سیاستمضامین

تجھے سجدہ سے مطلب ہے،جہاں چاہے وہاں گرجا

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی

اینٹیں بکھری ہوئی ہوں تو وہ ملبہ کا ڈھیر ہیں مگر جب یہی اینٹیں باہم جڑ کر عمارت بن جاتی ہیں تو وہ طاقت کے ایک مضبوط قلعہ میں بدل جاتی ہیں جس میں قومیں پناہ لیتی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں ان اینٹوں کے بکھراو کی وجہ سے انتشار کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ مذہب کی بنیادی اسپرٹ سے دور ہر ایرا غیرا اپنی اپنی بولیاں بولنے لگا ہے جس کے سبب عام لوگوں میں بے چینی پھیلنے لگی ہے۔ دنیا کا ہر مذہب لوگوں کو جوڑنے کیلئے منظر عام پر آیا ہے‘ توڑنے کیلئے نہیں۔ ہندو ازم ہو کہ عیسائیت ‘سکھ ازم ہو کہ اسلام ‘بدھ ازم ہو کہ جین مت سبھی نے انسانیت کو اعلیٰ ترین مقام عطا کیا ہے۔ اس لحاظ سے کوئی بھی مذہب چھوٹا یا بڑا اچھا یا برا ‘ ادنی یا اعلیٰ‘سچا یا جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس پر ایمان لانے والوں سے واضح طور پر فرمادیا ہے کہ’’ تم اوروں کے خداوں کو بُرا مت کہو۔ اگر اوروں کے خداوں کو برا کہو گے تو وہ تمہارے خدا کو برا کہیں گے‘‘۔ نہ اسلام میں تشدد کیلئے کوئی جگہ ہے اور نہ ہی ہندومت میں اس کی کوئی گنجائش۔ گیتا کا کہنا ہے کہ اگر تمہارے پائوں کے نیچے ایک چیونٹی بھی آکر مرجاتی ہے تو سمجھو کے تم نے ساری انسانیت کی ہتیہ کردی ہے۔ ہندو لفظ گو کہ ابن بطوطہ نے دیا تھا اسے سنسکرت کے پنڈتوں نے قبول کیا اور اس کے معنی یہ بتلائے کہ ’’ وہ شخص جو تشدد پر یقین نہیں رکھتا وہ ہندو ہے‘‘۔ ایسی عظیم کتابوں اور غیر معمولی انسان نواز تعلیمات کے حامل مذاہب کے پیروکار پتہ نہیں کہاں سے اور کیسے پرتشدد فلسفہ کو آگے لے آکر اپنی بات منوانے کی کوشش کررہے ہیں؟ یہ ناقابل قبول اور ناقابل فہم ہی نہیں ہے بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔ کسی شاعر نے فرقہ پرستی اور فرقہ پرستانہ ذہنیت کے خلاف چوٹ کرتے ہوئے کتنی اچھی بات کہی ہے کہ ؎
پرندوں میں کبھی فرقہ پرستی تک نہیں ہوتی
کبھی مندر پہ جا بیٹھے‘ کبھی مسجد پہ جا بیٹھے
ایک اور شاعر مذہبی جھگڑوں اور اختلافات سے تنگ آکر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ؎
اُدھر مسجد اِدھر مندر اُدھر گردوار اِدھر گرجا
یہاں گرجا وہاں گرجا اِدھر گرجا اُدھر گرجا
تجھے سجدہ سے مطلب ہے،جہاں چاہے وہاں گرجا
کسی صوفی نے کہا تھا کہ ہندوستان حضرت محمدﷺ کے دین سے اور مرلی کی بین سے محبت کرنے والوں کا مسکن ہے۔جس سے جس کو پیار ہے بس وہی سنسار ہے۔ سیاسی طور پر مساوات کی بات تو کی جاتی ہے لیکن جب حق ادا کرنے کی بات آتی ہے تو مساوات کا لفظ خواب کا حصہ بن جاتا ہے۔ جس دن ہندوستان میں کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو صرف ’’ہندوستانی ‘‘کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور اسی اکائی کو بنیاد بناکر کام کئے جائیں گے تو یقین جانئے خوشحالی کا ایک ایسا دور شروع ہوگا جسے دیکھ کر سارا عالم عش عش کرتا رہ جائے گا۔ ایک بات تو یقین محکم کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت ہندوستان کا کوئی بھی نام نہاد لیڈر ہندوستان کا طاقتور ترین ملا یاغیر معمولی مضبوط پنڈت اس ملک کے اتحاد کو ہلکی سی زک تک نہیں پہنچا پائے گا کیونکہ سیکولرازم پر ہندوستانیوں کا اعتماد اس قدر مضبوط ہے کہ اسے ہم ان کا ’’دھرم اور ایمان ‘‘بھی کہہ سکتے ہیں۔
ملک کے ہندو بھائی ایک مسلم صوفی سنت کو اس قدر اٹوٹ محبت کے ساتھ پوجتے ہیں کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حالانکہ کئی مذہبی رہنمائوں نے ان کے خلاف مہم بھی چلائی لیکن ہندو عقیدت مندوں نے اپنی عقیدت میں اپنی شردھا میں کوئی کمی نہیں لائی۔ اسی طرح ہندوستان کے مسلمان اپنی شادی بیاہ میں ایسے کئی رسومات کو اپناچکے ہیں جس سے انہیں علیحدہ کرنا کسی بھی عالم یا مذہبی رہنما کے بس کی بات نہیں ہے۔ مثال کے طور پر مسلم دلہنوں کو سرخ لباس میں وداع کرنا ‘ منگل سوتر یعنی لچھا پہنانا‘ مہیندی یا ہلدی کا رسم یعنی مانجھا جیسی تقریبات مسلم سماج کا حصہ بن گئی ہے جو غیر معمولی سیکولر رسموں کی تعریف میں آتی ہیں۔
آج کی نوجوان نسل کو کوئی بھی شخص فرقہ دشمنی کی تعلیمات دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہ سائنٹفک نسل سچائی پر یقین رکھتی ہے۔ وہ ہر بات علم کی روشنی میں جاننا چاہتی ہے۔ وہ بھیڑوں کی طرح ایک کے پیچھے ایک دوڑمیں یقین نہیں رکھتی۔ وہ عزت ‘معیار‘ وقار‘ امن اور خوشحالی چاہتی ہے۔ اسے خون خرابے سے اتنی ہی نفرت ہے جتنی کتے کا کاٹا پانی کو دیکھ کر بھاکتا ہے۔ وہ مذہب کو مجبوری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا نایاب تحفہ سمجھتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سب کا پالن ہار ایک ہی ہے اور سبھی کی تعلیمات ایک ہی نکتہ پر مرکوز ہے ‘ وہ ہے بقائے انسانیت۔ وہ اس سچائی کو مانتے ہیں کہ
Masjid = 6 words, Mandir = 6 words,
Church = 6 Words, Quran = 5 words
Geeta = 5 words, Bible = 5 words
It shows that all the 3 major religions belives in oneness of god.
مذہب کی صحیح اسپرٹ پر کٹرپن سے قائم رہنے والا ہر شخص امن کا علمبردار بن سکتا ہے۔ مذہب سے دوری ہی دراصل تعصب کی بنیاد بن رہی ہے جو شخص مذہب سے جتنا قریب ہوگا وہ اپنے پالن ہار سے اتنا ہی قریب ہوگا اور جو پالنے والے سے قریب ہوجاتا ہے وہ انسانیت کی معراج پالیتا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰