھی ، چنانچہ اس تابوت میں توریت کی تختیوں کے ٹکڑے بھی تھے اور حضرت موسٰی علیہ السلام کا عصا اور آپ کے کپڑے اور آپ کی نعلین مبارکین (جوتے)اور حضرت ہارون علیہ السلام کاعمامہ اور ان کا عصااور تھوڑا سا من (جنتی کھانا) جو بنی اسرائیل پر نازل ہوتا تھا۔حضرت موسی علیہ السلام جنگ کے موقعوں پر اس صندوق کو آگے رکھتے تھے اس سے بنی اسرائیل کے دلوں کو تسکین رہتی تھی ۔

آپ کے بعد یہ تابوت بنی اسرائیل میں متوارث ہوتا چلا (نسل در نسل منتقل ہوتا ) آیا جب انہیں کوئی مشکل درپیش ہوتی وہ اس انبیاء علیہم السلام کے آثار حامل تابوت کو سامنے رکھ کر دعا ئیں کرتے اور اسکی برکت سے دعائیں اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوتیں اور وہ کامیاب ہوتے۔ دشمنوں کے مقابلہ میں اس کی برکت سے فتح پاتے ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام ، صدیقین کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ،شہدا کرام و صالحین کرام رحمت اللہ تعالیٰ علیہم کے تبرکات کا اعزاز و احترام لازم ہے ان کی برکت سے دعائیں قبول ہوتی اور حاجتیں روا ہوتی ہیں ۔اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ رب عزت نے اس آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا: اگر (تم) ایمان رکھتے ہو(تو) تمھارے لئے اس میں بیشک بڑی نشانی ہے ۔اللہ تعالیٰ نہ صرف انبیاء کرام علیہم السلام کو چاہتا ہے بلکہ ان کی استعمال کردہ و ان سے منسوب اشیاءکو بھی چاہتا ہے اور ان میں برکت عطا کرتا ہے اور ان کے وسیلہ سے کی جانے والی دعاؤں کو قبولیت کا درجہ عطا کرتا ہے۔ سورہ الحج میں اللہ تعالیٰ ان مقدس نشانیوں اورآثار مبارک کو شَعٰٓئِرَ اللہِ فرمایا ہے اور ان کی تعظیم کرنے کی ہدایت فرمائی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ترجمہ: بات یہ ہے اور جو اللّٰہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔(الحج: 32)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہمابیان کرتے ہیں: "لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثمود کی سر زمین حجر میں اترے اس کے کنویں سے پانی نکالا اور اس پانی سے آٹا گوندھا۔ انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس (پلید)وادی کے کنویں سے جو( ناپاک )پانی نکالا گیا ہے اسے پھینک دو اور گوندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلادو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ اس (مبارک) کنویں سے پانی لیں جس پر حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی آئی تھی(یعنی پانی پی تھی)۔(صحیح البخاری)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ حضرت صالحہ علیہ السلام کی اونٹنی کے کنویں سے پانی لو انبیاء و صالحین کے آثار سے تبرک حاصل کرنے پر دلیل ہے۔اگرچہ زمانے گزر چکے ہوں اور ان کے مبارک آثار آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہوں۔(تفسیر جامع الاحکام القرآن)

حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: "میں نے دیکھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سرخ چمڑے کے خیمہ میں تشریف فرما ہیں اور میں نے دیکھا کہ بلال حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کرنے کے بعد بچا ہوا پانی پی رہے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ لوگ ( حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم) بے صبری سے (وضو کا) استعمال کیا ہوا پانی حاصل کررہے ہیں اور جس کسی (صحابی) کو ملا وہ اسے اپنے بدن پر مل رہا ہے اور جس کسی کو کچھ نہ ملا وہ دوسروں کے ہاتھ سے اسکی نمی لے رہا ہے۔” (صحیح بخاری: 1: 373)حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار مبارک میں سب سے زیادہ جو چیز عام طور پر شہر وں اور قریوں میں بصد احترام ، قلوب مضطر کی تسکین کا ذریعہ بنی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اقدس و ریش مبارک کے بال ہیں۔ جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام و عشاقان، بڑے ادب و احترام کے پیش نظر "موئے مبارک” کہتے ہیں جو تمام آثار مبارکہ میں سب سے زیادہ متبرک و مقدس مانے جاتے ہیں ۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان آثار مبارکہ سے محبت،تعظیم اور توقیر فرمائی اور ان کی حفاظت اپنی جانوں سے زیادہ فرمائی ہے۔اپنی دلی تسکین و دماغی سکون حاصل کرنے کے لئے اور اپنے روحانی و مادّی مقاصد کی تکمیل کے لئے اسے واسطہ بنایا اور امراض خبیثہ و دفع بلیات کے لئے اس کا استعمال اسی پورے ادب و احترام سے فرمایا جیسے خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ کی موجودگی میں آپ سے حاصل کردہ کسی شئے کا کیا جاتا تھا۔

سنہ 10 ہجری میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بموقعہ حجتہ الوداع 10 ذوالحجہ کے دن بعد رمی جمار و ادائی قربانی حلق فرمایا (یعنی سر کے مبارک بال اتارے) حضرت معمار بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ(معززحجام) نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال (مبارک گیسو) اتارے جنہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں تقسیم فرمائے ۔یعنی بطور تبرک صحابہ کرام کوعطا فرمایا۔ صحیح البخاری و صحیح مسلم وغیرہ کی احادیث مبارکہ میں ان مبارک گیسوں یاموئےمبارک کو سب سے پہلے تبرکا” و احتراما” اور خوش عقیدت سے حاصل کرنے والے خوش نصیب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں امیر المومنین حضرت ابو بکر الصدیق ، حضرت ابو طلحہ، امّ سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا نام آتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں: "جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر (حضرت معمار بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ سے ) حلق فرمایا تو سب سے پہلے (حضرت) ابو طلحہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے بال (یعنی موئےمبارک) حاصل فرمائے۔ "(صحیح البخاری: 1: 172) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت فرمایا: ” حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجتہ الوداع کے موقع پر ) جب کہ منیا میں مقیم تھے، جانور کی قربانی کے بعد، معزز و مکرم حجام( حضرت معمار بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کو ہدایت فرمائی کہ پہلے دائیں جانب کے پھر بائیں جانب کے سر کے بال اتارے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (مقدس) بالوں کو اپنے اطراف موجود لوگوں (یعنی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم) میں تقسیم فرمادئے۔ (صحیح مسلم )صحابہ کرام موئے مبارک کو اپنے پاس بطور تبرک رکھا کرتے تھے اور اپنے ورثہ کو بھی بطور تبرک دیا کرتے تھے۔

اس طرح کا عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ جو محبان حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے مشرف نہ ہوسکے کم از کم انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار مبارکہ کا دیدار ہی ہوجاے۔ ان کی برکتوں و فیوض سے سرفراز ہوں۔ امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ” حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجام کو) اشارہ فرمایا کہ پہلے آپ کے سر کے دائیں جانب کے بال اتارے اور پھر ان کو لوگوں (یعنی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم) میں تقسیم فرمادیا۔ اسکے بعد بائیں جانب کے بال اتارے گئے اور انہیں لوگوں میں تقسیم کردیا گیا۔(صحیح مسلم ) حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا۔ چنانچہ اپنے موئے مبارک خود اپنے ہاتھوں سے تقسیم کرنا یہ عمل بھی اسی طرح کا ہے۔ترجمہ: اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللّٰہ و رسول نے ان کو دیا۔ترجمہ: اور کہتے ہمیں اللّٰہ کافی ہے۔ ہمیں اب اللّٰہ اپنے فضل سے اور اللہ کا رسول دیتا ہے ۔ترجمہ: ہمیں اللّٰہ ہی کی طرف رغبت ہے ۔ (سورہ: التوبہ: 59)

بیان کردہ احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےخود اپنے ہاتھ سے اپنے مقدس موئے مبارک (بال) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے درمیان تقسیم فرماے اور جو لوگ موجود نہیں ہیں ان تک پہچانے کے لئے ہدایت فرمائی ۔

حضرت عثمان بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”میری بیوی مجھے ایک پیالہ دیکر حضرت امّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں بھیجا۔وہ اس لئے کہ جب کبھی کوئی نظر بد کا شکار ہوتا یا بیمار ہوتا، تو ایک پیالہ میں پانی حضرت امّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں بھیجا جاتا۔ آپ کے پاس حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس موئے مبارک ایک چاندی کی ڈبیامیں محفوظ تھے اور آپ انہیں پانی میں ڈبویا کرتیں۔ مریض اس(متبرک) پانی کو پینے کے بعد صحتمند ہوجایا کرتے۔”(صحیح البخاری:2 : 875 ؛صحیح البخاری :کتاب:72، نمبر: 784؛ فتح الباری) علامہ ابن حجر عسقلانی نے فرما یا کہ: "جب کبھی کوئی کسی مرض میں مبتلاء ہوتا وہ (امّ المؤمنین) حضرت امّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت (اقدس) میں پانی کا پیالہ لیکر حاضرہوتا۔وہ لائے ہوے پانی کے پیالہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے (مقدس )موئے مبارک کو ڈبوتیں۔ اس پانی کو پینے پر آثار مبارک کی برکت سے وہ مریض صحتمند ہوجاتا۔”(فتح الباری: جلد 10: صفحہ: 432) مزید انہوں نے فرمایا کہ اس حدیث مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ھیکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک سے برکت حاصل کی جاسکتی ہے اور انکو اپنے پاس رکھنے کی اجازت بھی ثابت ہوتی ہے۔ حضرت سیدنا عثمان بن عبد اللہ بن محب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: "جب میں امّ المومنین حضرت امّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت (اقدس)میں حاضر ہوا تو وہ سرخ خضاب لگا ہوا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس موئے مبارک لیکر آئیں(تاکہ ہمیں اس کی زیارت کا شرف حاصل ہو) ۔(البخاری؛ ابن ماجہ)حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسلامی فوج کے بڑے بہادر اور کامیاب سپہ سالار) کے پاس حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دیا ہوا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشانی کا مقدس موئے مبارک تھا جسے آپ اپنے عمامہ میں رکھتے۔ جنگ میں جاتے وقت وہ عمامہ پہن کر جایاکرتے۔

چنانچہ جس جنگ میں وہ حصہ لیتے اس مبارک و مسعود موئے مبارک کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس جنگ میں ضرور فتح و کامرانی عطا فرماتا تھا۔(شمس التواریخ) حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جہاد میں دوران گھمسان لڑائی اپنا عمامہ ڈھونڈ رہے تھے۔ملنے پر دوبارہ اسے اپنے سر پر پہن لیا۔ اسکی ضرورت دریافت کی گئی تو فرمایا : "اس عمامہ میں موئے مبارک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اسی کی برکت سے میں ہر جہاد میں دشمنوں پر فتح پاتا ہوں۔مجھے یہ خوف ہوا کہ اسکی بے حرمتی سے کہیں اسکی برکت مجھ سے چھین نہ لی جائے۔(صحیح مسلم؛ قاضی عیاض: الشفاءجلد:1،صفحہ: 619) امام بخاری بیان کرتے ہیں : حضرت عبیدہ رحمتہ اللہ علیہ تابعی، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے دو سال بعد اسلام سے مشرف ہوئے۔ وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا چہرہ دیکھنے سے محروم رہے۔لیکن ان کے پاس حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک تھے۔ آپ فرماتے : "میرے پاس حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک ہیں جو مجھے دنیا و آخرت سے زیادہ پیارے ہیں۔

"(صحیح البخاری: کتاب الوضو)حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہدایت فرمائی کہ بوقت دفن ان کے زبان کے نیچے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک رکھے جائیں۔ چنانچہ بوقت دفن انکی زبان کے نیچے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک رکھے گئے۔” (الاصابۃ فی تمیز الاصحابۃ : جلد اول)۔ حضرت انس بن مالک کا یہ عقیدہ تھا کہ موئے مبارک کی برکت سے عالم برزق و روز محشر میں خیر ہی خیر کا معاملہ ہوگا۔ محمد بن سیرین رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عصاء مبارک تھا۔جب آپکا انتقال ہوا تو آپکی وصیت کے مطابق یہ عصاء آپکے کفن میں رکھا گیا۔(کنزالعمال: کتاب الفضائل)امام جلال الدین السیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے تحریر کیا :”حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( کاتب وحی ) کے پاس حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس موئے مبارک اور مقدس ناخن تھے۔

انکی وصیت تھی کہ بوقت دفن ان کے آنکھوں اور منہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس موئے مبارک اور مقدس ناخن رکھ کر انہیں دفن کیا جائے۔چنانچہ انکی وصیت کے مطابق ان متبرک آثار مبارک کو رکھ کر انہیں دفن کیا گیا۔(تاریخ خلفاء)حضرت شیخ عبد الحق دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک بیان میں فرمایا: ” حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند مقدس موئے مبارک امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس محفوظ تھے۔ آپ ان مقدس موئے مبارک کو ایک کمرے میں بڑے ہی عزت و اہتمام سے رکھے تھے اور ہر روز ایک مرتبہ اسکی زیارت فرمایا کرتے۔ جب کبھی کوئی خاص مہمان آتا تو آپ اسکو ان مقدس موئے مبارک کی زیارت کرواتے اور فرماتے ، "یہی میری دولت ہے””۔ (مدارج نبوہ؛ موئے مبارک ، فضائل و آداب) چنانچہ صحیح البخاری سے یہ ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور تابعین رحمت اللہ علیہم بطور برکت‎حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس موئے مبارک اپنے مکانات میں بڑے اہتمام و احترام سے رکھا کرتے تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس موئے مبارک کی فضیلت کے بارے میں صوفیا کرام و علماءکرام نے ارشاد فرمایا اس نیک عمل یعنی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس موئے مبارک کی زیارت کا مقصدبالکل واضح ھیکہ وہ امتی جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے محروم رہے وہ آپ کے آثار مبارک کا دیدار کا شرف حاصل کرسکتے ہیں ۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک در اصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جز ہیں۔ جزکی زیارت در اصل کل کی زیارت ہے ۔*حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار مبارک آج بھی دنیا کے ہر خطہ و ملک میں جہاں جہاں صوفیاء کرام وخوش عقیدہ مسلمان بستے ہیں وہاں بفضل اللہ تعالیٰ بڑے ادب و احترام سے محفوظ رکھے گئے ہیں اور انکی زیارت کا احتمام کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر توپ کاپی میوزیم استنبول ترکی میں تقریبا” 600 سے زائدآثار مبارک بڑے اہتمام و حفاظت سے رکھے گئے ہیں۔پوری دنیا سے لوگ ان آثار مبارک کی زیارت کے لئے آتے رہتے ہیں۔ تلنگانہ کے شہر حیدرآباد و اضلاع میں بھی آثار مبارک کی زیارت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
٭٭٭