تعلیم و روزگار

ایران کے سفیر ڈاکٹر علی چگنی کا دورۂ اردو یونیورسٹی

پروفیسر سید عین الحسن نے مہمان کا فارسی زبان میں والہانہ خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ سفیر محترم ایران کی ایسی جامعات کی نشاندہی کریں گے جن کے ساتھ اردو یونیورسٹی، اساتذہ، طلبہ اور ریسرچ اسکالرس کا باہمی تبادلہ عمل میں لاسکتی ہے۔

حیدرآباد: اسلامی جمہوریۂ ایران کے سفیر متعینہ نئی دہلی ڈاکٹر علی چگنی نے آج دوپہر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا دورہ کرتے ہوئے ایرانی جامعات کے ساتھ مانو کے تعلیمی تبادلے کے امکانات کا تفصیلی جائزہ لیا۔

پروفیسر سید عین الحسن ، وائس چانسلر، پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار اور مختلف اسکولس کے ڈینس اور مراکز کے ڈائرکٹرس کے ساتھ کانفرنس ہال میں دو گھنٹے طویل گفت و شنید میں امکانی تعلیمی اور تحقیقی میدانوں کی نشاندہی کی گئی۔

پروفیسر سید عین الحسن نے دورہ کنندہ مہمان کا فارسی زبان میں والہانہ خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ سفیر محترم ایران کی ایسی جامعات کی نشاندہی کریں گے جن کے ساتھ اردو یونیورسٹی، اساتذہ، طلبہ اور ریسرچ اسکالرس کا باہمی تبادلہ عمل میں لاسکتی ہے۔

 انہوں نے مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اردو یونیورسٹی میں مختلف ریاستوں اور ثقافتوں سے اساتذہ اور طلبہ آتے ہیں ۔ اس تنوع کے باوجود یہاں اتحاد پایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر چگنی نے بالخصوص تلنگانہ میں ہند -ایران باہمی تعلقات کے فروغ میں اردو یونیورسٹی کے رول کو اہم قرار دیا۔ ایرانی سفیر نے اپنی تقریر میں انکشاف کیا کہ ایرانی عوام، تکثیری سماج اور مختلف طبقات کے درمیان پر امن بقائے باہم کے حوالے سے ہندوستان کا حد درجہ احترام کرتے ہیں۔

انہوں نے حدیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ علم، نور ہے۔ علم فراہم کرنا گویا نور فراہم کرنا ہے۔ احادیث میں علمِ نافع کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے۔ علم کی اہمیت یقینی طور پر مسلم ہے۔ ممتاز اسکالر ابن سینا نے کہا تھا کہ جب میں نے کافی علم حاصل کرلیا اور پھر غور کیا تو پتہ چلا کہ میں نے ابھی کچھ بھی حاصل نہیں کیا۔

 ڈاکٹر مہدی خواجہ پیری، ڈائرکٹر، نور مائکرو فلم انٹرنیشنل سنٹر نئی دہلی، ڈاکٹر علی اکبر نیرومند، ریجنل ڈائرکٹر برائے جنوبی ریاستیں، نور مائکرو فلم انٹرنیشنل سنٹر اور ڈاکٹر عبدالمالکی بھی ایرانی وفد میں شامل تھے۔

ڈاکٹر چگنی نے کہا کہ ہندوستان اور ایران کا تعلق تاریخی رہا ہے۔ فارسی ہندوستان کی ایک کلاسیکی زبان ہے۔ اس کے علاوہ ایران کے بعد ہندوستان وہ ملک ہے جہاں کی جامعات میں فارسی کے لیے سب سے زیادہ نشستیں موجود ہیں۔ ہندوستان، خاص کر حیدرآباد کو ایران میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔

وہاں کے لوگ جب یہاں آتے ہیں تو انہیں یہاں اپنائیت ملتی ہے اور یہی حال یہاں کے لوگوں کا بھی ہے جب وہ ایران کا دورہ کرتے ہیں۔ انہوں نے فارسی کو ایک روادار زبان قرار دیا۔ ہندوستان کی عہد وسطیٰ کی تاریخ میں فارسی کی طویل مدت تک برقراری کی یہی وجہ رہی۔ پروفیسر اشتیاق احمد نے شکریہ ادا کیا۔ پروفیسر شاہد نوخیز، صدر شعبہ فارسی نے مہمانوں کو اپنی فارسی کتب کا تحفہ دیا۔