طنز و مزاحمضامین

ہم کہاں جارہے ہیں؟

حمید عادل

نت نئی ایجادات کو دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے …کیوں کہ انسان کی بنائی ہوئی مشینیں انسان سے دو قدم آگے معلوم ہوتی ہیں… آج ہی کی بات ہے ہم اپنے سل فون کو گودی میں لٹائے پانی پی رہے تھے ، جیسے ہی اس پرپانی کے چند قطرے گرے ، فوری اسکرین پر پیام نمودار ہوا:
Check charger/USB port
Moisture has been dedected in your charger /USB port.Make sure it’s dry before charging your phone.
البتہ یہ دیکھ کرمایوسی ہوتی ہے کہ حضرت انسان کی ایجادات تو نہایت حساس ہیں لیکن وہ خود بے حس ہوتا جارہا ہے …
ہماری پستی کی سب سے بڑی وجہ خود ہماری ہستی ہے ،آج ہمیں خود سے زیادہ کسی سے محبت نہیں رہی …مفاد پرستی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور ہم نے مفاد پرستی کو …شہنشاہ ظرافت مشتاق احمد یوسفی کا کہنا ہے ’’مسلمان ہمیشہ ایک عملی قوم رہے ہیں۔ وہ کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کر کے کھا نہ سکیں۔‘‘
کھانے کے ہم بڑے شوقین ہوچلے ہیں، حتیٰ کہ کسی کا مال تو کیا سکھ چین تک کھا جاتے ہیں جبکہ انا ہمیں کھا ئے جارہی ہے …
ایک نوجوان برق رفتاری سے موٹر سائیکل دوڑا رہا تھا ،اس نے کنٹرول کھویا اورگیر بدلتے بدلتے ایک راہ گیر کی ٹانگوں میں موٹر سائیکل گھسا بیٹھا … دوسرے ہی لمحے معصوم پیدل راہ گیر حواس باختہ سڑک پر چاروں خانے چت پڑا تھا… اس سے قبل کہ وہ صدائے احتجاج بلند کرتا، ’’ چوری اور سینہ زوری ‘‘ کے مصداق ٹکر مارنے والاشخص برس پڑا ’’ دیکھ کر چلا نہیں جاتا کیا رے؟ مرنے کے لیے کیا میری ہی گاڑی ملی تھی ؟تم پیدل چلنے والے آخر گھر سے باہر نکلتے کیوں ہو؟خواہ مخواہ ہمارا وقت اورموڈ دونوںخراب کردیتے ہو۔‘‘ …متاثرہ شخص کی ہمت ہی نہیں ہوئی کچھ کہنے کی،وہ بڑی مشکل سے سڑک سے کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھا،اپنی غلطی نہ ہونے کے باوجود غلطی سمجھ کر اپنی راہ پر چل پڑا…کبھی تو یوں بھی ہوتا ہے کہ ٹکر بھی ماری جاتی ہے اوردھولیں بھی کہ میری گاڑی کے آگے آنے کی تو نے ہمت کیسے کی؟
ہائے وہ بھی کیا دن تھے ، ذرا سا پیر کسی کو لگ جاتا تو نہایت ندامت کے ساتھ ’’ تیرا میرا ، میرا تیرا‘‘کا کھیل شروع ہوجاتا یعنی جس کسی کو اس کا پیر لگا ہے وہ اس شخص کو نہایت ندامت کے ساتھ چھوتا اور پھر خودکو چھوتا،پھر اسے چھوتا پھر خود کو چھوتا… وہ ایسا کم از کم تین بارضرور کرتا…ساتھ ہی کہتا جاتا ’’ معاف کرنا بھائی … ‘‘ لیکن آج کوئی ہمارے پیر کو اپنے پیروں تلے روند کر بھی بے حسی کی مورت بنا کھڑا رہتا ہے… ہم انتظار کرتے ہیں کہ شاید اب وہ ’’ سوری‘‘ کہے گا لیکن وہ نہیں کہتا…یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کہہ پاتے ہیں ، کہتے بھی ہیں تو بس اتنا کہ ’’ بھائی جان ! ہمارا پیر آپ کے پیروں تلے آگیا ہے ۔برا نہ مانیں تو اسے ہم نکال لیں ‘‘دراصل ہم نے پہلے پہل ’’ اینگری ینگ مین‘‘ بننے کی حماقت کی تو جواب ملا تھا ’’ہوتا بابو ، اگر اتنے ہی نازک مزاج ہو تو اپنے پیر گھر میں رکھ کر نکلا کرو ۔‘‘تو کسی نے بے سر پیرکی بات کر ڈالی کہ ہم پیر اپنے سرپر رکھ لیں…ہم ذرا سا کیاغرائے ،حالات ہمارے حق میں اس قدر دھماکو ہوئے کہ اپنے پیر سچ مچ سر پر رکھ کر بھاگنا پڑا…لیکن ’’ سوری‘‘ کسے نے نہیں کہا…
اب تو ’’شکریہ ‘‘ ادا کرنے کی روایت بھی دم توڑتی جارہی ہے ، غالباً ہم یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس نے میری مددہی تو کی، آسمان سے کونسے تارے توڑ کر لا دیے…ایک وقت تھا بھکاری ایک پیسہ لے کر دس لاکھ کی دعا دیا کرتا تھا، آج سو روپئے لے کر بھی وہ دو پیسے کی دعا نہیں دیتا…قصہ مختصر یہ کہ اظہار تشکر کا جذبہ دن بہ دن دم توڑ رہا ہے ، لیکن جانور اس جذبے سے آج بھی سرشار ہیں ۔ سوشل میڈیا پروائرل ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بے زبان ہرن کا بچہ اپنی ماں کی جان بچانے والے کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اپنے محسن کے قدموں میں بچھ جاتا ہے۔ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہرن کا ایک چھوٹا بچہ جنگل کنارے سڑک پر کھڑی کار میں بیٹھے افراد کی جانب پر امید نگاہوں سے دیکھتا ہے اور بے چین ہو کر بار بار عقب میں جنگل کی جانب دیکھتا پھر کار میںسوار افراد کو دیکھتا ہے، اس کے انداز سے لگتا ہے کہ جیسے وہ کچھ درخواست کرنا چاہ رہا ہے ۔ بے زبان معصوم جانور کی اس بے چینی کو تاڑتے ہوئے کارمیں سوار دو افراد تجسس میں گاڑی سے اترتے ہیں تو ہرن کا بچہ جنگل کی جانب جانے لگتا ہے اور انہیں بار بار مڑ کر دیکھتا ہے جیسے کہ انہیں اپنے پیچھے آنے کو کہہ رہا ہو…جنگل میں کچھ دور چلنے کے بعد انہیں کسی جانور کے کراہنے کی آواز آتی ہے اور جب وہ اس آواز کے تعاقب میں جاتے ہیں تو جھاڑیوں میں ایک ہرنی رسیوں سے جکڑی ملتی ہے۔ یہ افراد اسے آزاد کرانے کے لیے آگے بڑھتے ہیں جس پر وہ خوفزدہ ہو جاتی ہے جس سے وہ رسیوں میں مزید جکڑ جاتی ہے تاہم نوجوان کار سے چاقو لاکر رسیاں کاٹتے اور بڑی مشکل سے ہرن کو رسیوں سے آزاد کرتے ہیں۔آزادی ملتے ہی ہرن اپنے بچے کی جانب دوڑ جاتی ہے جب کہ ریسکیو کرنے والے افراد اپنی راہ لیتے ہیں لیکن اس وقت ان کی حیرت کی انتہا نہیں رہتی، جب ہرن کا بچہ اپنی ماں کو چھوڑ کر ان کے پیچھے پیچھے آتا ہے اور شکریہ اس طرح ادا کرتا ہے کہ اگلی دونوں ٹانگیں زمین پر ٹیک کر وہ ان کے قدموں میں بچھ جاتا ہے…
مذکورہ واقعہ سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اگر سیکھنے کا جذبہ زندہ ہو …آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح ہم چاندکے تاریک حصے میں جا پہنچے ٹھیک اسی طرح ہمیں دل کے اس تاریک گوشے تک پہنچنا ہے جہاں جہالت کا راج ہے … ملک کے گوشے گوشے سے ملنے والی اطلاعات سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست دانوں کی جانب سے پھیلایا جانے والا نفرت کا زہر، بڑی تیزی سے اثر کرنے لگا ہے ،اب تو یہ معصوم بچوں کے ذہنوں تک سرائیت کر چکا ہے … قصہ مختصر یہ کہ سیاست داں بڑے سلیقے سے نئی نسل کو غنڈہ بنار ہے ہیں …
آج ہر سو جھوٹ اور فریب کا بول بالا ہے ،اس معاملے میں سیاست داں تو سب سے آگے ہیں… گیاس سیلنڈر میں دو سو روپئے کم کرکے وزیراعظم کہتے ہیں ’’رکشا بندھن کا تہوار ہمارے خاندان میں خوشی بڑھانے کا دن ہے۔ گیس کی قیمتوں میں کمی سے میرے خاندان کی بہنوں کے سکون میں اضافہ ہو گا اور ان کی زندگیاں آسان ہو جائیں گی۔‘‘ چمن بیگ ہم سے پوچھ بیٹھے ’’ یہ کیسے بھائی ہیں،جنہیں نو سال بعد بہنوں کی یاد آئی ہے ؟‘‘ اور پھر انہوں نے سیلنڈر کی قیمت میں کمی کو انتخابات سے جوڑ کر معروف شاعر راحت اندروی کا یہ شعر پڑھ ڈالا :
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا ؟
کچھ پتا تو کرو چنائو ہے کیا ؟
مشکوک کہنے لگے ’’یہ وہی بی جے پی ہے جب سیلنڈر کی قیمت چار سو کے پار ہوئی تو اس نے سیلنڈر سر پر اٹھا لیا تھا …‘‘
کہتے ہیں کہ ایک جنگل میں جانور بہت زیادہ بیمار رہنے لگے، آئے دن کوئی نہ کوئی جانور بیماری کی زد میں آ کر اپنی جان کھو بیٹھتا۔ اس ساری صورت حال میں جنگل کے بادشاہ شیر کے پاس شکایتیں آنا شروع ہو گئیں کہ ہمارے جنگل میں علاج معالجے کا صحیح انتظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ صورتحال بنی ہوئی ہے۔ چونکہ شیر کو اپنی رعایا کی فکر تھی اس لیے شیر نے ہنگامی بنیادوں پر ایک اجلاس طلب کیا جس میں جنگل کے سارے سیانے اور بزرگ جانوروں نے شرکت کی۔
اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ ہمیں اپنے کسی سمجھدار جانور کو میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم دلوانی چاہیے۔ سب اس بات پر متفق ہوگئے اب اگلا مرحلہ تھا کہ آخر کون سا جانور اس بات اہل ہے کہ وہ جنگل کا مسیحا بن سکے۔ کافی غور و فکر کے بعد قرعہ فال بندر کے نام نکلا اور بندر نے بھی اس فیصلے کو سر تسلیم خم کیا۔ یوں بندر ایف سی پی ایس (میڈیکل کی اعلیٰ ڈگری ) کرنے کے لیے امریکہ روانہ ہو گیا۔ اب بندر نے وہاں میڈیکل کی تعلیم کس قدر حاصل کی یہ بندر ہی بہتر جانتا ہے…
آخر وہ دن آ پہنچا کہ بندر میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے جنگل واپس آ گیا، خوب استقبال ہوا، اور بندر کو جنگل کے ہر جانور نے باری باری مبارک باد دی۔ ابھی مبارک بادوں کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ اچانک سے لومڑی بیمار پڑ گئی …لومڑی کی بیماری کو دیکھتے ہوئے فوراً اسے ڈاکٹر بندر کے پاس لایا گیا۔ اتنے میں سارے جنگل کے جانور بھی جمع ہونا شروع ہو گئے اور جنگل کا بادشاہ شیر بھی پہنچ گیا۔ ڈاکٹر بندر نے تمام جانوروں سے کہا کہ دور ہٹ جائیں سب جانور لومڑی سے دور جا کھڑے ہوئے۔
ڈاکٹر بندر نے لومڑی کا کچھ دیر معائنہ کیا اور اس کے بعد درختوں پہ چھلانگیں لگانا شروع ہو گیا، کبھی ایک درخت پر اور کبھی دوسرے پر اور لومڑی بیچاری ویسے ہی تڑپتی رہی۔ یوں ڈاکٹر بندر چھلانگیں لگاتا رہا اور لومڑی تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ جنگل کے بادشاہ شیر نے یہ سب ماجرا دیکھ کر فوراً بندر کو طلب کیا کہ یہ تم نے کیا کیا لومڑی تو مر گئی ہے۔ ڈاکٹر بندر نے کہا بادشاہ سلامت ! میں نے اپنی طرف سے بہت ’’ بھاگ دوڑ‘‘ کی پر اس کی موت کا وقت آ گیا تھا۔‘‘
اس واقعے کو سن کر مشکوک حیدرآبادی چہک اٹھے ’’ایسی ہی ’’ بھاگ دوڑ‘‘ ان دنوںدلی کے سیاسی گلیاروں میں ہورہی ہے…‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ہم نے سوال اچھالا۔
مشکوک حیدرآبادی نے آنکھیں مٹکا کر کہا ’’آج کے سیاست داں اپنی ناکامیوں کو نہرو کے سرجو تھونپ رہے ہیں …‘‘
’’تم تو بڑے سمجھدار نکلے مشکوک … ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہی …‘‘
ایک معروف فلمی مکالمہ ہے ’’جھوٹ کو اس شدت سے کہو کہ وہ سچ معلوم ہو‘‘ فی زمانہ سیاست داں اسی پر عمل پیرا ہیں …اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے مخصوص طبقے پربھونکنا گویا ان کی عادت بن چکی ہے …جی ہاں ! سنا ہے کہ صرف کتے ہی نہیں بھونکتے…
ایک مرتبہ ایک یورپی کتا ، ہمارے ملک آگیا، ہمارے ملک کے کتوں نے پوچھا ’’ بھئی ! آپ کے ہاں کوئی کمی ہے جو آپ ہمارے ہاں چلے آئے ؟‘‘ یورپی کتے نے کہا ’’ وہاں کا رہن سہن، آب و ہوا ،کھانا پینااور معمولات زندگی یہاں سے کہیںبہتر ہے لیکن آپ کے ملک میں بھونکنے کی جیسی آزادی ہے،وہ دنیا میں کہیں نہیں !‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰