مذہب

صنف نازک اسلامی تعلیمات کے آئینہ میں

عورت عربی زبان کالفظ ہے جو’’عورۃ‘‘سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی پردہ یا سترکے ہیںاوراصطلاحی معنی کسی چیز کو چھپانا ہے یعنی ہروہ عضو انسانی جسے کراہت وناپسندیدگی یا شرم وحیاء کی وجہ چھپایا جاتاہے،الغرض کسی چھپائے رکھی جانے والی شئی کو’’عورۃ‘‘کہتےہیں:

مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786

عورت عربی زبان کالفظ ہے جو’’عورۃ‘‘سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی پردہ یا سترکے ہیںاوراصطلاحی معنی کسی چیز کو چھپانا ہے یعنی ہروہ عضو انسانی جسے کراہت وناپسندیدگی یا شرم وحیاء کی وجہ چھپایا جاتاہے،الغرض کسی چھپائے رکھی جانے والی شئی کو’’عورۃ‘‘کہتےہیں: (العورة)۔۔۔كل ما يستره الإنسان استنكافا أو حياء (المعجم الوسیط: ۲؍۶۳۶)۔ عربی زبان میں عورت کالفظ کسی ایسےمکان یا جگہ کےلئے بھی مستعمل ہے، جس میں کوئی رخنہ یا دراڑہواوراس راہ سےدشمن کے داخل ہونے کاخوف وخطرہ لاحق ہوکہ اس کی حفاظت اور اس کاچھپاناضروری مانا جاتا ہو وكل بيت أو موضع فيه خلل يخشى دخول العدو منه (حوالہ سابق)۔چنانچہ قرآن پاک سےاس لفظ کے معنی کی وضاحت ہوتی ہے یقولون ان بیوتنا عورۃ وما ہی بعورۃ ان یرویدون الافرارا (الاحزاب؍۱۳)۔ ’’وہ (کافر)کہتے ہیں کہ ہمارے گھرکے دروازے تو کھلے ہوئے (غیرمحفوظ) ہیں حالانکہ وہ کھلے ہوئے (غیر محفوظ) نہیں تھے ،و ہ توصرف بھاگنا چاہتے تھے‘‘۔منافقین دراصل میدان جنگ سےراہ فرار اختیارکرنے کے لئے سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکراس طرح کے حیلے بہانے کیا کرتے، اللہ سبحانہ نے ان کی حیلہ سازیوں کاپردہ چاک کرتے ہوئے فرمایاکہ وہ غیر محفوظ نہیں ہیں،ان کی بہانہ سازیاں محض میدان جنگ سےفراراختیارکرنے کی غرض سے ہے۔اس لفظ کا مصدر اور ماخذ ’’عور‘‘ہے جیسا کہ عربی میں کہا جاتا ہے واعور اللہ عین فلان وعورہا یعنی اللہ تعالی نے فلاں شخص کے عیب چھپالئے۔ حدیث پاک میں بھی یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے: المرأة عورة فإذا خرجت استشرفها الشيطان ’’عورت چھپےرہنے کی چیزہے جب وہ باہرنکلتی ہے توشیطان تانک جھانک شروع کردیتا ہے‘‘ (سنن الترمذی۴؍۴۰۶)

مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیررحمہ اللہ ایک خداترس بادشاہ گزرے ہیںان کی بڑی دخترنیک اخترجس کا نام زیب النساء اورتخلص ’’مخفی‘‘ تھا جو حافظ قرآن تھی، اسلامی علوم و معارف کے ساتھ عصری تعلیم سے بھی آراستہ تھی، نیزفارسی زبان پربڑی دسترس رکھتی تھی،فارسی کلام کی بلاغت وفصاحت اوراس کی ادبی مہارت کے ساتھ اس زبان کی باکمال شاعرہ بھی تھی۔ دیوان مخفی کے نام سےعلمی دنیا میں اس کے دیوان کا بڑا شہرہ ہے،یہ وہ دورتھاجس میں بڑے بڑے اساطین ادب موجود تھے ،ایران کا ایک شہزادہ بھی فارسی زبان وادب میں بڑاکمال رکھتاتھااس کی زبان پریہ مصرعہ آگیا’’در ابلق کسے کم دیدہ موجود‘‘(ابلق موتی نایاب ہوتا ہے)اسے خیال آیاکہ ماہرین علم وادب کی خدمت میں اس پر گرہ لگانے کی خواہش کی جائے چنانچہ اس پرمناسب وموزوں گرہ لگانےاوراس پر انعام واکرام سے نوازنے کا اعلان کیاپھرکیا تھااس کی گونج ہندوستان کے صاحبان علم وادب تک پہنچی ممکن ہےکئی ایک شعراء نے اس پرطبع آزمائی کی ہواور ان کی گرہ میں ایسی کوئی ندرت نہ رہی ہوجواس مصرعہ کو معنی خیزبنا سکے،یہ مصرعہ جب شہزادی زیب النساء کی سماعتوں تک بھی پہنچا تو اس نےاس مصرعہ پربرجستہ گرہ لگائی ’’مگر ا شکِ بتان سرمہ آلود‘‘(مگر محبوب کی سرمگی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو)اس گرہ نے منادی کرائے گئے مصرعہ کو ایسا معنی خیز بنادیا کہ جس سے شعرمکمل ہوگیا، گرہ کی مناسبت وموزو نیت سےدیا گیا مصرعہ باکمال شعرکے پیرہن میں ڈھل گیا ۔اس سے متاثر ہوکر شہزادے کے دل میںشاعرکودیکھنے کا اشتیاق پیداہوا،اس نے خواہش کی کہ شاعرکومیرے دربارمیںلایاجائےتاکہ میں اس کوانعام واکرام سے نوازوں،زیب النساء مخفی چونکہ بڑی عابدہ، زاہدہ اور متقیہ وپرہیزگارتھی،نیزاللہ سبحانہ نے اس کوفہم و فراست سے بھی نوازاتھا، شہزادی ہونے کے باوجودکسی اجنبی کے سامنے کبھی بےپردہ نہیں ہوئی تھی،عالمگیربادشاہ کوبھی فکرلاحق ہوگئی تھی کہ میں اپنی باپردہ بیٹی کوشہزادہ کی مجلس میں جانے کی اجازت کیسے دوں،زیب النساء مخفی بھی اسی الجھن کی شکار تھی کہ اچانک ایک نادروانوکھا شعرموزوں ہوگیاجس سے شہزادی اوربادشاہ ہردوکااضطراب دورہوگیا؎

درسخن مخفی منم چوں بوئے گل در برگ گل
ہر کہ دیدن میل دارد در سخن بیند مرا

’’میں اپنے کلام میں ایسے ہی مخفی(چھپی ہوئی) ہوں، جیسے پھول کی خوشبو اس کی پتیوں میں پوشیدہ ہوتی ہے،جو کوئی مجھے دیکھنا چاہے اسے چاہیے کہ میرا کلام پڑھ لے، مجھے دیکھ لے گا‘‘۔جب یہ شعرشہزادہ تک پہنچاتواس کواندازہ ہواکہ مصرعہ پرگرہ لگانے والی کوئی باکمال شاعرہ ہے۔

اس واقعہ میں دورحاضرکی دختران ملت کےلئےایک عظیم پیغام ہےکہ علوم وفنون کی تحصیل کےلئےبے پردہ ہونا ضروری نہیں ہے ،مقام غورہےکہ زیب النساء مخفی رحمہااللہ جس کی پرورش بادشاہ کے گھرانے میں ہوئی تھی اس کے باوجودوہ علوم وفنون ،زبان وادب میںیگانۂ روزگارتھی ،اسلامی احکام کے مطابق پردہ وحجاب میں رہتے ہوئے اس نےپھر کیسے فضل وکمال حاصل کیااور باکمال عالمہ وفاضلہ بنی۔

اللہ سبحانہ مردوں کے بھی خالق ہیں اورعورتوں کےبھی لیکن عورتوں کی فطرت وطبیعت میں قدرت نے نزاکت رکھی ہے، ایک سفرکے موقع پرسیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ (خواتین)کے پاس تشریف لائے جواونٹوں پرسوارجارہی تھیں،ان کےساتھ ام سلیم رضی اللہ عنہا والدہ انس رضی اللہ عنہ بھی تھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ویحک یا انجشہ، رویدک سوقا بالقواریر (بخاری، رقم: ۶۱۴۹) انجشہ جو بڑے خوش الحان تھے،ان کی آوازکی نغمگی سے کہیں اونٹ تیزرفتارنہ ہوجائیں صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاآہستگی سے لے چلوکہ یہ نازک آبگینے ہیںانہیں کوئی نقصان نہ پہنچے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پرخواتین کی نرمی ونزاکت کے اظہارکےلئے جوعمدہ وبلیغ تعبیراختیارفرمائی ہےاس سے قیامت تک آنے والے مردوں کویہ پیغام دیاگیا ہے کہ خواتین کی فطری نزاکت کوقدم قدم پرملحوظ رکھیں اورکبھی ان کوکوئی ٹھیس نہ پہنچائیں۔ ظاہر ہے ان کی فطری ساخت ہی نے ان کوصنف نازک بنایا ہےگویا وہ سیپ میں چھپے ہوئے انمول موتی سے کہیں زیادہ بیش قیمت ہیںاسی غرض سےاللہ سبحانہ نےمردوں اور عورتوں میں غیرت وحیاء کے تقاضےرکھے ہیںلیکن حیاء سے زیادہ غیرت مردوں میں غالب رکھی گئی ہےاور عورت کی فطرت میں غیرت وآبروکے ساتھ شرم وحیاء ،کاعنصرزیادہ رکھا گیا ہے۔ اسلام نےعفت وعصمت کواعلی قدر مانا ہے یہ ایساقیمتی جوہرہے جس کا لٹ جانامتاع گرانمایہ کے لٹ جانے سے کہیں زیادہ ہے، عفت وعصمت کی نعمت اللہ سبحانہ کی امانت ہے اس امانت میں خیانت موجب حد(اسلامی سزاکی مستوجب) ہے،پاکیزہ سماج بھی اس کی اجازت نہیں دیتا اسی لئےاللہ سبحانہ نےعورتوں کو حکم فرمایا ہے: وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَی (الاحزاب: ۳۳)۔ یعنی وہ اپنےگھروں میں رہیں اوراپنی آرائش وزیبائش کی نمائش نہ کرتی پھریں جیسے دور جاہلیت میں اس کا رواج تھا‘‘۔ ’’قَرْنَ‘‘ کا لفظ ماخوذ ہے ’’قرار‘‘ سےیا پھر ’’وقار‘‘ سے، ہردوصورت میںاس کے معنی یہی ہوں گے کہ خواتین اپنے گھروں میں سکون ووقارکے ساتھ سکونت پذیر رہیں، بلاکسی خاص ضرورت کے گھروں سے باہرنہ نکلیں۔ عورتوں کا اپنے حسن وجمال ،زیبائش وآرائش کو غیر مردوں کے سامنے ظاہرکرنے کو’’تبرج‘‘کہتے ہیں: التبرج: إظهار المرأة محاسن ذاتها وثيابها وحليها بمرأى الرجال (التحریر والتنویر ۲۱؍۲۴۴)۔ اس سے بھی خواتین کو منع کیا گیاہے۔

جب بھی گھرسے باہرنکلناناگزیرہوتواسلام نےحجاب کے ساتھ نکلنے کی اجازت دی ہے(الاحزاب؍۵۹)۔مزید اسلام نے عورتوں اورمردوں کواپنی نگاہیں پست رکھنے کا پابند کیا ہے۔ خاص طورپرخواتین کو اپنے سینوں پردوپٹہ اوڑھے رہنے اور زیب وزینت کو اجنبی مردوں پرظاہرنہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے (النور: ۳۱)۔ ان تمام تعلیمات کا بنیادی مقصدمعاشرہ کو اعلیٰ اقدار کاپابند بنانا ہےتاکہ وہ فساد وبگاڑسے محفوظ رہے،اس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہیں کہ مسلم خواتین کو گھروں میں ظلماً قید کردیا گیا ہے اور ان کی آزادی چھین لی گئی ہے جیسا کہ مذہب بیزار انسانوں کا مذہب اسلام پراعتراض ہےلیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، اسلام کےاحکامِ ستروحجاب میں تو عورتوں کا اعزاز و اکرام ہےوہ نہ صرف گھرکی ملکہ ہوتی ہیں بلکہ اپنے عالی اخلاق و کردار، شرم و حیاء کی عملی پیکر بن کرشوہروںکےدلوں پر حکمران رہتی ہیں۔ 

یہ حفاظت کاانتظام دراصل حسب ونسب کے تحفظ کی غرض سے ہےتاکہ نسل انسانی کی شرافت ونجابت پرکوئی حرف نہ آئے،ستروحجاب انسان کی فطرت کاحصہ ہے،خواتین جب ستر و حجاب کالحاظ رکھتی ہیں توان کی حفاظت کاسامان ہوجاتا ہے، حجاب گویاایک دیواریا آڑکاکام کرتاہے،اچانک کسی اجنبی کی نظرپڑجائےتواس کی نگاہ عورت کے جسم وجثہ پرنہیں پڑسکتی۔ حجاب دراصل مسلم خواتین کوایک انفرادی تشخص بخشتا ہے جس سے ان کے مسلم ہونے کی شناخت وپہچان ہوتی ہے اور شرپسند عناصر کی ہوس کااسیرہونے سے محفوظ رہتی ہیںاسی غرض سے مسافت سفر(تخمینی ۸۰؍کلومیٹر) سے زائد کا سفر مقصود ہو تواسلام نے ایک مسلم عورت کےلئےمحرم کی معیت کو لازم کیا ہے، حدیث شریف لا تسافر المرأة ثلاثا إلا ومعها ذو محرم (ابوداود: ۵؍۴۳)۔ ظاہر ہے اس کا مقصود بھی حفاظت ہے، فطری بات ہے جب حالت سفرمیں عورت کے ساتھ کوئی مرد ہو تو اجنبی مردنگاہیں اٹھانے کی جرات نہیں کرسکتے، اسلامی احکامات دراصل فطری طرززندگی کاحصہ ہیں، بے پردگی وبے حجابی تمام برائیوں کی جڑہے،اسلامی احکامات کےمطابق حجاب کی پابندی معاشرہ کوپاکیزہ بناتی ہے، مغربی تہذیب نےعورت کو بے حجاب کرکےعفت و عصمت کی اعلی قدروں کوپامال کردیا ہے، عزت وشرافت کی جڑیں کھوکھلی ہوگئی ہیںیہی وجہ ہے کہ آج مغربی معاشرہ بکھرائو کا شکارہے،چین وسکون سے محروم ہے، اسلام سے قبل عورتیں بےقدروقیمت تھیں ان کی حیثیت ٹشو پیپرسے زیادہ نہیں تھی، اسلام نےعورتوں کےسروں پرعظمت کاتاج رکھا اور انہیں اکرام واحترام بخشا۔

کوئی انسان عقل ودانش میں خواہ کتناہی کم کیوں نہ ہووہ زر و جواہرکے خزانےکھلے نہیں چھوڑتاتوپھریہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ مسلم سماج کی نوجوان بیٹیاں،بہنیں اورمائیں غیرساترانہ لباس زیب تن کریں اورحجاب کو بھی خیرباد کہہ دیں، بلاوجہ کھلے عام گھومیں پھریں اور بازاروں کی رونق بنیں اور مرد چپ سادھے رہیں۔ افسوس خواتین کی فطری شرم وحیاء ،مردوں کی فطری غیرت وحمیت اوران کی عقل ودانش پتہ نہیں کہاں گم ہوگئی ہے جبکہ اسلام کی نظرمیں ان کی بڑی اہمیت ہے، حدیث پاک میں واردہے: الحياء شعبة من الإيمان (سنن النسائی: ۱۵؍۳۰۸)۔ وسیع ترمعنی میں اسلامی احکامات پرعمل آوری اور مرضیات رب کے مطابق زندگی گزارنے کانام حیاءہے ،بے ستری اوربے حجابی بھی مخصوص معنی میں یقینا بے حیائی ہے،ایک اور حدیث پاک میں وارد ہے: إن مما أدرك الناس من كلام النبوة الأولى إذا لم تستحي فاصنع ما شئت ’’گزرے پیغمبروں کے کلام سے جواہم ترین اور قیمتی بات ہم تک پہنچی ہےوہ یہ ہے کہ جب شرم وحیاء ہی نہ رہے تو پھر جو جی چاہےکرتے پھریں‘‘(صحیح البخاری: ۲؍۳۷۱) اس حدیث پاک میں گویا سرزنش ہے ان کے لئے جو عمومی طورپراسلام کے احکامات سےروگرداں ہیں اورخاص معنی میں بےحیائی وبے غیرتی کالبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ بے پردگی وبے حجابی بنائو سنگھار نیم برہنہ زرق و برق ملبوسات کےموجودہ چلن نے نوجوانوں کو نفسیاتی امراض میں مبتلاء کردیا ہے ،مخلوط تعلیمی اور مخلوط ملازمتی اداروں نےبڑاغضب ڈھایا ہے گویا اس وقت وہ جرائم کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں مزید اسمارٹ فون نےجلتی پر تیل کا کام کیاہے ،آئے دن اخبارات میں ایسی خبریں پڑھی جاتی ہیں جودردمنددلوں کوچھلنی کردیتی ہیں۔

اسلام نے خواتین کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی زینت کی جگہوں کوچھپائےرکھیںکیونکہ خواتین کو محض کمزور جنس ہونے کے باعث استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے،بعض حجاب کی مخالفت کرنے والے نادان دوست یہ تاثردیتے ہیں کہ پردہ تو آنکھوں اور دل کا ہوتا ہے تو پھر حجاب کی کیا ضرورت ،یہ بات بالکل درست ہےکہ انسانوں کی نگاہیں اوردل دونوں پاک ہوںیہ اعلی درجہ کاتقویٰ ہے،مغربی تہذیب کے غلبہ کی وجہ اکثرمسلمانوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں،قدیم مشرقی تہذیب وثقافت کو دقیانوسی سمجھ لیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ مذہبی اقدار سے رغبت وچاہت میں کمی آگئی ہے،دینی حمیت وغیرت بھی رخصت ہوگئی ہے، اسلام کی اعلی اخلاقی قدروں نے مسلمانوں کوسربلندکیاتھا لیکن اسلام کےفطری احکامات سےبےنیازی نےان کی عظمت رفتہ چھین لی ہے،علامہ اقبالؔ نےکہاہے؎

زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسلام کےظاہری احکام کو فراموش کردیاجائے،حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی جتنی زیادہ قدرہوگی اتنازیادہ قلب ونگاہ پاکیزہ ہوں گے۔معاشرہ کی اصلاح کےلئے ضروری ہےکہ کرئہ ارض پر اسلامی احکامات نافذ ہوں اسی سے جرائم کی شرح کا تناسب گھٹ سکتا ہے اور امن وآمان قائم ہوسکتاہے،اوراوراحکامات کی طرح پردہ و حجاب کو بھی اسلامی قانون کی حیثیت سے نافذ ہونا چاہیے، جمہوری ممالک میں بھی اسی کی پاسداری سےجرائم کا سدباب ممکن ہے ،جہاں جہاں یہ قانون نافذہوگاوہاں وہاں خواتین کی حرمت کاتحفظ ہوتا رہے گا،غیراخلاقی قدریں پنپنے نہیں پائیں گی۔بحیثیت مسلمان حجاب اوڑھنا ہر خاتون پر فرض ہے خاص طور پر اس وقت جب اس کا کسی مرد سے آمنا سامنا ہو۔ یہ خواتین کی حرمت کا تحفظ کرتا ہے اور مردوں کے دل میں غیر اخلاقی خیالات بھی نہیں ابھرتے۔ غیرمسلم مشرقی خواتین کوبھی اپنے مذہبی روایات کی اعلی قدروں کوپیش نظررکھنا چاہیے اور پردہ کی قدیم روایت کوپھرسے زندہ کرناچاہیے۔

اسلامی حجاب کی پابندی نگاہوں کی حفاظت کرتی ہے، اسی سے فواحش ومنکرات کادروازہ بندہوتاہے،فطری طورپرعورت عفت وعصمت کاپیکرہے،مغربی تہذیب نےخواتین کوحیاء و حجاب سے آزاد کرکےان کی چادرحیاءکی دھجیاں بکھیری ہیں اور عفت وعصمت کوتارتارکیا ہےاسلام نے جواس کو قدر و قیمت عطاکی تھی وہ ختم ہوچکی ہےاب وہ تجارتی اداروں کی زینت بن گئی ہیںگویاان کی حیثیت شوپیس کی ہوگئی ہے جسے تجارتی اشتہارکے طورپر شوکیس میں سجایاجاتاہے،بعض رسائل و جرائدکےٹائٹل پیج پرنیم عریاں تصاویرشائع کی جاتی ہیں جو ان کے مختلف نازواداکی عکاس ہوتی ہیں ،اسی آزاد ورش نے خواتین کوایک کھلونےکی حیثیت دیدی ہے۔جہاں چاہیں مرد اس سے کھیلیں ،یہی وجہ ہےکہ خواتین شراب خانوں اورتفریحی مراکز میں مردوں کادل بہلانے کےکام پرمامورکردی گئی ہیں گویا اس وقت وہ ایک تفریح کاسامان بن گئی ہیںجس سے مرد اپنی تھکن دورکرتےہیں۔اس مرض کی وجہ اغواء، زنا اور دوسرے جرائم معاشرہ میں پھیل گئے ہیں۔

ساری دنیامیں اس وقت عریاں لباسی وبے پردگی کاایک سیلاب برپاہے،افسوس مسلم ممالک بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں، افسوس بعض دختران اسلام شرم وحیاء کی چادراتارپھینکی ہیں، نیم عریاں لباس پھراس پربنائو سنگھاراورمخلوط محفلوں میں شرکت کواعلی تہذیب وثقافت مان لیا گیاہے،ظاہرہے اسلام اوریہ غیراسلامی طرزعمل دونوں ایک جگہ جمع نہیںہوسکتے،ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت اقدس میں قبیلہ بنوتمیم کی کچھ خواتین حاضرہوئیں اوران کا لباس مہین (رقیق) تھا آپ رضی اللہ عنہانے فرمایااگرتم مومن خواتین ہوںتویاد رکھو کہ ایسا لباس مومنہ خواتین کانہیں ہوسکتااوراگرتم مومنہ نہیں ہو تو پھر جو چاہو کرو (تم اس کی مختارہو) ودخل نسوة من بني تميم على عائشة رضي الله عنها عليهن ثياب رقاق، فقالت عائشة: إن كنتن مؤمنات فليس هذا بلباس المؤمنات، وإن كنتن غير مؤمنات فتمتعينه (قرطبی: ۱۴؍۲۴۴)۔ ایک اورحدیث پاک میں واردہے ایسی عورتیں جوکپڑے پہن کرعریاں ہوتی ہیں،ناز و ادا سے چلتی ہیں ان کے سربخت نسل کے اونٹوں کی کوہان جیسے ہوتے ہیں ایسی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی اوراس کی خوشبوسے محروم رہیں گی۔ قربان جائیے آج سے چودہ سوسال سے قبل سیدالانبیاء سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےنورنبوت کی روشنی میںمغربی تہذیب کی دلدادہ خواتین کی روش سے باخبر فرما دیا۔ علامہ اقبالؔ رحمہ اللہ نے تقریبا سوسال سے قبل حیاء باختہ ماحول سے متاثر ہوکر اپنے بیٹے سے خطاب کرکے فرمایا تھا؎

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

اس زمانہ میں اس پیغام کی اہمیت اورزیادہ ہوگئی ہے، سارے مسلمانوں کواس پیغام کے آئینہ میں اپنامشاہدہ کرنا چاہیےاوراپنی اولاد خاص طورپراپنی بیٹیوں،بہنوں کوبے حیائی اور آبروباختگی کےاس سیلاب بلاسے بچانے کی بڑی فکر کرنا چاہیے۔ اللہ سبحانہ توفیق خیر عطا فرمائے۔
٭٭٭