سیاستمضامین

الیکشن سر پہ ہے، چوکنا رہیئے

محمد اعظم شاہد

ملک میں عام انتخابات کے لیے بگل بج گیا ہے۔ اٹھارویں لوک سبھا کے لیے انتخابات کل سات مرحلوں میں 19 /ا پریل 2024 تا یکم جون تک 44 دنوں کے دورانیہ میں منعقد ہوں گے۔ 52-1951 کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں انتخابی مرحلوں کے حوالے سے اس سال کے انتخابات بہت بڑے پیمانے پر ہو رہے ہیں۔ 543 لوک سبھا سیٹوں (نشستوں) کے لیے ہونے والے ان انتخابات میں 1.4بلین کی آبادی میں960ملین لوگ ووٹ دینے کے اہل ہیں۔ ان عام انتخابات کے ساتھ ساتھ آندھرا پردیش،ارونا چل پردیش، اڈیشہ اور مسلم ریاستوں میں اسمبلی انتخابات بھی ہونے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ 16 ریاستوں میں 35 خالی اسمبلی سیٹوں کے لیے ضمنی انتخابات بھی ہوں گے۔ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی مسلسل تیسری بار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور دعویدار بھی ہیں کہ چوتھی مرتبہ ملک کی باگ ڈور وہی سنبھالیں گے۔ اعتماد کے ساتھ مودی نے اعلان کیا ہے کہ اس بار (2024 میں) ان کی پارٹی چار سو (400) سیٹوں کا ہدف پار کرلے گی۔ 2019 کے لوک سبھاعام انتخابات میں بی جے پی اپنے این ڈی اے گٹھ بندھن کے ساتھ تقریباً 38 فی صد ووٹ حاصل کیے تھے اور 303 سیٹوں پر ان کا قبضہ تھا۔ جب کہ انڈین نیشنل کانگریس اپنے سیاسی حمایتوں کے ساتھ یو پی اے (اب انڈ یا) کے لیے تقریباً 20 فی صد (19.49) ووٹ حاصل کر کے دو ہندسوں پر مشتمل یعنی49 سیٹ حاصل کیے تھے۔ اب بر سراقتدار پارٹی اور متحدہ اپوزیشن INDIA دونوں پارلیمان میں اپنی شراکت داری کی تعداد میں ممکنہ حد تک حکومت تشکیل کرنے کے منصوبوں کے ساتھ اضافہ کرنے کی جانب دوڑ میں شامل ہیں۔
سیاسی نمائندوں میں توڑ جوڑ، پارٹی بدلی اور سیٹوں کو حاصل کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ویسے عام آدمی کی قسمت پر الیکشن کے بعد بدلنے سے رہی ہے۔ وہ (عام آدمی) کہاں تھا،و ہیں تھا اور رہ جاتا ہے۔ مگر بدل جاتی ہیں تو تقدیر یں، انتخابات میں کامیاب عوامی نمائندوں کی جو عام طور پر عوام سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ جن عام لوگوں کی چوکھٹ پر ہاتھ جوڑے ووٹ مانگتے دکھائی دیتے تھے۔ اپنی کامیابی کے بعد ان (کامیاب نمائندوں) کے عالیشان بنگلوں کے سامنے عام آدمی اپنی عرضیاں لیے اپنے مسائل کی یکسوئی کے لیے ہاتھ جوڑے قطاروں میں منتظر نظر آیا کرتے ہیں۔ ان (عام آدمی) کے لیے مصروف نمائندوں کے پاس وقت کی کمی رہتی ہے۔ اپنے درشن سے وہ دور ہی سے اپنی جھلک دکھلا کر اپنی چمچماتی گاڑیوں میں دھول اُڑاتے چل دیتے ہیں۔ ایسا ہونا ہمارے ملک میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسا برسوں سے ہوتا آیا ہے۔ عام لوگ ایسا سب کچھ سہتے آئے ہیں۔ کامیابی کے نشے میں عوامی نمائندوں کی اپنے ووٹرز سے بے حسی، بے نیازی اور بے تو جہی اور لاتعلقی عام بات ہے۔ یہی چلن ہے جو جاری ہے۔ بہت کم ایسے عوامی نمائندے ہوں گے جو کہ ہر پارٹی میں ہوتے ہیں، جن کو اپنی منصبی عوامی ذمہ داریوں کا احساس رہتا ہے اور وہ اپنے حلقے کے عوام کی موثر نمائندگی کرنے اور ان (عوام) کے حالات بدلنے میں مستعد و متحرک رہتے ہیں۔
وعدے، اعلانات، جملے بازیاں، ایک دوسرے پر الزام تراشیاں الیکشن کے دوران دیکھے اور سنے جانے والے عام تماشے ہیں۔ بر سر اقتدار بی جے پی اور ان کے حمایتیوں کے پاس بڑے بڑے وعدے اور ایجنڈے ہیں۔ سب سے اہم Hindu Nationalism ہندو قومیت یعنی ہندوتوا کا ایجنڈا ہے۔ رام مندر کی تعمیر اور ہندو مذہب کی سربلندی اور ہندوؤں کو باوقار زندگی عطا کرنے کی باتیں اہم مدعا ہوگا۔ اس الیکشن میں بھارت کو دشوا گرو بنانے کے منصوبے میں دُنیا کا بڑا طاقتور اور تیسری بڑی معیشت بنانے کا دعویٰ بی جے پی کا رہا ہے۔ پانی جڑوں کو دینا بھول کر ڈالیوں اور پتوں کو پانی دینے کی باتیں ہوتی ہیں۔ سابقہ الیکشن میں جو روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور ہر عام ہندوستانی کے بینک اکاؤنٹ میں پندر ہ لاکھ روپئے جمع کروانے کے وعدے اب بھلا دیئے گئے ہیں،جو کچھ بی جے پی نے کہا ہے وہ وطن کی سالمیت کے لیے کارنامہ قرار دیا جا رہا ہے۔ کس کس کا وکاس ہوا اور کس کس کا ساتھ رہا۔ یہ تو سب جانتے ہیں۔ دوسری جانب کانگریس اور اس کی حمایتی جماعتیں بے روزگاری پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ ان کا وعدہ ہے کہ سرکاری محکموں میں30 لاکھ نوکریاں فراہم کی جائیں گی۔ عارضی روزگار کے حق کے تحت نوجوان جن کی عمر پچیس سال تک پہنچ رہی ہو ــ’’Right to apprenticeship‘‘اور جو کسی بھی ڈپلومہ یاڈگری کے حامل ہوں انہیں کم از کم ایک سال کے لیے سالانہ ایک لاکھ روپے تنخواہ پر عارضی نوکریاں بھی فراہم کی جائیں گی۔ کانگریس نے غیر ضروری عوام دشمن پالیسیاں اور ٹیکس ختم کرنے کے وعدہ کے ساتھ ذات پات سروے کے تحت سب کو یکساں حقوق فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جمہوریت کی اس جنگ نما الیکشن میں عوام کس کا ساتھ دیں گے۔
ہمارے بھارت میں جب بھی الیکشن کا ماحول گرم ہوتا دکھائی دیتا ہے تو 55 سال قبل ملک کے حالات کی عکاسی کرتے ساحرؔ لدھیانوی نے جو لکھا تھا وہ بہت یاد آتا ہے:
جن کے ظلم سے دکھی ہے جنتا ہر بستی ہر گاؤں میں
دیا دھرم کی بات کریں وہ بیٹھ کے سجی سبھاؤں میں
دان کا چرچہ گھر گھر پہنچے، لوٹ کی دولت چھپی رہے
دیکھیں ان نقلی چہروں کی کب تک جئے جئے کار چلے
اُجلے کپڑوں کی تہہ میں کب تک کالا سنسار چلے
کب تک لوگوں کی نظروں سے چھپی حقیقت چھپی رہے
نقلی چہرہ سامنے آئے اصلی صورت چھپی رہے
کیا ملیے ایسے لوگوں سے جن کی فطرت چھپی رہے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰