سیاستمضامین

بند کمروں میں مذاکرات کی نہیں کھلے اجلاسوں میں مباحث کی ضرورت ہے

اطہر معین

تاریخ ہمیں بار بار یاد دلاتی ہے کہ بزدلانہ شکست کی ذلت سے عزت و غیرت کی موت کہیں بہتر ہے‘ ہمیں یہ بھی درس دیتی ہے کہ بزدلانہ شکست تسلیم کرنے والے عیاشوں اور ننگ دین و ملت غدارانِ امت کا انجام ہمیشہ دردناک اور عبرت ناک ہوا ہے۔ تاریخ اسلام میں سیاہ حروف سے لکھی گئی شرم ناک شکستوں کے احوال پڑھ کر ہماری روحیں کانپ جاتی تھیں اور ہمارے سر شرم سے جھک جاتے تھے کہ ہمارے اسلاف میں ایسے غدار بھی پیدا ہوئے تھے جنہوں نے اپنے عزیز مفادات کی خاطر ملت کی شکست کے سودے کئے تھے۔ ہمارے دل ان غداران ملت کی مذموم و حقیر کرتوتوں پر یقین کرنے کو آمادہ نہیں ہوتے تھے مگر آج جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے اس کے بعد ماضی میں بے غیرتی کے جو بھی کردار ہمیں ملتے ہیں ان کی ملت فروشی پر یقین ہونے لگا ہے۔افسوس کہ جن پلیٹ فامس سے مسلمانوں کی شکست کے اسباب بننے والے غداران ملت کے سیاہ کرتوتوں کے پیش کرتے ہوئے ملت کو منافقت سے بچنے کا درس دیا جاتا تھا آج وہی پلیٹ فامس ملت فروشی میں سرگرم ہوچکے ہیں۔
ہماری ملی قیادت مومنانہ تدبر و فراست سے عاری ہوچکی ہے۔ دشمنوں کی چالوں کو سمجھتے ہوئے حکمت عملی تیار کرنے کی بجائے ان کے بچھائے ہوئے جال میں نہ خود پھنس رہی ہیں بلکہ مسلمانان ہند کو بھی پھانس رہی ہیں۔ ملک آج جس نازک دور سے گزررہا ہے اس میں ملت اسلامیہ ہند کی صحیح رہنمائی کرنے اوران کے حوصلے بلند کرتے ہوئے دین و ملت کے تحفظ کے جتن کرنے کی بجائے سودے بازی پر اتر آئی ہے۔ شائد اس لئے کہ ہماری قیادتیں قربانیاں دینے سے گھبرانے لگی ہیں۔ بی جے پی حکومت اور آر ایس ایس کی طرف سے جب مذاکرات کی دعوت دی گئی تو اس کے پس پردہ ان کے مقاصد کو سمجھنے کی بجائے اسی میںعافیت سمجھی گئی کہ چلو اب کم از کم ہمیں گفت و شنید کے نام پر بخش دیا جائے گا چہ جائیکہ ملت کے نوجوانوں کو جیل و بند کی صعوبتیں ہی کیوں نہ جھیلنی پڑے اور عام مسلمانوں کو ذلت و رسوائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑے ۔ان تنظیموں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ مسلم دشمنی میں لاثانی تنظیم کو اچانک مسلمانوں سے مذاکرات کی کیوں سوجھی؟ کہیں ایسا تو نہیںکہ نپور شرما کے شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کے بعد عالم اسلام سے جو ردعمل سامنے آیا ہے اس نے بی جے پی اور آر ایس ایس کو بہت کچھ سوچنے پر مجبورکردیا ہے۔ ملک میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کی سارے عالم میں جو گونج ہورہی ہے اس سے بھارت کو ہونے والے نقصانات کی تلافی تو کرنا نہیں ہے اور عالم اسلام کو یہ باور کروانے کی کوشش تو نہیں ہے کہ بھارت میں تو اکثریتی طبقہ، مسلمانوں کے ساتھ بقائے باہم کے لئے کوشاں ہے
ان دنوں آر ایس ایس کے ساتھ ہماری ملت کی کچھ سرکردہ تنظیمیں خفیہ اجلاس منعقد کرتے ہوئے ملی مسائل پر مذاکرات کرنے پر مصروف دکھائی دیتے ہیں اور افسوس کہ ملی مسائل پر کئے جانے والے مذاکرات سے ملت کو ہی اندھیرے میں رکھا گیا اورجب ان خفیہ اجلاسوں کے بھانڈے پھوٹنے لگے تو یہ باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ملت کے حق میں مذاکرات ایک بہتر راستہ ہے اور ان اجلاسوں کے بارے میں ملت کو اس لئے آگاہ نہیں کیا گیا کہ مذاکرات ہنوز ابتدائی مراحل میں ہی ہیں۔ آر ایس ایس کی قیادت کے ساتھ ملی تنظیموں کے مذاکرات کے لئے ان دنوں سابق لیفٹننٹ گورنر مجیب جنگ، سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، سابق لیفٹننٹ گورنر و سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ضمیر الدین شاہ او‘ سابق صحافی شاہد صدیقی اور ایک مسلم تاجر سعید شیروانی پیش پیش رہے ہیں۔ اول الذکر دونوں شخصیتیں بیورو کریٹس رہی ہیں جب کہ تیسرے شخص فوج میں سینئر جنرل رہے تھے جنہیں کبھی مسلمانان ہند سے کوئی سروکار نہیں رہا ہے‘ اسی طرح صحافی سے سیاست دان بن جانے والے شاہد صدیقی نے بھی اپنی جذباتی تحاریر و تقاریر سے خود فائدہ اٹھانے کے علاوہ ملت کے کچھ کام نہیں کئے ہیں۔ سعید شیروانی کا نام تو ملک کے بیشترمسلمان پہلی مرتبہ سنے ہوں گے مگر آج یہ لوگ‘ دانشوران ملت بن کر ملت کے معاملات نمٹانے لگے ہیں۔ تعجب تو اس پر ہے کہ جب آر ایس ایس کی قیادت نے پہلی مرتبہ نام نہاد دانشوران ملت سے ملاقات کی تھی تو ملت کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والوں کو انہیں نظر انداز کردئیے جانے کا شکوہ تھا کہ آرایس ایس اگر ان سے مشاورت کرتی ہے تو وہ انہیں ’راشٹر پتا‘ کہہ نہیں سکتے تو کیا ہوا، یہ لقب دینے والے سے زیادہ وہ ملت کو آرایس ایس کے ایجنڈہ کو بروے کار لانے میں معاون و مددگار ہوسکتے ہیں۔ چونکہ رپورٹس میں یہ بات بھی آگئی کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن عاملہ قاسم رسول الیاس نے انڈین اکسپریس سے کہا تھا کہ اگر بھاگوت اور آر ایس ایس واقعی مسلم برادری تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسی تنظیموں سے رابطہ رکھنا چاہئے جو اثر و رسوخ رکھتی ہیں جیسے مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیتہ علماء ہند یا جماعت اسلامی۔
حالیہ اجلاس میں جماعت اسلامی کی جانب سے اس کے سکریٹری ملک معتصم خان اور جمیعتہ علماء کے دونوں دھڑلوں کی طرف سے نیاز فاروقی اور فضل الرحمن نے نمائندگی کی ہے ۔ اس اجلاس سے قبل بھی آر ایس ایس نے ایک اوراجلاس کیا تھا جس میں دیگر تنظیموں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی۔میڈیا رپورٹس سے اس بات کا بھی اشارہ ملتا ہے کہ آئندہ بھی ایسے کئی اجلاس ہوں گے جن میں ان نمائندہ مسلم تنظیموں کے سربراہ بھی شرکت کرسکتے ہیں۔ اس اجلاس میں شرکت کے تعلق سے ملی تنظیموں نے ملت کو بھنک تک لگنے نہیں دی مگر میڈیا میں اس اجلاس کی جو روداد پیش ہوئی ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ مسلم تنظیموں سے آر ایس ایس کی برتری اور مسلمانوں کی تنزلی کو ملی قیادت کے ذریعہ تسلیم کروانے میں فسطائی طاقتیں کامیاب ہوگئی ہیں۔ میڈیا میں یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت کے حالیہ انٹرویو سے مسلمانوں میں جو خوف پیدا ہوا اس کو دور کیا جائے ۔ اس انٹرویو میں بھاگوت نے مسلم برادری کو تند گرج دار برتری کو ترک کردینے کا مشورہ دیا تھا۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کا مسلمان اپنے انجام سے خوف زدہ نہیں ہے چونکہ ہر مسلمان کا آخرت پر ایمان ہے۔
تازہ اجلاس کی روداد جو میڈیا میں آئی ہے اس میںبتایا گیا کہ آر ایس ایس کی جانب سے جو اہم مطالبہ کیا گیا وہ کاشی اور متھرا سے دستبرداری اختیار کرلینے کا تھا جس پر مسلم نمائندہ افراد کی جانب سے یہ کہا گیاکہ وہ اس کا تیقن تو نہیں دے سکتے’ البتہ ان امور کو عدلیہ پر چھوڑ دینے کا وہی پرانا راگ الاپا گیا جو بابری مسجد تنازعہ کے وقت اختیار کیا گیا تھا۔ اس سے کیا یہ مترشح نہیں ہوتا کہ بابری مسجد کا بھی سودا کیا گیا تھا کہ سیاسی سطح پر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی راہ اختیار کرنے کی بجائے عدلیہ کی صوابدید پر چھوڑدیا جائے کہ اگر وہ مناسب سمجھے تو مسجد کی جگہ ہندوؤں کو دے دی جائے ؟ اور عدلالت عظمیٰ ایسا کوئی فیصلہ کرتی ہے تو ہم اس کو قبول کرلیں گے۔ عدالت عظمیٰ نے چونکہ بابری مسجد۔ رام مندر تنازعہ کی یکسوئی کرتے ہوئے مسجد کی جگہ مندر کو شواہد اورآثار کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک طر ح سے اکثریتی فرقہ کے عقیدہ کو تسلیم کرتے ہوئے حوالہ کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدالت کے ذریعہ بابری مسجد۔ رام مندر تنازعہ کی یکسوئی کرنے کی بجائے مسلمان فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندؤؤں کو دے دینے کا مشورہ دینے والے وحید الدین خان اور سلمان حسینی ندوی ہی معتوب کیوں ؟
اس اجلاس میں اصل میں کیا باتیں ہوئیں وہ شرکائے اجلاس ہی بہتر جانتے ہیں مگر میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم فریقین نے آر ایس ایس کی قیادت کے سامنے ملک میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال‘ سرکاری ایجنسیوں کی جانب سے تعاقب، ہجومی تشدد اور بلڈوزر سیاست جیسے موضوعات کو اٹھایا گیا جس پر آر ایس ایس قیادت نے اس احساس کا اظہار کیا کہ جو کارروائی کی گئی تھی وہ قانون کی مطابعت میں تھی اور جہاں تک ہجومی تشدد ہے وہ غلط ہے مگر گائے کے ساتھ ہندوؤں کے جذبات جڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح آر ایس ایس نے یہ واضح کردیا کہ وہ اپنے کسی ایجنڈہ کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں مگر وہ چاہتی ہے کہ ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو مسلمانان ہند مکافات عمل سمجھ کر چپ چاپ جھیل جائیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری مسلم تنظیموں کے ان مدبر رہنماؤں نے آخر آر ایس ایس کو کیا سمجھ رکھا ہے ؟ جو امور حکومت چلانے والوں کے ساتھ اٹھائے جانے تھے وہ آر ایس ایس کی قیادت کے سامنے پیش کئے جارہے ہیں ۔کیا وہ بالواسطہ طور پر مسلمانوں کو یہ پیام دینا چاہتے ہیں کہ اس ملک پر حقیقی راج آر ایس ایس کا ہی ہے اور وہ چاہے تو بلڈوزر سیاست کا خاتمہ کرسکتی ہے ، سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ کی جانے والی ہراسانی اور ہجومی تشدد کو روک سکتی ہے ؟ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے کبھی بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی کو ترک کردینے، ہجومی تشددکے قانون اور ہندو مت کے اصولوں کے خلاف ہونے ، حجاب کے مسلم خواتین کا بنیادی حق ہونے اور گیان واپی اور کاشی میں واقع مسلم عبادت گاہوں پر دعویٰ نہ کرنے کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ آر ایس ایس نے کبھی بھی مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو ترک کردینے کی ہدایت نہیںدی۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ آر ایس ایس کی خاموشی ، مسلمانوں تک اس کی رسائی کی کوششوں پر بہت بھاری ہے۔
آر ایس ایس اور وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مسلمانوں تک رسائی کے لئے جو پہل کی جارہی ہے اس کے پس پردہ محرکات اور ان کے مستقبل کے منصوبوں کو سمجھنے کی کوشش کرنے کی بجائے ہماری مسلم تنظیمیں یہ باور کروانے کی کوشش کررہی ہیں کہ افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرتے ہوئے وہ مسلمانوں کے لئے تابناک مستقبل کا ماحول تیار کررہے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس ایک پل کے لئے یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ مسلمانوںسے بیرنہیں رکھتی مگر دوسرے ہی پل یہ باور کروادیتی ہے کہ ہماری سب التفات اسی صورت میں ہوگی جب تم ہمارے رنگ میں رنگ جائیں ۔ (سلسلہ صفحہ ۷)
مسلمانوں کے ساتھ پہلے اجلاس اور مسجد و مدرسہ کا دورہ کرنے کے بعد آر ایس ایس سربراہ نے ان کے تئیں خیر خواہی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے یہ دھمکی دے دی کہ مسلمانوں کو اپنی عظمت و فضیلت کے دعویٰ ترک کرنا ہوگا گویا انہیں یہ تسلیم کرلینا ہوگا کہ ملک میں اب وہ تیسرے درجہ کے شہری ہیں اور ایک تیسرے درجہ کے شہری کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی عظمت رفتہ پر فخر بھی نہ کریں ۔ اس طرح کے اجلاسوں کے بعد جب مسلم قیادتوں سے سوال کیا گیا تو یہی باور کروایا گیا کہ مذاکرات خوش گوار اور مثبت انداز میں ہوئے ہیں اور طرفین نے ایک دوسرے کے احساسات کا برملا اظہار کرتے ہوئے ہم آہنگ کی ضرورت پر اتفاق کیا ۔ فریق مخالف کی طرف سے اس طرح کے اجلاسوں کے بعد پھر سے نفرت انگیز بیان بازی یا پھر اپنے ایجنڈہ پر عمل آوری کی کوششوں کے باوجود خاموشی اختیار کرلی گئی۔
آر ایس ایس یا بی جے پی حکومت سے مذاکرات کرنے والی تنظیمیں مسلمانوں کو یہ باور کروانے میں لگی ہوئی ہیں کہ نفرت کے اس ماحول میں بقائے باہم کے نظریہ کو اختیار کرنے میں ہی مسلمانان ہند کی عافیت ہے اور جو کچھ پہل کررہی ہیں وہ ملت کے مفاد میں ہے اور ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ملی تنظیمیں دیگر تنظیموں کی ہی طرح سرکاری ایجنسیوں کے تعاقب کئے جانے سے خوف زدہ ہیں چونکہ آج ان تنظیموں کی سربراہی جن کے ہاتھوں میں ہے ان میں سے کوئی بھی جیل کی صعوبتیں جھیلنا نہیں چاہتا اس لئے وہ وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہیں جس کا حکم دیا جارہاہے اور اپنی بے بسی اور خفت کو مٹانے کے لئے یہ باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ بڑی دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ہندو مسلم اتحاد کے لئے کوشاں ہیں۔
مذاکرات میں حصہ لینے والی ان نمائندہ تنظیموں نے آخر اتنا اہم فیصلہ کرتے ہوئے ملت کو آگاہ کیوں نہیں کیا؟حتیٰ کہ ان تنظیموں نے داخلی طور پر ان اجلاسوں پر غور خوض نہیں کیا اور نہ ہی اپنے رفقاء سے مشاورت کی کہ انہیں کیا حکمت عملی اختیار کی جانی چاہئے۔کیوں ان اجلاسوں میں شرکت کرنے سے قبل مشاورت نہیں کی گئی اور مسلمانوں کا اعتماد حاصل نہیں کیا گیا؟ اجلاس کے بعد بھی کیوں خاموشی اختیار کی گئی اور جب ان اجلاسوں کا بھانڈہ پھوٹا تو بھونڈے انداز میںجواب دینے کی کوشش کی گئی۔ ملت اسلامیہ ہند کو اب ان نام نہاد نمائندہ تنظیموں کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان تنظیموں سے یہ پوچھا جانا چاہئے کہ ملت سے جڑے حساس مسائل پر مذاکرات کرنے سے قبل ملت سے مشاورت کیوں نہیں کی گئی اور ان سے ان اجلاسوں کو مخفی کیوں رکھا گیا؟ کیا ان تنظیموں کے سربراہوں میں یہ جرأت ہے کہ اجلاس میں جو کچھ ہوا اس کو ملت کے سامنے لایا جائے اور جس طرح صراحت یا وضاحت کے نام پر جو بیانات دئیے جارہے ہیں وہ کھلے عام کہہ سکیں ۔ اگر واقعی ان تنظیموں میں اتنی جرأت ہے تو آئندہ ہونے والے مذاکرات بند کمروں میں کرنے کی بجائے کھلے اجلاسوں میںکرنے کا آر ایس ایس اور ارباب حکومت سے مطالبہ کریں تاکہ پتہ چل سکے کہ ملت کی نمائندگی کس تنظیم نے بہتر انداز میں کی ہے؟