مذہب

تعلیم قرآن کی ٹیوشن فیس

قرآن مجید کی تعلیم یا اذان پر اُجرت لینا فقہاء نے جائز قرار دیا ہے کہ اگر اس کی اجازت نہیں دی جائے تو دین کے اہم کاموں کی انجام دہی دشوار ہوجائے گی :

سوال:- بہت سارے حفاظ مساجد اور مدرسوں میں خدمت انجام دیتے ہیں ، جس کا انھیں معاوضہ بھی دیا جاتا ہے ،

فرصت کے اوقات میں کچھ بچوں کو قرآن پڑھاتے ہیں اور اس کا بھی بھرپور معاوضہ طلب کرتے ہیں ، کیا ایسا کرنا درست ہے ؟(محمد اسامہ، کریم نگر)

جواب :- قرآن مجید کی تعلیم یا اذان پر اُجرت لینا فقہاء نے جائز قرار دیا ہے کہ اگر اس کی اجازت نہیں دی جائے تو دین کے اہم کاموں کی انجام دہی دشوار ہوجائے گی :

’’ ویفتی الیوم بصحتھا لتعلیم القرآن الخ‘‘ (ردالمحتار : ۹؍۷۶) —

یہ بنیادی طورپر عمل کی اُجرت نہیں ہے ، وقت کی اُجرت ہے ؛ کیوںکہ ان کاموں میں خاصا وقت صرف کرنا پڑتا ہے ؛

لہٰذا اگر کوئی شخص امامت کرتا ہو ، مدرسہ یا مکتب میں پڑھاتا ہو اور اپنے بچے ہوئے وقت میں بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیتا ہو تو اس کے لئے اس کی اُجرت لینا درست ہے ،

اگر ایسی خدمت کرنے والے لوگ مہیا نہ ہوتو جن بچوں کو مدرسہ یا مکتب میں جانے کا وقت نہیں ملتا ، وہ قرآن مجید کی تعلیم سے محروم رہ جائیں گے ۔