تعلیم و روزگار

دارا شکوہ نے ہندوستان میں بین مذہبی مکالمہ متعارف کروایا: پروفیسر طارق منصور

پروفیسر طارق منصور نے کہاکہ داراشکوہ اپنے دربار میں ہندو، مسلم، عیسائی و دیگر مذہبی شخصیتوں کو جمع کر کے مذہب پر مکالمہ کیا کرتے تھے۔ داراشکوہ فلسفی، فنکار اور آرکٹیکٹ بھی تھے۔

حیدرآباد: ہندوستان میں مغل شہزادہ داراشکوہ نے بین مذہبی مکالمہ کا آغاز کیا تھا۔ دارا شکوہ، فارسی و سنسکرت کے اسکالر تھے۔ انہوں نے سنسکرت سیکھنے کے لیے بنارس کا دورہ کیا اور وہاں ایک سال تک قیام کیا۔ اپنشد جسے داراشکوہ نے سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا تھا اس کا یوروپی اسکالرس نے لاطینی اور فرانسیسی میں ترجمہ کرتے ہوئے اسے عام کیا۔

 داراشکوہ اپنے دربار میں ہندو، مسلم، عیسائی و دیگر مذہبی شخصیتوں کو جمع کر کے مذہب پر مکالمہ کیا کرتے تھے۔ داراشکوہ فلسفی، فنکار اور آرکٹیکٹ بھی تھے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر طارق منصور، وائس چانسلر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، شعبہ فارسی و سنٹرل ایشین اسٹڈیز اور این سی پی یو ایل کی جانب سے ”مجمع البحرین دارا شکوہ :مذہبی اور روحانی نظریہ صلح کل کی مشعل راہ“ کے موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں کیا۔

ممتاز علی (شری ایم)، چانسلر مانو مہمانِ خصوصی تھے۔ جبکہ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارت کی۔ مہدی شاہرخی، قونصل جنرل آف اسلامی جمہوریہ ایران ،حیدرآباد؛ حاجی سید سلمان چشتی، گدی نشین، درگاہ اجمیر شریف اور جناب سراج الدین قریشی ، صدر، انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر، نئی دہلی نے بحیثیت مہمانانِ اعزازی شرکت کی۔

پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داراشکوہ پر ایک مرکز قائم ہے ۔ اس کے تحت مختلف پروگرامس منعقد کیے گئے جس میں اندرون ملک اور ایران سے بھی مہمانوں نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ داراشکوہ پر ایک ویب سائٹ بھی شروع کی گئی ہے۔ دارا شکوہ کی دلی خواہش تھی کہ وہ لوگوں میں موجود غلط فہمیوں کا ازالہ کریں۔

ممتاز علی، چانسلر نے کلیدی خطبہ میں کہا کہ داراشکوہ نے کئی کتابیں لکھیں اور اُپنِکھت کے عنوان سے اپنشد کا ترجمہ کیا۔ جس کے باعث بڑے پیمانے پر دنیا کو اس کی معنویت کا علم ہوا۔ لوگوں نے ہندوستانی ثقافت کو جانا۔ انہوں نے اپنی خود نوشت میں خود کو فقیر قرار دیا ہے۔

صوفی، مہاتما ایسی باتوں کو بھی سمجھتے ہیں جو عام لوگوں کے سمجھ نہ آتی ہوں اور اسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے روحانی ادراک ضروری ہے۔ داراشکوہ نے خود بھی ادراک کیا اور صوفیوں اور مہاتماﺅں سے مل کر بھی استفادہ کیا۔

 علم کے دو سمندر وید اور قرآن ہزار سال قبل جب ملے دونوں نے سچائی کو الگ الگ ناموں سے پکارا۔ ہم جو سوچتے ہیں اس پر عمل کرنا چاہیے اور اس کی تبلیغ کرنی چاہیے ۔

پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے کہا کہ سیکھنے کے مختلف پہلو ہوتے ہیں اور داراشکوہ نے ہمیں زبانوں کا احترام سکھایا ہے۔ ان کے اجداد کی زبان ترکی تھی، خود ان کی زبان فارسی تھی، عربی مذہبی زبان ہونے کے باعث انہوں نے سیکھ لی اور انہوں نے خصوصی طور پر سنسکرت بھی سیکھی۔ داراشکوہ کا پیام تھا سب سے محبت کرو، نفرت کسی سے نہیں۔

 اسی لیے انہیں عالمی شخصیت کہا جاسکتا ہے۔ خود کو سمجھنے کے لیے آپ کو اپنی روح سے مکالمہ کرنا ہوگا کہ کیسے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ حالانکہ وہ شاہ جہاں کے جانشین تھے لیکن دونوں کی سماجی ثقافتی و سماجی مذہبی سوچ مختلف تھی۔ اگر داراشکوہ مزید 20 تا 30 سال اور زندہ رہتے تو انسانیت کے لیے مہاتما ثابت ہوتے۔

حاجی سید سلمان چشتی، گدی نشین، درگاہ اجمیر شریف نے کہا کہ ہمیں نیوز چینل پر دکھائے جارہے مباحثوں کو نظر انداز کرنا چاہیے اور اساتذہ، سائنسداں اور ماہرین کو مباحثے منعقد کرتے ہوئے بہتر نتائج حاصل کرنے چاہئیں۔ خواجہ معین الدین چشتیؒ نے 800 سال قبل یہاں محبت، اخوت اور بھائی چارہ کا پیغام دیا تھا۔

انہوں نے سورج جیسی شفقت، دریا جیسی سخاوت،زمین جیسی خاطر تواضع کو اپنے کردار میں اتار لینے کی تعلیم دی۔ یعنی سبھی سے محبت اور سبھی کی خدمت۔ داراشکوہ اجمیر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان میں یہ صفات تھیں۔ اسی لیے وہ اپنے آپ کو فقیر کہتے تھے۔

مہدی شاہرخی اور جناب سراج الدین قریشی نے بھی خطاب کیا۔ میر اصغر حسین، سابق ڈائرکٹر ، ای ڈی / ای پی ایس، یونیسکو، پیرس؛ پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار، مانو؛ پروفیسر آذرمی دخت صفوی، مشیر ، پرشین ریسرچ انسٹیٹیوٹ، اے ایم یو، پروفیسر نرگس جابری نصب، ایران؛ جناب امر حسن، شام بھی موجود تھے۔ مانو کی مرتبہ تصنیف داراشکوہ کے خطوط ”مکتوباتِ دارا شکوہ و بنام دارا شکوہ“ مع اردو ترجمہ ا…