مذہب

انسانیت کیلئےتعلیماتِ نبویؐ کی ضرورت

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی جو بستی بسائی ہے، وہ بڑی وسیع، خوبصورت اورمتنوع ہے، ہزاروں مخلوقات ہیں اور ہر ایک دوسرے سے مختلف ؛ بلکہ اپنی صلاحیتوں اورعادتوں کے اعتبار سے بالکل متضاد کیفیتوں کی حامل ؛ لیکن وہ سب ایک مقررہ دستور کے مطابق اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی جو بستی بسائی ہے، وہ بڑی وسیع، خوبصورت اورمتنوع ہے، ہزاروں مخلوقات ہیں اور ہر ایک دوسرے سے مختلف ؛ بلکہ اپنی صلاحیتوں اورعادتوں کے اعتبار سے بالکل متضاد کیفیتوں کی حامل ؛ لیکن وہ سب ایک مقررہ دستور کے مطابق اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں، سورج کو معلوم ہے کہ اسے مشرق سے نکلنا ہے اور مغرب کی سمت میں ڈوبنا ہے، سمندر ہزاروں سال سے اپنے دائرہ میں مسلسل بہہ رہا ہے اور اپنی تلاطم خیز موجوں کے ساتھ کروٹیں لیتا رہتا ہے، وہ فضا کو بادل کی سوغات دیتا ہے اور دن رات زمین کی آلائشوں کو تحلیل کرنے میںلگا ہوا ہے، جمادات و نباتات ہی نہیں، حیوانات کا بھی یہی حال ہے، ان کا کھانا پینا، لڑنا جھگڑنا، اپنی غذاؤں کو تلاش کرنا، حملہ کرنا اور مدافعت کرنا ہم اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں؛ لیکن قدرت نے ان کو بھی ان کی زندگی کا دستور پڑھا اور سمجھا دیا ہے، گائے اوربکری گھاس اوردرخت کے پتے کھاتی ہیں، شیر اور باز زندہ جانوروں کا شکار کرتے ہیں، چیل مردار کی تلاش میں چپہ چپہ چھانتا پھرتا ہے، بعض جانور ہیں جو چارہ بھی کھاتے ہیں اور اپنے سے چھوٹے جانوروں کو بھی ہضم کر جاتے ہیں، پرندوں کو اپنا گھونسلہ بنانا اور چوہوں کو اپنا سرنگ نما مکان بنانا معلوم ہے، مکڑے جالے بُنتے ہیں اور شہد مکھیاں اپنا چھتہ تیار کرتی ہیں، جس میں اتنے کمرے ہوتے ہیں کہ شاید بادشاہوں کے محلات میں بھی نہ رہتے ہوں، یہ سب اللہ کی رہنمائی اورہدایت کا نتیجہ ہے، اسی کو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : رَبُّنَا الَّذِیْ اَعْطٰی كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰی (سورۂ طہٰ : ۵۰) یعنی یہ رب کائنات کا کمال ہے کہ اس نے ہر چیز کو صورت بھی بخشی اور اسے زندگی گذارنے کے بارے میں راہ بھی سجھائی اور سلیقہ بھی سکھایا۔

اور یہ کچھ جانوروں ہی کےساتھ مخصوص نہیں ہے، حضرت انسان کے وجود میں بھی ہدایت ربانی کے اس تکوینی نظام کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے اور ماں کی چھاتی کی طرف لپکتا اور اس سے دُودھ پیتا ہے، آخر اس شیر خوار بچے کو کس نے بتایا کہ تمہاری غذاماں کے سینہ میں ہے ؟ اور پھر اس غذا کو ماں کے سینہ سے کشید کرنے کا سلیقہ کس نے سکھایا ؟ ماں باپ کی ذراسی بے توجہی ہو تو بچہ کا رونا اور لاڈ و پیار پر مسکرانا بھی اسی ہدایت ربانی کا مظہر ہے، اس بے زبان اور بے شعور بچہ کو کس نے سکھایا کہ دُکھ اور درد کا اظہار رو کر اور خوشی کا اظہار ہنس کر اور مسکراکر کیا جاتا ہے ؟

تو جب خدا نے ہر چیز کو ایک مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور اسے دنیا میں رہنے سہنے کا طریقہ بتادیا ہے، تو کیا انسان کو اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے کسی طریقہ اور نظام کی ضرورت نہ ہوگی ؟ یقیناً ہوگی، بلکہ زیادہ ہوگی ؛ کیوںکہ انسان ایک حد تک با اختیار مخلوق ہے اور عقل و فہم کی نعمت نے اس کی نیکی اور بدی کے دائرہ کو بہت وسیع کردیا ہے، شیر ایک وقت میں ایک ہی انسان یاحیوان کو شکار بناتا ہے، سانپ ایک بار ڈس کر ایک وجود کو فنا کرسکتا ہے ؛ لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ وہ ایک ایٹم بم کے ذریعہ بیک وقت ایک پورے خطہ کو تباہ و برباد کرسکتا ہے اوربیک جنبش پلک لاکھوں انسانوں کی جان لے سکتا ہے، اس لئے ظاہر ہے کہ وہ سب سے زیادہ اس بات کا محتاج ہے کہ جینے اور مرنے کا سلیقہ سیکھے اور زندگی گذارنے کا طور و طریق جانے ؛ لیکن سوال یہ ہے کہ انسان کو زندگی گذارنے کا طریقہ کون بتائے؟ غور کیا جائے تو ایک سیدھی سادھی اور دیکھی جانی حقیقت یہ ہے کہ جو شخص کسی مشین کو بناتا اور کسی شئے کو ایجاد کرتا ہے، وہی اس کی ضروریات سے آگاہ بھی ہوتا ہے اور اس کے لئے مناسب و غیرمناسب اور درست و نادرست طریقۂ استعمال کے صحیح فیصلے بھی کرسکتا ہے ؛ اس لئے جب اللہ تعالیٰ انسان کے خالق و رب ہیں، اسی نے ہمیں پیدا کیا ہے اور اسی کے اشارۂ و حکم سے ہم اس کائنات میں زندہ ہیں تو ضرور ہے کہ وہی ہمیں زندگی کے طوروطریق بھی سمجھائے اور یقیناً اسی کا دیا ہوا نظام حیات ہمارے لئے مفید ہوسکتا ہے ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ’’اَ لَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ۔ (الاعراف : ۵۴)

دنیا میں بھی آپ جب کسی کمپنی سے کوئی بڑی مشین حاصل کرتے ہیں تو وہ ایک طرف اس مشین کی تفصیلات پر مشتمل کتابچہ آپ کے حوالہ کرتی ہے اور ساتھ ساتھ اپنے ایک انجینئر کو بھی آپ کی مدد کے لئے بھیجتی ہے کہ کتاب میں جو نظریہ بیان کیا گیا ہے، یہ انجینئر اور ماہر کاریگر اس کو عملی طورپر برت کر دکھائے اور محسوس طریقہ پر سمجھائے، کسی تمثیل کے بغیر یہی صورت آسمانی کتاب اور انبیاء کی ہے، اللہ تعالیٰ کی کتابیں نظام حیات کی رہنمائی کرتی ہیں کہ انسان کو اس دنیا میں اپنی صلاحیتیں کس طرح استعمال کرنی چاہئیں ؟ اور پیغمبر کی زندگی اس کی عملی صورت گری ہے، گویا پیغمبر کتاب ِالٰہی کی شرح اور اس کا بیان ہوتا ہے، ایک ایک حرف جو اس کی زبان سے نکلے، ایک ایک عمل جو اس کے اعضاء و جوارح سے صادر ہو اور ایک ایک اختیاری کیفیت جو اس پر طاری ہو، منشاء ِربانی کا اظہار اور انسانیت کے لئے اُسوہ و نمونہ ہے ؛ اسی لئے فرمایا گیا کہ جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی : مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ۔ (النساء : ۸۰)

گویا نبوت محض قلب و ذہن کی تسلی کا سامان اور آخرت کی فلاح و نجات ہی کا ذریعہ نہیں ہے ؛ بلکہ یہ سب سے بڑی انسانی ضرورت ہے، جیسے وہ اپنے پیٹ کے لئے غذا کا، تن ڈھکنے کے لئے لباس و پوشاک کا، علاج کے لئے دوا کا اور اپنی مدافعت اور حفاظت کے لئے اسلحہ اور ہتھیار کا محتاج ہے، اس سے بڑھ کر وہ انبیاء اور انبیاء کی تعلیمات کا محتاج ہے ؛ کیوںکہ انبیاء کی تعلیمات اس کے پورے وجود کے لئے غذا ہیں، وہ ذہن و دماغ کو بتاتی ہیں کہ انھیں کیا سوچنا چاہئے؟ وہ آنکھوں کی رہنمائی کرتی ہیں کہ انھیں کیا دیکھنا اور کیا نہ دیکھنا چاہئے ؟ وہ زبان کو ہدایت دیتی ہیں کہ اللہ کی اس عظیم نعمت کا استعمال کن مقاصد کے لئے کیا جائے اورکن مفاسد سے بچا جائے ؟ وہ ہاتھوں سے کہتی ہیں کہ یہ ظلم اور ظالموں کے خلاف اُٹھے نہ کہ مظلوموں اور کمزوروں کے خلاف، وہ پاؤں کو بتاتی ہیں کہ اسے نیکی اور حق کی راہ میں چلنا چاہئے نہ کہ باطل اور برائی کے راستہ میں، اور اس کی چال تواضع و انکسار اور عجز و فروتنی کی ہونی چاہئے نہ کہ کبر و افتخار اور غرور و استکبار کی۔

اب سوال یہ ہے کہ کونسی شخصیت انسانیت کے لئے نمونہ اور آئیڈیل بن سکتی ہے ؟ تو مذاہب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں شروع ہی سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں اورکتابوں کو بھیجتے رہے ہیں، قرآن مجید کے بیان کے مطابق کوئی قوم ایسی نہیں گذری، جس میں اللہ تعالیٰ کے رسول نہیں آئے ہوں : وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِیْهَا نَذِیْرٌ (فاطر : ۲۴) اور خود ان کی زبان میں اللہ کی کتاب نہ اُتاری گئی ہو: وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ (ابراہیم :۴ ) نبوت کا یہ سلسلہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا، دین و عقیدہ تو ہمیشہ ایک ہی رہا ہے، جس کی بنیاد توحید، رسالت اور آخرت کا تصور ہے ؛ لیکن انسانی ضرورتوں اورتمدنی ترقیوں کے لحاظ سے زندگی گذارنے کے قانون میں خالق کائنات کی طرف سے تھوڑی بہت تبدیلی کی جاتی رہی ہے، اسی قانون کو ’ شریعت ‘ کہتے ہیں۔

اس لئے اب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہی قیامت تک کے لئے اور پوری انسانیت کے لئے کامل نمونہ اور مکمل رہنما ہے، یہ محض خوش گمانی نہیں ہے ؛ بلکہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس پر تاریخ کی شہادت موجود ہے ؛ کیوںکہ پوری انسانیت کے لئے وہی شخصیت نمونہ بن سکتی ہے، جس میں کم سے کم چار باتیں پائی جائیں، اول : یہ کہ اس کی سیرت تاریخی طورپر محفوظ ہو اور ایسے مستند اور معتبر ذریعوں سے ہم تک پہنچی ہو، جن پر ہم اعتماد کرسکیں، دوسرے : اس کا پیغام اوراس کا عطا کیا ہوا دستورِ زندگی تمام انسانیت کے لئے ہو، کسی مخصوص علاقہ یا نسل کے لوگوں کے لئے نہ ہو، تیسرے : اس کی سیرت زندگی کے ہر گوشہ کے لئے رہنمائی کرتی ہو اور اس کو اپنا رہنما تسلیم کرنے کے بعد انسان اپنی زندگی میں کہیں کوئی خلا نہیں پائے، چوتھے : اس کی زندگی انسانیت کے لئے قابل اتباع بن سکتی ہو اور اس کی پیروی انسانی طاقت سے باہر نہیں ہو۔

اب تاریخی تحفظ کے اعتبار سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت دیکھئے کہ آپؐ کی سیرت کے دو بنیادی ماٰخذ ہیں : کتاب اللہ اور سنت رسول، قرآن مجید کا حال یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنے الفاظ ؛ بلکہ اپنے رسم الخط اور لب و لہجہ کے ساتھ آج تک محفوظ ہے، آپ نے اپنی زندگی ہی میں خود اپنی نگرانی میں اس کی کتابت کرائی، (الاتقان فی علوم القرآن : ۱؍۶۴)سورتوں اورآیتوں کی ترتیب قائم کی، (روح المعانی : ۱؍۲۶) پھر آپؐ کی وفات کے بعد ایک سال بھی نہ گذرپایا تھا کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے صحابہ سے نوشتے حاصل کرکے اس کو یکجا کیا اور لب و لہجہ کا جو ہلکا سا اختلاف تھا، اسے حضرت عثمان غنیؓ نے ختم کرکے اپنے عہد ِخلافت میں تمام لوگوں کو ایک ہی لہجہ پر متفق کردیا، (مباحث فی علوم القرآن لمناع القطان : ۱۳۳)- وہ اس وقت سے آج تک ہر دور میں ہزاروں لاکھوں سینوں میں من و عن محفوظ ہے اور قرأت میں کہیں کوئی ایسا اختلاف نہیں ہے، جس کو معنی میں تغیر کی حد تک اختلاف کہا جاسکے۔

دوسرا ماخذ ’’ حدیث ‘‘ ہے، احادیث تمام کی تمام آپؐ کے صحابہ سے مروی ہیں، اس کے ایک قابل لحاظ حصہ کی کتابت خود آپ کے عہد میں ہوچکی تھی، آپؐ کی وفات کے صرف سو سال بعد ہی احادیث کے بڑے بڑے مجموعے مرتب ہوگئے، ہر حدیث کی سند محفوظ ہے اورکتابوں میںدرج ہے، سند میں آنے والے تمام راویوں کے حالات بھی محفوظ ہیں، انھیں دیکھ کر آج بھی فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس حد تک مستند یا غیر مستند ہیں؟

تاریخی طورپر ایسا تحفظ کسی اور مذہبی پیشوا کے حصہ میں نہ آسکا، اب ظاہر ہے کہ تاریخی استناد اور تحفظ کے لحاظ سے ہمارے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپ ہی کی ذات گرامی کی طرف رُجوع کریں۔

دوسرے : کسی مذہب کے عالمگیر ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہ پوری انسانیت کو مخاطب کرتا ہو اور وہ ان کو ایک نظر سے دیکھتا ہو، اس نقطۂ نظر سے پیغمبر اسلام کو دیکھئے کہ قرآن نے صاف اعلان کیا ہے کہ آپؐ کو تمام انسانیت کی طرف بھیجا گیا ہے: وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآ فَّةً لِّلنَّاسِ (سبا : ۲۸) نیز قرآن مجید کو تمام انسانوں کے لئے ہدایت کا پیغام قرار دیا گیا ہے، (البقرۃ : ۱۸۵) بلکہ آپؐ کو پورے عالم کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے: وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ (الانبیاء : ۱۰۷) اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ کی بارگاہِ نبوت میں حبش کے بلال بھی ہیں، روم کے صہیب بھی، فارس کے سلمان بھی ہیں، بنی اسرائیل کے عبد اللہ بن سلام بھی اور یمن کے ابوہریرہ بھی، (رضی اللہ عنہم) اس دربار میں نہ رنگ کی بنیاد پر کوئی تفریق ہے نہ نسل کی بنیاد پر، نہ علاقہ کی بنیاد پر کوئی امتیاز ہے، نہ زبان کی بنیاد پر، آپؐ نے اس تصور ہی کو رد فرمایا کہ انسان پیدائشی طورپر اونچا اور نیچا ہوتا ہے۔

پوری انسانیت کے لئے اُسوہ ہونے کی تیسری بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کی سیرت میں زندگی کے تمام گوشوں کے لئے رہنمائی موجود ہو، اس کا بہترین نمونہ اگر کہیں مل سکتا ہے تو وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہے، انسان خلوت میں ہو یا جلوت میں، بزرگوں کےساتھ ہو یاعزیزوں کے ساتھ، بزم میں ہو یا رزم میں، دشمنوں کا سامنا ہو یا دوستوں کا، عدالت کی کرسی پر ہو یا خود مقدمہ کا فریق ہو، تخت اقتدار پر ہو یا کسی کے اقتدار کے تحت، استاذ ہو یا طالب علم، تجارت و کاروبار میں ہو یا اللہ تعالیٰ سے راز و نیاز میں، رنج و اَلم کی شام ہو یا مسرت و شادمانی کی صبح، فتح سے ہمکنار ہو یا شکست سے دوچار، اولاد ہو یا ماں باپ، شوہر و بیوی ہو یا بھائی بہن، مریض ہو یا معالج، تیمار دار ہو یا خود تیمار داری کا محتاج، سرمایہ دار اور آجر ہو یا مزدور و اجیر، قرض دہندہ ہو یا مقروض، دولت مند ہو یا غریب، جوان ہو یا بوڑھا، سفر میں ہو یا حضر میں، عالم ہو یاجاہل، خدا کی توفیق سے نیک عمل اس نے کئے ہوں یا اس کا دامن عمل گناہ سے آلودہ ہو، غرض ہرموقعہ پر اور ہر حالت وکیفیت میں اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ یا آپؐ کے ارشادات اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔

اب چوتھے نکتہ پر غور کیجئے، یہ بات اہم ہے کہ نبی فرشہ یا دیوتا یا کسی دیوتا کا اَوتار نہیں ہوتا ؛ بلکہ وہ ایک انسان ہوتا ہے ؛ کیوںکہ انسان مافوق العادت ہستی کو اپنے لئے اُسوہ نہیں بناسکتا، انسان کے لئے وہی شخصیت نمونہ بن سکتی ہے، جس کو انسانی ضرورتیں پیش آتی ہوں اورجو انسان کو پیش آنے والے عوارض سے دوچار ہوتا ہو ؛ تاکہ زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل کے لئے وہ اس کی شخصیت کو آئینہ بنائے، بعض مذاہب میں اَوتار کا تصور ہے، یعنی خدا خود کسی شکل میں دنیا میں آجاتا ہے، وہ فضا میں اُڑتا ہے، اپنی قدرت سے مردہ کو زندہ کردیتا ہے، اپنے ایک ہاتھ پر پورے پہاڑ کو اُٹھالیتا ہے، انسانی جسم کے ساتھ جانور کے اعضاء کو جوڑ دیتا ہے وغیرہ وغیرہ، ظاہر ہے کہ انسان کے لئے ایسی شخصیتیں نمونہ نہیں ہوسکتیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کو بھوک بھی لگتی ہے، آپ بیمار بھی ہوتے ہیں، فتح پانے کے ساتھ ساتھ شکست سے دوچار بھی ہوتے ہیں، بیویاں ہیں، بال بچے ہیں، بھول چوک بھی ہوتی ہے، غرض کہ انسان کو جو کچھ پیش آتا ہے، وہ سب آپ کو بھی پیش آیا ہے، اہل مکہ کو یہی اعتراض تھا کہ آپ تو ہمارے ہی طرح چلتے پھرتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں، آپ نبی کیسے ہوسکتے ہیں ؟ (الفرقان : ۷) قرآن مجید نے آپ کی زبان سے ان کو جواب دلوایا کہ میں نے تو کسی اور مخلوق ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ہے، میں تو خود اعتراف کرتا ہوں کہ میں تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں، فرق یہ ہے کہ مجھ پر اللہ کی وحی نازل ہوتی ہے: اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤی اِلَیَّ (حم السجدۃ: ۶) اس لئے آپ ہی کی شخصیت انسانیت کے لئے نمونہ عمل ہوسکتی ہے۔
٭٭٭