مذہب

ویڈیو اپلوڈ کرنا

اس مسئلہ میں دو پہلو قابل توجہ ہیں، ایک تو خود تصویر ہونے کا، چوں کہ جاندار کی تصویر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے۔

سوال:سوشل میڈیا پر آڈیو کے ساتھ ساتھ ویڈیو بھی اپلوڈ کی جاتی ہے، اس میں بعض مفید ہوتی ہیں اور بعض اخلاقی اعتبار سے نقصان دہ؛ لیکن بہرحال اس میں متحرک تصویر موجود ہوتی ہے،

کیا اس طرح ویڈیو جاری کرنا یا اس کو دیکھنا یا اس کو آگے بڑھانا جائز ہوگا؛ کیوں کہ اس میں تصویریں موجود ہیں۔
( محمد عدنان، اندور)

جواب:اس مسئلہ میں دو پہلو قابل توجہ ہیں، ایک تو خود تصویر ہونے کا، چوں کہ جاندار کی تصویر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے،

دوسرے: مخرب اخلاق تصویریں اپلوڈ کرنا اور ان کو آگے بڑھانا، جہاں تک تصویر ہونے کی بات ہے تو تصویر کے حرام ہونے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے؛

لیکن اُس زمانہ میں ڈیجیٹل تصویر کا وجود نہیں تھا، جس میں صورت تو نظر آتی ہے؛ لیکن اس میں بقا نہیں ہوتا، جوں ہی اسکرین سے ہٹا دیا جائے، نظروں سے اوجھل ہو جاتی؛ اس لئے اس میں عکس سے بھی مشابہت پائی جاتی ہے،

جیسے آئینہ کے سامنے انسان کھڑا ہو جائے تو صورت نظر آتی ہے اور ہٹ جائے تو صورت نظر نہیں آتی ہے، اس کو تصویر کا درجہ نہیں دیا گیا ہے؛

اس لئے عرب علماء نے عام طور پر اور بر صغیر کے بھی متعدد محقق اہل علم نے اس کو اس تصویر کے دائرہ سے باہر رکھا ہے، جس کو حرام قرار دیا گیا ہے، سوشل میڈیا کے ذریعہ جو تصویر نشر کی جاتی ہے، اس کی نوعیت یہی ہے؛ اس لئے بہت سے اہل علم کے نزدیک یہ صورت جائز ہے۔

رہ گیا دوسرا نکتہ تو اُصول یہ ہے کہ جس چیز کا استعمال مختلف مقاصد کے لئے ہو سکتا ہے، ا س کا حکم اس کے مقصد کے حساب سے ہوگا، اگر کوئی ویڈیو، آڈیو، تحریر، فحش ، مخرب اخلاق، جھوٹ اور کفریہ باتوں پر مشتمل ہو تو اس کا آگے بڑھاناحرام ہوگا؛

بلکہ اگر اس میں اسلام پر اعتراض اور کفر کی ترجمانی ہو، تب تو یہ باعث کفر بھی ہوگا، اور اگر اس کا مقصد مباح ہو، جیسے: خبریں سننا یا دیکھا، معلومات حاصل کرنا، فاصلاتی تعلیم وغیرہ، تو یہ صورت جائز ہوگی، اور اگر اس کا مقصد کسی بہتر اور مستحسن مقصد کے لئے ہو،

جیسے: اسلام کی دعوت، شرعی مسائل کی رہنمائی وغیرہ، تو اس کا استعمال مستحب اور قابل اجر ہوگا، بہر صورت ایسے آلات کے سلسلے میں شرعی اعتبار سے مقصد ِاستعمال کی اہمیت ہے۔