مذہب

اقتباس از ’’آئینہ سیرت غریب نواز ؒ‘‘

بر صغیر میں اسلام کی روشنی کو پھیلانے میں بادشاہانِ زمانہ کاجو حصہ ہے اس سے کہیں زیادہ صوفیہ کرام واولیاء اللہ کی کوششوں و کاوشوں کا عمل دخل ہے اس بات کو ہر زمانہ کے مورخین بلا لحاظ مذہب و ملت مانتے رہے اور اس میں جو خدمات سلسلہ چشتیہ کی اکابر نے انجام دی اس کا انکار کرنے کی کوئی بھی جسارت نہیں کرسکتا خاص طور سے شمالی ہند کے بہت سارے علاقوں میں ابتداء اً ونیز بعد کے ادوار میں غیر منقسم ہندوستان کے سارے ہی حصوں کو یعنی شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک چشتی بزرگوں کی نسبت سے اسلام اور تعلیمات اسلام کے پھیلائو میں مدد ملی

مرسلہ: ڈاکٹر سید شاہ مرتضیٰ علی صوفی حیدرؔپادشاہ قادری
معتمد سید الصوفیہ اکیڈمی ‘پرنسپل ایس ‘ایم ‘وی کالج حیدرآباد

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

بر صغیر میں اسلام کی روشنی کو پھیلانے میں بادشاہانِ زمانہ کاجو حصہ ہے اس سے کہیں زیادہ صوفیہ کرام واولیاء اللہ کی کوششوں و کاوشوں کا عمل دخل ہے اس بات کو ہر زمانہ کے مورخین بلا لحاظ مذہب و ملت مانتے رہے اور اس میں جو خدمات سلسلہ چشتیہ کی اکابر نے انجام دی اس کا انکار کرنے کی کوئی بھی جسارت نہیں کرسکتا خاص طور سے شمالی ہند کے بہت سارے علاقوں میں ابتداء اً ونیز بعد کے ادوار میں غیر منقسم ہندوستان کے سارے ہی حصوں کو یعنی شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک چشتی بزرگوں کی نسبت سے اسلام اور تعلیمات اسلام کے پھیلائو میں مدد ملی یہی وجہ ہے کہ راعی ہو کہ رعایا راجہ ہو یا پرجا ہر کوئی ان بزرگوں سے بلا لحاظِ عقیدہ وفکر مدتوں فیضیاب ہوتے رہے ہیں اور جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے مگر اس میدان میں اولین اورعظیم الشان خدمات کا جب بھی ذکر ہوگا تو بے ساختہ سب کی زبانوں پر ایک ہی نام آئے گا اور وہ اجمیر کے والی‘ سلطان الہند ‘نائب النبی ‘عطائے رسول ‘خواجۂ خواجگان‘ہند الولی حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری غریب نواز ؒ کا نام ہے ۔

یوں تو حضرت کے حالات سوانح کرامات اور خصوصیات پر پچھلی تقریباً نو(۹)صدیوں سے ہر زمانہ اور ہر زبان میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے تاہم آپ کی سیرت و عظمت پرپچھلے دنوںشہزادۂ حضور غریب نواز ؒ حضرت مولانا خواجہ سید غیاث الدین حسینی چشتی مدظلہ العالی کی تقریظ کے ساتھ ایک مختصر مگر جامع ‘مدلل ومستند کتاب ’’آئینہ سیرتِ غریب نواز ؒ ‘‘ منظر عام پر آئی جسے ترتیب دینے کی سعادت راقم الحروف کو نصیب ہوئی جو جامع شریعت و طریقت سید الصوفیہ مفتی ومحدث فی الدکن حضرت ابو الخیر سید شاہ احمد علی صوفی صفیؔ درویش حسنی حسینی القادری چشتی جامع السلاسل قدس سرہ (المتوفی :۱۳۶۸ھ م ۱۹۴۹ء )و رہبر شریعت شیخ العالم مصباح المفسرین وقار الصوفیہ اعظم المشائخ حضرت علامہ ابو الاعظم قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی اعظمؔ درویش حسنی حسینی قادر ی چشتی مجمع السلاسل قدس سرہ (المتوفی : ۱۴۴۱ھ م ۲۰۲۰ئ)کی محققانہ تحریروں پر مشتمل ہے ۔اسی کتاب کے کچھ اقتباسات مضمونِ ھذا کے ذریعہ نذر قارئین ہیں۔نام مبارک:آپ کا نام نامی اسم گرامی ’ ’خواجہ معین الدین حسن ‘‘ہے ۔

والدین ماجدین:آپ کے والدبزرگوار کا نام ’’سید غیاث الدین ‘‘ہے جنھوں نے اصفہان میں جو ایران کا ایک حصہ ہے نشوو نماپائی اور ۵۴۸ھ میںبمقام عراق وفات پائی ۔ آپکی والدہ ماجدہ کا نام ’’بی بی ام الورع ما ہ نور ‘‘ ہے ۔ ایک اور روایت میں ’’بی بی خاص الملکہ ‘‘ ہے ۔ جنھوں نے بھی ۵۴۸ھ ہی میں وفات پائی ۔نسب پدری: آپ کا نسب شریف مختلف کتب میں ناموں کے اختلاف کے ساتھ امام موسیٰ کاظم ؓ کے ذریعہ حضرت مولاعلی کرم اللہ وجہہ تک پہنچتا ہے ۔ آپکا آبائی نسب اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ خواجہ معین الدین حسن بن خواجہ غیاث الدین حسن بن خواجہ نجم الدین طاھر بن سید عبد العزیز بن سید ابراھیم بن سید ادریس بن امام موسی کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام ابو عبد اللہ حسین شہید دشت کربلا بن سیدناعلی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ بن ابی طالب رضی اللہ عنہم۔ یہی نسب نامہ زیادہ تر کُتب ِسیر میں مرقوم ہے اور آپ کے نبیرہ اور آپکی بارگاہ کے دیوان(سجادہ نشین )سید امام الدین علی خاں چشتی ؒ (المتوفی ۱۳۳۰ھ م ۱۹۱۲ء) نے بھی اپنی معرکۃ الآراء فارسی کتاب ’’معین الاولیاء‘‘میں اسی کو اختیار کیا ہے۔

نسب مادری : بی بی ام الورع ماہ نور بی بی خاص الملکہ بنت سیددائود بن سید عبد اللہ الحنبلی بن سید زاہد بن سیدمحمد مورث بن سید دائود بن سید موسیٰ ثانی بن سید عبد اللہ ثانی بن سید موسیٰ الجون بن سید عبد اللہ المحض بن سید حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن مجتبیٰ بن سیدنا علی کرم اللہ وجہہ ورضوان اللہ علیھم۔ خطابات: ہند الولی ‘ ولی الہند ‘عطائے رسول آپ کے خطابات ہیں ۔ قطب المشائخ کا خطاب بارگاہ نبوی سے سرفراز ہوا۔ محبوب الٰہی کا خطاب پیر ومرشد کی جناب سے عنایت ہوا۔ خواجہ اجمیری ‘ نائب رسول فی الہند ‘سلطان الہند ‘معین الملت والدین ‘ دلیل العارفین ‘ تاج المقربین ‘برہان الواصلین ‘ قبلۂ چشتیاں ‘ خواجۂ خواجگاں ‘مخزن المعرفت‘ قدوۃ السالکین‘ وارث النبی فی الہندلیکن ہر کوئی’’ غریب نواز‘‘کے لقب سے یاد کرتے ہیں ۔

ولادت و وطن : آپ بوقت صبح صادق بروز پیر (دوشنبہ )کے دن ۱۴؍رجب ۵۳۷ھ قصبہ سنجر یا قصبہ سجستان بلدہ غور میں پیدا ہوئے۔ مادہ تاریخ ولادت ’’بدر المنیر‘‘ہے بعضوں نے آپ کا سن میلاد ۵۲۷ھ کہا ہے ۔آپ کا مولد دارسجستان اصل میںسیستان ہے جہاں کے رہنے والوں کو سینکر ی کہتے ہیں اوراُس کا معرب سنجری ہے اسلئے حضرت کے اسم گرامی کے ساتھ ’’سنجری ‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ آپ کا وطن سنجر ستان تھا ۔ سیستان مشرقی ایران میں واقع ہے جسے سجستان بھی کہتے ہیں بلاد عرب میں اسکو سجز کہتے ہیں اسلئے اس نسبت سے آپ کو سجزی بھی کہا جاتا ہے ۔

ابتدائی حالات: آپ کی نشو ونمادیار خراسان میں ہوئی ہے۔ آپ کی عمر گیارہ (۱۱) یا با رہ (۱۲)سال کی تھی کہ آپ کے والد ماجد اور والدہ ماجدہ کا وصال ہوگیا تین فرزندوں میں متروکہ تقسیم ہوا ۔ آپ کے حصہ میں باغ کا ایک قطعہ اور پن چکی کا کا رخانہ آیا۔ اُسی مقام پر حضرت ابراہیم قندوزیؒ مجذوب کامل تشریف رکھتے تھے۔ ایک روز آپ اُس باغ کے درختوں کی آبیاری میں مشغول تھے کہ وہ مجذوب اُس باغ میں آئے جب آپ نے اُن کو دیکھا دوڑ کر دست بوسی کی اور بڑی تعظیم وتکریم سے ایک سایہ دار درخت کے نیچے لاکر بٹھا یا اور بہت خاطر داری سے انگور کے خوشے اُن کے سامنے پیش کیا۔ مجذوب کامل انگور نہیں کھائے بلکہ اپنے جیب سے کھلّی کا ایک تکڑا نکالا اور منہ میں چباکر آپکو کھلادیا ۔جس کے ساتھ ہی انوار الٰہی دل میں متجلی(روشن) ہوئے اور جذبہ طریقت کی کشش ہوئی ۔گھر بار کی محبت معدوم اور دنیا ومافیھا سے دل سرد ہوا ۔ اُسی وقت باغ وغیرہ کو فروخت کرکے اُس کی قیمت فقراء اور درویشوں میںتقسیم فرمادیا۔ حضرت ابراھیم قندوزی ؒ سے ملاقات کے بعد بعمر (۱۵) سال ۵۵۲ ھ میں حصول علم کے لئے سمرقند کی طرف روانگی فرمائی۔

تحصیل علوم ظاہری :پہلے سمرقند اوربخارا جاکر وہاں علوم ظاہری کی تحصیل میں مشغول ہوئے ۔ بخارا میں حضرت حسام الدین بخاریؒ کی خدمت میں حاضر رہ کر قرآن شریف کا حفظ اور دیگر علوم ظاہری کی تکمیل کی اس سلسلہ میں مولانا شرف الدین ؒ کی خدمت میں بھی رہے پھر عراق( عرب) کی طرف متوجہ ہوئے۔

تلاش حق اور حضرت عثمان ہارونیؒ سے بیعت: جب قصبہ ہارون نواح نیشاپور میں پہونچے تو حضرت خواجہ عثمان ہارونی ( المتوفی ۶۱۷ھ )کے مریدہو کر علوم باطن کی تکمیل فرمائی ۔انیس الارواح کے مطابق پیر ومرشد سے ملاقات و بیعت بغداد میں واقع مسجد جنید بغدادی ؒ میں فرمائی۔ اور بیس برس چھہ ماہ کی مدت تک شیخ کامل کی صحبت و خدمت میں رہ کرریاضت ومجاہدات شاقّہ فرماتے رہے۔ زان بعد مرشد ارشد پیر کامل حضرت خواجہ عثمان ہارونی ؒ سے خرقہ خلافت کی نعمت پائی۔

اطاعت وخدمت پیر: حضرت عثمان ہارونیؒ نے ایک روز مجلس خاص میں حضرت غریب نواز ؒ کویاد کرکے فرمایا۔اے معین الدین !وضو کرو اور دو رکعت نفل ادا کرو پھر قبلہ رو بیٹھ کر پہلے سورہ بقرہ پھر اکیس بار درود شریف پڑھو ۔غریب نوازؒ نے پیر کے حکم کی فورا تعمیل کی اس کے بعد حضرت عثمان ہارونی ؒ نے غریب نواز ؒ کا ہاتھ پکڑا اور آسمان کی طرف منہ کرکے فرمایا اے معین الدین!میں نے تجھ کو خدا ے عزوجل تک پہونچادیا اور مقبول بارگاہ کبریا کردیا۔ پھر غریب نوازؒ کے تمام سر کے بال تراش کر چار ترکی ٹوپی سر پر رکھی اور اسم اعظم جو پیران عظام سے سینہ بہ سینہ چلا آتا تھا بتلادیا اور کملی عنایت کی پھر فرمایا کہ ایک ہزار بارسورئہ اخلاص پڑھو جب پڑھ چکے تو ارشاد فرمایا کہ سر اوپر اُٹھا کر دیکھو ۔غریب نواز نے جب سر اُٹھایا تو عرش سے تحت الثریٰ تک نظر آیا پھر فرمایا کہ ایک ہزار بار سورئہ اخلاص پڑھو جب پڑھ چکے تو فرمایا کہ سراوپر اُٹھا کر دیکھو ۔ غریب نواز ؒ نے جب اوپردیکھا تو اٹھارہ ہزار عالم منکشف ہوگئے پھر فرمایا کہ ایک ہزار بارسورئہ اخلاص پڑھ کر دیکھو جب غریب نوازؒ نے دیکھا تو حضرت عثمان ہارونیؒ نے دریافت فرمایا کہ اب کیا نظر آتا ہے غریب نوازؒ نے عرض کیا کہ حجاب عظمت دیکھ رہا ہوں فرمایا کہ اے معین الدین !تم مقصد ور ہوگئے شکر کرو۔سامنے ایک اینٹ پڑی تھی ارشاد ہوا کہ اوسکو اٹھا لائو غریب نواز نے جب اُسکو اٹھایاتو وہ اینٹ سو نے کی ہوگئی۔ارشاد ہوا کہ اسکو مساکین اور محتاجوں میں تقسیم کردو آپ نے اُسی وقت تقسیم فرمادی ۔اس طرح شیخ کی اطاعت میں بیس برس تک خدمت کرتے رہے یہاں تک کہ مقبول بارگاہ ایزدی ہوگئے؎ ع ہر کہ خدمت کرد او مقبول شد

معیت پیر میں مکہ معظمہ حاضری: حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ معہ حضرت غریب نوازؒ کے مکہ معظمہ حاضر ہوئے حضرت پیر نے کعبہ کے پرنالے کے نیچے کھڑے ہوکر غریب نوازؒ کے حق میں دعا کی تو غیب سے ایک آواز آئی کہ معین الدین ہمارا دوست ہے اور ہم نے اُس کو قبول کیا۔

دربار ِمدینہ منورہ میں :پھر مدینہ منورہ حاضر ہوئے حضرت خواجہ غریب نواز نے جب روضہ شریف میں سلام پیش کیا تو روضہ اقدس سے آواز آئی کہ’’ وعلیکم السلام یا قطبَ المشائخ ‘‘۔

پھر وہاں سے بغداد تشریف لیگئے اور حضرت پیر خواجہ عثمان ہارونیؒ نے خواجہ غریب نوازؒ کو رخصت دی اور خود ہارون کو تشریف لیگئے اور خواجہ غریب نوازؒ نے بغداد میں اعتکاف کیا۔

پیر کی جانب سے خطاب اور مریدین کے لئے مژدہ :جب حضرت غریب نواز نے اپنے پیر ومرشد سے نعمت پائی تو حضرت عثمان ہارونیؒ نے فرمایا کہ ’’معین الدین محبوب الٰہی ‘‘ ہے مجھ کو اُس کے مریدوں پر فخر ہے اور اُس کا ایک ایک مرید اولیائے کاملین میں سے ہوگا اُن پر آتش دوزخ اثر نہ کرے گی ۔

’’ چشتی ‘‘نام کی وجہ: (وجہ اول)خواجہ ابو اسحٰق شامیؒ (المتوفی۳۲۹ھ مزار واقع بلاد شام )خواجہ ممشاد علو دینوری ؒ سے کی بیعت کے لئے بغداد گئے اور سات سال پیر کی خدمت میں رہے پیر نے جب نام دریافت کیا تو اپنا نام خواجہ ابو اسحٰق شامی بتایا تو حضرت ممشاد علودینوری ؒ نے فرمایا ’’آج سے ہم تجھے ابو اسحٰق چشتی کہیں گے جو کوئی تیرے سلسلۂ ارادت میں تا قیامت داخل ہوگا’’ چشتی‘‘ کہلائے گا اس کے بعد خواجہ ابواسحٰق شامی ؒ مقام چشت میں آئے اور رشد ہدایت میں مصروف ہوگئے۔بعد ازاںچشت سے آپ نے بلاد شام کی طرف سفر کیا اور وہیں وصال کے بعد مدفون ہوئے۔ (وجہ دوم ) چشت ایک شہر کا نام ہے جو افغانستان میں ہرات نامی شہر کے قریب واقع ہے اُس وقت اُس کو شاقلان کہتے تھے اور اس خاندان چشت کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس سلسلہ عالیہ کے چار بزرگ چشت میں رہتے تھے اور اسی مقام میں آسودہ ہیں (۱) قدوۃ الدین خواجہ ابواحمد چشتی ؒ(۲) خواجہ ناصح الدین ابو محمد چشتی ؒ(۳) خواجہ ناصرا لدین ابویوسف چشتی ؒ(۴) خواجہ قطب الدین مودود چشتی ابدال ؒ۔

سفر حرمین شریفین بحکم نبوی اجمیر میں ورود:حضرت خواجہ غریب نوازؒ حضرت خواجہ ہارونی ؒ کی خدمت سے رخصت حاصل کرکے مکہ معظمہ میں تشریف لائے پھر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کیلئے مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے عرصہ تک روضہ شریف کی خدمت کرتے رہے ۔ ایک روز سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس سے یہ آواز آئی کہ اے معین الدین حسن ! ہم نے ہند کی ولایت تجھ کو دی اجمیر کو جائو کیونکہ اُس سرزمین میں کفر زیادہ ہے تمہارے جانے سے اللہ تعالیٰ اسلام کی تائید فرمائے گا ۔یہ سنتے ہی آپ متحیر ہو ے کہ ابھی !اجمیر کہاں ہے۔ اسی تردو میں آنکھ لگ گئی اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو طرفۃ العین(پلک جھپکنے کی دیر) میں تمام عالم کی سیر کرادی اور اجمیر کے قلعہ اور پہاڑوں کا بھی نشان بتلادیا ۔اور ایک بہشتی انار بھی آپکو سرفراز فرما کر رخصت فرمایا ۔ جب آپ بیدار ہوئے تو ہند وستان کا ارادہ کیا ہر ایک بلاد وامصار میں کامل کامل بزرگوں سے ملا قات فرماتے ہوئے غزنیں اور لاہور اور دہلی کے راستہ سے اجمیر میں تشریف فرماہوئے ۔

صاحب ’’معین الاولیائ‘‘ نے لکھا تو ہے کہ آپ نے تین بار حجاز مقدس کا سفر کیا دو سفروں کی توثیق تو متعدد کتب سے ہوتی ہے کہ ایک بار اپنے پیر کے ساتھ سفر ہوا اور دوسری بار اجمیر شریف آمد سے پہلے ہوا البتہ تیسرا سفر کب ہوا اسکی تفصیل و توثیق دستیاب نہ ہوسکی ۔

لاہور میں آمد:بلخ اور غزنین وغیرہ سے ہوتے ہوئے لاہور تشریف لاکر حضرت مخدوم علی علوی ہجویری لاہوری المعروف بہ داتا گنج بخشؒ کی مزارپُر انوار پر دس ماہ تک معتکف رہے ۔اور فوائد باطنی حاصل فرمانیکے بعد دہلی روانہ ہوئے ۔حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کی مدح میں اس وقت آپ نے جو ایک شعر کہا وہ آج زباں زد خاص و عام ہے ؎
گنج بخشِ فیضِ عالم مظہرِ نور خدا

نا قصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما

سرزمین دہلی آمد: جس وقت آپ دہلی تشریف لائے اس وقت دہلی رائے پتھورا چوہان(جو پر تھوی راج چوہان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور جو دہلی اور اجمیر کا آخری غیر مسلم راجہ گذراہے) کا پایہ تخت تھا ۔آپ کے ہمراہ اس وقت کم و بیش چالیس صوفی باصفا تھے آپ چند ماہ دہلی میں رہے۔ حضرت خواجہ بزرگ جب ہند وستان تشریف لائے اس وقت آپ کی عمر شریف (۵۰) کے آس پاس تھی اور پھر آپ نے قبل از وصال کم وبیش ۴۰ سال اجمیر شریف میں گذار کر وصال فرمایا۔

اجمیر کو مرکز فیضان بنانا : جب دہلی میں خاص وعام آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے تو وہاں سے آپ نے اجمیر کی راہ اختیار فرمائی۔ اس زمانہ میں راجا پتھورا اکثر اجمیر میں رہا کرتا تھا اُس کی ماں علم نجوم میں کامل مہارت رکھتی تھی اُس نے بارہ سال پہلے ہی رائے پتھورا کو یہ خبر دی تھی کہ ایک درویش تیرے ملک میں آئے گا اور تیرا راج خاک میں ملادے گا ۔اس وجہ سے رائے مذکور ہمیشہ غمگین رہتا تھا۔ بلکہ راجا کی ماں نے علم نجوم سے حضرت کا حلیہ تک بیان کردیا تھا۔ الغرض رائے پتھورا نے اُس حلیہ کو جابجا بھجوایا اور راجا بابو ئوں کے نام فرمان جاری کیا تھا کہ جو کوئی نو وارد اس حلیہ کے مطابق تمہارے یہاں آئے تو بہت جلد اسکی اطلاع کرو اور حراست و حفاظت کے ساتھ اجمیر روانہ کردو ۔القصہ اکثر راجا جو پتھورا کے مطیع و فرماں بردار تھے آپ کی تلاش میں رہے جب آپ مختلف مراحل سے گذرتے ہوئے قصبہ سمانہ حوالی پٹیالہ(پنجاب) میں پہونچے ۔

رائے پتھورا کے آدمی جو وہاں موجود تھے آپ کو دیکھ کر حلیہ کے مطابق پایا اور مکر وفریب سے آپ کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ آپ کے رہنے کیلئے کونسی جگہ تجویز کی جائے ارشاد ہو تو وہاں آپ کے آرام کیلئے ہر طرح کا انتظام کیا جائے گا اُس وقت حضرت نے مراقبہ میں ملاحظہ فرمایاکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اے معین الدین ! ان کا معروضہ قبول نہ کیا جائے ۔ کیونکہ ان کی نیت میں شر وفساد ہے۔ اس کے بعد آپ نے اپنے ہمراہ سفر میں شریک اپنے چالیس درویشوں سے اپنے مراقبہ کا واقعہ بیا ن فرمایا اورمنازل طئے کرتے ہو بتاریخ (۵۸۶ھ م ۱۱۹۰ء یا ۵۸۷ھ م ۱۱۹۱ء ) اجمیر میں تشریف فرماہو کر سایہ دار درخت کے نیچے قیام فرمایا ۔ایک آدمی نے آوازدی کہ یہاں راجا کے اونٹ بیٹھا کرتے ہیں تم کسی اور جگہ ٹھیرو آپ نے فرمایا کہ راجا کے اونٹوں سے ہم کو کیا غرض ہے بیٹھے رہنے دو اُس وقت حضرت معہ مریدین انا ساگر کے اوپر اُس مقام پر ایک درخت سایہ دار کے نیچے ٹھہرے تھے جہاںبعد میں آپ سے منسوب چلہ بنایا گیا۔ آپ کے ہمراہیوں میں سے بعضوں نے شکار کے کباب تیار کیا اور بعض سیر کرتے ہوئے بیلہ کے پہاڑ پر جانکلے۔اُسوقت تالاب کے کنا رے سینکڑوں بت خانے تھے اور کئی من تیل ۔ پھول روشنی و خوشبو میں صرف ہوتا تھا۔

انہوں نے طہارت کا ارادہ کیا بر ہمنوں نے ممانعت کی اور فساد پر مستعد ہوئے ۔ ناچار خادموں نے واپس ہوکر بت خانوں کا تمام حال اور برہمنوں کی طرف فساد پر آمادہ ہونے کا واقعہ حضرتؒ سے عرض کیا۔ حضرت نے اپنی کرامات سے بیلہ اور انا ساگر کے تالاب کا تمام پانی چھاگل میںبھر دیا ۔ اور یہ دونوں تالا ب اور تمام حوض اور کنوئیں سب خشک ہوگئے ۔حتی کہ بچے والی عورتوں کا اور چوپایوں کا دودھ بھی سوکھ گیا ۔اُدہر اونٹ اپنی جگہ سے اُٹھتے نہیں ہیں۔ الغرض رائے پتھورا سے لوگوں نے یہ خبر سنائی کہ ایک درویش وارد اجمیر ہوئے ہیں اور اونٹ اپنی نشست گاہ سے اٹھتے نہیں ہیں اس کے علاوہ بیلہ اور انا ساگر کے تالا ب وغیرہ باولیاں اور حوض بھی خشک ہوگئے ہیں اور سخت تر تشنگی (پیا س)اور بیقراری سے تمام رعیت(پَرجا) پریشان ہے‘‘ رائے پتھورا یہ سن کر بہت گھبرایا اور تمام واقعات اپنی ماں سے بیان کیا ماںنے سن کر یہ جواب دیا کہ یہ وہی درویش ہے جس کے آنے کی خبر میںنے تجھ کو دی تھی مگر یاد رہے کہ اُس کو کسی طرح کی تکلیف اور ایذانہ دی جائے ۔ بلکہ اُن کی تعظیم اور تواضع کی جائے۔اس سے تیرا فائدہ ہوگا۔ ورنہ سر تاپا نقصان و خسرانِ ملک ودولت ہے ۔ یہ سن کہ راجا پتھورا نے جوگی اَجے پال کے پاس ایک آدمی کے ذریعہ اس حادثہ کی اطلاع دی اور بڑا جادوگر اور گرو ہونیکی وجہ سے امداد کی درخواست کی ۔اُد ہر جُوگی نے آپ کو جادو گر سمجھ کر مدافعت کی تدبیر کا وعدہ کرلیا اور اِدہر رائے پتھورا نے بحالت اضطراب دوسرے آدمی کے ذریعہ جوگی مذکور کے پاس یہ کہلایا کہ میں تو اُس درویش کو دیکھنے جاتا ہوں تم اپنی تدبیر کرکے جلد آئو ۔ جب رائے پتھورا اپنے محل سے نکلا راستہ میں حضرت کے نسبت ایک بے ہودہ امر کی تجویز کیا فوراً اندھا ہوگیا جب اُس قصدو ارادہ کو دل سے دور کیا فوراًآنکھیں روشن ہوگئیںچنانچہ سات دفعہ نابینا اور بینا ہو ا۔ بالاخراُس ارادئہ باطل کو دور کرکے حضرت کی خدمت عالی مرتبت میں حاضر ہوا۔

رائے پتھوراج کے اخراج کی پیشین گوئی: راے پتھورا کوآپ کے بارے میں مختلف اطلاعات ملنے لگیں تو بہت برہم ہوکر کہنے لگا کہ اس سے کہدو کہ میرے شہر سے چلا جائے۔جب یہ حقیقت آپ کو معلوم ہوئی تو ہنس کر کہلا بھیجا کہ تین روز کی مہلت ہم کو دیجائے اس میں یا تو تو خودوہ چلاجائے گا یا ہم چلے جائیں گے اُسی زمانہ میں سلطانِ اسلام شہاب الدین غوری عرف معز الدین بن محمد شاہ (المتوفی ۳؍۸ ؍ ۶۰۲ھ )کا لشکر یورش کرکے آیا اور راجا پتھورا اُس کے مقابلہ کے لئے گیا اور زندہ گرفتارہوا۔ یہ بھی ایک روایت ہے کہ آپ نے غضب سے یہ فرمایا کہ پتھورا کو ہم نے زندہ پکڑا اور دیدیا ۔چنانچہ اُس کا پورا پورا ظہور ہوا۔ شہاب الدین غوری کو ہند ستان آنے کا حکم فرمانا: جب راجہ پتھورا کے ملا زمین بھی مشرف با اسلام ہوئے تو راجہ نے آپ کو اجمیر سے نکال دینے کی دھمکی دی خواجہ صاحب نے فرمایا’’پتھورارا زندہ بہ مسلماں دادیم‘‘( فوائد السالکین) سلطان شہاب الدین غوری خراسان میں تھا ایک رات میں خواب میں خواجہ ؒ کو دیکھا کھڑے ہیں اور فرمارہے ہیں خدا تم کو ہند وستان کی بادشاہت عنایت کرنے والاہے اس ملک کی طرف توجہ کرو اسی خواب کے بعد اس نے ہند وستان پر فوج کشی کی۔

واضح ہو کہ سلطان شہاب الدین غوری(المتوفی ۳ شعبان ۶۰۲ھ) نے پتھورا کے خلاف ۵۸۷ ھ میں ۵۸۸ھ میں دو حملے کئے آخری حملہ میں پتھورا گرفتار ہوکر ماراگیااور حضرت کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی ۔ شہاب الدین غوری کی بارگاہ غریب نواز میں حاضری :شہاب الدین غوری نے خراسان میں ایک بزرگ (غریب نوازؒ )کو خواب میں دیکھا کہ اُسے تسلی دیتے ہوئے فرمارہے ہیں: خدا یتعالیٰ نے ہند وستان کی سلطانی تجھے بخشی ہے جلد اس طرف توجہ کر اور راجہ پرتھوی راج کو زندہ گرفتار کرکے سزادے‘‘ شہاب الدین غوری کوایک مرتبہ ہندوستان کے راجپوتوں وغیرہ سے شکست ہوچکی تھی جس کا اُسے بہت ملال تھا اور وہ اس کا بدلہ لینا چاہتا تھا کہ خواب میں ایک بزرگ نے ہمت بڑھائی شہاب الدین غوری نے تیاری کی اور رائے پتھورا عرف پرتھوی راج کے ایک دشمن راجہ جے چند کے بلانے پر اپنی زبردست فوج کے ساتھ آپہنچا اور گھمان کی لڑائی ہوئی جس میں راج پتھورا شکست کھا گیا اور اُسے گرفتا ر کر لیا گیا ۔یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ جس وقت اجمیر میں وہ داخل ہوا تو شام ہوچکی تھی مغرب کا وقت تھا ۔اذاں کی آواز آئی تعجب کرتے ہوئے سوال کیا تو بتلایا گیا کہ کچھ فقیر و درویش کچھ دنوں سے آئے ہوئے ہیں ۔اُس طرف گیا تو جماعت ٹھہر چکی تھی نماز ختم ہوئی تو شہاب الدین غور ی کی نظر جیسے ہی امام پر پڑھی تو اس کی حیرت کی انتہا ن رہی کہ یہ وہی بزرگ ہیں جنھوں نے اسے فتح و کامرانی کی خوشخبری دی تھی پھر آپ کے قدموں پر وہ گر پڑا اور مرید ہونے کی درخواست کی تو حضرت خواجہ ؒ نے از راہ عنایت و شفقت اس کی درخواست منظور کرتے ہوئے اُ سے مریدی کے شرف سے مالامال فرمادیا ۔

کلام پاک اور نماز سے شغف: حضرت خواجہ بزرگؒ عمل میں مجاہدہ ( کوشش) اور کلام (زبان سے نکلنے والے جملوں )کی حفاظت فرمایا کرتے(یعنی لغو ‘بیکار اور لایعنی بات کو زبان سے نہ نکالتے) ۔اس طرح کہ ایک دن میں دو ختم (قرآن مجید ) فرماتے اور ایک رات میں ہزار رکعت پڑھا کرتے ۔

ذوق سماع: محفل سماع میں آپ پر غیر معمولی کیفیت طاری ہوجا تی تھی ۔وصال کی پیش گوئی:ایک روز آپ نے فرمایا کہ چند روز میںہم عالم بقا کی طرف سفر کرنیوالے ہیں اس کے بعد شیخ علی سنجری کو حکم ہوا کہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ بذریعہ خط اطلاع کرواکر دہلی سے بلا لئے جائیں جب حضرت قطب الدین بختیار کاؒکی آئے تو آپ نے اُن کا ہاتھ پکڑ کر اُن کے سر پر کُلا(ٹوپی)ہ رکھدی اور حضرت شیخ عثمان ہارونی ؒ کا دیا ہوا عصا اور کلام اللہ ‘مصلا ‘نعلین اُن کو سرفراز فرماکر ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ امانت جو میرے پاس تھی آج میں نے تجھ کو دے دی جب حضرت خواجہ قطب الدین ؒدہلی واپس پہنچے تو بیس روز کے بعد حضرت کے وصال مبارک کی خبر سنی ۔ بوقت ِوصال ذکر واذکار: جس رات کو حضرت نے اس جہانِ پُر ملال سے انتقال اور اپنے مالک حقیقی سے وصال فرمایا نماز عشا کے بعد حجرہ کے دروازہ کو بند فرما کر اصحاب کی آمد ورفت کو منع فرمادیا محرمان درگاہ جو حجرہ پر تھے تمام رات قدموں کی صدائیں جیسے کوئی وجد میں رہتا ہے سنتے رہے ۔یقین ہوا کہ حضرت وجد میں ہیں ۔آخر شب کو وہ آواز موقوف ہوگئی جب نماز کا وقت ہوا بہت دستک دی گئی جواب نہ ملا ناچار دروازہ کھولا اور دیکھا کہ حضرت واصل بحق ہوگئے ہیں۔انا للہ وانا الیہ راجعونoجس رات حضرت کا وصال ہوا اُس رات کو چند اولیاء اللہ نے حضرت شہنشاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں ہم آج محبوب اللہ معین الدین کے استقبال کو آئے ہیں۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کی پیشانی نورانی پربخط سبز یہ عبارت لکھی تھی ۔

’’ھذا حبیب اللہ مات فی حب اللّٰہ ‘‘۔ (ترجمہ : یہ اللہ کا دوست ہے اور اللہ ہی کی محبت میں اس نے جان دے دی)
تاریخ وصال : بتاریخ ۶ ماہ رجب ۶۳۲ھ روز دو شنبہ آپ نے انتقال فرمایا ۔

اجمیر میں تشریف لاکر زائد از چالیس(۴۰ )سال تک تمام دیار و امصار کے طالبوں کو آپ اپنے فیض صوری ومعنوی سے افاضہ فرماتے رہے۔

دنیا میں آپ نے تقریباً ستانوے (۹۷)برس زندگانی فرمائی ۔ اگر ولادت ۵۲۷ھ فرض کی جائے تو آپکی عمر شریف ایک سو چھ(۱۰۶) سال بنتی ہے آپ کی عمر شریف بقول اصح ایک سو سات(۱۰۷) برس کی تھی بعض زیادہ بھی کہتے ہیں۔ سیر العارفین میں (۹۷) سال ‘سفینۃ الاولیاء میں (۱۰۴) سال اور مونس الارواح میں (۱۰۰) سال عمر لکھی گئی ہے ۔جمہور کا موقف (۹۶) یا (۹۷) سال ہے ۔مادہ تاریخ ولادت اور وصال

حیدرؔؔؔسن ولادت وسال ِ وصال خواجہ
’’ بدر المنیر‘‘ و ’’آفتاب ملک ہند ‘‘ کہہ دے
۵۳۷- ۶۳۳

آپ کے وصالِ باکمال کے زائد از آٹھ صدیوں بعد آج بھی ہندوستان کے اس روحانی تاجدار کی شان و شوکت کا یہ عالم ہے کہ ہر دور کے حکمران چاہے شہنشاہ ہو کہ وائسرائے، صدر جمہوریہ ہند ہو کہ بھارت کے وزیراعظم ، اس بارگاہ میں جبیں سائی کے لئے بالالتزام حاضر ہوتے اور اپنا خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کیونکہ ہندوستان کے تخت و تاج اور اقتدار کی باگ و ڈور عطا کرنے کا مالک و مختار خدا نے خواجہ اجمیری کو ہی بنادیا ہے۔ لارڈ کرزن جیسا سرکش مزاج وائسرائے جس کا غرور اور تکبر آج بھی ضرب المثل ہے، بادل نخواستہ مصلحتاً غریب نوازؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو ادب و تعظیم کرنے کے لئے اس کو اپنا سر خم کرنے پر مجبور ہونا پڑا جس کے بعد اُس نے یہ تاثرات قلمبند کئے جو آج تک تاریخ محفوظ ہیں کہ ’’میں تو وائسرائے ہند کی حیثیت سے ہندوستان میں ۱۸۹۹ء میں جب لارڈ کرزن نے دہلی میں وائسرائے ہند کی حیثیت سے جائزہ حاصل کیا تو مصاحبین نے تجویز پیش کی کہ سابق وائسرائے کی روایات کے مطابق وہ اپنی اولین فرصت میں حضرت غریب نوازؒ کی درگاہ شریف واقع اجمیر کی زیارت کے لئے وقت نکالیں۔ لیکن لارڈ کرزن نے جو بڑا مغرور واقع ہوا تھا صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی درگاہ وغیرہ پر تعظیماً جانے کا قائل نہیں۔ آج بھی کوئی بیجا غرور و تکبر کا مظاہرہ کرے تو بطور ضرب المثل کہا جاتا ہے کہ تم لارڈ کرزن کی اولاد معلوم ہوتے ہو۔

سیاسی مشیرین نے جب لارڈ کرزن کو اس مصلحت سے واقف کروایا کہ درگاہ شریف اجمیر میں حاضری کی روایت توڑ دینے سے ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں میں موجود برطانوی حکومت وائسرائے کی عزت و وقار میں فرق آجائے گا تو وائسرائے بمشکل تمام اجمیر شریف جانے پر بادل نخواستہ(اَن چاہے دل کے ساتھ) راضی ہوا مگر اس شرط پر کہ وہ درگاہ میں اپنا سر جھکاکر سر پر سے اپنی ٹوپی اتارتے ہوئے کسی تعظیم یا احترام کا ہر گز اظہار نہیں کرے گا۔ واضح ہو کہ مغربی تہذیب میں ادب و احترام کے لئے سر سے ٹوپی اتارنا عام ہے ؎

ادب مغرب بھی کرتا ہے ادب مشرق بھی کرتا ہے
وہاں ٹوپی اُترتی ہے یہاں جوتا اترتا ہے

غرض لارڈ کرزن اپنے ارکان خاندان اور مصاحبین کی معیت میں ایک روز اجمیر شریف پہونچا لیکن جس وقت وائسرائے درگاہ شریف کے اندر حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے پائین کی جانب آیا تو اتفاقاً اسی کے ایک رکن خاندان کا دھکا لگا اور ساتھ ہی لارڈ کرزن کے سرپر کی ٹوپی مزار مبارک کے عین پائین میں جاگری۔ انگریز قوم اپنی ٹوپی کی بڑی عزت کرتی ہے چنانچہ وائسرائے اپنی گری ہوئی ٹوپی کو اٹھانے کی خاطر بے ساختہ نیچے جھک گیا لیکن اسی لمحے اس کے دل میں فوراً یہ خیال گذرا کہ غالباً اس مزار میں ضرور غیر معمولی روحانی قوت کی حامل کوئی ہستی آرام کررہی ہے جس نے مجھے جھکنے اور اپنی ٹوپی اتارنے پر کسی طرح مجبور کردیا اور ادب و احترام کا سبق سکھادیا حالانکہ اس طرح تعظیم نہ کرنے کا میں نے تہیہ کرلیا تھا۔ اپنے محل کو واپسی پر لارڈ کرزن نے سرکاری ڈائری میں یہ تاثرات قلمبند کئے۔

Lord Curzon writes in his dairy: As a British Viceroy in India I am ruling over each and every inch of Indian territory but today i have come across one muslim faqeer lying in his grave at Ajmer who is ruling over the hearts of millions of Indains without discretion of cast and creed.

’’بحیثیت وائسرائے ہند سرزمین ہندوستان کے چپہ چپہ پر میری حکمرانی ہے لیکن مجھے آج ایک ایسے مسلمان درویش کی بارگاہ میں حاضری کا موقع ملا جو اجمیر میں ہی اپنے مزار میں آسودہ ہندوستان بھر کے سارے باشندوں کے دلوں پر بلا امتیاز مذہب و فرقہ حکمرانی کررہا ہے‘‘۔

آئینہ سیرت غریب نوازؒ نامی جس کتاب سے ماخوذ یہ مضمون قارئین کی خدمت میں پیش کیا گیاسید الصوفیہ اکیڈمی رجسٹرڈ کی جانب سے شائع کردہ تقریباً اسی (۸۰)صفحات پر مشتمل اس تفصیلی کتاب کو (۱)بارگاہ ایوان صوفی اعظم شاہین نگر حیدرآبادفون:9676835015 ‘ تصوف منزل نزد ہائی کورٹ حیدرآباد فون:9000494786(۲) دکن ٹریڈرس‘مغل پورہ حیدرآباد(۳)شیخ الاسلام لائبرری شبلی گنج حسینی علم حیدرآباد وغیرہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
٭٭٭