سوشیل میڈیامذہب

اسکولوں میں لیٹ فیس لینا

ہم نے ایک اسلامی اسکول قائم کیا ہے ، جس میں غریب طلبہ کے لئے مفت تعلیم کا انتظام ہے ، اور جو صاحب ثروت ہیں ان سے پوری فیس لی جاتی ہے

سوال:- ہم نے ایک اسلامی اسکول قائم کیا ہے ، جس میں غریب طلبہ کے لئے مفت تعلیم کا انتظام ہے ، اور جو صاحب ثروت ہیں ان سے پوری فیس لی جاتی ہے ، اب جو بچے غیر حاضر ہوتے ہیں ہم لوگ ان سے لیٹ فیس کے نام پر رقم لیتے ہیں ، یہ رقم اس لئے لی جاتی ہے کہ اگر ہم ایسا نہ کریں توطلبہ اور زیادہ غیر حاضر ہونے لگیں گے اور ان کی کوئی تنبیہ نہ ہوسکے گی۔ (شجاع الدین، ملے پلی)

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

جواب :- اس بات میں اختلاف ہے کہ مالی جرمانہ لیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ چوںکہ مالی جرمانہ کے نام پر حکومت کے کارندے بڑی زیادتی کیا کرتے تھے ؛ اس بناء پر فقہاء نے عام طورپر اس کو منع کیا ہے ؛ لیکن طلبہ کی تنبیہ بھی ضروری ہے ؛ اس لئے اس کے جائز ہونے کی دو صورتیں ہیں :

(۱)جن طلبہ کی آپ نے فیس معاف کر رکھی ہے یا فیس کم کر رکھی ہے ، ان کے لئے آپ شروع ہی میں اُصول بنادیں کہ جتنے ایام غیرحاضر ہوں گے ، حاضر ہونے کے بعد اتنے ایام کی بھی تعلیمی فیس وصول کی جائے گی؛ کیوں کہ چاہے وہ نہیں آئیں، استاذ تو اُن کی تعلیم کے لئے موجود رہے، تو اب یہ جرمانہ نہیں ہوا ؛ بلکہ تعلیم دینے کی اُجرت میں شامل ہوئی اورتعلیم دینے پر اُجرت لینا جائز ہے ۔

(۲)داخلہ فارم پر لکھایا جائے کہ طالب علم جتنے دن غیر حاضر ہوگا ، فی یوم اتنے روپئے اسکول کی انتظامیہ کے پاس صدقہ کی رقم جمع کرے گا ، یہ رقم ضرورت مند اساتذہ ، کارکنان اور طلبہ پر خرچ کی جائے گی ، اگر بچے بالغ ہوں تو وہ خود اس اقرار نامہ پر دستخط کرے اور نابالغ ہوں تو ان کے سرپرست دستخط کریں ، اس کو فقہ کی اصطلاح میں ’ التزام ‘ کہتے ہیں ، یعنی اپنے آپ پر کسی چیز کو لازم کرلینا ، امام مالکؒ کے نزدیک التزام کی وجہ سے انسان پر وہ چیز لازم ہو جاتی ہے اور آج کل اسلامی فائنانس کے ماہرین نے نادہندگی کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے اس رائے کو قبول کیا ہے ، اسکولوں کی انتظامیہ بھی اس اُصول سے استفادہ کرسکتی ہے ۔

یہ دوسری صورت ایسی ہے جس کے ذریعہ فیس ادا کرنے والے طلبہ کا بھی مسئلہ حل ہوسکتا ہے – البتہ ضروری ہے کہ اس عمل میں لوگوں کی مجبوریوں کا خیال رکھا جائے ، تمام طلبہ کے لئے مساوی رقم متعین کی جائے ؛ تاکہ ظلم کی صورت پیدا نہ ہو ، جس کی وجہ سے فقہاء نے مالی تعزیر کو منع فرمایا تھا اور جس مد میں رقم دی جارہی ہے ، اسی مد میں یہ رقم خرچ کی جائے ۔