مذہب

میلاد النبی ؐ میں اظہار خوشی کی شرعی حیثیت

ماہِ ربیع الاول رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعا دت کا مہینہ ہے،تمام اہل اسلام فرحت ومسرت سے سرشا ہیں، ہر طرف خوشیوں کا سماں ہے، مسلمانوں کے دل خوشی سے باغ باغ ہیں، عاشقانِ رسول کے گھر خوشیوں سے معمور ہیں۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)

ماہِ ربیع الاول رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعا دت کا مہینہ ہے،تمام اہل اسلام فرحت ومسرت سے سرشا ہیں، ہر طرف خوشیوں کا سماں ہے، مسلمانوں کے دل خوشی سے باغ باغ ہیں، عاشقانِ رسول کے گھر خوشیوں سے معمور ہیں۔ ہر مومن کی زبان پر محبت مصطفی وعظمت مرتضیٰ کے نغمے ہیں۔ منبر ومحراب، خانقاہوں ومدارس میں نعتِ نبیؐ کی محفلیں سجی ہوئی ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

قُلْ بِفَضْلِ اللَّہِ وَ بِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوا ہُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُونَ۔ (سورہ یونس) ’’ فرما دیجئے (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثت محمدی کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں ۔ ‘‘ اس آیت میں ان تمام صورتوں کے علاوہ حصول فضل و رحمت پر خوشی اور جشن منانے کا خصوصی حکم ہے اور شکر بجا لانے کے سب طریقوں اور صورتوں سے اسے بہتر قرار دیا جا رہا ہے۔

خود رب کائنات نے میلاد مصطفیٰ پر جشن کا اہتمام فرمایا اور ہم میں آپ کے وجود باوجود کو اپنی رحمت قرار دے کر اس نعمت کے شکرانے کے طور پر اظہار مسرت کا حکم دیا۔اگر ہم قرآن مجید کی دیگر آیات مبارکہ پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ ذات گرامی مصطفی ہی اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور کی تشریف آوری انسانیت پر رب العالمین کی رحمت ہے اور بعثت مصطفوی ہی اس کا سب سے بڑا فضل ہے۔ علامہ آلوسی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول نقل کرتے ہیں۔ و أخرج ابو الشیخ عن ابن عباس رضي اللہ عنہما أن الفضل العلم، و الرحمۃ محمدﷺ، و أخرج الخطیب و ابن عساکر عنہ تفسیر الفضل بالنبي علیہ الصلاۃ والسلام – (روح المعانی) ’’ابو شیخ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل سے مراد علم ہے اور رحمت سے مراد محمد ﷺ ہیں۔

خطیب اور ابن عساکر نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ فضل سے مراد نبی اکرم ﷺ ہیں۔ ‘‘ امام سیوطی نے بھی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مذکورہ بالا قول نقل کیا ہے۔ و أخرج ابو الشیخ عن ابن عباسؓ في الآیۃ قال: فضل اللہ العلم، و رحمتہ محمد، قال اللہ تعالی: وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً للعالمین (سورہ انبیاء)(الدر المنثور فی التفسیر بالماثور)ا بو شیخ نے اس آیت کے بارے میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ فضل اللہ سے مراد علم (قرآن) ہے، اور رحمت سے مراد محمد ﷺ کی ذات گرامی ہے، اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: اور ہم نے (اے محبوبؐ) آپ کو تمام جہانوں کیلئے سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

ارشاد باری تعالی ہے: وَلَوْ لَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُۃُ لَا تَّبَعْتُمُ الشَّیْطَنَ إِلَّا قَلِیلًا (سورہ نساء) ’’ اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے سوا تم (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتے۔‘‘ اللہ رب العزت کا روئے خطاب عام مومنین اور صحابہ کرام سے ہے۔ اس نے اپنے محبو ب مکرم ﷺ کی آمد اور بعثت کو اپنا فضل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس میرے محبوب ﷺ تشریف نہ لاتے تو تم میں سے اکثر لوگ شیطان کے پیروکار ہو چکے ہوتے اور کفر و شرک اور گمراہی و تباہی کے دلدل میں پھنسے رہتے، پس میرے محبوب پیغمبر کا تمہارے پاس مبعوث ہو نا تم پراللہ کا فضل بن گیا کہ ان کی آمد کے صدقے تمہیں ہدایت نصیب ہوئی اورتم شیطان کی پیروی اور گمراہی سے بچ گئے ۔ اور یہ حقیقت تو اظہر من الشمس ہے کہ اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں حضور ﷺ کو رحمت قرار دیتے ہوئے فرمایا: وَمَا اَرْسَلْنکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِلْعَالَمِینَ (سورہ انبیاء)’’اور ہم نے (اے محبوب ﷺ ) آپ کو تمام جہانوں کے لئے سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے ’’ علامہ آلوسی اور بہت سے مفسرین نے لکھا ہے کہ رحمت حضور ﷺ کا’’نام‘‘ ہے۔ ونیز سنن دارمی میں ہے: کان النبي ﷺ ینا دیھم یا أیھا الناس : انما رحمۃ مھداۃ:’’ نبی کریم ﷺ لوگوں کو پکار کر کہا کرتے تھے اے لوگو میں تو (اللہ کی جانب سے ) عطا کردہ سراپا رحمت ہوں‘‘

یہ محض اللہ کا کرم ہے کہ اس نے ہدایت کی راہوں سے بھٹکی ہوئی انسانیت میں اپنے محبوب کو مبعوث فرمایا اور لوگ شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچ گئے۔ رسول معظم ﷺ نے آکر کیا کیا اس کی تصریح بھی خود قرآن فرما رہا ہے۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّہُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوا عَلَیْہِم اٰیٰتہ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ إِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلٰلٍ مُبِینٍ (سورہ اٰل عمران) ’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہیں میں سے عظمت والے رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انہیںپاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں یقینا یہ لوگ ان کی بعثت سے پہلے کھلی گمراہی میںتھے ‘‘ ۔

دوسرے مقام پر فرمایا: ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِنْہُمْ یَتْلُوا عَلَیْہِم ایٰتِہ وَیُزَکِّیہِم وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَ إِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِین – (سورہ جمعہ) ’’وہی (اللہ) ہے جس نے (عرب کے) ان پڑھ لوگوں میں ان ہی (کی قوم) میں سے ایک رسول بھیجا جو ان (لوگوں) کو اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کو پاک کرتے ہیں (اور ان کے ظاہر و باطن کو سنوارتے) ہیں اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ یقینایہ لوگ اس سے قبل صریح گمراہی میں (مبتلا) تھے۔‘‘ یعنی جس رسول ﷺ نے آکر ان کفر و ضلالت میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی آیات سنائیں اور اپنے اعجاز نظر سے ان کے باطن کے میل کچیل کو دور کیا، ان کے من کی دنیا کو صاف ستھرا فرمایا۔ اس رسول ﷺ نے آکر انہیں کتاب کی تعلیم دی اور حکمت کا نور عطا فرمایا جس کی بدولت لوگ معرفت و ہدایت الٰہی جیسی نعمتوں سے مستفیض ہوئے ورنہ قبل ازیں تو یہ دنیائے انسانیت کھلی گمراہی کاشکارتھی۔

نعمت کے شکرانے کا انفرادی و اجتماعی سطح پر حکم: یہاں ’’فلیفرحوا‘‘ کے الفاظ قابل غور ہیں۔ کسی اور نعمت کا شکر بجا لانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس طرح کا حکم نہیں دیا حالانکہ یہاں خدا وند قدوس اگر چاہتا تو ’’فلیفرحوا‘‘ کی جگہ ’’فلیسجدوا‘ چاہئے کہ وہ سجدہ کریں یا ’’فلیعبدوا ‘‘چاہئے کہ وہ عبادت کریں یا ’’ فلینفقوا‘‘ چاہئے کہ وہ خرچ کریں وغیرہ بھی فرما سکتا تھا لیکن صرف اور صرف’’ فلیفرحوا‘‘  فرمایا تاکہ یہ تصور پختہ تر ہو جائے کہ ان تمام طریقہ ہائے شکر سے بڑھ کر خوشی منانا افضل ترین شکر ہے۔ عام طور پر مشاہدے میں آیا ہے کہ کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہو، قومی آزادی حاصل ہو، فتح و نصرت کا دن آئے تو مسرت اور جشن کا سماں ہوتا ہے۔ تم یہ سب خوشیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر مناتے ہو۔ اللہ تعالیٰ صرف یہ چاہتا ہے کہ اس نعمت عظمی کے ملنے کا دن آئے تو وہ خوشی اتنی ہو کہ دنیا کی ساری خوشیوں پر غالب آجائے۔

اللہ تعالیٰ یہ بھی فرما رہا ہے کہ اگر میرے منشاء وحکم کے مطابق خوشی مناؤ گے تو مجھے میری عزت کی قسم تم جو شئے بھی توشۂ آخرت کے طور پر تیار کر رہے ہو اس سے تمہارا یہ خوشی منانا بہر حال میرے نزدیک زیادہ باعث اجر و ثواب ہوگا بلکہ فرمایا: ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ – (سورہ یونس) (خوشی منانا) بہتر ہے اس چیز سے جو وہ جمع کر کے رکھتے ہیں۔ یہ بات واضح فرما دی کہ اگر تم نے میرے اس فضل اور رحمت کی آمد پر خوشی نہ کی تو بے شک تم عبادت و ریاضت کے ڈھیر لگادو تو مجھے اس سے کوئی سروکار نہ ہوگا۔ مجھے تو اپنے محبوب ﷺ کی آمد پر تمہارا خوش ہونا ان عبادتوں سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ بے شک ان عبادات کا حکم بھی میں نے ہی دیا ہے مگر اس نعمت کے شکرانے پر تم عبادات کے علاوہ خوشی بھی مناؤ۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی آمد پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ نے ساری زمین کو سر سبز و شاداب کر دیا اور روئے زمین کے خشک اور گلے سڑے درختوں کو بھی پھلوں پھولوں سے لاد دیا، ہر سمت رحمتوں اور برکتوں کی بھر مار کر دی اور قحط زدہ علاقوں میں رزق کی اتنی کشادگی فرمادی کہ وہ سال خوشی اور فرحت والا سال کہلایا۔ اس بارے میں درج ذیل روایت ہے:و کانت تلک السنۃ التي حمل فیہا برسول اللہ ﷺ یقال لہا سنۃ الفتح والإبتہاج، فان قریشا کانت قبل ذلک فی جدب و ضیق عظیم، فاخضرت الأرض و حملت الأشجار و أتاہم الرغد من کل جانب فی تلک السنۃ (السیرۃ الحلبیہ، المواہب اللدنیۃ) جس سال نور محمدی ؐسیدہ آمنہ (رضی اللہ عنہا) کو ودیعت ہوا وہ فتح و،نصرت، ترو تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اہل قریش اس سے قبل معاشی بدحالی، عسرت اور قحط سالی میں مبتلا تھے۔

ولادت کی برکت سے اس سال اللہ تعالیٰ نے بے آب و گیاہ زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی اور (سوکھے) درختوں کی پژمردہ شاخوں کو ہرا بھرا کر کے انہیں پھلوں سے لاد دیا۔ اہل قریش اس طرح ہر طرف سے کثیر خیر آنے سے خوشحال ہو گئے۔ آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دیے گئے :ایک روایت میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی ولادت باسعادت کے وقت فرشتوں سے فرمایا کہ تمام آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دو، متعدد کتب سیر میں اس روایت کے الفاظ اس طرح ہیں: وعن عمر و بن قتیبۃ قال: سمعت أبي وکان من أوعیۃ العلم قال: لما حضرت ولادۃ آمنۃ قال اللہ للملائکۃ: افتحوا أبواب السماء کلھا وأبوب الجنان وألبست الشمس یومئذ نورا عظیما (حلبی، عسقلانی، زرقانی، نبہانی، دحلان)’’ عمرو بن قتیبۃ سے مروی ہے کہ میں نے اپنے والد سے سنا جو متجر عالم تھے کہ جب حضرت آمنہ ؓ کے ہاں ولادت باسعادت کا وقت قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ تمام آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دو اور اس روز سورج کو عظیم نور پہنایا گیا۔

اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ﷺ کی ولادت کے موقع پر ایسا انتظام فرمایا کہ محبوب کے صدقے میں اس دن دنیا کی عورتوں کو لڑکے عطا کئے تا کہ ہر آنگن میں لمحات مسرت اتر آئیں اور کسی کے چہرے پر حزن و ملال کا ہلکا سا بھی سایہ نہ پڑنے پائے: و أذن اللہ تلک السنۃ لنساء الدنیا أن یحملن ذکوراً کرامۃ لرسول اللہ ﷺ (حلبی، عسقلانی، زرقانی، سیوطی، نبہانی) اور اللہ تعالیٰ نے اس سال یہ اذن جاری فرمایا کہ حضور ﷺ کی تکریم میں تمام دنیا کی عورتیں لڑکوں کو جنم دیں۔ ‘‘

حضرت آمنہ ؓ کو نبی آخر الزماں شہنشاہ دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی والدہ ماجدہ ہونے کا عدیم النظیر شرف حاصل ہوا۔ وہ اپنے اس عظیم الشان لخت جگر کے واقعات ولادت بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں: فلما فصل مني خرج معہ نور أضاء لہ ما بین المشرق الی المغرب (ابن سعد، ابن عساکر، ابن جوزی، ابن کثیر، سیوطی، حلبی، ابن حبیب) ’’جب سرور کائنات ؐ کا ظہور ہوا تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے شرق تا غرب سب آفاق روشن ہو گئے۔

اسی نور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محترم چچا حضرت سیدنا عباسؓ اپنے ایک نعتیہ قصیدے میں جو انہوں نے آنحضور ﷺ سے اجازت لے کر غزوہ تبوک سے لوٹتے ہوئے سنایا، فرماتے ہیں: وانت لما ولدت أشرقت الأرض وضاء ت بنورک الأفق فنحن في ذلک الضیاء و في النور و سبل الرشاد نخترق  (حاکم، ابن جوزی، ابن عبد البر، ابن کثیر، ابن حبیب، حلبی، سیوطی، ذہبی) جب آپ ؐ پیدا ہوئے تو زمین چمک اٹھی اور آفاق روشن ہوگئے پس ہم اسی نور وضیاء میں رشد وہدایت کی راہوں کی طرف گامزن ہیں۔‘‘ حضرت عثمان بن ابی العاص کی والدہ فاطمہ بنت عبد اللہ ثقفیہ ؓ فرماتی ہیں: انھا شہدت ولادۃ آمنۃ ابنۃ وھب رسول اللہ ﷺ قالت : فما شییء أنظر الیہ من البیت اِلا نورِ، واني لأنظر اِلی النجوم لتدنو حتی اِني لٔا قول: لتقعن عليّ (طبری، ابن عبدالبر، ماوردی، ابن کثیر، کلاعی، عسقلانی، حلبی)’’ جس رات آپ ؐ کی ولادت ہوئی میں حضور نبی اکرم ﷺ کی والدہ کے پاس تھی میںنے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے منور ہو گیا ہے اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے کہنا پڑا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں۔

اہل اسلام سے گزارش ہے کہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے میلاد مصطفی کے زرین موقع پر خوشی کا اظھار کریں، غیر شرعی امور سے اجتناب کریں ۔ ہمارے جلوس سے شوکتِ اسلام کا ظہور ہو، بھائی چارگی ومحبت ظاہر ہو، اتحاد واتفاق کا اظھار ہو، غیروں پر اسلام کی شان وشوکت ظاہر ہو، دوسروں پر اسکا بہت بڑا اثر ہوتا ہے۔ ایسے اعمال نہ کریں جن سے اللہ ورسول ؐ ناراض ہوتے ہوں۔ وہی کام کریں جس سے رسول اللہ کی رضا حاصل ہو۔

اللہ کی بارگاہ میں دعاء ہے کہ اسلام کو غلبہ عطا فرمائے، اہل اسلام کو سرخروئی عطا کرے، میلاد شریف کے صدقے تمام مسلمانوں کی جان مال، عزت آبرو کی حفاظت فرمائے (آمین ) بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭