مذہب

 مسلم خواتین کے لئے عصری تعلیم 

بعض پڑھے لکھے لوگ بھی یہ کہتے ہیں کہ مسلم خواتین کو صرف دینی تعلیم ہی دینی چاہئے ، اور یہ کہ انہیں صرف پڑھنا سکھانا چاہئے ، لکھنا نہیں سکھانا چاہئے، کیا ہمارے لیے دنیاوی علم حاصل کرنے کی ممانعت ہے ؟

سوال:- اسلامی حدود میں رہتے ہوئے مسلم خواتین جدید عصری علوم مثلا ڈاکٹری کی تعلیم وغیرہ حاصل کرسکتی ہیں یا نہیں ؟ بعض پڑھے لکھے لوگ بھی یہ کہتے ہیں کہ مسلم خواتین کو صرف دینی تعلیم ہی دینی چاہئے ، اور یہ کہ انہیں صرف پڑھنا سکھانا چاہئے ، لکھنا نہیں سکھانا چاہئے، کیا ہمارے لیے دنیاوی علم حاصل کرنے کی ممانعت ہے ؟ برائے کرم اس موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر سے روشنی ڈالیں؟ (شگفتہ آفریں، رین بازار)

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

جواب:- اسلام بنیادی طور پر علم و تحقیق کے کاموں کا حامی ہے نہ کہ مخالف ؛ بلکہ اگر کہا جائے کہ مذاہب عالم میں یہ اس کا امتیاز ہے تو غلط نہ ہوگا؛ البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ علم انسانیت کے لئے نفع بخش اور مفید ہو ، عصری علوم بھی زیادہ تر نفع بخش اور فائدہ مند ہیں ، اور ان کے ذریعے انسانیت کی خدمت سر انجام پاتی ہے ،

اسلام نے مردوں کی طرح عورت پربھی تعلیم کا دروازہ کھلا رکھا ہے؛اس لئے ایسے عصری علوم جو نافع ہوں ، اگر شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ مسلمان لڑکیاں حاصل کریں تو کچھ حرج نہیں ، خاص کر میڈیکل تعلیم تو لڑکیوں کے لئے نہایت ضروری ہے ، مرد ڈاکٹروں سے علاج میں خواتین بے پردگی سے دوچار ہوتی ہیں ،

بعض دفعہ تو نسوانی امراض کے لئے بھی ان ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور اس میں بے ستری اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے؛ بلکہ بعض اوقات ناخوشگوار واقعات بھی پیش آجاتے ہیں، خواتین ڈاکٹروں کی موجودگی سے یہ نوبت نہیں آئے گی؛ کیونکہ ایک عورت کا عورت کے سامنے بے پردہ ہونا مرد کے سامنے بے پردہ ہونے سے کمتر ہے ۔

شرعی حدود سے مراد یہ ہے کہ بے پردگی نہ ہو ، غیر محرم مردوں کے ساتھ تنہائی و خلوت نہ ہو، فتنہ کے مواقع سے بچنے کا اہتمام ہو ، ایسا علم نہ ہو جو شرعاً ناجائز ہو جیسے رقص و موسیقی وغیرہ کی تعلیم ، ایسی تعلیم نہ ہوجو عورت کی فطری صلاحیت اور دائرۂ کار کے مغائر ہو ، اور ان کا یہ تعلیم حاصل کرنا اپنے ولی کی اجازت سے ہو ،

یعنی شادی سے پہلے باپ کی ، اور شادی کے بعد شوہر کی اجازت ضروری ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کی علاحدہ درس گاہ قائم کریں؛ تاکہ لڑکیاں مخلوط تعلیم سے بچتے ہوئے شرعی حدود میں رہ کر تعلیم حاصل کریں۔

جہاں تک عورت کو کتابت سکھانے کی ممانعت کی بات ہے ، تو بعض موضوع روایتوں میں اس کا ذکر ہے (شعب الایمان: ۲/۷۷۴ ، حدیث نمبر : ۸۷۴/۴۵۴۲ ) جس کو محدثین نے من گھڑت اور بے اصل قرار دیا ہے (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ: ۵/۳۰، حدیث نمبر : ۷۱۰۲) صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہن میں مختلف خواتین کتابت سے واقف تھیں (فتوح البلدان ترجمہ اردو :۲/۲۵۲) حضرت شفاء عدویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا خط بہت اچھا ہوتا تھا ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خواہش فرمائی تھی کہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو لکھنا سکھا دیں (سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر : ۷۸۸۳ ) اس لئے عورتوں کو کتابت و تحریر سکھانے میں کوئی حرج نہیں ، بلکہ قباحت ان کو علم سے محروم رکھنے میں ہے ۔