رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت امت محمدؐیہ کیلئے باعث ہدایت ونجات
حضورؐ کی ذاتِ اقدس جیسے ہر جسمانی عیب سے پاک اور ہر بدنی آلائش سے منزّہ تھی اور آپؐ شاہکارِ فطرت تھے ایسے ہی جانِ دوعالم حضور رحمتِ عالمؐ کی ولادتِ باسعادت بھی ہر آلائش سے مبّرا تھی۔ اللہ رب العزت نے اپنے محبوبؐ کی صاف ستھری ولادت کا اس حد تک اہتمام کیا کہ آپؐ ناف بریدہ اور ختنہ شدہ حالت میں پیدا ہوئے۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ
آمد آمد سید اعظم کی ہے
آمد آمد سرور عالم کی ہے
آمد آمد شہِ ابرار کی ہے
آمد آمد بڑے سرکار کی ہے
آمد آمد مالکِ کوثر کی ہے
آمد آمد دین کے سرور کی ہے
آمد آمد شافع محشر کی ہے
آمد آمد اپنے پیغمبر کی ہے
آمدِ خیرالوریٰ کی دھوم ہے
جلوۂ نورِ خدا کی دھوم ہے
دھوم ہے کون ومکاں میں دھوم ہے
دھوم ہے دونوں جہاں میں دھوم ہے
جلوہ فزا آج ہوتا ہے یہاں
نور سے جس کے ہوا روشن جہاں
آج محبوب خدا کی دید ہے
عید ہے اہل نظر کی عید ہے
رب تبارک وتعالیٰ نے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کا تذکرہ تاکید کے ساتھ نہایت عمدہ بلیغ انداز میں کیا۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: قد جاء کم من اللہ نور وکتاب مبین (سورہ مائدہ) بے شک تمھارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور (حضرت محمدؐ) آئے اور روشن کتاب آئی، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ نور سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہیں اور روشن کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔ یقینا آپؐ کا دنیا میں تشریف لانا سارے عالم کے لئے ایک عظیم نعمت ہے۔ اگر آپؐ تشریف نہ لاتے تو ہمیں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ کی شکل میں عبادتیں میسر نہ ہوتیں، نہ ہی قرآن جیسی نعمت ملتی، نہ ہی خیرِ امت کہلاتے، نہ ہی سب سے پہلے جنت میں جانے کے حقدار بنتے اور نہ ہی حق کا راستہ ملتا۔
یہ سب آپؐ کے تصدق میں ہے۔ اور آپؐ سارے عالم کے لئے سراپا رحمت بن کر تشریف لائے جسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اسطرح بیان کیا: (اے حبیبؐ) ہم نے آپؐ کو سارے جہاں کے لئے سراپا رحمت بناکر بھیجا۔ آپؐ کا آنا تمام عالم کے لئے سراپا رحمت ہے، آپؐ کی ولادت کل امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے لئے باعثِ خوشی ومسرت ہے، جسکا اہتمام رب کریم نے آپؐ کی پیدائش کے موقع پر کیا، آمد مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے کس طرح اہتمام فرمایا چنانچہ حدیث شریف میں ہے حضرت آمنہ ؓ نے فرمایا: رأیت نسوۃ کالنخل طوالا کانھن من بنات عبد مناف یحدقن بی مارأیت أضوأ منھن وجوھا۔۔ اِلیٰ آخرہ (السیرۃ الحلبیہ) میں نے کھجور کے درخت کی طرح لمبی خواتین کو دیکھا جیسے قبیلہ عبدمناف کی عورتیں ہوتی ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا میں نے ان سے زیادہ روشن چہرے والی خوبصورت عورتیں نہیں دیکھیں۔ ان میں سے ایک آگے بڑھی میں نے ان کو ٹیکہ لگا دیا پھر دوسری آگے بڑھی ، اس نے پینے کے لئے ایک پاکیزہ مشروب پیش کیا جو دودھ سے زیادہ سفید، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شہد سے زیادہ میٹھا تھا۔ بڑے پیار سے بولی، پی لو، میں نے پی لیا دوسری بولی اور پیو! میں نے اور پیا۔ پھر انہوں نے اللہ کا نام لے کر میرے بطن(پیٹ) پر ہاتھ پھیرا اور کہا اللہ کی اجازت سے عالم دنیا میں تشریف لے آئیے۔ حضرت آمنہؓ فرماتی ہیں کہ میرے پوچھنے پر ان خوبصورت عورتوں نے مجھے بتایا کہ وہ حضرت حواؓ،حضرت آسیہؓ اور حضرت مریمؓ ہیں اور ان کے ساتھ جنتی حوریں ہیں۔
حدثتنی أمي أنھا شھدت ولادۃ آمنۃ أم رسول اللہ لیلۃ ولدتہ قالت: فما شيء انظر الیہ فی البیت۔۔ اِلیٰ آخرہ (سیوطی) حضرت عثمان بن ابی العاص فرماتے ہیں مجھ سے میری والدہ (فاطمہ بنت عبداللہ ) نے بیان کیا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ولادت کے وقت حضرت آمنہؓ کے پاس موجود تھی، میں نے اس وقت جس چیز کو بھی دیکھا اسے نور ہی نور پایا اور میں نے دیکھا کہ ستارے قریب آتے جارہے ہیں حتیٰ کہ میں سوچنے لگی کہ یہ مجھ پر گرپڑیں گے۔ پس جب حضرت آمنہؓ نے حضورؐ کو جنم دیا تو ان سے نور نکلا جس سے گھر اور سب در ودیوار منور ہوگئے یہاں تک کہ ہر طرف نور ہی نور دکھائی دینے لگا۔
اسی طرح سیدہ آمنہ ؓ خود اپنا مشاہدہ بیان فرماتی ہیں: لما ولدتہ خرج مني نور أضاء لہ قصورالشام(ابن سعد) ولادت کے وقت میں نے محسوس کیا کہ ایک نو ر مجھ سے نکلا جس کی روشنی میں شام کے محلات نظر آنے لگے۔ حضورؐ کے جسم اطہر پر پڑنے والی پہلی نظر کے بارے میں مخدومہ کائنات ؑ فرماتی ہیں: نظرت الیہ فاِذا ھو کالقمر لیلۃ البدر ریحہ یسطع کالمسک الأذفر۔ (زرقانی شرح مواہب لدنیۃ) میں نے آپؐ کی زیارت کی تو آپؐ کے جسم اقدس کو چودہویں رات کے چاند کی طرح پایا جس سے تروتازہ کستوری کی خوشبومہک رہی تھی۔ رأیت ثلاثۃ أعلام مضروبات، علما بالمشرق وعلما بالمغرب وعلما علی ظھر الکعبۃ۔ (السیرۃ الحلبیہ) میں نے تین نصب شدہ جھنڈے دیکھے، ایک جھنڈا مشرق میں لگایا گیا تھا، ایک مغرب میں اور ایک کعبہ معظمہ کی چھت پر لہرارہاتھا۔
حضورؐ کی ذاتِ اقدس جیسے ہر جسمانی عیب سے پاک اور ہر بدنی آلائش سے منزّہ تھی اور آپؐ شاہکارِ فطرت تھے ایسے ہی جانِ دوعالم حضور رحمتِ عالمؐ کی ولادتِ باسعادت بھی ہر آلائش سے مبّرا تھی۔ اللہ رب العزت نے اپنے محبوبؐ کی صاف ستھری ولادت کا اس حد تک اہتمام کیا کہ آپؐ ناف بریدہ اور ختنہ شدہ حالت میں پیدا ہوئے۔ سیرت نگار حضرات سیرت کی کتابوں میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں : ولد النبیؐ مختوناً۔ (ابن سعد) حضور ؐ کو مختون (ختنہ شدہ ) حالت میں پیدا کیا گیا تھا۔ اور ابونعیم نے عمروبن قتیبہؓ سے روایت کی : انہوں نے بتایا: میرے اباجان ایک متبحر عالم تھے۔ انہوں نے یہ حقیقت بیان فرمائی کہ جب حضرت آمنہؓ کے ہاں ولادت کا وقت قریب آیا، تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا: تمام آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دو اور انہیںوہاں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ اترے اور ایک دوسرے کو خوشخبری دینے لگے۔
دنیا کے پہاڑ فخر سے بلند ہوگئے، سمندروں میں روانی آگئی اور موجیں اٹھنے لگیں اور اہل زمین میں مبارک بادی اور خوشخبری کا سلسلہ چل پڑا، ہر فرشتہ وہاں حاضر ہوگیا اور شیطان کو ستر زنجیروں میں جکڑ کر بحر خضراء کے تندوتیز پانی میں الٹالٹکا دیا گیا اور دیگر سرکش شیاطین کو بھی پابند طوق وسلاسل کردیا گیا۔ اس روز سوج کو نور کی شاندار چادر اڑھادی گئی اور ستر ہزار حوریں جو ولادت محمدی ؐ کے اعزاز میں ہوا میں کھڑی کردی گئیں، قدرت خداوندی نے دنیا بھر کی عورتوں کو یہ حکم دیا کہ وہ اس سال لڑکے ہی جنیں، چنانچہ جب بنی اکرم ؐ پیدا ہوئے تو ساری دنیا نور سے بھر گئی۔ فرشتوں نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور ہر آسمان میں زبرجد اور یاقوت کا ایک ایک ستون قائم کر دیا گیا، چنانچہ یہ ستون آسمان میں بہت شہرت رکھتے ہیں، جن کو حضورؐ نے معراج کی شب ملاحظہ فرمایا۔
آپؐ کو بتایا گیا کہ یہ وہ ستون ہے جو آپؐ کی ولادت پاک کی خوشی میں نصب کیا گیا تھا۔ شب ولادت اللہ تعالیٰ نے حوض کوثر کے کنارے مہکتی کستوری کے ستر ہزار درخت لگائے جن کے پھل اہل جنت کے لئے خوشبودار دھونی کا کام دیں گے۔ اس رات آسمان والے اللہ کے حضور سلامتی کی دعائیں مانگتے رہے۔ پتھر کے بت اوندھے منہ گرگئے، لات اور عزیٰ کے شیطان اپنے ٹھکانے سے باہر نکلے، وہ چیخ رہے تھے کہ قریش کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ وہ کس حال کو پہنچ گئے ہیں، صادق وامین آگئے ہیں۔ بیت اللہ شریف کے اند سے کئی روز تک یہ آواز سنائی دیتی رہی، اب میرا نور مجھے واپس کردیا جائے گا، میری زیارت کرنے والے ازسر نو آنے لگیں گے، مجھے جاہلیت کی نجاستوں سے پاک کر دیا جائے گا، اے عزی! اب تیری موت کا وقت آگیا ہے۔ بیت اللہ شریف پر مسلسل تین روز تک یہی کیفیت طاری رہی، یہ پہلی علامت تھی جو سرکار نبی اکرم ؐ کی ولادت کے وقت قریش کے مشاہدہ میں آئی۔
ہر مسلمان جانتا ہے کہ آپؐ کی ولادت باسعادت اللہ تعالیٰ کی جانب سے تمام مومنین کے لئے نعمت عظمیٰ ہے۔ حصولِ نعمت پر شکر بجالانا تقاضائِ بندگی ہے، بلکہ ازدیاد نعمت کا باعث ہے اور نعمت کی ناشکری نعمتوں کے چھین لئے جانے کا سبب ہے ارشاد خدا وندی ہے: لَئِن شَکَرْتُمْ لأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِن کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد (سورہ ابراھیم) اگر تم شکر ادا کرو گے تو تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر بجالانا اتنی بڑی بات ہے کہ اگر تم شکر بجا لاتے رہے تو اللہ تعالیٰ تم پر اپنی نعمتوں کی بارش کردے گا۔ گویا نعمتوں پر شکر بجالانا اس آیت کے تحت مزید نعمتوں کے حصول کے لئے ضروری ہے کیوں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مزید نعمتیں نچھاور کرتا رہتا ہے لیکن اگر نعمتوں کی ناشکری کی جائے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ اتنا ناپسندیدہ فعل ہے کہ اس پر عذاب الٰہی کی وعید سنائی جارہی ہے۔
نعمتوں کو یاد کرکے ان پر شکر بجالانا صرف امت محمدیہ ؐ ہی پر واجب نہیں بلکہ سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا، جس طرح بنی اسرائیل سے فرمایا گیا: یَا بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ اذْکُرُواْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَأَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِیْن (سورہ بقرہ) اے اولاد یعقوبؑ! میرے انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں (اس زمانے میں) سب لوگوں پر فضیلت دی۔ اس آیت مبارکہ کے بعد قیامت کی ہولناکیوں سے باخبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ پھر اپنے احسانات بار بار یاد دلا کر انہیں اپنی نعمتوں کے تذکرے کا حکم دے رہا ہے۔ ارشاد فرمایا: وَإِذْ نَجَّیْنَاکُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوَء َ الْعَذَاب(سورہ بقرہ) اور (اے اٰل یعقوب ! اپنی قومی تاریخ کا وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون کے پیروکاروں سے رہائی دی جو تمہیں انتہائی سخت عذاب دیتے تھے۔
بلا شبہ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ محافل میلاد منعقد کرنا اور سیرت النبی ؐ کا سننا اور سنانا اور سردارِ کائنات ؐ کی نعت ومدحت اور سننے سنانے کیلئے جلسہ وجلوس کا اہتمام و انعقاد، غریبوں کو کھانا اور اہل اسلام کے دلوں میں ان کے اعمال وافعال کے ذریعہ خوشی اور مسرت داخل کرنا جائز اور مستجسن عمل ہے۔ میلاد کے اجتماعات اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے کابہترین بڑا ذریعہ ہیں اور یہ لمحات درحقیقت فرصت کے زرین اور قیمتی لمحات ہیںجنہیں ہر گز ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ مبلغین اور اہل علم حضرات کیلئے تو لازم ہے کہ وہ ان محافل کے ذریعہ امت مصطفی کو اخلاق و آداب نبوی، سیرت طیبہ، معاملات وعبادات نبوی، جیسے اہم امور یاد دلاتے رہا کریں اور لوگوں کو بھلائی، نیکی اور خیر وفلاح کی تلقین کرتے رہیں اور پھر ان کو امت مسلمہ پر نازل ہونے والی مصیبتوں اور امت محمدیہ کو کمزور اور بے جان بنادینے والی گمراہیوں، اسلام میں پیدا ہونے والے نت نئے فتنوں اور اپنوں اور بیگانوں کے اٹھائے ہوئے نئے شرور اور فتن سے دور رہنے اور ان سے اپنے آپ کو بچانے کی ہدایت کیا کریں۔
٭٭٭