مضامین

گھوسی ضمنی انتخاب: کیا بی جے پی کے لیے متحدہ اپوزیشن کے خلاف جیت حاصل کرنا مشکل ہوگا؟

منوج سنگھ

20 دنوں تک دو درجن سے زیادہ وزراء اورپارٹی کی تمام کوششوں کے باوجود بی جے پی بالآخر گھوسی ضمنی انتخاب میں بڑے فرق سے ہار گئی۔ ایس پی امیدوار سدھاکر سنگھ نے بی جے پی امیدوار، سابق وزیر دارا سنگھ چوہان کو 42759 ووٹوں سے شکست دی۔ سدھاکر کو 124427 (57.19 فیصد) ووٹ ملے، جبکہ دارا کو 81668 (37.54 فیصد) ووٹ ملے۔ غریبوں کے لیے کام ، ترقی کا واسطہ، ہندوتوا اور بلڈوزر کارروائی کی داستان اور مودی-یوگی کا چہرہ اس الیکشن میں کچھ بھی کام نہیں آیا۔
اتر پردیش کے مﺅ ضلع کی اس سیٹ پر ایس پی کی جیت کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ اگر تمام اپوزیشن پارٹیاں متحد ہو کر بی جے پی کے خلاف لڑیں تو اسے ہرانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
اگرچہ ایس پی امیدوار کی جیت میں مقامی ایکویشن کے ساتھ ساتھ دارا سنگھ چوہان کی پارٹی بدلنے،ان کے باہری ہونے اور ان کی غیر فعال عوامی نمائندے کی امیج نے بڑا کردار ادا کیا، پھر بھی لوک سبھا انتخابات سے پہلے یہ انتخاب اپوزیشن کے انڈیا اتحاد بنام بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کے لیے امتحان تھا اور اس میں ”انڈیا“ کو کامیاب ملی۔
سابق وزیر اعلیٰ اور ایس پی صدر اکھلیش یادو نے پارٹی امیدوار کی جیت کو عوام کی بڑی سوچ کی جیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ گھوسی نے نہ صرف سماج وادی پارٹی بلکہ انڈیا اتحاد کے امیدوار کو جیت دلوائی ہے اور اب یہی آنے والے کل کا بھی نتیجہ ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ انڈیاٹیم ہے اور پی ڈی اے (پچھڑے، دلت اور اقلیت) حکمت عملی، جیت کا ہمارا نیا فارمولا کامیاب ثابت ہوا ہے۔
یہ ضمنی انتخاب ایس پی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے والے دارا سنگھ چوہان کے استعفیٰ کی وجہ سے ہوا۔ انہوں نے 2022 کے انتخابات میں ایس پی سے جیت حاصل کی تھی، لیکن 15 مہینے بعدہی ایس پی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ بی جے پی نے ان سے استعفیٰ لیا اور انہیں ضمنی انتخاب میں امیدوار بنایا۔ ایس پی نے ان کے سامنے اپنے پرانے لیڈر اور دو بار کے ایم ایل اے سدھاکر سنگھ کو میدان میں اتارا تھا۔
چوہان پارٹی بدلتے رہے ہیں۔ انہیں یوپی میں سیاسی موسم کا ماہر کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کانگریس سے بی ایس پی، بی ایس پی سے ایس پی، ایس پی سے کانگریس، کانگریس سے بی ایس پی، بی ایس پی سے بی جے پی، بی جے پی سے ایس پی اور ایس پی سے دوبارہ بی جے پی کا سفر کیا۔
انہوں نے تین دہائیوں میں نو بار پارٹی بدلی۔ چوہان 1996 سے 2006 تک دو بار راجیہ سبھا میں رہے۔ ایک بار بی ایس پی اور دوسری بار ایس پی نے انہیں راجیہ سبھا بھیجا۔ وہ بی ایس پی کے ٹکٹ پر 2009 میں گھوسی سیٹ سے لوک سبھا پہنچے تھے۔ اس کے بعد وہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں ہار گئے تھے۔
پھر وہ بی ایس پی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے مدھوبن اسمبلی سیٹ پر بی جے پی سے 2017 کے اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا اور کانگریس کے امریش چندر پانڈے کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی۔ انہیں یوگی حکومت میں وزیر جنگلات بنایا گیا۔چوہان نے 2022 کے انتخابات سے عین قبل سوامی پرساد موریہ کے ساتھ بی جے پی چھوڑ کر ایس پی میں شمولیت اختیار کی۔ اس بار انہوں نے اپنی سیٹ تبدیل کی اور گھوسی سے الیکشن لڑا۔ ان کا مقابلہ بی جے پی کے وجے راج بھر سے ہوا۔ دارا سنگھ چوہان 22216 ووٹوں کے فرق سے جیت حاصل کرنے میں کامیاب رہے، لیکن 15 ماہ بعد ہی انہوں نے ایس پی سے استعفیٰ دے دیا۔
لگاتار پارٹی بدلنے اور حلقے میں نظر نہ آنے کی وجہ سے لوگوں نے ان سے دوری اختیار کر لی۔ وہ گزشتہ اسمبلی انتخابات ایس پی کے مضبوط سماجی ایکویشن کی وجہ سے جیت سکے تھے۔
استعفیٰ دے کر انتخابی میدان میں آتے ہی حلقے کے تمام ذات پات اور مذاہب کے لوگوں میں ان کے خلاف غصہ پھوٹ پڑا۔ ایس پی امیدوار سدھاکر سنگھ نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے الیکشن کو ’ مقامی بنام باہری اور دل بدلو بنام ٹکاو¿‘کا معاملہ بنا دیا۔
سدھاکر ہر انتخابی جلسے میں کہنے لگے، ”گھوسی کی ماٹی پر باہری لیڈروں نے قبضہ کر لیا ہے۔ وہ صرف الیکشن لڑنے آتے ہیں اور جیت کر چلے جاتے ہیں۔ باہری بھگاو¿، گھوسی بچاو¿۔ ہم جیتے یا ہارے نیموا(نیم ) کے پیڑ تلے (گھوسی میں بلاک آفس کے قریب اپنے گھر )ہمیشہ ملتے رہیں گے۔ ہارنے کے بعد بھی نہ پارٹی چھوڑی نہ ہی گھوسی۔ ہم گھوسی کی ماٹی کے لال ہیں۔“
ایس پی امیدوار کے حق میں لوگوں کی ہمدردی بھی تھی۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے گھوسی کے انتخابی جلسہ میں اس بات کو محسوس کیا تھا اور لوگوں سے ہمدردی پر نہ جانے کی اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ ترقی کے بارے میں سوچیں۔
انتخابی مہم کے اختتام پر بی جے پی کے لیڈروں کو احساس ہوا کہ پورا الیکشن سدھاکر سنگھ بنام دارا سنگھ چوہان ہو گیا ہے۔ آخری وقت میں بی جے پی لیڈروں نے اسے ایس پی بنام بی جے پی بنانے کی کوشش کی، لیکن اسی وقت سدھاکر سنگھ نے ایک اور چال چل دی۔ انہوں نے اس الیکشن کو اپنا آخری الیکشن قرار دے کر رائے دہندگان کو اپنے حق میں اور زیادہ جذباتی کر دیا۔
گھوسی کے لوگ اس بات پر بھی ناراض تھے کہ چھ سال میں ان پر دو ضمنی انتخابات تھوپے گئے۔ سال 2017 میں گھوسی سے طاقتور لیڈر پھاگو چوہان نے کامیابی حاصل کی تھی۔ ٹھیک دو سال بعد ہی انہیں گورنر بنا دیا گیا، جس کی وجہ سے یہاں 2019 میں ضمنی انتخاب ہوا۔ ضمنی انتخاب میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد 2022 کے انتخاب میں دارا چوہان جیت گئے تو 15 ماہ بعد ہی ان سے استعفیٰ لے لیا گیا اور دوبارہ ضمنی انتخاب کرا دیا گیا۔ سدھاکر سنگھ نے بھی اسے انتخابی ایشو بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ایک شخص کو اقتدار کی ملائی دلانے کے لیے ضمنی الیکشن گھوسی کے عوام پر تھوپاگیا ہے۔ گھوسی ضمنی انتخاب میں بی جے پی نے اپنی پوری طاقت لگا دی تھی۔ بی جے پی نے 40 اسٹار پرچارکوں کی فہرست جاری کی تھی۔ دو درجن سے زائد وزراء پورے الیکشن میں گاو¿ں گاو¿ں، چوراہے چوراہے ووٹ مانگتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے گاو¿ں کے پردھان کا انتخاب ہو رہا ہو۔ نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک کمان سنبھالے ہوئے تھے۔
مﺅ، اعظم گڑھ، غازی پور سے لے کر گورکھپور تک کے ہوٹل اور گیسٹ ہاو¿س بی جے پی لیڈروں سے بھرے ہوئے تھے۔ بی جے پی لیڈروں کی گاڑیوں کی آواز ہر طرف گونج رہی تھی۔ آخر میں اداکار سے سیاستدان بنے منوج تیواری اور روی کشن کا روڈ شو بھی ہوا۔ خود چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے 2 ستمبر کوانتخابی جلسہ کیا تھا۔اپنا دل (ایس) کے ورکنگ پریسیڈنٹ اور کابینی وزیر آشیش پٹیل، نشاد پارٹی کے صدر سنجے کمار نشاد اور سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی (سبھاسپا) کے صدر اوم پرکاش راج بھر نے دارا چوہان کے حق میں اپنی اپنی برادریوں کے ووٹروں کو راغب کرنے کی کوشش کی تھی۔ راج بھر نے تو سب سے زیادہ زور لگایا تھا۔ وہ دارا سنگھ چوہان کو جتوا کر اپنے بیٹے کے لیے گھوسی لوک سبھا سیٹ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ اس علاقے میں ان کا بہت بڑا ووٹ بینک ہے۔
سبھاسپا کے تمام چھ ایم ایل اے مﺅ، غازی پور، بلیا، جون پور اور بستی اضلاع سے ہی جیتے تھے۔ ایس پی سے ناطہ توڑ کر وہ یہ دکھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ پوروانچل کے وسط میں جن سات اضلاع (بستی، جون پور، غازی پور، اعظم گڑھ، مﺅ، امبیڈکر نگر اور بلیا جہاں ایس پی اتحاد نے47 میں سے 38 سیٹیں حاصل کی تھیں) میں ایس پی کو شاندار کامیابی ملی تھی، وہ انہی کی مرہون منت تھی، لیکن گھوسی کی شکست نے نہ صرف ان کے خواب چکنا چور کر دیے بلکہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کے ان کے دعوے کو بھی کمزور کر دیا۔
گھوسی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر اقلیتی برادری کوانتظامیہ کے دم پر ڈرا دھمکا کر ان کے ووٹنگ فیصد کو کم نہ کیا جاتا تو جیت کا فرق اور بڑا ہوتا۔
اس الیکشن میں بی جے پی کے تضادات بھی کھل کر سامنے آگئے تھے۔ بی جے پی کے کور ووٹر کھشتری، بھومیہار، برہمن ہی اس سے دور ہو گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایس پی امیدوار کا تعلق کھشتریہ برادری سے تھا اور ساتھ ہی بی جے پی پسماندہ ذات کے امیدواروں کو بہت زیادہ اہمیت دیتی نظر آ رہی ہے۔اعلیٰ ذات کے ووٹرسدھاکر سنگھ کی حمایت کرکے بی جے پی کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ انہیں نظر انداز کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ لوگ ظاہری طور پر تو دارا سنگھ چوہان کی تشہیر کر رہے تھے، لیکن اندر خانے سدھاکر کے لیے ووٹ مانگ رہے تھے۔ یہ لوگ اس بات پر بھی بحث کر رہے تھے کہ اوم پرکاش راج بھر اور چوہان کو یوگی آدتیہ ناتھ کو نظر انداز کرکے بی جے پی میں واپس لایا گیا ہے، جبکہ انہی لیڈروں نے پچھلے انتخابات میں یوگی کو پچھڑوں کا مخالف بتایا تھا۔ بی ایس پی نے ضمنی انتخاب میں امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ بی ایس پی کی طرف سے کسی امیدوار کے حق میں حمایت یا مخالفت کی کوئی اپیل نہیں کی گئی۔ کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں نے ایس پی کی حمایت کی تھی، حالانکہ ان پارٹیوں کے بڑے لیڈر انتخابی مہم کے لیے نہیں آئے تھے۔ صرف بائیں بازو کی جماعتوں نے بھرپور طریقے سے انتخابی مہم چلائی تھی۔
چوہان کے تئیں غصہ دیکھ کر ایس پی نے دوسری پارٹیوں کے بڑے لیڈروں کو انتخابی مہم میں اتارنے کی کوشش نہیں کی اور الیکشن کو سدھاکر بنام چوہان پر مرکوز رکھا۔ ایس پی امیدوار سمیت تمام ایس پی لیڈر کہتے رہے کہ انہیں ہر پارٹی اور ہر طبقہ کی حمایت مل رہی ہے۔
چونکہ بی ایس پی کا کوئی امیدوار نہیں تھا، اس لیے بی جے پی اور ایس پی دونوں نے سب سے زیادہ توجہ دلت ووٹروں پر مرکوز رکھی۔ بی جے پی لیڈروں نے دلتوں اور برہمنوں کو ڈیڑھ دہائی قبل گیسٹ ہاو¿س واقعہ اور فائرنگ کے واقعہ کی یاد دلاتے ہوئے ایس پی سے دور کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ مودی یوگی حکومت کے آئین اور ریزرویشن پر حملہ کو لے کر دلتوں کے ایک طبقے کے درمیان بحث چل رہی تھی اور یہ طبقہ اس سے متاثر ہو کر بی جے پی کے خلاف ایس پی میں شامل ہو گیا۔
یہ ضمنی انتخاب نہ صرف انڈیا اتحاد بنام این ڈی اے کی طاقت کا امتحان تھا، بلکہ یہ ذات پات اور برادری کے نام پر بننے والی سیاسی پارٹیوں کی موقع پرستی کو سماج کی طرف سے مسترد کرنے کا بھی انتخاب تھا۔ ذات پات کے ایکویشن بی جے پی کے حق میں تھے۔ اسے اعلیٰ ذاتوں کے ساتھ ساتھ سبھا سپا، نشاد پارٹی، اپنا دل (ایس) کی حمایت حاصل تھی، جن کی اپنی برادری میں اچھی گرفت ہے۔ اس ضمنی انتخاب میں ان جماعتوں کی موقع پرستی اور اقربا پروری پر لوگ سوال اٹھا رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ لوگوں نے ان کے تمام دلائل کو نظر انداز کر دیا۔ آنے والے دنوں میں دلت پچھڑا سماج کی بڑھتی ہوئی بیداری سے ان پارٹیوں کو مزید نقصان پہنچے گا۔
اس الیکشن نے دارا سنگھ چوہان کے سیاسی کیریئر کو بڑا جھٹکا دیا ہے۔ پچھلی تین دہائیوں سے، وہ تمام پارٹیوں کے لیے پچھڑوں بالخصوص چوہان نونیا برادری پر اچھی پکڑ رہنے والے رہنما رہے ہیں۔ انہوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ہر پارٹی میں جا کر اپنی ایک خاص پوزیشن بنانے میں کامیاب رہے۔ چرچا تھا کہ الیکشن جیتنے کے بعد انہیں وزیر بنایا جاتا، لیکن اب بی جے پی ان کا کیا استعمال کرتی ہے، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔